Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 48
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ١ؕ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ
وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : سچائی کے ساتھ مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَمُهَيْمِنًا : اور نگہبان و محافظ عَلَيْهِ : اس پر فَاحْكُمْ : سو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِمَآ : اس سے جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَ : اور لَا تَتَّبِعْ : نہ پیروی کریں اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات عَمَّا : اس سے جَآءَكَ : تمہارے پاس آگیا مِنَ : سے الْحَقِّ : حق لِكُلٍّ : ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا ہے مِنْكُمْ : تم میں سے شِرْعَةً : دستور وَّمِنْهَاجًا : اور راستہ وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو تمہیں کردیتا اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : واحدہ (ایک) وَّلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ : جو اٰتٰىكُمْ : اس نے تمہیں دیا فَاسْتَبِقُوا : پس سبقت کرو الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا جَمِيْعًا : سب کو فَيُنَبِّئُكُمْ : وہ تمہیں بتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
اور ہم نے آپ کی طرف کتاب اتاری حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو اس سے پہلے ہیں کتابوں سے اور یہ نگران ہے اس پر پس فیصلہ کریں آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے مطابق جو اللہ نے نازل فرمایا ہے ‘ اور نہ پیروی کریں ان کی خواہشات کی اس چیز کو چھوڑ کر جو آچکی ہے آپ کے پاس حق ہے۔ ہر ایک کے لیے ہم نے بنائی ہے تم میں سے ایک شریعت اور ایک راستہ۔ اور اگر چاہتا اللہ تعالیٰ تو بناتا تم کو ایک ہی امت ‘ لیکن تاکہ آزمائے تم کو اس چیز میں جو اللہ نے تم کو دی ہے۔ پس سبقت کرو نیکیوں کی طرف۔ اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کرجانا ہے ۔ پس وہ بتلا دے گا تم کو وہ باتیں جن میں تم اختلاف کرتے تھے
ربط آیات اس سے پہلے تورات اور انجیل کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ اللہ نے فرمایا جب تورات نازل ہوئی تو اس کے دور میں اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری تھا ‘ پھر جب انجیل نازل ہوئی ‘ تو اس پر ایمان لاکر اس کے احکام کی تعمیل لازم تھی۔ مگر ان دونوں گروہوں نے اپنی اپنی کتابوں کو پس پشت ڈال کر معاملات کے فیصلہ جات اپنی مرضی سے کرنے شروع کردیے بلکہ الٹا ان مقدس کتابوں میں تحریف کے مرتکب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر دل سے یقین نہیں رکھتا ‘ وہ قطعی کافر ہے اور جو ان پر ایمان لانے کے باوجود ان کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتا وہ ظالم اور فاسق ہے۔ تورات و انجیل کا ذکر کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک یک حقانیت کا تذکرہ کیا ہے اور اہل ایمان کو تاکید ہے۔ کہ وہ سابقہ کتب کے حاملین والا رویہ اختیار نہ کریں بلکہ اللہ کی اس آخری کتاب پر صدق دل سے ایمان لائیں اور اس کے احکام پر عمل کریں۔ یہودونصاری کی طرح تحریف جیسی قبیح چیز سے پرہیز کریں۔ نزول قرآن ارشاد ہوتا ہے وانزلنا الیک الکتب بالحق اور ہم نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کتاب سے مراد قرآن پاک ہے کیونکہ یہ حضور خاتم النبیین ﷺ کو خطاب ہو رہا ہے اور آپ پر اللہ کی اس آخری کتاب قرآن پاک کا نزول ہوا ہے۔ اس کتاب کے نزول کے ساتھ ہی سابقہ تمام کتب کا زمانہ ختم ہوا اور قرآن پاک کا دور شروع ہوگیا۔ اب تمام لوگوں کا فرض ہے۔ کہ وہ اس کتاب پر ایمان لائیں ‘ اس کے احکام کا اتباع کریں اور اپنے تمام فیصلے اسی کے مطابق کریں۔ فرمایا اس کتاب کی حیثیت یہ ہے مصدقا لما بین یدیہ من الکتب کہ یہ تصدیق کرنے والی ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔ کہ ہر بعد میں آنے والی کتاب پہلے آمدہ کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ اور اللہ کا ہر نبی اپنے سے پہلے ہوے والے نبی کی تصدیق کرتا ہے۔ چناچہ جو صحیفے حضرت دائود (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وغیر ہم پر نازل ہوئے اور کتابیں ‘ زبور ‘ تورات اور انجیل ہوئیں۔ قرآن پاک ان سب یک تصدیق کرتا ہے کہ اللہ نے ان تمام صحائف اور کتب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا من الکتب سے جنس کتاب مراد ہے ‘ اور اس میں تمام آسمانی کتابیں شامل ہیں۔ قرآن جامع المضامین ہے فرمایا کہ اس آخری کتاب کی دوسری صفت یہ ہے ومھیمنا علیہ کہ یہ تمام سابقہ کتب کا نگران ‘ محافظ ‘ امین اور نگہبان ہے ۔ قرآن اس لحاظ سے بھی مہیمن ہے۔ کہ یہ تمام آسمانی کتب کی منجانب اللہ ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو مضامین تمام سابقہ کتب میں نازل ہونے ‘ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کا خلاصہ قرآن پاک میں بیان فرمادیا ہے بلکہ ان کے علاوہ بھی ہزاروں لاکھوں مضامین اس میں موجود ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ سابقہ کتب کا امین اور محافظ ہے۔ قرآن پاک کا حجم تو زیادہ نہیں ہے مگر یہ ایسی جامع کتاب ہے۔ جس میں تمام علوم سما گئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی طرف یہ قول منسوب ہے۔ وہ فرماتے ہیں جمیع العلم فی القران لکن تقاصر عنہ افھام الرجال تمام علوم کا ذخیرہ قرآن پاک میں موجود ہے مگر عام لوگوں کے ذہن اس تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے ‘ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات لامحدود ہے اسی طرح اس کی صفات بھی غیر محدود ہیں۔ کوئی شخص اللہ کی صفات کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ تاہم وہ جس قدر محنت اور کوشش کریگا۔ اتنا ہی فیض حاصل کرسکے گا ‘ جب یہ ایسی عظیم المرتبت کتاب ہے فاحکم بینھم بمآ انزل اللہ تو آپ لوگوں کے درمیان اسی منزل من اللہ کتاب کے ذریعے فیصلہ کریں قرآن حکیم کی صداقت و حقانیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی بدیانتی اور خیانت کا ذکر بھی کیا ہے۔ پہلے صراحت کے ساتھ گذر چکا ہے کہ اہل کتاب نے احکام الٰہی کو تبدیل کردیا تھا۔ چناچہ زنا کا جو کیس حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تھا اس میں بھی یہودیوں کی خیانت کا فرما تھی۔ انہوں نے اللہ کی طف سے مقرر کردہ زنا کی سزا کو چھپا دیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ذریعے اس کو واضح کردیا۔ قصاص اور دیت کے معاملات میں بھی ان لوگوں نے خرابیاں پیدا کر رکھی تھیں انہوں نے امیر اور غریب کے لیے مختلف سزائیں مقرر کرلی تھیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قانون سب کے لیے یکساں ہے اس میں ادنی اور اعلیٰ کی کوئی تفریق نہیں۔ جو کوئی کسی کو زخمی کریگا یا قتل ناحق کا مرتکب ہوگا ‘ اس کو قانون کے مطابق سزادی جائیگی۔ عمل بالقرآن اب جب کہ قرآن پاک کا دور ہے تو سب کا فرض ہے کہ اسی کا اتباع کریں۔ اسی لیے اللہ نے حضور ﷺ سے فرمایا کہ آپ اسی کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں ولا تتبع اھوآء ھم اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں عما جآء ک من الحق اس حق کو چھوڑ کر جو آپ کے پاس آچکا ہے ‘ اس حصہ آیت کا شان نزول یہ ہے کہ اہل کتاب کے بعض علماء حضور ﷺ کی خدمت میں اپنا کوئی معاملہ تصفیہ کے لیے لائے اور عرض کیا کہ ہم اپنی قوم کے مقتداء ہیں اگر آپ اس تنازعہ کا فیصلہ ہماری مرضی کے مطابق کردیں تو ہم لوگ آپ کا اتباع کرلیں گے اور یہودیوں کی کثری تعداد اسلام لے آئے گی۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کو اسلام سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہ تھی۔ آپ کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اب یہودیوں نے قبول اسلام کے لیے ایسی شرط پیش کردی جو خود اسلامی اصولوں کے منافی تھی ‘ لہذا حضور ﷺ نے یہودی علماء سے فرمایا کہ میں تمہاری اس پیش کش کے بدلے میں کوئی غلط فیصلہ کرنے پر تیار نہیں۔ اگر تم نے اس طریقے سے اسلام قبول کیا تو یہ رشوتی اسلام ہوگا لہذا ہمیں ایسے اسلام کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام وہی قابل قبول ہے جو اس کی صداقت اور حقانیت کی بنا پر اختیار کیا جائے اس کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے جو اس کو اختیار کریگا وہی کامیاب ہوگا۔ ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “ جو کوئی اسلام کے علاوہ دین اختیار کریگا ‘ تو وہ ناقابل قبول ہوگا ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والا ہوگا۔ بہرحال فرمایا کہ اب جبکہ قرآن پاک کا دور ہے تو اب قابل عمل بھی یہی کتاب ہے ہر معاملہ میں اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ آخری شریعت اللہ تعالیٰ نے آخری کتاب قرآن پاک اور آخری شریعت محمدی نازل فرمائی۔ اب قیامت تک تمام معاملات کے فیصلے کتاب اللہ اور شریعت محمدی کے مطابق ہی ہوں گے ‘ پہلی شریعت اور موجودہ شریعت میں قدرے اختلاف ہے مگر وہ پہلی تمام شرائع منسوخ ہوچکی ہیں اور اب صرف یہی قابل عمل ہے۔ سورة جاثیہ میں موجود ہے ” ثم جعلنک علی شریعۃ من الامر فاتبعھا ولا تتبع اھوآء الذین لایعلمون سب سے آخر میں ہم نے آپ کو ایک شریعت پر مقرر کیا ہے ‘ لہذا اب اس کا اتباع کریں اور جاہل لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں۔ اسی طرح یہاں پر بھی فرمایا لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا ط ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور واضح راستہ مقرر کیا۔ بنیادی دین تو تمام انبیاء کا ایک ہی رہا ہے تاہم دین کی فرع یعنی شریعت مختلف انبیاء کے لیے مختلف تھی۔ سورة شوری میں موجود ہے شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا “ یعنی تمہارے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے دین کے قطعی ضابطے اور قوانین وہی مقرر فرمائے ہیں۔ جو نوح (علیہ السلام) ‘ ابراہیم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے مقرر فرمائے تھے۔ تاہم ہر ایک کی شریعت جدا جدا تھی۔ خود حضور نبی کریم ﷺ کا بھی یہی فرمان ہے نحن معاشر الانبیاء بنو علات دیننا واحد ہم سارے نبی علاتی بھائی ہیں یعنی ہمارا دین ایک ہے ‘ البتہ شرائع علیحدہ علیحدہ ہیں۔ علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کا باپ ایک ہو مگر مائیں جدا جدا ہوں۔ تو حضور ﷺ نے مختلف انبیاء کے درمیان دین اور شریعت کو اس مثال کے ذریعے سمجھایا۔ بعض چیزیں ایک شریعت میں حرام ہوتی ہیں تو دوسری میں حلال تاہم دین کے بنیادی اصول ہمیشہ یکساں رہے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہی فرمایا تھا ولا حل لکم بعض الذی حرم علیکم میری بعثت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال قرار دے دوں جو تم پر حرام تھیں۔ مقصد یہ ہے کہ شریعت میں حلت و حرمت اور دیگر فروعی احکام بدلتے رہتے ہیں۔ مریق بین شرائع اب آگے اللہ تعالیٰ نے مختلف شرائع میں تفریق کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ ولو شآء اللہ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا لجعلکم امۃ واحدۃ “ تو تمہیں ایک ہی امت بنادیتا یعنی پوری نسل انسانی کے لیے ایک یہ شریعت مقرر کردیتا۔ مگر یہ اللہ کی حکمت کے خلاف ہے۔ زمان ومکان کا اختلاف انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ان کے فرائض اور ضروریات مختلف ہوتی ہیں لہذا ہر مقام 1 من لثیر صلا 18 (فیاض) اور ہر زمانے کے لیے یکساں احکام نازل کرنا خلاف فطرت ہے۔ کسی ایک انسانی زندگی پر بھی مختلف دور گزرتے ہیں۔ اس کے بچپن کے حالات اور اس کی ضروریات اس کی جوانی کی عمر سے مختلف ہوتی ہیں۔ اکثر غذائیں صحت کی حالت میں مفید ہوتی ہیں مگر بیماری کی حالت میں وہی چیزیں نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ اسی طرح مختلف ادوار و اقوام کے اجتماعی حالات بھی مختلف ہوتے ہیں اور ان کے فرائض و ضروریات بھی جدا ہوتی ہیں۔ چناچہ تمام انسانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے مختلف زبانوں اور مختلف اقوام کے لیے اللہ نے علیحدہ علیحدہ شرائع نازل فرمائیں۔ شریعت کا لفظی معنی گھاٹ ہے۔ جس طرح گھاٹ سے انسان اور جانور اپنی ضروریات کے مطابق پانی حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح اور جانور اپنی ضروریات کے مطابق پانی حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح تشنگان علم و عمل شریعت سے احکام اور ہدایات حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ شریعت دین کی فرع ہے۔ اس لیے اس کا ایک حالت میں قائم رہنا غیر فطری عمل ہے۔ دین کے معاملہ میں اختلاف کیا جائے تو وہ گمراہی ہوگا البتہ شریعت میں اجتہاد کے ذریعے مسائل کے حل دریافت کرنا فطرت کے عین مطابق ہے فروعات میں اختلاف کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنے سے تو اجتہاد کا دروازہ بند کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے قوم و ملت کی ترقی کسی ایک نہج پر پہنچ کر رک جائیگی۔ یہی چیز خلاف فطرت ہے۔ انسانی نشو و ارتقا کا تقاضا ہے کہ ہر زمانے اور ہر خیطے کی ضروریات شریعت کے احکام کی روشنی میں پوری۔۔ کی جائیں۔ لہذا شریعت کا ختلاف بالکل درست ہے ‘ البتہ دین میں اختلاف مہلک رہے۔ یہودو نصاریٰ اسی بنیادی اختلاف کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ فرمایا اگر اللہ چاہے تو تمام لوگوں کو ایک ہی شریعت کا پابند کردے مگر وہ ایسا نہیں کرتا ولکن لیبلو کم فی مآ اتکم بلکہ اختلاف شریعت سے اس کا مقصود یہ ہے۔ کہ تمہیں اس چیز میں آزمائے جو اس نے تمہیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ مختلف احکام شریعت نازل فرما کر آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ کیا اس کے بندے انہیں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی سے جبراً کوئی چیز نہیں منوانا چاہتا بلکہ وہ موقع فراہم کرتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ اس کے احکام پر کون عمل پیرا ہوتا ہے۔ نیکی میں سبقت فرمایا جب یہ بات ہے فاستبقوا الخیرات تو نیکیوں کی طرف سبقت کریں۔ نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کر نیکی کوشش کریں اور شریعت کے ہر حکم پر عمل کرنے کے لیے تیار رہیں۔ آخرت کی گھاٹیاں عبور کرنے کے لیے نیکی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ الی اللہ مرجعکم جمیعا بالآخر تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے فینبئکم بما کنتم فیہ تختلفون پھر اللہ تعالیٰ وہ تمام چیزیں تمہارے سامنے رکھ دیگا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ وہاں پر حق و باطل کا قطعی اور اٹل فیصلہ ہوجائے گا۔ نیز فرمایا کہ جب یہ احکام من جانب اللہ ہیں وان احکم بینھم بمآ انزل اللہ تو آپ ان کے درمیان اسی منزل من اللہ احکام کے مطابق فیصلہ کریں۔ ولا تتبع اھوآء ھم آپ ان یہودی علما کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ وہ جو بھی مقدمہ لائیں اس کا فیصلہ احکام الٰہی کے عین مطابق کردیں۔ واحذر ھم آپ ان سے چوکنا رہیں ان یفتنوک عن م بعض مآ انزل اللہ الیک ط کہ کہیں وہ آپ کو بعض ان چیزوں کے بارے میں فتنے میں نہ ڈال دیں جن کو اللہ نے آپ پہ نازل کیا ۔ یہودیوں نے یہ سازش کی تھی کہ اسلام لانے کا وعدہ کرکے حضور نبی کریم ﷺ سے اپنی مرضی کا فیصلہ کرالیں اور پھر اسی چیز کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بطور پر اپگینڈا ہتھیار استعمال کریں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبردار کردیا کہ آپ سے غلط فیصلہ لے کر آپ کو کہیں یہ فتنے میں مبتلا نہ کردیں ‘ آپ ان سے ہوشیار رہیں۔ آپ پہلے بھی ان کی سازشوں سے بچتے رہے ہیں اور آئندہ بھی محتاط رہیں۔ جرم و سزا فرمایا فان تولوا پس اگر یہ یہودی روگردانی کریں۔ آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کریں فاعلم تو آپ اچھی طرح جان لیں انما یرید اللہ ان یصیبھم ببعض ذنوبھم اللہ تعالیٰ ان کو ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے سزادینا چاہتا ہے۔ حق واضح ہوجانے کے باوجود اگر کوئی شخص ہٹ دھرمی ‘ ضد اور عناد پر قائم رہتا ہے ‘ تو پھر وہ قابل رحم نہیں ہے۔ اسے لازماً سزا ملنی چاہیے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سزا ہے کہ انسان کا عقیدہ خراب ہوجائے۔ نیکی کی توفیق سلب کرلی جائے اور برائی میں مبتلا کردیاجائے ‘ لہذا انسان کو ہر وقت محتاط رہنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ فتنے اور گمراہی سے محفوظ رکھے۔ انسان بعض ایسی غلطیاں کرتا ہے جن کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا مگر ان کے نتائج اسی زندگی میں نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور اسی دنیا میں سزا ملنے لگتی ہے لہذا اگر یہ لوگ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں ‘ حق کو قبول کرنے سے مسلسل انکاری ہیں تو سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا دیناچاہتا ہے فرمایا وان کثیر ا من الناس لفسقون لوگوں کی اکثریت نافرمان ہے ‘ وہ احکام الہی کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اللہ کے نافرمان ہر دور میں اکثریت میں رہے ہیں ۔ حضور ﷺ کے اپنے زمانہ مبارک میں بھی یہی حال تھا اور اس کے بعد بھی مسلسل اکثریت بےدینوں کی ہے آج بھی دنیا کی کل پانچ ارب کی آبادی میں سے چار ارب سے زیادہ لوگ قطعی طور پر کفر ‘ شرک اور گمراہی میں مبتلا ہیں۔ پانچویں حصے کے لوگ ہدایت یافتہ ہونے کے دعویدار ہیں ان میں بھی۔ بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔ بالکل صحیح اعتقاد رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے والے بہت کم ہیں۔ ان میں اکثریت نافرمانوں اور ناشکر گزاروں کی ہے۔ سورة مومن میں موجود ہے ولکن اکثر الناس لایشکرون اکثر لوگ ناشکر گزار ہی ہوتے ہیں اسی طرح سورة سبا میں بھی آتا ہے ” وقلیل من عبادی الشکور “ یعنی میرے شکر گزار بندے بہت کم تعداد میں ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہاں پر یہودو نصاری کی سازش کو واضح کرکے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ جاہلیت کا فیصلہ فرمایا افحکم الجاھلیۃ یبتغون کیا جاہلیت کے زمانے کا فیصلہ چاہتے ہو۔ جاہلیت کا قانون تو یہ تھا کہ احکام الٰہی کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کا فیصلہ کیا جائے۔ تو اب جب کہ قرآن پاک نازل ہوچکا ہے۔ اسلام کی روشنی پھیل چکی ہے تو اب واپس ظلمت کی طرف جانا چاہتے ہو ‘ یہ تو بہت ہی بری بات ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ تین شخص سخت مبغوض ہیں۔ پہلا شخص ملحد فی الحرم ہے یعنی وہ شخص جو پاک خطے حرم میں گناہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ اللہ کی سخت ترین ناراضگی کو دعوت دیتا ہے۔ دوسرا شخص فرمایا متیع فی الاسلام سنۃ الجاھلیۃ جو اسلام میں جاہلیت کے دستور کا اتباع کرتا ہے۔ اور تیسرا مبغوض شخص وہ ہے جو بےگناہ کا خون بہاتا ہے۔ خون ناحق کے لیے کوشش کرتا ہے اس کے حق میں گواہی دیتا ہے ‘ ناحق شکایت کرتا ہے کہ اس کا خون بہے۔ یہود کا بھی یہی حال ہے ۔ وہ اپنی کتاب کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ وہ نبی آخرالزمان سے صحیح فیصلہ چاہتے ہیں بلکہ اسلام کے روشن زمانے میں بھی جاہلیت کے ظلمت والے فیصلے کے متلاشی ہیں۔ فرمایا یاد رکھو ! ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون ایمان و یقین رکھنے والی قوم کے لیے اللہ کے فیصلے سے بڑھ کر کس کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا فیصلہ وہی ہے جو اس کی نازل کردہ کتاب و شریعت کا فیصلہ ہے لہذا ان کے مطابق کیا گیا فیصلہ ہی بہترین فیصلہ ہے۔ اللہ کے فیصلے کو چھوڑ کر زمانہ جاہلیت کے فیصلے کی طرف رجوع کرنا نہایت ہی بد بختی اور اللہ کے غضب کا نشانہ بننا ہے۔
Top