Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 82
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
لَتَجِدَنَّ : تم ضرور پاؤگے اَشَدَّ : سب سے زیادہ النَّاسِ : لوگ عَدَاوَةً : دشمنی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اہل ایمان (مسلمانوں) کے لیے الْيَھُوْدَ : یہود وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا : اور جن لوگوں نے شرک کیا وَلَتَجِدَنَّ : اور البتہ ضرور پاؤگے اَقْرَبَهُمْ : سب سے زیادہ قریب مَّوَدَّةً : دوستی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان کے لیے جو ایمان لائے (مسلمان) الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰى : نصاری ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ مِنْهُمْ : ان سے قِسِّيْسِيْنَ : عالم وَرُهْبَانًا : اور درویش وَّاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے
البتہ پائو گے تم زیادہ شدید عداوت کے اعتبار سے مومنین کے حق میں یہود کو اور ان لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا اور البتہ پائو گے تم زیادہ قریب دوستی میں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ، ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس واسطے کو بیشک ان میں اہل علم اور تارک الدینا لوگ ہیں اور بیشک وہ تکبر نہیں کرتے
ربط آیات گزشتہ درس میں اہل کتاب کے دو گروہوں کے متعلق ذکر آ چکا ہے کہ ان کی نافرمانیوں ، عصیان اور تعدی کی وجہ سے اللہ نے اپنے دو نبیوں کی زبان سے ان پر لعنت بھیجی۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے میں یہودیوں نے مچھلی کے شکار سے متعلق اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کی اور حیلے بہانے سے ہفتے کے دن بھی شکار کرنے لگے۔ اس نافرمانی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور وہ لوگ خنزیروں اور بندروں کی شکلوں میں تبدیل ہوگئے دوسرا گروہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کا ہے جن کو منع کیا گیا تھا کہ آسمان سے نازل ہونے والے مائدہ کو کھائو پیو مگر اس کا ذخیرہ نہ کرو۔ انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور ذخیرہ اندوزوں کو شروع کردی۔ پھر جن لوگوں کو مائدہ کھانے سے منع کیا گیا تھا ، انہوں نے بھی اللہ کے حکم کی پرواہ نہ کی اور کھانا شروع کردیا۔ ان پر بھی اللہ کا غضب نازل ہوا ان کی شکلیں بھی مسخ ہوگئیں اور انہیں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے عقائد باطلہ ان کے غلو اور تعصب کو بیان کر کے ان کی مذمت فرمائی۔ یہودی اسلام دشمنی اب آج کی آیات میں یہود کی پھر سخت مذمت بیان کی گئی ہے۔ البتہ نصاریٰ کے حق میں کلمات خیر بھی کہے گئے ہیں۔ ان آیات کی روشنی میں بعض مفسرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام دشمنی میں یہودی نصاری کی نسبت زیادہ شدید ہیں اور عیسائی اسلام سے قریب تر ہیں۔ برخلاف اس کے مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس آپ کے شاگرد حضرت سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ وغیرہم فرماتے ہیں کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تمام عیسائیوں کی مدح نہیں فرمائی بلکہ یہاں ایک خاص گروہ کی طرف اشارہ کر کے ان کی تعریف کی گئی ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی میں کوئی فرق نہیں جس طرح یہودی اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اسی طرح نصاریٰ نے بھی ہر دور میں اسلام دشمنی میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے چناچہ یہود کی عداوت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود مومنوں کے حق میں شدید ترین عداوت رکھنے والے تم یہود کو پائو گے ، ان کی اسلام دشمنی کا حال تاریخ میں محفوظ ہے ، حضور ﷺ کے اپنے زمانہ مبارک میں وہ کمینگی کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ چناچہ ان بدبختوں