Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا١ؕ وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قُلْ : کہ دیں اَتَعْبُدُوْنَ : کیا تم پوجتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے ضَرًّا : نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہی السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے کیا تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا ان چیزوں کی جو نہیں مالک تمہارے لئے نقصان کی اور نہ نفع کی اور اللہ تعالیٰ ہی ہے سننے والا اور جاننے والا
ربط آیات گزشتہ دروس میں اہل کتاب کے باطل عقائد اور ان کی خرابیوں کا ذکر ہوتا رہا ہے اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے مختلف فرقوں کی تکفیر کا ذکر کیا جو یا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو بعینیہ خدا مانتے ہیں یا پھر تین خدائوں میں سے تیسرا تسلیم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کف یہ عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے بلکہ خود انبیاء کی تعلیم کے بھی منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کو تلقین کی کہ وہ اس باطل عقیدہ سے باز آجائیں ورنہ عذاب الیم کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا کہ آپ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم صدیقہ تھیں یعنی نہایت ہی راست باز خاتون تھیں اور یہودیوں کی طرف سے لگائے گئے الزامات سے بالکل مبرا تھیں اور عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق مادر خدا بھی نہ تھیں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ دونوں کھانا کھاتے تھے کیونکہ اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے وہ کھانے کے محتاج تھے۔ انہیں حوائج بشریہ بھی لاحق ہوتی تھیں اور وہ کمزوری کی حالت میں بھی مبتلا ہوتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جن ہستیوں کی زندگی کا انحصار دوسری اشیاء پر ہو وہ معبود کیسے ہو سکتی ہیں وہ تو خود محتاج تھے اور معبود وہ ہستی ہے جو کسی کی محتاج نہیں بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ معبود وہ ذات خداوندی ہے جو تمام نقائص ، احتیاج اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ غیر اللہ کی عبادت اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ اور دیگر مشرکین کے عقائد کا رد فرمایا ہے اور نہایت لطیف پیرائے میں معبودان باطلہ کی پرستش سے روکا ہے۔ نیز دین میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے اتعبدون من دون اللہ کیا تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان کی مالا یملک لکم ضراً ولا نفعاً ” جو تمہارے لئے کسی نقصان اور نفع کے مالک نہیں ہیں سمجھانا یہ مطلوب ہے کہ جو ہستی نفع و نقصان پر قادر نہیں ہے وہ معبود کیسے ہو سکتی ہے ؟ نافع اور رضا تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہی معبود برحق ہے ، مسیح (علیہ السلام) نہ نفع و نقصان پر قادر ہیں اور نہ وہ عبادت کے لائق ہیں۔ انجیل میں بھی موجود ہے ” بیٹا (مسیح علیہ السلام) آپ سے کچھ نہیں کرسکتا ، جو کچھ اختیار ہے ، اس باپ (خدا) کے پاس ہے “ بہرحال معبود وہ ہو سکتا ہے جو احتیاج سے پاک ہو ، ہر قسم کے اختیار کا مالک ہو ، قدرت نامہ رکھتا ہو ، واجب الوجود اور خالق ہو اور وہ علم محیط رکھتا ہو۔ یہ نصاری کے عقائد باطلہ کی تردید ہوگئی۔ مشرکین بھی جن کی پرستش کرتے ہیں انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ملائکہ ہوں یا انبیاء اور اولیا یا جنات وغیرہ اللہ نے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ تمام اختیارات مالک الملک کے پاس ہیں ہر چیز کا تصرف بھی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ سورة الم سجدہ میں وضاحت کے ساتھ موجود ید بر الامر من السمآء الی الارض “ بلندیوں سے لے کر پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے ہر چیز اسی کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) سے کہلوائی قل لا املک لنفسی نفعاً ولا ضحاً الا ما شآء اللہ “ (اعراف) میں اپنے لئے کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ تمام تصرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، وہ جو چاہے کرے ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ وہ اکیلا معبود ہے باقی سب عابد ہیں۔ مگر نصاریٰ کی عقل پر پردہ پڑگیا ہے جو مسیح (علیہ السلام) کو معبود بنائے بیٹھے ہیں حالانکہ آپ کو نفع نقصان کا کچھ اختیار نہیں۔ صفات الوہیت فرمایا یاد رکھو ! واللہ ہو السمیع العلیم ہر ایک کی بات ، دعا ، اور فرماد کو سننے والا اللہ تعالیٰ ہے اور ہر چیز کو جاننے والا بھی وہی ہے وہی ذات بکل شیء محیط ہے “ اور ویہ ذات بکل شیء علیم “ ہے نہ کوئی چیز اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہے اور نہ کوئی اس کے علم سے باہر ہے یہ دونوں صفات صفات الوہیت میں سے ہیں۔ پرسوں بھی عرض کیا تھا کہ واجب الوجود ہونا ، کمال صفات کا مالک ہونا ، مختار کل اور علیم کل ہونا ، قدرت نامہ کا مالک ہونا۔ غیر محدود اور غیر مرئی ہونا ، سب صفات الوہیت ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) میں ان میں سے کوئی بھی صفت نہیں پائی جاتی ، وہ تو نظر آتے تھے اور محدود جسم رکھتے تھے لہٰذا وہ الہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ چونکہ وہ الہ نہیں ہیں لہٰذا ان کی عبادت بھی نہیں ہو سکتی۔ عبادت کے لائق صرف وہ ذات ہے۔ مگر تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو ، جن میں یہ صفات نہیں پائی جاتیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ تو کوئی اختیار ہے ، نہ ہر چیز پر ان کی نگاہ ہے اور نہ وہ ہر چیز کا علم رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف الوہیت کی نسبت کرنا بالکل حماقت کی بات ہے جو عقل سے بالکل بعید ہے۔ غلوفی الدین غلوفی الدین یعنی دین کے معاملہ میں افراط وتفریط کا پیدا ہوجانا ایک قدیم بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو اس سے باز رہنے کی تلقین کی اور فرمایا قل یا ھل الکتب لا تغلوا فی دینکم غیر الحق اے پیغمبر ! آپ فرما دیں کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلونہ کرو۔ غلو کا معنی تجاوز کرنا یا حد سے بڑھنا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ غلو دونوں صورتوں میں واقع ہوتا ہے یعنی افراط اور تفریط میں اگر کسی چیز یا ہستی کو اس کے مرتبے سے بڑھا دیا جائے تو افراط یا زیادتی ہوتی اور اگر اس کے منصب میں کمی کردی جائے تو تفریط کہلائی ہے۔ مقصد یہ کہ دین اور شریعت میں کسی معاملہ کے متعلق جو حد مقرر کی گئی ہے۔ اس میں کمی بیشی کرنا افراط وتفریط ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے یہودی تفریط کا شکار تھے۔ اللہ نے تو اپنے انبیاء کی اتباع کا حکم دیا تھا ” وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن للہ “ (النسائ) ہم نے تو ابنیاء کی اطاعت کا حکم دیا کیونکہ وہ اللہ کے معصوم بندے ہوتے ہیں اور انہیں مبعوث ہی اس لئے کیا جانا ہے کہ ان کی فرمانبرداری کی جائے۔ مگر یہودی اپنے انبیاء کی توہین و تذلیل کے مرتکب ہوئے اور انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں بنی اسرائیل کی طرف سے بےادبی اور گستاخی کے لئے ہی امور کا ذکر ہوچکا ہے۔ اللہ کا نبی نو پوری مخلوق میں منتخب اور برگزیدہ بندہ ہوتا ہے اس کے ذمہ بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کا فریضہ ہوتا ہے ۔ مگر یہودی اپنے نبیوں کو عام انسانوں کا درجہ بھی نہ دے سکے اور اس طرح وہ تفریط کے مرتکب ہوئے۔ برخلاف اس کے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعظیم و تکریم میں اس حد تک غلو کیا کہ انہیں نبوت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کی کرسی پر بٹھا دیا۔ اللہ کی صفات مخصہ کو مسیح (علیہ السلام) میں ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس طرح افراط کے مرتکب ہوئے ، حالانکہ دین کے معاملہ میں افراط اور تفریط دونوں ناپسندیدہ ہیں اور دونوں قمراہی کا باعث ہیں دین میں جس چیز کے متعلق جو حد مقرر کی گئی ہے اور س پر قائم رہنا ہی صحیح دینداری ہے انسان کو انسان کے مرتبے پر ہی رکھنا صحیح ایمان ہے۔ اگر کسی شخص کو الوہیت کی چادر اوڑھا دی گئی تو ہی غلو یعنی حد سے تجاوز ہے۔ بڑھانا نہ حد سے زیادہ مجھے تم افراط یعنی حد سے تجاوز کرنے کی بیماری ہماری امت میں بھی پا لی جاتی ہے۔ حضور ﷺ نے خود اپنے متعلق فرمایا تھا لا تطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم ۔ میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسائیوں نے مسیح ابن مریم کی تعریف میں کیا اور نہیں بندے سے الہ بنا دیا۔ ایسا محبت ، عقیدت اور تعظیم میں تجاوز کی وجہ سے ہوا۔ فرمایا انما انا عبدہ و رسولہ ۔ میں تو اس کا بندہ اور اس کا رسول ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔ میری تعریف میں مبالغہ آرائی کرنا یہی افراط ہے اور یہی چیز انسان کو کفر تک پہنچاتی ہے۔ ہمارے ہاں اہل بدعت ایسا ہی کرتے ہیں۔ حضور نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی تعریف و توصیف میں اس حد تک مبالغہ آرائی کی کہ آپ کو خدا کے درجے تک پہنچا دیا۔ بزرگوں کے لئے ایسے ایسے تعریفی کلمات اور القابات وضع کئے جو افراط کی تعریف میں آتے ہیں۔ کہیں امام الاولیا بنا دیا اور کہیں امام المتقین کا خطاب دے دیا ، حضرت اقدس اور نامعلوم کیا کیا القابات دے کر ان کو شریعت کی مقررہ حد سے بہت آگے لے گئے۔ حضور ﷺ کے سامنے جب کسی شخص نے دوسرے شخص کی تعریف میں مبالغہ کیا تو آپ نے فرمایا ویحک قطعت عنقہ افسوس ہے تو نے تعریف میں مبالغہ کر کے اس کی گردن توڑ دی۔ فرمایا جب کسی کی تعریف مطلوب ہو تو یوں کہا کرو واللہ حسیب اللہ تعالیٰ ہی حساب لینے والا ہے۔ وہ صورت حال کو جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا بزرگوں پر رحم کرو یعنی یوں کہو رحمھم اللہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ اسی طرح صحابہ کرام کا نام آئے تو ؓ کہو یعنی اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگیا۔ مقصد یہ کہ افراط وتفریط کسی صورت میں بھی روا نہیں۔ یہ چیز کفر اور شرک تک لے جاتی ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ مولانا ثناء اللہ پانی پتی اپنی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں کہ غلو کبھی افراط سے ہوتا ہے اور کبھی تفریط سے عیسائی تفریط میں مبتلا تھے۔ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو الوہیت کے درجے تک پہنچا دیا۔ یعنی مولود بشری کو الہ بنا دیا۔ غرضیکہ اعمال میں نہ افراط گوارا ہے اور نہ تفریط پسندیدہ یہودیوں نے اعمال شرع کی کچھ پروانہ کی ۔ ادھر نصاریٰ کے اعمال میں تفریط ہوئی اور انہوں نے اصل اعمال کی بجائے رہبانیت کو ایجاد کیا ، اور بدعات کے مرتکب ہوئے ، بدعات کے تمام کام خود ساختہ ہوتے ہیں اور تفریط کے حکم میں داخل ہیں۔ دین میں اسی ایجاد بندہ کے متعلق آتا ہے رہبانیۃ ابتدعوھا یہ رہبانیت ہے جسے نکالا گیا اور جو انسان کو کفر اور شرک تک لے جاتی ہے۔ صلو و اصلواۃ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا تتبعوا اھوآء قوم نہ پیروی کرو ان لوگوں کی خواہشات کی قد ضلوا من قبل جو خود پہلے گمراہ ہوچکے ہیں واضلوا کثیراً اور انہوں نے بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کردیا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے یہی کیا کہ وہ تو گمراہ ہوئے مگر انہوں نے دوسرے لوگوں کو بھی گمراہی کے گڑھے میں پھینک دیا۔ یہودیوں میں شرک کی بیماری صابیوں سے آنی اور نصاریٰ نے اسے یونانیوں رومیوں اور پرانے مصریوں سے اخذ کیا۔ ہمارے اس برصغیر میں بھی شرک اور بدعت کی لعنت ہندومت اور بدھ مت سے آئی ہے۔ یہ سوئم ، چالیسواں ، قبروں پر پھول چڑھانا وغیرہ سب ہندوئوں سے اخذ شذہ رسوم ہیں۔ یہ اسلام کا طریقہ نہیں ہے بلکہ خلاص بدعات ہیں مگر اللہ نے فرمایا کہ دوسری اقوام کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ بدعات میں خواہشات سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ان میں کوئی دلیل نہیں ہوتی بلکہ محض ذاتی پسند ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں یہ رواج ہے ، ہمارا یہ دستور ہے۔ ہمارے بڑے ایسا کرتے تھے۔ ایسی چیزیں نہ تو کتاب و سنت میں ملتی ہیں اور نہ صحابہ کرام کے عمل اور ائمہ دین کے اجتہاد سے ثابت ہیں۔ ہمارے ہاں خوشی اور غمی کی تمام رسوم محض خواہشات کی پیروی کا نام ہیں جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ بدعات میں محض اپنی پسند کی تکمیل مطلوب ہوتی ہے نہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا۔ آج مسلمان بھی بدعات کا شکار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے آسمانی کتابوں وحی الٰہی اور انبیاء کا طریقہ چھوڑ دیا ہے۔ وضلوا عن سوآء السبیل اور سیدھے راستے سے بہک چکے ہیں۔ آج یہ بھی انہی لوگوں کا اتباع کر رہے ہیں جو خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ وہ لوگ بھی سندرات اور بدعات کے عمل سے گمراہ ہوئے اور آج یہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل کر ضلالت کے گڑھے میں گر چکے ہیں۔ بدعات کی حوصلہ افزائی بدعات کو جاری کرنے والے اکثر فاسق اور فاجر لوگ ہوتے ہیں یا پھر ملوک اور سلاطین انہی لوگوں کی حوصلہ افزائی سے بدعات پروان چڑھتی ہیں ہمارے ملک میں بھی بدعات کی حوصلہ افزائی اوپر سے ہوتی ہے ، قبروں کا غسل اور ان پر چادریں چڑھانا ، بہشتی دروازے کی کشادگی وغیرہ امراء اور وزراء اور اعلیٰ حکام ہی کرتے ہیں۔ جب بڑا آدمی خود قبروں پر پھول چڑھاتا ہے و چھوٹے آدمی بھی انہی کا اتباع کرتے ہیں۔ وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرتے ہیں یہ تمام چیزیں غلوفی الدین میں داخل ہیں۔ ذرا غور فرمائیں کہ قبروں کے ساتھ جو معاملہ آج ہو رہا ہے کیا حضور ﷺ نے ایسا کیا تھا یا صحابہ کرام نے کیا تھا یا سلف صالحین میں سے کسی نے ترغیب دی تھی کیا ان لوگوں کا دین مکمل نہیں تھا ، جو ان چیزوں سے محروم رہ گئے۔ قبروں کی پختگی تو حضور ﷺ کے فرمان کے بالکل خلاف ہے۔ آپ نے تو فرمایا تھا لاتجصصوا قبروں پر پکی اینٹ نہ لگائو۔ مگر اب بڑی عالیشان عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں ، چپس لگ رہے ہیں۔ قبروں پر پنکھے چل رہے ہیں۔ بڑے بڑے گنبد بن رہے ہیں۔ یہ سب غیر اقوام کا اتباع اور غلوفی الدین ہے ۔ ہندوستان میں قبروں پر گنبد بنانے کی بدعت بدھوں سے آئی سے ہندوستان ، چین ، جاپان اور مشرق بعید کے بعض دیگر ممالک میں ایسا ہی ہے بڑی بڑی یادگاریں بنائی جاتی ہیں۔ یہ دیوہیکل اہرام مصر کیا ہیں ؟ یہ قبرستان ہی تو ہیں۔ آج سے ساڑھے چھ ہزار سال قبل بننے والے یہ فرعونوں کے مزار میں ۔ جس طرح مصری اور یونانی گمراہ ہوئے اسی طرح اب مسلمان بھی ہو رہے ہیں۔ جو بدعات صابی اور زر تشتی مذاہب میں تھیں۔ وہی اب مسلمانوں میں بھی آ چکی ہیں جو چیزیں یہود و نصاریٰ نے اختیار کیں وہی مسلمان بھی اپنا رہے ہیں۔ اسی لئے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے لوگ بھی اہل کتاب سے اسی طرح مشابہت اختیار کریں گے جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے۔ غرضیکہ کہ اللہ نے فرمایا کہ سابقہ قومیں بھی دین میں افراط و تفرط کی وجہ سے ہی گمراہ ہوئیں اور وہ بہت سے دوسرے لوگوں کی گمراہی کا باعث بھی بنیں۔
Top