Mualim-ul-Irfan - Adh-Dhaariyat : 38
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
وَفِيْ مُوْسٰٓى : اور موسیٰ میں اِذْ اَرْسَلْنٰهُ : جب بھیجا ہم نے اس کو اِلٰى فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف بِسُلْطٰنٍ : ایک دلیل کے ساتھ مُّبِيْنٍ : کھلی
اور موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ( نشانی ہے) جب کہ ہم نے بھیجا ان کو فرعون کی طرف کھلی سند دے کر
ربط آیات گزشتہ درس میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا حال ذکر ہوا پوری قوم میں ایک گھرانے کے سوا کوئی بھی خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والا نہیں تھا۔ یہ واقعہ دراصل جزائے عمل کی حقانیت کے سلسلے میں ہی پیش کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا میں بعض اقوام کو ان کے برئے انجام سے دو چار کر کے بتلا دیا کہ وہ آخرت میں بحیثیت مجموعی بھی ہر فرد کو اس کی کارکردگی کا بدلہ دینے پر قادر ہے۔ گزشتہ آیات میں فرمانبرداروں کے نمونہ کے طور پر اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا اور ساتھ ساتھ نافرمان اقوام کے پانچ واقعات بطور تمثیل بیان کیے ہیں ۔ مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ گزشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے پوچھا کہ تمہارے آنے کا مقصد کیا ہے ، تو انہوں نے کہا کہ ہم لوط (علیہ السلام) کی مجرم قوم کو سزا دینے کے لیے آئے ہیں ، چناچہ لوط (علیہ السلام) کے ایماندار گھرانے کو بستی سے نکال کر پوری بستی کو الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش بھی ہوئی جس کی وجہ سے پوری قوم سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچا بلکہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ فرعونیوں کی ہلاکت اب آج کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ کو بھی بطور نشانی پیش کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے و فی موسیٰ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی نشانی موجود ہے۔ اس میں غور و فکر کرنے سے وقوع قیامت اور جزائے عمل کی بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ فرمایا اذا ارسلنہ الی فرعون بسلطن مبین جب کہ بھیجا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف کھلی سند کے ساتھ ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو واضح تعلیم ، واضح معجزات اور دلائل وبراہین عطا فرمائے موسیٰ (علیہ السلام) کی نو واضح نشانیوں میں سے عصا اور ید بیضا خاص اہمیت کی حامل تھیں جب موسیٰ (علیہ السلام) یہ معجزات لے کر فرعون کے پاس گئے فتولی برکنہ تو اس نے اپنی پوری قوت کے ساتھ آپ کی دعوت سے روگردانی کی ، رکن کا معنی پہلو اور طاقت دونوں آتے ہیں اور اس مقام پر دونوں مراد ہو سکتے ہیں ۔ اگر رکن کا معنی پہلو کیا جائے تو مطلب ہوگا کہ فرعون نے آپ کی دعوت سے پہلو تہی کی یعنی اس سے بچنے کی کوشش کی ، اور اگر اس کا معنی قوت لیا جائے تو یہ بھی درست ہے کہ اس نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ دعوت توحید کا انکار کیا ۔ رکن بمعنی طاقت حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی استعمال ہوا ہے۔ قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ (ھود : 80) لوط (علیہ السلام) نے ناہنجار قوم سے کہا کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا وہ طاقتور ہستی ہوتی جس پر بھروسہ کیا جاسکتا اور ظاہر ہے طاقتور ترین ہستی خدا کی ذات ہی ہو سکتی ہے بہر حال فرعون نے ساز و سامان اپنے امراء اور لشکر کی قوت کے بل بوتے پر موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت اور آپ کے پیغام کا انکار کیا ۔ وقال سحر اور کہنے لگا کہ یہ شخص تو جادوگر ہے اور اپنے دعویٰ نبوت میں سچا نہیں ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر ان پر ایمان لانے کی بجائے انہیں جادو کا کرشمہ کہہ کر ٹال دیا ۔ بعض دوسری سورتوں میں موجود ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے خود نشانیاں طلب کی تھیں ۔ سورة الشعراء میں موجود ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی دعوت توحید دی تو وہ کہنے لگا ، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمہیں قید میں ڈال دوں گا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خواہ میں تمہارے پاس کوئی واضح چیز لے آئوں ؟ قال فات بہ ان کنت من الصدقین ( آیت : 31) تو فرعون کہنے لگا ، لے آئو اگر تم سچے ہو ، مگر جب آپ نے واضح نشانیاں پیش کردیں تو کہنے لگا کہ یہ تو جادوگر ہے او مجنون یا یہ دیوانہ ہے جو ہمارے نظم و نسق کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے آبائو اجداد کے رسم و رواج اور دین کو بدل کر ہمارے معاشرے میں خرابی پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اس مقام پر اللہ نے نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جب فرعون اور اس کی قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ کو ختم ہی کردینا چاہا اور آپ کے سخت دشمن بن گئے فاخذنہ و جنودہ تو ہم نے پکڑ لیا فرعون کو بھی اور اس کے لشکر کو بھی فنبذنھم فی الیم اور ہم نے انہیں دریا میں پھینک دیا اس حالت میں وھو ملیم کہ وہ قابل ملامت تھا۔ اللہ نے قیامت تک کے لیے فرعون پر لعنت مسلط کردی ہے۔ اب ہر شخص اس پر لعنت کرتا ہے ، اور قیامت والے دن بھی فرعون بمع اپنی قوم لعنت ہی کا شکار بنے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون سمیت پورے لشکر کو بحر قلزم میں غرق کردیا اور فرعون کی لاش کو عبرت کے لیے باقی رکھا جو آج بھی لوگوں کے لیے باعث عبرت بنی ہوئی ہے ، جو بھی اس کو دیکھتا ہے ، اس پر لعنت ہی بھیجتا ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ قرآن پاک میں چھپالیس مرتبہ سے زیادہ بیان ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ بائیبل میں بھی مذکورہ ہے اور تاریخ کے اوراق میں بھی محفوظ ہے۔ اس واقعہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے جزائے عمل ہی کے سلسلہ میں کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو خدا کسی نافرمان کو اس دنیا میں سزا دے سکتا ہے وہ آخرت میں بھی جائے عمل پر قادر ہے۔ قوم عاد کا حال اس کے بعد اللہ نے قوم عاد کا حال بیان کیا ہے و فی عاد اور قوم عاد میں بھی نشانی ہے۔ یہ بھی بڑے طاقتور اور جبار لوگ تھے ، اقتدار کے مالک تھے ، ان کے پاس بےشما ر وسائل تھے اور بڑے خوشحال تھے ۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہو دعلیہ السلام تقریباً چار سو سال تک اس قوم کو وعظ و نصیحت کرتے رہے مگر جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی (رح) نے اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے ، ان میں سے بہت کم لوگ ایمان لائے ، پھر جب ان کی نافرمانی حد سے تجاوز کرگئی تو اللہ کا غضب جوش میں آ گیا اذارسلنا علیھم الریع العقیم جب کہ ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی یعنی ایسی ہوا جو خیر و برکت سے خالی تھی ۔ ا س ہوا کے متعلق سورة الحاقہ میں آتا ہے سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ (آیت : 7) خدا تعالیٰ نے اس کو ان لوگوں پر سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل چلایا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا ما تذرمن شی اتت علیہ الا جعلتہ کالرمیم کہ وہ جس چیز پر چلتی تھی اس کو چورا چورا کر کے چھوڑتی تھی ۔ رمیم بوسیدہ ہڈیوں یا خشک گھاس یا لکڑی وغیرہ کو بھی کہا جاتا ہے جو ذرا سا چھیڑنے سے ریزہ ریزہ ہوجائے ، تو یہ ہوا اتنی تند تھی کہ جس چیز کو لگتی تھی اسے تہس نہس کردیتی تھی ۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو اس تند ہوا کے ذریعے ہلاک کیا ، اور فرمایا کہ اس میں بھی جزائے عمل کی نشانی ہے۔ ہوائوں کے اثرات اس سورة کی ابتداء اللہ تعالیٰ نے ہوائوں کی قسم اٹھا کر کی تھی والذریت ذرواً قسم ہے بکھیرنے والی ہوائوں کی جو گرد و غبار کو اڑاتی ہیں ۔ یہ ہوا ہی ہے جو مختلف حالتوں میں روز مرہ مشاہدے میں آتی ہے۔ جب یہ تیز ہوتی ہے تو آندھی بن جاتی ہے گرم ہو تو لو ۔ اور جب ٹھنڈی ہو تو ہر چیز کو یخ بستہ کرتی چلی جاتی ہے ۔ پھر یہی ہوا ، جب نرمی اور آہستگی سے چلتی ہے تو باد نسیم بن کر انسانوں ، جانوروں اور نباتات کے لیے خوش کن بن جاتی ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے میری مدد مشرقی ہوا صبا کے ساتھ فرمائی ہے ، جنگ احزاب کے موقع پر جب کفار نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا تھا اور مدینے کے مسلمان سخت آزمائش میں مبتلا ہوگئے اس وقت اللہ نے مشرق کی طرف سے ٹھنڈی ہوا چلائی جس سے دشمن کے خیمے اکھڑ گئے اور وہ جم نہ سکے اور بالآخر ان کو محاصرہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اللہ نے فرمایا کہ اس موقع پر اہل ایمان کی تقویت کے لیے فرشتے بھی موجود تھے اور ادھر ہوا بھی اپنا کام کر رہی تھی ۔ گویا اللہ نے مشرقی ہوا کے ذریعے حضور ﷺ کی مدد فرمائی ۔ اس کے بر خلاف قوم عاد پر اللہ نے مغرب سے گرم ہوا ( دبور) مسلط کی جس نے ان کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا ۔ وفد عاد کا تذکرہ ترمذی شریف کی روایت میں یہ تفصیل موجود ہے کہ علاقہ سبا کے رہنے والے قبیلہ ربیعہ کے ایک صحابی حارث ابن یزید ؓ مدینہ طیبہ آئے ۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ جب میں یہاں پہنچا تو اس وقت مسجد نبوی لوگوں سے بھری ہوئی تھی ، جھنڈے جھول رہے تھے اور حضرت بلال ؓ تلوار لٹکائے حضور ﷺ کے سامنے حاضر تھے میں نے پوچھا کہ سب لوگوں کے جمع ہونے کی کیا وجہ ہے تو لوگوں نے مجھے بتلایا کہ حضور ﷺ حضرت عمر ابن العاص ؓ کی قیادت میں ایک لشکر جہاد پر روانہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سب لوگ جمع ہیں ۔ حضرت حارث ؓ کا بیان ہے کہ پھر میرا ذکر حضور ﷺ کی خدمت میں بایں الفاظ کیا گیا کہ عاد کی سر زمین سے ایک وفد آیا ہے۔ جب میں نے اپنا تعارف اس طریقے سے سنا تو فوراً کہا ۔ اعوذ باللہ ان اکون مثل وافد عاد پناہ بخدا کہ میں وفد عاد کی طرح بن جائوں ۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیوں بھائی اس وفد میں کیا خرابی کی بات تھی جو تجھے ناپسند ہے تو میں نے عرض کیا ، حضور ! یہ ہزاروں سال پرانا واقعہ ہے مگر زبان زد عام ہو نیکی وجہ سے مشہور ہے جس کا ذکر تفسیری روایات میں بھی ملتا ہے ۔ ایک دفعہ قوم عاد پر سخت قحط پڑا ، تین سال تک بارش کا ایک قطرہ نہ گرا جس کی وجہ سے انسان اور جانور ہلاک ہونے لگے ۔ اس زمانے میں خانہ کعبہ کی عمارت تو گر چکی تھی ، صرف ایک ٹیلہ سا باقی تھا مگر پھر بھی وہاں آ کر لوگ دعائیں کیا کرتے تھے کیونکہ یہ خطہ ہمیشہ سے متبرک رہا ہے ۔ قحط سالی سے تنگ قوم عاد نے اپنے ایک سردار کی قیادت میں ایک وفد مکہ بھی جاتا کہ جا کر دعا کریں ، تا کہ اللہ تعالیٰ قحط سالی کو دور فرمائے۔ یہ وفد مکہ کے قریب ایک شخص بکر ابن معاویہ کے پاس مہمان ٹھہرا ۔ میزبان نے بڑی عزت و تکریم سے وفد کو اپنے ہاں ٹھہرایا اور ان کی خوب خاطر مدارت کی ۔ اچھا کھانا کھلاتا رہا ، شراب کے جام چلتے رہے ، گانے بجانے والی لونڈیاں دل بہلاتی رہیں ۔ حتیٰ کہ اسی عیش و آرام میں ایک ماہ گزر گیا اور وفد جس کام یعنی دعا کے لیے آیا تھا وہ مؤخر ہوگیا ۔ پھر وہ وفد وہاں سے نکل کر مکہ کی پہاڑیوں جبال مہرہ پہنچا اور دعا کی پروردگار ! کہ میں کسی بیمار کی شفا یابی کی درخواست لے کر نہیں آیا ، اور نہ ہی میں کسی قیدی کی رہائی کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ میری درخواست یہ ہے کہ جس طرح تو پہلے ہماری قوم کو سیراب کرتا تھا۔۔۔ اب بھی سیراب فرما یعنی بارش نازل فرما کر قحط سالی دور کرے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ جس شخص کے پاس میں مہمان ٹھہراہوں اس کو سیراب فرما۔ قوم عاد کی تباہی اس وقت آسمان پر تین قسم کے بادل نمودار ہوئے یعنی سفید ، سرخ اور سیاہ ، ان بادلوں سے آواز آئی اختر یعنی ان میں سے جو تمہیں پسند ہے اس کو اختیار کرلو ۔ وفد کے سردار نے سیاہ بادل کو پسند کیا کیونکہ عام طور پر کالی گھٹا بارش لاتی ہے۔ وفد اور قوم کے لوگ خوش ہوگئے کہ کالی گھٹا چھائی ہے۔ اب بارش ہوگی اور سارا علاقہ جل تھل ہوجائے گا ۔ سورة الاحقاف میں ہے ۔ قالواھذا عارض ممطرنا ( آیت : 24) کہ وہ کہنے لگے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا مگر اللہ نے فرمایا بل ھو ما استعجلتھم بلکہ یہ تو وہ چیز ہے جس کے لیے تم جلدی کرتے تھے۔ یعنی یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم پر ہوا کی صورت میں عذاب آ رہا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ ہوا کوئی بہت زیادہ نہیں تھی ، بلکہ صرف انگوٹھی کے حلقے جتنے حصے سے چھوڑی گئی تھی جو سات رات اور آٹھ دن تک متواتر چلتی رہی ۔ یہ ہوا جس چیز پر چلتی تھی اسے چور ا چورا کر کے رکھ دیتی تھی ۔ پوری قوم میں سے سوائے ایماندار آدمیوں کے کوئی بھی زندہ نہ بچا ۔ اس ہوا نے عادیوں کو زمین سے اٹھا اٹھا کر پٹخ دیا اور پھر ان کی لاش زمین پر اس طرح پڑی تھیں ۔ کانھم اعجاز نخل خاویۃ ( الحاقہ : 7) گویا کہ کھجوروں کے بڑے بڑے تنے ہوں۔ قوم ثمود کی تباہی آگے اللہ نے قوم ثمود کا نمونہ بھی پیش کیا ہے و فی ثمود اور قوم ثمود میں بھی جزائے عمل کی نشانی موجود ہے۔ یہ بڑے متمدن ، صناع اور کاریگر لوگ تھے۔ پہاڑوں کو تراش کر نقش و نگار والی عالیشان عمارتیں بناتے تھے۔ ان کی تعمیر کردہ میدانی علاقوں کی عمارات بھی قابل دید تھیں ۔ اس قوم نے اپنے نبی صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور قیامت اور جزائے عمل کا انکار کیا ۔ بالآخر ان سے کہا گیا اذ قیل لھم تمتعوا حتی حین چند دن کے لیے فائدہ اٹھا لو ۔ فعتوا عن امر ربھم مگر انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی اختیار کی فاخذتہم الصعفۃ پس ان کو ایک کڑک چیخ نے پکڑ لیا ۔ وھم ینظرون اور وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ان کی حالت یہ ہوگئی فما استطاعوا من قیام ان میں کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی ۔ سورة الاعراف میں ہے فاصبحوا فی دارھم جثمین ( آیت : 78) وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ وما کانوا منتصرین اور وہ کسی سے بدلہ لینے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ وہ اللہ کی گرفت میں آ چکے تھے ، بھلا بدلہ کس سے لیتے ؟ قوم عاد کا حال یہ تھا کہ اللہ نے فرمایا واذا بطشتم بطشتم جبار ین ( الشعرائ : 130) جب تم خود کسی کو پکڑتے ہو تو سخت ظالمانہ طریقے سے گرفت کرتے ہو مگر جب یہ قوم ثمود گرفت میں آئی تو نہ کھڑے ہونے کی طاقت باقی رہی اور نہ کسی سے بدلہ لے سکے ، ان کی تمام غلط کاریاں ختم ہو کر رہ گئیں۔ قوم نوح کی غرقابی اس کے بعد اللہ نے پانچواں نمونہ قوم نوح کا بیان فرمایا ہے وقوم نوح من قبل اس سے پہلے یعنی قوم عاد وثمود سے پہلے قوم نوح کا واقعہ بھی قابل غور ہے ۔ اس کو بھی اللہ نے جزائے عمل کے نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی لمبے عرصے تک تبلیغ اور قوم کا انکار قرآن میں متعدد سورتوں میں مذکور ہے بلکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے نام سے ایک مستقل سورة نوح بھی ہے آپ ساڑھے نو سال تک قوم کو اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے مگر نتیجہ کیا نکلا ما امن معہ الا قلیل ( ھود : 40) بہت ہی کم لوگ ایمان لائے یعنی اسی کے قریب افراد جو آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے۔ باقی ساری قوم انھم کانوا قوما ً فسقین نافرمان ہی رہی ۔ سورة الاعراف میں اسے قوما عمین ( آیت : 64) اندھی قوم کہا گیا ہے۔ اللہ نے اس قوم کو بھی طوفان میں غرق کردیا ۔ فرمایا جس طرح ہم نے مختلف قوموں کو دنیا میں سزا دی ، اسی طرح پوری نسل انسانی کا بھی محاسبہ ہوگا اور جزائے عمل واقع ہو کر رہے گی ۔
Top