Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 64
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ١ؕ غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا١ۘ بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ١ۙ یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا١ؕ وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ١ۙ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا (کہتے ہیں) الْيَھُوْدُ : یہود يَدُاللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ مَغْلُوْلَةٌ : بندھا ہوا غُلَّتْ : باندھ دئیے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَلُعِنُوْا : اور ان پر لعنت کی گئی بِمَا : اس سے جو قَالُوْا : انہوں نے کہا بَلْ : بلکہ يَدٰهُ : اس کے (اللہ کے) ہاتھ مَبْسُوْطَتٰنِ : کشادہ ہیں يُنْفِقُ : وہ خرچ کرتا ہے كَيْفَ : جیسے يَشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَيَزِيْدَنَّ : اور ضرور بڑھے گی كَثِيْرًا : بہت سے مِّنْهُمْ : ان سے مَّآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : آپ کا رب طُغْيَانًا : سرکشی وَّكُفْرًا : اور کفر وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے ڈالدیا بَيْنَهُمُ : ان کے اندر الْعَدَاوَةَ : دشمنی وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض (بیر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن كُلَّمَآ : جب کبھی اَوْقَدُوْا : بھڑکاتے ہیں نَارًا : آگ لِّلْحَرْبِ : لڑائی کی اَطْفَاَهَا : اسے بجھا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَيَسْعَوْنَ : اور وہ دوڑتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرتے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ جکڑ دیئے گئے ہیں۔ ان (یہودیوں کے ہاتھ جکڑ دیئے گئے ہیں ، اور ان پر لعنت کی گئی ہے اس وجہ سے جو انہوں نے کہا بلکہ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ، وہ خر چ کرتا ہے جس طرح چاہے اور البتہ ان میں سے بہتوں کے لئے زیادہ کریگی وہ چیز جو اتاری گئی ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اور ان کے لئے سرکشی اور کفر کو اور ہم نے ڈال دی ہے ان کے درمیان عداوت اور دشمنی قیامت تک جب بھی یہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں ، اللہ اس کو بجھا دیتا ہے اور یہ کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد کی اور اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا فساد کرنے والوں کو
بارگاہ الٰہی میں بےادبی یہود اور منافقین کی بہت سی بری خصلتوں کا تذکرہ گزشتہ دروس میں ہوچکا ہے ان کی شرارتیں ، سرکشی ، حرام خوری اور حق کی مخالفت وغیرہ کے متعلق سیر حاصل بحث ہوچکی ہے ، ان کی طرف سے اللہ کے نبیوں اور ایمان والوں کی ایذاء رسانی ان کا عام معمول ہے اور اب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی گستاخی اور بےادبی کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وقالت الیھود یداللہ مغولۃ یہودیوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ بند کردیئے گئے ہیں یعنی خدا تعالیٰ اب معاذ اللہ بخیل ہوگیا ہے۔ کیونکہ وہ ہمیں ہماری ضروریات مبہم نہیں پہنچاتا۔ ان کا کام یہ تھا کہ جب ذرا تنگی آتی تو اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ کرنے لگتے اور اس طرح اس کی شان میں گستاخی کے کلمات کہتے۔ اس سے پہلے سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ جب یہودیوں کو کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرو ، تو کہنے لگے ” ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء “ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ محتاج ہوگیا اور پھر ہم غنی ہیں کیونکہ وہ ہم سے مانگتا ہے۔ اسی طرح جب قرض حسنہ کا ذکر آیا واقرضوا اللہ قرضا حسناً یعنی اللہ کو قرض حسنہ دو ، تو کہنے لگے نعوذ باللہ خدا محتاج ہوگیا ہے جو قرض مانگتا ہے۔ ابتدا میں یہودی پورے علاقے میں تجارت رپ چھائے ہوئے تھے اور آسودہ حال تھے۔ جب مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا اور یہود کی مالی حالت کچھ کمزور ہوئی تو گستاخی کے کلمات کہنے لگے کہ اللہ کے ہاتھ جکڑ دیئے گئے ہیں ، اب وہ اپنے بندوں کے لئے وسعت رزق پر قادر نہیں رہا۔ یہودیوں کی اس گستاخی اور بےادبی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : غلت ایدیھم انہی کے ہاتھ جکڑ دیئے گئے ہیں کیونکہ تمام بری خصلتوں ، بخل ، کمینگی ، کذب بیانی وغیرہ میں وہی مبتلا ہیں ولعنوا بما قالوا اور اس طرح کہنے کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی ہے ، کبھی اس کو فقیر کہا ہے اور کبھی کنجوس ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے بل یدہ مبسوطتن اللہ کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔ ینفق کیف یشآء وہ خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ وہ مالک اور مختار ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے اس کی حکمت میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ اللہ کے ہاتھ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر آیا ہے ، دوسرے مقامات پر اللہ کے چہرے اور پنڈلی کا ذکر بھی آتا ہے ، یہاں پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ چیزیں متشابہات میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے چہرے ہاتھ یا پنڈلی کا اطلاق انسانی اعضا پر نہیں کیا جاسکتا۔ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں مگر انسان یا کسی دوسری مخلوق کے ہاتھوں کی طرح نہیں بلکہ اس طرح کے ہاتھ مراد ہیں جیسے اس کی شان کے مناسب ہیں۔ اللہ کے ہاتھوں کے متعلق ہماری طرح دائیں بائیں کا تصور بھی نہیں رکھنا چاہئے بلکہ بےکیف ہاتھوں پر ایمان ہونا چاہئے۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ دونوں ہاتھوں سے مراد اللہ کی مہر اور قہر کے ہاتھ ہیں۔ فرمانبرداروں اور اطاعت گزاروں کے لئے مہر کا ہاتھ ہے اور نافرمانوں کو سزا دینے کے لئے قہر کا ہاتھ ہے بہرحال شاہ صاحب نے مہر اور قہر کے یہ مجازی معنی بیان کئے میں اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے مہر اور قہر کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ اپنی مشیت کے مطابق جیسے چاہتا ہے ویسے ہی کرتا ہے۔ اور اگر ہاتھ کا معنی بعینہ ہاتھ ہی لیا جائے تو پھر وہ بےکیف ہے اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے مگر بےکیف۔ ہم اس کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ صرف ایمان لانا ضروری ہے۔ ” لیس کمثلہ شیء “ مخلوق میں کوئی چیز اس سے مشابہت نہیں رکھتی لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں ، چہرے ، پنڈلی ، آنکھوں اور کانوں وغیرہ کو اپنے تصور میں نہیں لاسکتے کیونکہ خدا تعالیٰ بےمثل ہے جب ہم سبحان اللہ کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے اس کی ذات ہر نقص اور عیب سے پاک ہے اس کے ہاتھ کشادہ ہیں اور وہ جس طرح چاہے خرچ کرتا ہے۔ سرکشی اور کفر میں اضافہ سرکشی اور کفر میں اضافہ فرمایا یہودیوں کا حال تو یہ ہے ولئن یدن کثیراً منھم ما انزل الیک من ربک طغیاناً و کفر ان میں سے بہتوں کے لئے آپ کے رب کی طرف سے آپ کی طرف نازل کردہ چیز سرکشی اور کفر میں اضافے کا باعث بنتی ہے جب بھی قرآن پاک کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے تو وہ یہودیوں پر گراں گزرتا ہے ، وہ اس سے چڑتے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں کیونکہ وہ ان کی کذب بیانی اور تحریف فی الکتاب کا پردہ چاک کرتا ہے۔ منافقین کے متعلق بھی آتا ہے کہ جب قرآن پاک کی آیات نازل ہوتی ہیں فزادتھم رحبساً الی رجسھم تو ان کی گندگی میں اضافہ ہوجاتا ہے ، ان کے دلوں میں کفر ، شرک اور نفاق کی نجاست پہلے ہی موجود ہوتی ہے ، جب مزید آیتیں نازل ہوتی ہیں تو ان کی نجاست میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس قامت الذین امنوا فزادتھم عرز یماناً جو ایمان والے ہیں ، قرآن کی نازل ہونے والی آیات ان کے ایمان میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔ اسی طرح یہاں پر فرمایا کہ یہودیوں کے دلوں میں سرکشی اور کفر تو پہلے ہی موجود ہے نئی نازل ہونے والی آیات کی وجہ سے ان کی نجاست مزید بڑھ جاتی ہے ۔ آپس کی عداوت آگے اللہ تعالیٰ نے اس سزا کا ذکر کیا ہے جو بنی اسرائیل پر مسلط کی گئی ہے ارشاد ہے القینا بینھم العداوۃ والبغضآء الی یوم القیمۃ او ۔ ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لئے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے۔ یہ لوگ اندرونی طور پر ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان رہیں گے۔ ان میں کبھی فرقہ وارانہ منافرت پیدا ہوگی ، کبھی ذاتی مفاد پیش نظر ہوگا اور کبھی سیاسی امور ان میں اختلاف کا باعث ہوں گے ، اللہ نے فرمایا قیامت تک ان میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم نہیں ہو سکے گی۔ فرمایا کلما او قدوا ناراً للحرب اطفاھا اللہ۔ جب ابھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں انہوں نے مسلمانوں کا راستہ روکنے کی بڑی کوششیں کیں ، مشرکین مکہ کو بار بار لڑائی کے لئے میدان میں لائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہر بار انہیں ناکام کیا اور اسلام کی شمع کو گل کرنے کی ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی اس زمانے میں مسلمان میں جذبہ ایمان موجزن تھا ، ان پر بڑی بڑی آزمائشیں بھی آئیں مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور یہودیوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود وہ کامیاب ہی ہوتے چلے گئے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ ان اللہ مع المئومنین اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے ، یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین کی کوئی چال کامیاب نہ ہوسکی۔ فساد فی الارض فرمایا ان کا حال یہ ہے کہ ویسعون فی الارض فساداً ۔ یہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں لوگوں کو گمراہ کرنا ، اسلام سے بدظن کرنا۔ پیغمبر خدا ﷺ کے خلاف پراپیگنڈا کرنا ، قرآن کے متعلق غلط بیانی کرنا اور اپنی کتابوں میں تحریف کرنا ان کا کام ہے اور یہی فساد فی الارض ہے اس طرح کفر و شرک کا ارتکاب کرنا ، اکل حرام ، بدعات کی ترویج وغیرہ بھی زمین میں فساد پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ جب تک شرائع الہیہ پر کما حقہ ، عمل نہیں ہوتا ، بنی نوع انسان کو امن نصیب نہیں ہو سکتا۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ شرائع الٰہیہ کے خلاف کام کرنا دین الٰہی کو توڑنا اور اس کے برخلاف چلنا فساد فی الارض ہے۔ آج کل فساد فی الارض کی بیماری میں خود مسلمان بھی ملوث ہوچکے ہیں۔ شرائع الہیہ کو مختل کر رکھا ہے ، نہ حدود اللہ جاری ہیں اور نہ حقوق العباد کا تحفظ ہے ، انگریز کا مرتب کردہ قانون ابھی تک نافذ ہے۔ اس سر زمین سے انگریز کی جڑ تو چالیس سال ہوئے اکھڑ چکی ہے لیکن اس کا لایا ہوا قانون ابھی تک ہمارے سروں پر مسلط ہے۔ آج ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کہتا ہے کہ موجودہ انگریزی قانون عدل کے خلاف نہیں۔ ایک ریٹائرڈ جج نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اگر یہی بات ہے تو مسلمانوں نے اسلام کے نام پر علیحدہ ملک حاصل کرنے کی کیوں جدوجہد کی اور اس کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی کیوں پیش کی۔ انگریزی قانون کی بنیاد سراسر ظلم و زیادتی پر ہے خود یورپ کے انگریزوں نے تسلیم کیا ہے کہ اس قانون کے ذریعے عدل نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ تو شیطان کا جال ہے کمزوروں کو پھانستا ہے اور طاقتوروں کو چھوڑ دیتا ہے اس کے ذریعے انصاف کیسے حاصل ہو سکتا ہے آج مسلمان اخلال بالشرائع کر رہے ہیں۔ فرمایا و للہ لا حب المفسدین ۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ بلکہ ایسا آدمی اللہ کی نگاہ میں برا ہے۔ جو شخص بدعقیدگی اور بدعت کو رواج دیتا ہے ، کفر اور شرک کو پھیلاتا ہے ، اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے قوانین الٰہیہ کے سامنے دیوار بن گیا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ کیسے ہو سکتا یہ۔ اللہ کو نبوب وہ شخص ہے جو کفر کی بجائے ایمان والا ہے۔ جو نفاق کی بجائے اخلاص کا حامل ہے اور زمین میں فساد کی بجائے اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ یہی اللہ کا پسندیدہ بندہ ہے۔ ملا ، اعلیٰ اس کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے ک ہجب تک انگریز کا دودھ پینے والا نوکر شاہی بقہ برسر اقتدار ہے ، انگریزی قانون سے نجات مل سکتی ہے اور نہ اسلامی قانون آسکتا ہے۔ اسلامی قانون کے نفاذ سے انگریزی ذہنیت کے لوگوں کے مفاد پر زد پڑتی ہے ، لہٰذا یہ حتی الامکان اس کی مخالفت کریں گے۔ یہودیوں کا مسئلہ بھی یہی تھا۔ اگر وہ پیغمبر خدا ﷺ کی اطاعت قبول کرلیتے تو ان کے ذاتی مفاد کو نقصان پہنچتا تھا ، انہیں حلال و حرام کی تمیز کرنا پڑتی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق اعلباد کا خیال کرنا پڑتا ، ان کی جائیدادیں ، جاگیریں اور وظیفے ختم ہوجاتے لہٰذا انہوں نے ہمیشہ اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی اور فساد الارض کے مرتکب ہوئے جنہیں اللہ پسند نہیں کرتا۔ بان کی رکات۔ فرمایا ونو ان اھل الکتب امنوا واتقوا اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور کفر ، شرک اور معاصی سے ڈر جاتے لکفرنا عنھم سیاتھم ۔ ہم ان کی برائیوں اور غلطیوں کو معاف کردیتے ، بالکل اسی طرح جس طرح مخلص مومنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ ولا دخلنھم جنت النعیم اور اللہ تعالیٰ انہیں نعمت کے باغوں میں داخل کرتے اور وہ فلاح پا جاتے۔ فرمایا فلوانھم اقاموا التوربۃ والانجیل ۔ اور اگر وہ تورات اور انجیل کو قائم کرتے۔ مگر اپنے دور میں تو انہوں نے اسے قائم نہیں کیا۔ بلکہ اس میں تحریف کے مرتکب ہوئے اور اس کے احکام کو چھپانے کی کوشش کرتے رہے اگر یہ اپنی کتابوں پر عملدرآمد کرتے ۔ وما انزل الیھم من بینھم اور اس چیز کو بھی قائم کرتے جو ان کے رب کی طرسے ان پر اتاری گئی ہے۔ یعنی قرآن پاک تو اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں ان کے شامل ہوتیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا لاکلوا من فوقھم ۔ تو وہ کھاتے اپنے اوپر سے۔ یعنی ان کے لئے آسمانوں سے رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے۔ آسمانی برکات میں نفع بخش بارش اور اچھی آب و ہوا شامل ہے جس سے ان کی کھیتیاں اور باغ لہلہانے اور یہ خوب خوشحال ہوتے۔ پیداوار وافر ہوتی۔ خوب کھاتے پیتے اور ان کی صحت بھی اچھی ہوجاتی ۔ ومن تحت ازجلھم ۔ اور اپنے پائوں کے نیچے سے بھی کھاتے یعنی ان کے لئے زمینی اسباب بھی مہیا ہوتے۔ انسانی ضروریات کی تمام چیزیں زمین سے پیدا ہونے لگتیں اور انہیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہوتی۔ ۔ اس طرح گویا یہ لوگ آسمانی اور زمینی ہر قسم کی برکات سے فیضیاب ہوتے مگر ان کا حال یہ ہے کہ معمولی سی تکلیف آگئی تو اللہ رب العزت کی شان میں بےادبی اور گستاخی کے کلمات بولنے لگے ، جو ان کے لئے کسی طرح بھی روا نہیں تھا اور اس طرح یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات سے محروم ہوگئے۔ امت متقصدہ یہ تمام خرابیاں بیان کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سارے یہودی ایک جیسے نہیں۔ سورة آل عمران میں بھی گزر چکا ہے ” لیسوا سوآء ۔ کہ یہ سب برابر نہیں۔ یہاں پر بھی فرمایا منھم امۃ مقتصدۃ ان میں کچھ میانہ روی والے لوگ بھی موجود ہیں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں حضور ﷺ کے زمانے میں بھی بعض اچھے لوگ موجود تھے اور ایسے آدمی ہر زمانہ میں ہوتے رہے ہیں۔ عدی ابن حاتم طائیحضور ﷺ کے زمانہ میں عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام لائے۔ تمیم داری بھی پہلے عیسائی مذہب رکھتے تھے۔ مگر مسلمان ہوگئے۔ یہودی عالم عبداللہ بن سلام ایمان لائے تو حضور ﷺ نے عشرہ مبشرہ کی طرح انہیں بھی قطعی جنتی قرار دیا۔ ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں عبداللہ کو یلم اسلام سے مشرف ہوئے ان کے ساتھ ان کے خاندان کے چالیس آدمی مسلمان ہوئے۔ آپ پر انگریزوں نے مقدمہ قائم کیا اور بڑی اذیت پہنچائی مگر آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ جرمنی کا یہودی لیو پولڈ اسلام لایا جس کا اسلام نام محمد اسد رکھا ہے۔ اب بھی زندہ سلامت ہے۔ اسی سال سے زیادہ عمر ہوچکی ہے۔ اب تک اچھی کتابیں لکھ رہا ہے۔ مقصد یہ کہ ہر دور میں صاحب فہم و فراست لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کیا ہے۔ انہی کو امت مقتصدۃ فرمایا گیا ہے۔ فرمایا وکثیر منھم سآء مایعملون ۔ البتہ ان کی اکثریت ایسی ہے جو بہت برے کام کرتے ہیں۔ وہ بلاشبہ مذمت کے قابل ہیں ، تاہم اچھے لوگوں کی قدر کرنی چاہئے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان کو ساتھ لے کر چلیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ قرآن کریم کا پروگرام ان تک پہنچائیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان خود صراط مستقیم سے ہٹ چکے ہیں۔ آج قرون اولیٰ کے مسلمان کہاں سے آئیں جو دین کے پورے کی آبیاری کریں۔ آج تو خود مسلمان کفر ، شرک اور بدعات میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان کا منتہائے مقصود کھیل تماشہ بن چکا ہے ، آرام طلبی ، عیش و عشرت ، بدمعاشی ، فحاشی کے دلدادہ ہیں ان میں پہلے سا جوش و جذبہ کہاں سے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے اور ہمیں قرون اولیٰ کے مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
Top