نے پتھر گرا کر حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کو ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر اللہ نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا پھر انہوں نے آپ کو کھانے میں زہر دے دیا مگر اللہ نے وہاں بھی آپ کی حفاظت فرمائی انہوں نے پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ جب اعلانیہ اسلام کے ساتھ ٹکر لینے میں ناکام ہوئے تو اندرونی سازشیں شروع کردیں کچھ براہ راست مشرکین سے مل گئے اور بعض دوسروں نے زبان سے کلم ہپڑھ لیا مگر در پردہ منافقین کا کردار ادا کرتے رہے۔ مشرکین کی اسلام دشمنی ایک تو یہود اسلام دشمنی میں شدید ہیں۔ دوسرے نمبر پر فرمایا والذین اشرکوا اور مشرکین بھی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں پیش پیش ہیں مشرکین میں سے مکہ کے مشرک خاص طور پر قابل ذکر ہیں مکی زندگی میں حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) اور آپ کے صحابہ کرام کے ساتھ مشرکین کی عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبوکر ہوگئے۔ اہل اسلام کو دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی مگر مشرکین نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا بالآخر مسلمان مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ وہاں بھی مکہ والوں نے انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیا اور پے در پے لڑائیاں ہوئیں جن میں بدر اور احد کے معرکے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں حدیبیہ کا واقعہ بھی مشرکین مکہ کی اسلام دشمنی کا نتجیہ تھا۔ آخر جب مکہ فتح ہوگیا تو مسلمانوں کو چین نصیب ہوا۔ کچھ مشرکین ایمان لائے ، کچھ مارے گئے اور کچھ بھا گ گئے۔ نصاریٰ کا کردار جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے اس آیت میں نصاریٰ کے جس گروہ کی تعریف کی گئی ہے وہ حبشہ کا وفد تھا جوحضور ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا۔ اس وفد میں ستر آدمی تھے جن میں درویش اور عالم بھی تھے۔ حضور ﷺ نے ان کے سامنے سورة یٰسین کی تلاوت فرمائی ، ایمان تو پہلے ہی قبول کرچکے تھے ، قرآن پاک کی آیات سن کر انہوں نے حقانیت کو پہچان لیا اور وہ خوب روئے۔ انہی لوگوں کے متعلق یہاں فرمایا ولتجدن اقربھم مودۃ للذین امنوا الذین قالوآ انا نصریٰ ۔ اور البتہ پائیں گے آپ اہل ایمان سے دوستی میں زیادہ قریب ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ وفد حبشہ کا یہی وہ خاص گروہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف بیان کی ہے۔ آگے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی ذلک بان منھم قسیسین ورھباناً یہ اس وجہ سے کہ اس وفد میں کچھ عالم لوگ اور کچھ تارک الدنیا لوگ بھی تھے۔ ان میں یہودیوں کی نسبت فروتنی تھی کسی قوم میں صاحب علم لوگوں کا ہونا نیک فال ہے اور عجز و انکساری اور درویشی بھی ایک اچھی صنعت ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی دوسری وجہ یہ تھی وانھم لایستکبرون کہ وہ تکبر نہیں کرتے تھے بلکہ یہودیوں کی اکڑ کے برخلاف یہ لوگ عجز و انکساری کے حامل تھے۔ چوتھی صدی کے عظیم مفسر قرآن امام ابوبکر حصاص اور مولانا شاہ اشرف ع لی تھانوی بھی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جن نصاریٰ کی مدح بیان کی گئی وہ یہی گروہ تھا اس تعریف کے مستوجب تمام نصاریٰ نہیں ہیں۔ اس وفد کے بعد نجاشی والی حبشہ نے ایک دوسرا وفد بھی حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ جس میں اسی 80 یا ایک سو تیس 130 آدمی تھے۔ جن میں نجاشی کا بیٹا بھی شامل تھا۔ مگر خدا کی قدرت راستے میں بحری سفر کے دوران یہ پورا قافلہ طوفان کی زد میں آ گیا اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا لہٰذا یہ وفد حضور ﷺ کی خدمت میں نہ پہنچ سکا۔ حبشہ کی طرف ہجرت اس سے پہلے خود مسلمان حبشہ کی طرف دو دفعہ ہجرت کرچکے تھے جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور وہاں کا بادشاہ اصممہ نجاشی اپنے دیگر رفقا کے ہمراہ ایمان لے آیا۔ جب مکہ کے مسلمانوں کو کافروں نے بہت زیادہ تکالیف دینا شروع کردیں۔ تو حضور ﷺ نے ان کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ نجاشی عیسائی مذہب رکھتا تھا اور قیصر رومی کے تحت تھا۔ جب مسلمانوں کا دوسرا گروہ ہجرت کر کے حبشہ پہنچا تو نجاشی ا ن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جب کفار مکہ کو علم ہوا کہ مسلمانوں کو حبشہ میں پناہ مل گئی ہے تو انہوں نے اپنا ایک وفد نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ اسے اس بات پر آمادہ کیا جاسکے کہ وہ مسلمان کو پناہ نہ دے۔ وفد کے ارکان نے نجاشی کو ورغلانے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے اور یہاں تک اس کے کان سرے کہ مسلمان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نعوذ باللہ توہین کرتے ہیں اور انہیں غلام کہتے ہیں نیز یہ کہ مسلمان عیسائی مذہت کے سخت مخالف ہیں۔ اگرچہ نجاشی یہ اس بات کا خاطرہ خواہ اثر نہ ہوا۔ تاہم اس نے مسلمانوں کو طلب کر کے ان کے دین اور عقائد کے متعلق دریافت کیا اس کے جواب میں قائد وفد اسلامی حضرت جعفر طیار نے دربار نجاشی میں جو پر اثر تقریر کی وہ تاریخ میں محفوظ ہے آپ نے فرمایا بادشاہ ! ہم ایک سخت جاہل قوم تھے ، خود ساختہ بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ مردار کھاتے تھے ، بدکاری اور بےرحمی ہمارے معاشرت کا جزو بن گا تھا۔ ہم نہ ہمسایہ کے حقوق سے واقف تھے اور نہ اخوت و ہمدردی سے واقف۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک ایسا عظیم الشان پیغمبر مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب سے ہم واقف تھے اور جس کی عصمت و پاکدامنی ہمارے سامنے تھی۔ اس نے ہمیں جہالت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کی ، ہم اس پر ایمان لائے ، شرک سے توبہ کی۔ حلال و حرام میں تمیز سیکھی۔ یہ ہمارا حرم ہے جس کی پاداش میں ہمیں آپ کے ملک میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ شاہ حبش پر اس کا بہت زیادہ اثر ہوا اور اس نے قریش کے وفد کو بتا دیا کہ وہ ایسے نیکو کار لوگوں کو واپس کر کے ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنانا چاہتا۔ نجاشی نے حضرت جعفر سے پوچھا کہ جو کلام تمہارے نبی پر نازل ہوتا ہے ، وہ کیسا ہے ؟ اس پر حضرت جعفر نے سورة مریم تلاوت کی جس کو سن کر نجاشی اور اس کے دربار کے علماء آبدیدہ ہوگئے۔ نجاشی نے کہا کہ یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی توہین نہیں کرتے بلکہ اسی قسم کی بات کہتے ہیں جو خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہی تھی۔ سورة مریم میں صاف طور پر موجود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔ بہرحال نجاشی نے فریقین کی بات سننے کے بعد کہا کہ جائو انتم سیوم یعنی تمہیں میرے ملک میں امن حاصل ہے اور تم اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے جو مال چاہو سکونت اختیار کرسکتے ہو اس پر مشرکین مکہ ناکام واپس لوٹ آئے۔ نصاریٰ کی اسلام دشمنی جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ جن نصاریٰ کی یہاں تعریف کی گئی ہے وہ حبشہ کا وفد تھا ، تاہم عام عیسائیوں کی اسلام دشمنی یہودیوں سے کسی طرح کم نہیں یہ لوگ بھی ابتداء سے لے کر نزول مسیح تک اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے یہدیوں کے پاس تو اقتدار نہیں تھا مگر عیسائی ہمیشہ صاحب اقتدار رہے ہیں لہٰذا انہوں نے ہر دور میں عظیم عداوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ترکوں نے چار سو سال تک عیسائیوں کا مقابلہ کیا۔ زار روس بھی عیسائی تھا۔ اس کے ساتھ بھی مسلمانوں کی ٹکر ہوتی رہی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں دو سو سال تک عیسائیوں اور مسلمانوں میں جنگیں ہوتی رہیں جب عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو چالیس ہزار بےگناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں بچے بوڑھے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ پھر جب صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس پر دوبارہ قبضہ کیا تو کسی عیسائی کو ناحق قتل نہیں کیا گیا۔ یہ بات تاریخ میں محفوظ ہے۔ اس وقت سے لیکر آج تک نصاریٰ مسلمانوں کے خلاف اپنی پوری قوت استعمال کرتے رہے ہیں۔ لبنان میں فلانک پارٹی کے لوگ سب عیسائی ہیں جنہوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جب یہاں پر ایوب کی حکومت تھی اس وقت قبرص میں وہاں کے میکار یوس نے چالیس ہزار ترکوں کو ہلاک کیا۔ ادھر فلپائن میں مارکوس نے وہاں کے پچاس لاکھ مسلمانوں کو تنگ کر رکھا ہے انہیں صور و یعنی قزاق مسلمان کہا جاتا ہے اور ان پر طرح طرح کی مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ وہاں پر بھی ہزاروں مسلمان عیسائیوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔ انگریزوں کی اسلام دشمنی کی پوری تاریخ گواہ ہے۔ انہوں نے ایک ایک کر کے مسلمانوں کی کتنی حکومتیں ختم کیں۔ زار روس کے زمانے میں مسلمانوں کی ساتھ کیا سلوک کیا وہ بھی عیسائی تھے صلیبی جنگوں کے دو سو سالہ دور میں مسلمانوں کو جس طرح تباہ و برباد کیا گیا وہ عیسائیوں کی سفاکی کی منہ بولتی تصویر ہے امام شاہ و لی اللہ اپنی کتاب تفہیمات الہیہ میں لکھتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کے نزول کا زمانہ جس قدر قریب آتا جائے گا ، مسلمانوں پر عیسائیوں کے مظالم بڑھتے جائیں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ نزول مسیح کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ پھر جب آپ تشریف لے آئیں گے تو نہ کوئی یہودی باقی رہے گا اور نہ عیسائی ، ہر طرف اسلام ہی کا کلمہ بلند ہوگا۔ بعض انگریز پرست مسلمان بھی کہتے ہیں کہ انگریزوں کا دامن صاف ہے حالانکہ یہ قوم مسلمانوں کی عظیم دشمن ہے جتنا نقصان اسلام کو اس قوم نے پہنچایا ہے کسی دوسری قوم سے سر زد نہیں ہوا۔ انگریز نے گزشتہ چار صدیوں میں مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی خلافت اور اس کے ساتھ اجتماعیت کو ختم کیا ، ان سے کئی ممالک چھین لئے اور انہیں غلام بنا لیا ، امریکہ تو ابھی کل کا بچہ ہے ، یہ پرانے انگریز ہیں جنہوں نے اسلام دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ بہر حال اس آیت کریمہ میں عیسائیوں کی جو تعریف کی گئی ہے وہ حبشہ کے وفد کے ارکان کی ہے ، نہ کہ بحیثیت مجموعی عام عیسائیوں کی۔ آبدیدہ آنکھوں والے سب لوگ ایک سے بھی نہیں ہوتے ، سورة آل عمران میں گزر چکا ہے ” لیسوا سوآئ “ یعنی سارے یہود و نصاریٰ برابر نہیں۔ گزشتہ سورة میں بھی دو دفعہ اللہ کا یہ فرمان آ چاک ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں بعض با صلاحیت لوگ بھی ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد بہت قلیل ہے ، البتہ ان کی اکثریت نافرمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی جن لوگوں کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ با صلاحیت ، متوازن ، سادہ لباس اور عاجزی والے لوگ تھے۔ ان میں کتب آسمانی کے عالم اور درویش منش لوگ تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا واذا سمعوا ما انزل الی الرسول جس وقت وہ سنتے ہیں اس چیز کو جو اتاری گئی ہے رسول کی طرف تری اعینھم تفیض من الدمع آپ ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوتے دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ وفد کے ارکان نے جب … سورة یٰسین سنی تو آبدیدہ ہوگئے ، حدیث شریف میں حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا ارشاد مبارک ہے کہ دو قسم کی آنکھیں ایسی ہیں جن پر دوزخ کی آگ حرام ہے ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روتی ہے اور دوسری وہ جو اللہ کے راستے میں حفاظت کے لئے پہرہ دیتی ہے۔ فرمایا ایسی آنکھوں والے کبھی دوزخ میں نہیں جائیں گے حتی کہ اونٹنی کا دودھ اس کے تھنوں میں واپس آجائے۔ جس طرح دو ہے ۔ ہوئے دودھ کا تھنوں میں واپس جانا ناممکن ہے۔ اسی طرح چشم تر کا دوزخ میں جانا محال ہے۔ خدا کے خوف سے آبدیدہ ہوجانا اللہ نے نبیوں کی صفت بیان کی ہے۔ حق کی پہچان فرمایا اللہ کا کلام سن کر آبدیدہ ہوجانا اس وجہ سے تھا مما عرفوا من الحق کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا تھا۔ سورة یٰسین میں اسلام کے من الحق کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا تھا۔ سورة یٰسین میں اسلام کے تمام بنیادی عقائد کا بیان ہے اس میں توحید ، رسالت ، قیامت ، قرآن کی حقانیت اور دیگر تمام اہم موضوعات اس سورة میں موجود ہیں ، چناچہ ارکان وفد یہ سچا کلام سن کر رو دیئے۔ انہوں نے حق کو پہچان لیا یقولون کہنے لگے ربنا امنا اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے ہیں فاکتبنا مع الشھدین پس ہمیں لکھ لے تو گواہی دینے والوں میں اور یہ گواہی دینے والے حضور خاتم المرسلین کی امت کے لوگ ہیں جو اپنے نبی کے حق میں گواہی دیں گے۔ حجتہ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے تمام لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن میرے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ، سب نے کہا کہ ہم گواہی دیں گے۔ ادیت الا مانۃ و بلغت الرسالۃ و نصحت الامۃ آپ نے امانت کو پہنچا دیا اور حق رسالت ادا کردیا اور امت کے لوگ باقی ابنیاء وعلیہم الصلوۃ والسلام کے حق میں بھی گواہی دیں گے کہ تمام انبیائے نے اللہ کے احکام اپنی اپنی امتوں تک پہنچا دیئے۔ سورة بقرہ میں بھی اس آخری امت کو شاہدین کی امت کہا گیا ہے۔ بہرحال ارکان وفد نے کلام الٰہی سن کر کہا کہ اے مولا کریم ! ہمیں بھی گواہی دینے والوں کی فہرست میں شامل کرے۔ نیکی اور بدی کی جزا وفد حبشہ کے ارکان نے یہ بھی کہا کہ وما لسا لا نومن باللہ کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان نہ لائیں وما جآء نا من الحق اور اس چیز پر ایمان نہ لائیں جو آئی ہے ہمارے پاس حق سے۔ گویا انہوں نے کہا کہ ایمان باللہ اور ایمان بالکتاب کے لئے ہماری ہر طرح سے تسلی ہوچکی ہے اور ایسا کرنے میں اب کوئی چیز مانع نہیں ہے ونطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصلحین اور ہم کیوں نہ امید رکھیں کہ ہمارا پروردگار ہمیں بھی نیک لوگوں کے ساتھ داخل کر دے گا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا فاثا بھم اللہ بما قالوا پس دے دیا اللہ تعالیٰ نے ان کو بدلہ اس چیز کا جو انہوں نے کہی۔ یعنی ان کی طرف سے اعتراف حق کے نتیجہ میں اللہ نے ان سے وعدہ کرلیا جنت تجری من تحتھا الانھار ایسے باغات کا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ وہ لگو اللہ کے بہشت میں داخل ہوجائیں گے مگر کسی عارضی مدت کے لئے نہیں بلکہ خلدین فیھا اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور وہاں سے نکالے نہیں جائیں گے وذلک جزآء المحسنین اور یہ بدلہ ہوگا نیکی کرنے والوں کا یعنی جو شخص ایمان لاتا ہے ، حق کو پہچانتا ہے اور نیکی کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی بدلہ دیا کرتا ہے۔ اور اس کے برخلاف والذین کفروا جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے بھیجے ہوئے پروگرام پر ایمان لانے سے انکار کردیا وکذبوا باتینا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ۔ شریعت الہیہ کی بات کو قبول ہی نہ کیا۔ ہمارے احکام کی تکذیب کی ، ہمارے دلائل کو پہچانہ سمجھا ، ہمارے بھیجے ہوئے رسولوں کا اور نازل کی گئی کتابوں کا انکار کردیا ، فرمایا اولئک اصحب الجحیم یہی لوگ جہنم والے ہیں ۔ یہ ہمیشہ اسی میں جلتے رہیں گے۔ انکار کرنے والوں اور آیات الٰہی کو جھٹلانے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
Top