Mualim-ul-Irfan - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
کیا پہنچی ہے آپ تک بات ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمان کی
ربط آیات اس سورة کا مرکزی مضمون وقوع قیامت اور جزائے عمل ہی ہے جس کو مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا جارہا ہے۔ اللہ نے چار قسمیں اٹھا کر فرمایا ان الدین لواقع ( آیت : 6) جزائے عمل ضرور واقع ہونے والی ہے۔ اللہ نے منکرین قیامت کا رد کیا اور ان کو ملنے والی سزا کا ذکر کیا ۔ اس کے بالمقابل متقی لوگوں کو ملنے والی نعمتوں کا تذکر ہ کیا ۔ اس کے بعد اللہ نے دنیا میں نیکی کمانے والوں کو صفات بیان فرمائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز مندی اور مناجات کرتے ہیں ، اور سحری کے وقت اپنی لغزشوں کی معافی مانگتے ہیں ۔ ان کے مالوں میں محتاجوں اور محروموں کا حق ہوتا ہے جس کو وہ ادا کرتے ہیں ۔ پھر اللہ نے وقوع قیامت کے بارے میں فرمایا کہ زمین میں قدرت خداوندی کی بیشمار نشانیاں ہیں جن میں غور کر کے وقوع قیامت کا مسئلہ سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ خود انسان کے اپنے نفس میں بھی بہت سی نشانیاں رکھی ہیں ۔ روزی اور ہر موعود چیز کا حکم آسمان کی طرف سے آتا ہے پھر فرمایا کہ ارض و سما کے پروردگار کی قسم جزائے عمل بر حق ہے اور یہ ضرو واقع ہوگا اور اس کی حقیقت بالکل اسی طرح شک و شبہ سے پاک ہے جس طرح تمہارا گفتگو کرنا امر واقع ہے۔ جزائے عمل کے ادنیٰ نمونے اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض سابقہ انبیاء اور ان کی اقوام کے حالات اور ان کو ملنے والی سزا کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ وقوع قیامت ، جزائے عمل ، توحید و رسالت کا انکار کرنے والوں کے لیے اللہ نے اسی دنیا میں جزائے عمل کا ایک ادنیٰ نمونہ پیش کردیا ہے۔ جو خدا تعالیٰ دنیا میں کسی بھی نافرمان کو سزا دے سکتا ہے وہ آخرت میں بھی ان کی کارکردگی کا بدلہ دینے پر قادر ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فضلیت بیان کی ہے اور ان کے پاس آنے والے مہمان فرشتوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ بندے کے لیے بیٹے کی خوشخبری لائے جب کہ لوط (علیہ السلام) کی ناہنجار قوم کے لیے تباہی کا سامان لے کر آئے ۔ گزشتہ آیات میں بھی ایسے ہی دو گرہوں کا ذکر ہوچکا ہے ، ایک وہ نافرمان گروہ جنہیں آگ میں تپایا جائے گا ۔ جب کہ متقین کا گروہ جنتوں اور چشموں میں ہوگا جہاں انہیں ہر طرح کی نعمتیں میسر ہوں گی ۔ بہر حال اللہ نے نافرمانوں کی سزا کا ذکر کر کے سمجھا دیا ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے نمونوں کو ذہن میں رکھ کر آخرت کی بڑی سزا کو بھی قیاس کرلو ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ھل اتک حدیث ضعیف ابراہیم المکرمنین کیا آپ تک ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے ؟ حضور علیہ الصلوٰۃ کو خطاب کر کے واقعہ کی تفصیلات بتانا مقصود ہے۔ یہاں پر معزز مہمانوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو آپ کے پاس آئے تھے۔ اللہ نے پانی اس پاک مخلوق کو عباد مکرمون کہا ہے کہ یہ اس کے باعزت بندے ہیں ۔ تمام فرشتے خواہ وہ ملاء اعلیٰ کے ہوں یا ملاء سافل کے ، سب عزت والے ہیں ۔ وہ ہر وقت اپنے پروردگار کی عبادت اور ذکر میں مصروف رہتے ہیں ۔ ویفعلون ما یومرون ( النحل : 50) اور اللہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں ۔ تفسیری روایات کے مطابق ان فرشتوں کی تعداد تین ، نو یا بارہ تھی جو ابراہیم علیہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے ۔ یہ نو خیز لڑکوں کی انسانی شکل میں تھے جن کے نام جبرائیل میکائیل اور اسرافیل (علیہم السلام) ہیں ، فرمایا کیا آپ تک ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی بات نہیں پہنچی اذ دخلوا علیہ جب وہ آپ کے پاس آئے فقالواسلما ً تو ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام کیا ۔ یہ واقعہ سورة ہود ، سورة الحجر ، سورة العنکبوت اور سورة القمر میں بھی مذکور ہے۔ اس مقام پر ابراہیم (علیہ السلام) کی اعلیٰ اقدار کا ذکر مقصود ہے۔ ساتھ ساتھ آپ پر ہونے والے بعض انعامات کا تذکرہ ہے اور آگے اصل بات جزائے عمل والی ہی آ رہی ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے مہمان نوازی فرمایا : فرشتوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام کیا قال سلم آپ نے سلام کا جواب دیا یعنی وعلیکم السلام کہا ، اور پھر فوراً ہی خیال آیا قوم منکرون یہ کچھ اوپر سے آدمی معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ جانی پہچانی شکلوں میں نہیں تھے اس لیے آپ نے دل میں کہا کہ یہ تو کوئی اجنبی اور غیر مانوس شکلیں ہیں ۔ بہر حال اپ نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔ انہیں اچھی جگہ خاطر خدمت سے بٹھایا اور اس کے بعد فراغ الی اھلہ نظر بچا کر اپنے گھر والوں کے پاس گئے یعنی اندرون خانہ حضرت سارہ ؓ کے پاس پہنچے تا کہ مہمانوں کی تواضع کا بندوست کرسکیں اس وقت مہمانوں کے کھانے کے لیے فجاء بعجل سمین مہمانوں کے پاس ایک موٹا تازہ تلا ہوا بچھڑا لے کر آگئے ۔ ظاہر ہے کہ گھر میں وہی بچھڑا موجود ہوگا ۔ جسے آپ نے ذبح کیا اور پھر اس کا گوشت بھون کرلے ائے فقربہ الیھم اور مہمانوں کے سامنے رکھ دیا ، مگر مہمانوں کے ہاتھ کھانے تک نہیں پہنچ رہے تھے تو قال الا تاکلون کہنے لگے ، تم کھاتے کیوں نہیں ؟ اس واقعہ سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ علم غیب خاص خداوندی ہے ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے مہمانوں کو انسان سمجھ کر ان کی خاطر مدارت کرنا چاہی ، ان کے لیے کھانا پیش کیا مگر اس وقت آپ نہیں جانتے تھے کہ یہ تو فرشتے ہیں اور یہ انسان کھانا نہیں کھاتے ، اسی وجہ سے آپ کو تشویش ہوئی اور ان سے فرمایا کہ تم کھاتے کیوں نہیں ؟ مہمان نوازی کے آداب یہاں پر اللہ تعالیٰ نے فراغ کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں سے نظر بچا کر گھر گئے تاکہ ان کے لیے کھانے کا بندوست کرسکیں ۔ مفسرین کرام اس سے یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ مہمانوں کو محسوس نہیں ہونے دینا چاہئے کہ میزبان ان کی خدمت مکہ لیے کیا بندوست کر رہا ہے ، کیونکہ بعض مہمان بڑے حساس ہوتے ہیں اور میزبان کے تکلف میں پڑنے سے وہ خود تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کو احساس دلائے بغیر جو کچھ گھر میں میسر تھا ان کے سامنے پیش کردیا ۔ مہمان نوازی دین اسلام کا ایک اہم اصول ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) اس کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ خود حضور ﷺ کا فرمان مبارک بھی ہے من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیکرمرضیفہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے۔ اس مہمان سے مراد محض جان پہچان والا مہمان مراد نہیں بلکہ اجنبی مہمان کی خاطر مدارت اور عزت افزائی بھی ضروری ہے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مہمان کہ ایک دن اور رات حسب حیثیت پر تکلف کھانا کھلان چاہئے۔ تین دن تک مہمان نوازی ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ خدمت صدقہ میں داخل ہے۔ یہ تو عام مہمائی کا اصول ہے اور اگر اپنا کوئی عزیز ، رشتہ دار یا خاص مہمان ہو تو وہ زیادہ عرصہ بھی ٹھہر سکتے ہیں ۔ ادھر حضور ﷺ نے مہمانوں کو بھی نصیحت کی ہے کہ کسی کے پاس اتنا زیادہ نہ ٹھہرو کہ میزبان حرج محسوس کرنے لگے ۔ اس کی حیثیت کا خیال رکھو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ معاشی لحاظ سے کمزور ہو اور تم اس پر بوجھ بن رہے ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو تشویش اور بشارت بہر حال جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو انہیں تشویش ہوئی کہ کیا بات ہے ؟ اس زمانے میں یہ عام دستور تھا کہ جس کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا تھا اس کا کھانا نہیں کھایا جاتا تھا کہ یہ نمک حرامی میں شمارہوتا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے یہی بات باعث تشویش تھی کہ یہ مہمان کہیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچائیں گے ۔ چونکہ آپ کو حقیقت حال کا ابھی علم نہیں تھا۔ اس لیے آپ کی تشویش بجا تھی اور اس لیے آپ نے مہمانوں سے پوچھا کہ تم کھانا کیوں نہیں کھاتے۔ مہمانوں کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر فاوجس منھم خیفۃ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے خوف محسوس کیا ۔ جب فرشتوں نے آپ کو اس حالت میں دیکھا قالوا لا تخف تو کہنے لگے ڈرو مت ۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں دیکھو ، میں جبرائیل ہوں ، یہ میکائیل ہیں اور یہ اسرافیل (علیہم السلام) ہیں ، لہٰذا ہم یہ کھانا نہیں کھاتے اس کے ساتھ ہی فرشتوں نے ایک اور بات بھی کی وبشروہ بغلم علیم انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک علم والے لڑکے کو بشارت بھی سنا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں صاحب علم بیٹا عطا کرے گا ۔ اس بیٹے سے مراد حضرت اسحاق (علیہ السلام) جو حضرت سارہ ؓ کے بطن سے تولد ہوئے۔ اس سے چودہ سال قبل حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت حضرت حاجرہ ؓ کے بطن سے ہوچکی تھی ۔ جن کے لیے اللہ کے علم حلیم ( الصافات : 101) یعنی بردبار بچے کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ بہر حال ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیٹے کی بشارت تو ایک ضمنی بات تھی ۔ اصل کا م جس کے لیے فرشتے آئے وہ او تھا یعنی وہ لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب لے کر آئے تھے۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ ایک طرف تو ایک پوری قوم کی تباہی کا وقت آ چکا تھا اور دوسری طرف ایک بیٹے کی بشارت دی جا رہی ہے ۔ جس کے متعلق بائیبل کا بیان ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ نے فرمایا تھا ، اے ابراہیم ! یہ لوگ تجھے دنیا سے ختم کرنا چاہتے ہیں مگر میں تیری اولاد کو ریت کے ذروں کی طرح دنیا میں پھیلائوں گا ، چناچہ آج ہم دیکھتے ہیں ۔ دنیا کی اکثر آبادی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہے۔ حضرت سارہ ؓ کی حیرانگی جب اللہ کے فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دے رہے تھے تو اس وقت اپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ ؓ کی عمر اسی یا نوے سال کی ہوچکی تھی ۔ جب انہوں نے یہ خوشخبری سنی فاقبلت امراتہ فی صرۃ پھر متوجہ ہوئی آپ کی بیوی شور مچاتی ہوئی یعنی بولتی ہوئی آئی۔ دراصل وہ اس بات سے سخت حیرت زدہ ہوئی تھیں فصکت و جھھا پس انہوں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا ، حیرانگی کے عالم میں چہرے پر ہاتھ مارا کہ یہ مہمان کیا بات کر رہے ہیں ؟ وقالت عجوز عقیم حالانکہ میں تو بوڑھی ہوچکی ہوں اور ویسے بھی بانجھ ہوں ، بھلا میں کیسے بچہ جن سکوں گی ؟ سورة ہود میں آپ کے یہ الفاظ بھی آتے ہیں ۔ قَالَتْ یٰـوَیْلَتٰٓی ئَ اَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّہٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًاط اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عَجِیْبٌ (آیت : 72) کہنے لگی ، ہائے افسوس ! کیا اب میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوگیا ہے۔ بہر حال اس حیرانگی کے اظہار پر قالوا کذلک فرشتے کہنے لگے کہ ایسا ہی ہوگا قال ربک تیرے پروردگار نے یونہی فرمایا ہے۔ اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کیونکہ جس پر پروردگار نے یہ فیصلہ کیا ہے انہ ھو الحکیم العلیم بیشک وہ حکمتوں والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس فیصلے میں اس کی کمال حکمت کار فرما ہے کہ وہ اس بچے کے ذریعے کیا کام لینا چاہتا ہے۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں لہٰذا وہ ہر چیز میں تصرف اور تدبیر اپنے علم اور ارادے کے مطابق کرتا ہے۔ تفسیری روایات میں آتا ہے پہلے تو فرشتے کھانے کی طرف ہاتھ میں نہیں بڑھا رہے تھے۔ پھر جب انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خوفزدہ محسوس کر کے اپنی حیثیت کو واضح کردیا تو اسکے بعد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس بھنے ہوئے گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس بچھڑے کو دوبارہ زندگی بخش دی ۔ اور وہ دوڑ کر اپنی ماں کے پاس چلا گیا ۔ اسی دوران حضرت سارہ ؓ نے اوپر چھت کی طرف نظر اٹھائی ، جہاں بوسیدہ اور گلی سڑی لکڑیاں پڑی ہوئی تھیں ، تو انہوں نے دیکھا کہ وہ بوسیدہ لکڑیاں آنا ً فانا ً سر سبز ہوگئی ہیں اور ان میں پتے نکل آئے ہیں اور اس طرح وہ دوبارہ درخت کی صورت میں سامنے آگئیں ۔ ان دو واقعات سے حضرت سارہ ؓ کو یقین ہوگیا کہ جو پروردگار بھنے ہوئے بچھڑے کو دوبارہ زندگی دے سکتا ہے اور جو خشک لکڑیوں کو ہرے بھرے درخت میں تبدیل کرسکتا ہے ، وہ مجھ جیسی بوڑھی اور بانجھ عورت کو اولاد بھی دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرشتوں نے حضرت سارہ ؓ سے کہا قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللہ ِ رَحْمَتُ اللہ ِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ (ھود : 73) کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو ، اے اہل بیت ! تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ۔ قوم لوط کے لیے عذاب جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حقیقت حال کا علم ہوگیا اور بشارت والی بات بھی مکمل ہو کر آپ کی تسلی ہوگئی تو فرشتوں سے کہنے لگے قال فما خطبکم ایھا المرسلون اے اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں ! تمہارے آنے کی اصل غرض کیا ہے ؟ بشارت والی ضمنی بات تو ہوگئی ، اب آگے تمہارا کیا پروگرام ہے قالو انا ارسلنا الی قوم مجرمین کہنے لگے ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ لنرسل علیھم حجارۃ من طین تا کہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں اس سے مراد کھنگر ہیں ۔ جو مٹی سے بنا کر آگ میں پکا لیے جاتے ہیں اور یہ ایسے پتھر ہیں ۔ مسومۃ عند ربک للمسرفین جن پر تیرے پروردگار کے ہاں نشان لگے ہوئے ہیں اسراف کرنے والوں کے مطلب یہ کہ قوم لوط کے لوگ اپنے جرائم میں حد سے بڑھ گئے ہیں ان کی تباہی کا وقت آ چکا ہے ۔ اب ہر پتھر اس نافرمان پر پڑ کر اسے ہلاک کردے گا ۔ جس کا نام اس پر لکھا ہوا ہے۔ یہ مجرم لوگ مشرق اردن میں علاقہ سدوم کے باشندے تھے ان کے چھ بڑے بڑے شہر تھے جن کی آبادی چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ کچھ دیہات بھی تھے ، بڑا سر سبز علاقہ تھا ، تجارت اور زراعت دونوں عروج پر تھیں ۔ بڑے خوشحال لوگ تھے۔ مگر ہم جنسی جیسی قبیح بیماری میں مبتلا ہوچکے تھے ۔ اس قوم سے پہلے اس بیماری کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا ، گویا یہی اس کے موجد تھے ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) تیس چالیس سال تک لوگوں کو تبلیغ کرتے رہے اور ان کو برے انجام سے ڈراتے دھمکاتے رہے مگر انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی ، بلکہ کہنے لگے اَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَـتِـکُمْج اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ (الاعراف : 82) کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو ، یہ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں اور ہمیں ناپاک کہتے ہیں ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے قوم سے یہی کہا تھا قال انی لعملکم من القالین ( الشعراء : 168) میں تو تمہارے اس کام سے سخت بیزار ہوں ۔ تم بڑا ذلیل کام کرتے ہو ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں سنگساری کی سخت ترین تزا دی ، اللہ نے زمین کو بھی تہہ وبالا کردیا ، اور اوپر سے پتھروں کی بارش کی ، جس سے ساری قوم ہلاک ہوگئی ۔ فعل لواطت کی حیثیت کے متعلق ائمہ کرام کا قدرے اختلاف ہے۔ بعض اسے زنا کے برابر قرار دیتے ہیں اور اس پر بھی حد زنا جاری کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ تا ہم امام ابوحنیفہ (رح) اور بعض دیگر ائمہ اسے زنا میں تو شمار نہیں کرتے البتہ اس جرم پر سخت ترین تعزیر لگانے کا حکم دیتے ہیں ۔ جو قید و بند کوڑے یا سزائے موت تک بھی ہو سکتی ہے۔ اہل ایمان کا اخراج فرمایا نافرمان لوگ تو سارے کے سارے تباہ ہوگئے ۔ فاخرجنا من کان فیھا من المومنین البتہ ہم نے اہل ایمان لوگوں کو اسی بستی سے نکال لیا اور اس طرح وہ عذاب الٰہی سے بچ گئے ۔ اللہ نے فرمایا کہ ساری بستی میں فما وجدنافیھا غیر بیت من المسلمین پس نہ پایا ہم نے وہاں کوئی بھی اہل ایمان سوائے ایک مسلمان گھرانے کے ، ظاہر ہے کہ وہ گھرانہ صرف لوط (علیہ السلام) کا تھا جو اللہ کی گرفت سے بچ گئے ۔ آپ کے ساتھ آپ کی بچیاں تھیں۔ بیوی بھی کافرہ تھی اور وہ بھی باقی قوم کے ساتھ ہی ہلاک ہوگئی ۔ فرمایا وترکنا فیھا ایۃ للذین یخافون العذاب الالیم اس سارے واقعہ میں ہم نے ایک نشانی چھوڑی ہے مگر ان لوگوں کیلئے جو درد ناک عذاب سے خوف کھاتے ہیں ۔ یہ نشانی وہی کھنگر ہیں جو عرصہ دراز تک موقع پر پڑے رہے۔ وہاں سے گزرنے والے اپنی آنکھوں سے اس تباہ حال بستی کو دیکھتے تھے اور اس سے عبرت حاصل کرتے تھے ، یہ اتنا سخت عذاب تھا کہ نہ صرف ہنستی بستی آبادیاں کھنڈرات کا ڈھیر بن گئیں ، بلکہ سمندر کا پانی بھی زہریلا ہوگیا جسے اب بحر میت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اب اس سمندر میں کوئی آبی جانور مینڈک مچھلی وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ اللہ نے اسی دنیا میں جزائے عمل کا ایک ادنیٰ سا نمونہ پیش کیا ہے اور پھر قیامت کے بڑے حادثے کا حال بھی بتلایا ہے۔
Top