Mualim-ul-Irfan - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور نہیں پیدا کیا میں نے جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے تا کہ وہ میری عبادت کریں
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں زیادہ تر منکرین قیامت کا رد ہوا ہے ، اور اب آخر میں اللہ نے اس کی طرف رجوع کرنے اور اپنی توحید کا مسئلہ بیان فرمایا ہے ۔ گزشتہ درس میں منکرین رسالت کا تذکرہ کیا اور اللہ کے نبی کو ساحر اور مجنون کہنے والوں کی مذمت بیان کی ۔ پھر آخر میں اپنے نبی کو تسلی دی اور ساتھ ساتھ لوگوں کو نصیحت کرنے کا حکم دیا ۔ اللہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ آپ اپنا کام کرتے چلے جائیں ، آپ کی نصیحت سے اہل ایمان ہی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ مقصد تخلیق جن و انس آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی تخلیق کی غرض وغایت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وما خلقت الجن والانس الا لیبعدون میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ بعض مفسرین اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے تا کہ وہ مجھے پہچان لیں ” یا “ میری توحید کو مان لیں ۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ لفظ عبادت تو عام ہے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنی کون سی عبادت کے لیے جنوں اور انسانوں کی تخلیق فرمائی ہے ؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس عبادت میں دو چیزیں شامل ہیں یعنی التعظیم لامر اللہ ( اللہ کے حکم کی تعظیم کرنا) والشفقۃ علی خلق اللہ ( اور مخلوق خدا پر شفقت و مہربانی کرنا) مقصد یہ ہے کہ عبادت کی یہ دو قسمیں تو عام جنوں اور انسان کے لیے مشرک ہیں ۔ مگر باقی عبادت ہر دو انواع اپنی اپنی شرائع کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔ چار ضروری خصلتیں حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے سلسلے میں چار خصلتیں تمام سابقہ امتوں اور ہماری امت میں بھی برابر ضروری ہیں فرماتے ہیں کہ پہلی خصلت طہارت ہے۔ انسان کا جسم اور لباس بھی پاک ہو اور اس کی روح اور عقیدہ بھی پاک ہو۔ طہارت کے خلاف ہر چیز نجاست ہے ۔ خواہ وہ ظاہری نجاست ہو یا اعتقاد ، اخلاق اور عمل کی نجاست ہو ۔ انسان کی ہر حالت میں ظاہری باطنی طہارت کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور کفر ، شرک ، نفاق اور بد عقیدگی سے بچنا چاہئے کہ طہارت کا یہی تقاضا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دوسری ضروری خصلت انبات یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنا ہے۔ انسان کو غرور وتکبر سے بچنا چاہئے ، کیونکہ یہ بہت بری خصلت ہے ۔ اس کی بجائے انسان کو عجز و انکساری کا پتلا ہونا چاہئے۔ تیسری چیز سماحت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی خسیس چیزوں سے بچ جائے اور اچھی باتوں کو اختیار کرلے۔ اسی کا دوسرا نام تقویٰ ہے۔ تمام امم میں چوتھی مشترک چیز عدالت ہے۔ انسان کو اپنے بیگانے ہر ایک کے حق میں انصاف کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ عدل کرو کیونکہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے عدل کے بالمقابل ظلم و جور ہوے جو کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ۔ صحت عبادت کے لیے لازمہ عبادت ایک عام چیز ہے جسے دہریوں کے سوا تمام اہل مذاہب ادا کرتے ہیں ۔ یہود ، نصاریٰ ، ہنود ، مشرک ، مجوسی اور بدھ مت والے سارے ہی اپنے اپنے طریقہ پر خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ مگر صحیح عبادت کے لیے خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی صحیح پہچان ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر عبادت کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔ صحت عبادت کے لیے خدا تعالیٰ کی تنزیہہ کا اقراء بھی ضروری ہے ، یعنی انسان اس اعتقاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے کہ وہ عیب اور نقص سے پاک ہے اور تمام خوبیوں کا مالک ہے ، انسان کے قلب و ذہن میں یہ بات بھی راسخ ہونی چاہئے کہ وہ جس ذات کی عبادت کر رہا ہے اسے تمام اسباب پر کنٹرول حاصل ہے۔ وہ نافع اور ضار ہے ، قادر مطلق اور علیم کل ہے۔ بہر حال اس عقیدے کے تحت جو انتہائی درجے کی تعظیم ہوگی وہی صحیح عبادت ہوگی ۔ خواہ وہ قیام کی صورت میں ہو ، رکوع یا سجدہ ہو یا نذر و نیاز کی صورت میں ہو ۔ غرضیکہ عبادت کی مختلف شکلیں ہیں اور یہ اس وقت تک ٹھکانے نہیں لگ سکتی جب تک خدا تعالیٰ کی صحیح پہچان نہ ہو۔ عبادت کا فائدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا تاکیدا ً حکم دیا ہے ، کیا خدا کی عبادت بجا لانے میں اس کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے ؟ فرمایا ما ارید منھم من رزق میں اپنی عبادت کرو کے اپنے بندوں سے کوئی روزی تو طلب نہیں کرتا ۔ دنیا کا یہ دستور تو ہے کہ آقا اپنے غلام یا نوکروں کی کمائی کھاتے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ تو ان چیزوں سے پاک ہے اسی لیے اس نے تاکیدا ً واضح کردیا ہے۔ وما ارید ان یطعمون میں نہیں چاہتا کہ یہ لوگ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تعالیٰ تو کھانے پینے سے پاک ہے ، وہ تو خود اپنی مخلوق کو روزی پہنچاتا ہے ۔ اس کو رزق کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے ؟ فرمایا ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین بیشک روزی رساں تو وہی ہے ۔ وہ تو خود ساری مخلوق کا رزاق ہے اور مضبوط طاقت کا مالک ہے ، اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس نہ کسی کی عبادت کی ضرورت ہے ، نہ خدمت کی بلکہ عبادت کرنے میں خود بندے کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب تک انسان اور جن صحیح طریقے پر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہیں گے ان کا ملکی مزاج درست رہے گا اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے چلے جائیں گے ۔ حتیٰ کہ اللہ کا حکم ہوگا فادخلی فی عبدی ( الفجر : 29) میرے بندوں میں یعنی ” خطیرۃ القدس “ میں داخل ہو جائو ۔ مطلب یہ کہ عبادت کرنے میں خود انسان ہی کا فائدہ ہے۔ شاہ صاحب (رح) وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مزاج کی درستگی کا مطلب یہ ہے کہ جو خوراک اللہ نے کسی جاندار کے لیے فطری طور پر مقدر کی ہے ، اسے استعمال کر کے اس کا مزاج درست رہے گا ۔ اور اگر وہ غیر فطری خوراک کھانے لگے تو اس کا مزاج بگڑ جائے گا ۔ اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری وغیرہ جب تک گھاس سبزہ وغیرہ کھاتے رہیں گے۔ ان کا مزاج صحیح رہے گا ۔ اور اگر یہ گوشت کھانا شروع کردیں تو مزاج خراب ہوجائے گا ۔ اسی طرح اگر گوشت خور درندے گھاس کھانے لگیں تو ان کا مزاج بگڑ جائے گا ۔ اس کلیہ کے مطابق جب تک جن اور انسان خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہیں گے ، ان میں پاکیزہ اخلاق پیدا ہونگے اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے چلے جائیں گے۔ بر خلاف اس کے اگر وہ عبادت الٰہی کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے تو تنزل کے گڑھے میں جا گریں گے۔ بہر حال عبادت کرنے کا فائدہ خود انسان کو ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو خطاب کر کے فرماتے ہیں یا ابن ادم تفرع لعبادتی املاء صدرک بالغنی ولاتفعل املا صدرک شغلا ً اے آدم کے بیٹے اپنے آپ کو میری عبادت کے لیے فارغ کر دے تو میں تیرے سینے کو غنی سے بھر دوں گا اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے سینے بیہودہ چیزوں سے بھر دوں گا اور تمہارا فقیر بھی دور نہیں ہوگا ۔ رزق کی ذمہ داری امام احمد (رح) نے اپنی مسند میں دو صحابہ صبا ؓ اور سوا ؓ کا ذکر کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات جب حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ اپنے ہاتھ سے کسی چیز کو ٹھیک کر رہے تھے مگر وہ درست ہونے میں نہیں آ رہی تھی اور اس کے لیے آپ کافی مشقت برداشت کر رہے تھے۔ حضور ﷺ اس کام سے فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہوئے ، ہمارے لیے دعا فرمائی اور ساتھ یہ بھی فرمایا لا تایئسا من رزق اللہ تم دونوں اللہ تعالیٰ کی روی سے کبھی ناامید نہ ہونا کیونکہ رزق کا سلسلہ اللہ نے اپنے تصرف میں رکھا ہے اور اس کو کسی مخلوق کے سپرد نہیں کیا فرمایا ان الانسان تلدامہ احمر انسان کی ماں اسے سرخ لوتھڑے کی شکل میں جنم دیتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو روزی بہم پہنچاتا ہے اور اس کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔ لہٰذا رزق سے کبھی مایوس نہ ہونا ، خدا کی عبادت کرتے رہنا اور اسی کی ذات پر بھروسہ رکھنا ۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے میں حکومتوں نے اپنے آپ کو رزاق کا درجہ دے دیا ہے۔ سرکاری سطح پر ہمیشہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وسائل رزق کی کمی کے پیش نظر آبادی کو بڑھنے سے روکو ۔ خود تو صاحبان اقتدار حکومتی خزانے سے عیش و عشرت کر رہے ہوتے ہیں اور دوسروں کے سامنے وسائل کی کمی کا رونا رو کر انہیں آبادی میں اضافے سے روکتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو شرائع الٰہیہ کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خد ا تعالیٰ کا منشاء تو یہ ہے کہ جائز ذرائع سے مال حاصل کرو۔ اور صحیح طریقے پر تقسیم کرو ، مگر یہاں تو نہ حصول صحیح ہے اور نہ اخراجات مناسب ہیں ، ہر جگہ افراد وتفریط کا دور دورہ ہے ، بھلا ایسے میں دنیا کی معاشی اور معاشرتی حالت کسے سدھر سکتی ہے ؟ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے اجملوا فی الطلب اچھے طریقے سے کمائو ، جائز پیشہ اختیار کرو اور ناجائز ذرائع سے کوئی چیز حاصل نہ کرو۔ اگر تمہاری آمدنی جائز ہوگی تو تمہارے اخراجات بھی درست ہو گے ۔ اگر کمائی حرام ہے تو پھر مال حرام بود بجائے حرام رفت والا معاملہ ہی ہوگا۔ امام ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں میں یہ چیز لکھی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خطاب کر کے فرمایا ” یا ابن ادم خلقتک لعبادتی فلا تعلب “ اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا محض کھیل کود میں ہی مشغول نہ ہوجانا ، تم اپنے مقصد کو پہچانو ، تمہاری روزی کا کفیل میں ہوں اور کسی نہ کسی طریقے سے تمہیں ضرور روزی پہنچائوں گا ۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالو ۔ فرمایا اگر مجھے تلاش کرو گے تو پالو گے۔ میری عبادت کرو گے تو میری خوشنودی حاصل ہوگی اور اگر میری مخلوق کی خدمت کرو گے تو میری رضا کو پا لو گے ، اگر تم نے مجھے پا لیا تو گویا ہر چیز کو پا لیا ، اور اگر مجھے نہ پا سکے تو تمہارے ہاتھ سے ہر چیز نکل گئی ۔ پھر تم ایسی حالت میں ہو گے کہ تمہاری نزدیک میری ہستی سے زیادہ اچھی ہوگی لیکن تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ عبادت سے اعراض کیوں اللہ نے تو جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے منشاء کے مطابق یہ مخلوق اس کی عبادت کیوں نہیں کرتی ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حکم دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ایک حکم تکوینی ہے جس کے سامنے ساری مخلوق مجبور ہے اور اسے تسلیم کرتی ہے۔ چاند ، سورج ، ارض و سما ، شجر ، حجر سب اللہ کے حکم تکوینی کے پابند ہیں اور ہر حالت میں اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی اللہ کی مقرر کردہ ڈیوٹی سے سر مو بھی انحراف نہیں کرتا ، بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے کام پر لگا ہوا ہے حکم کی دوسری قسم تشریعی ہے ۔ اس حکم کی تعمیل مخلوق اپنی نیت اور ارادے سے کرتی ہے ، مثلاً ایمان لانا ، عبادت کرنا ، حلت و حرمت کا خیال رکھنا وغیر تشریعی احکام ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے کسی کو مجبور نہیں کیا ۔ اگر حکم کی تعمیل کرے گا تو انعام پائے گا ۔ وگرنہ سزا کا مستحق ٹھہرے گا ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا جنوں اور انسانوں کے لیے تشریعی حکم ہے ، لہٰذابعض ان میں سے حکم کی تعمیل کرتے ہیں جب کہ اکثر اس سے اعراض ہی کرتے ہیں ۔ بعض فرماتے ہیں لیعبدون کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تمام جنوں اور انسانوں میں عبادت کرنے کی صلاحیت رکھ دی ہے ، اب یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ اس صلاحیت سے فائدہ اٹھا کر نفع کا سودا کرتے ہیں ۔ یا اس صلاحیت کو ضائع کر کے خسارے میں پڑجاتے ہیں ۔ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ کل مولود یولد علی فطرۃ ہر نومولود اپنی فطرت سلیمہ پر ہی پیدا ہوتا ہے ۔ مگر بعد میں ماحول کے اثرات اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی وہ مجوسیت کا شکار ہوجاتا ہے یا کفر و شرک میں پھنس جاتا ہے تا ہم ہر جن و انس کی فطرت کا یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کی عبادت بجا لائیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے فان للذین ظلموا بیشک ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ۔ ظاہر ہے کہ ظلم میں سر فہرست ، کفر ، شرک ، انکار قیامت ، معاصی ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اتلاف ، تعدی اور زیادتی وغیرہ آتے ہیں ، مگر عقیدے کا ظلم ان سب سے بڑھا ہوا ہے ۔ اللہ نے فرمایا ان الشرک لظلم عظیم ( القمان : 13) بیشک سب سے بڑا ظلم اشرا ک باللہ ہے نیز فرمایا والکفرون ھم الظلمون ( البقرہ : 254) کفر کرنے والے ہی ظالم ہیں تو فرمایا جن لوگوں نے ظلم کا ارتکاب کیا ذنوبا ً مثل ذنوب اصحبھم انکے ڈول ان کے ساتھیوں کے ڈولوں کی طرح ہیں ۔ جب کوئی ڈول پانی ڈالا جاتا ہے اور وہ پانی سے بھر جاتا ہے تو پھر اوپر نہیں تیرتا بلکہ ڈوب جاتا ہے ، مطلب یہ کہ ان کی طرح ان کے پرانے ساتھیوں کو بھی پورا پورا موقع دیا گیا مگر وہ کفر ، شرک اور معاصی سے باز نہ آئے جس کی وجہ سے ان کے ڈو ل بھر گئے اور پھر ڈوب گئے۔ اب ان کا بھی یہی حال ہے ، معاصی کی وجہ سے ان کے ڈول بھی ڈوب رہے ہیں ، مگر یہ ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ، لہٰذا ان کا حشر بھی پہلے لوگوں سے مختلف ہیں ہوگا ۔ ان کو عطا کی گئی مہلت قریب الاختتام ہے ، جس کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے ناکام ہوجائیں گے ۔ فرمایا فلا یستعجلون اب یہ جلدی نہ کریں کہ قیامت اور عذاب جلدی آجائے بلکہ یہ وقت عنقریب پورا ہونے والا ہے۔ جب ان کو ان کے کیے کا بدلہ مل جائے گا ۔ کفار کے لیے بربادی سورۃ کی ابتداء اللہ نے ہوائوں کے ذکر سے کی تھی کہ اس نے کس طرح بعض اقوام کو ہوائوں کے ذریعے ہلاک کیا اور ساتھ ساتھ یاد دلایا وان الدین لواقع ( آیت : 6) کہ بدلے کا دن لازما ًواقع ہونے والا ہے۔ اب آخر میں وہی بات دہرائی جا رہی ہے فویل للذین کفروا من یومھم الذین یوعدون پس تباہی ہے کفر کرنیوالوں کے لیے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ان کو آخرت کے دن سے ڈرایا جاتا تھا کہ اس کے لیے تیاری کرلو ، کفر شرک اور عاصی کو ترک کر کے اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئو ۔ مگر وہ جزائے عمل کی بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے آج تک تو کسی کو دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا بھلا ہم وقوع قیامت اور جزائے عمل کو کیسے تسلیم کرلیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے انکار کی وجہ سے وعدے کے اس دن ان کے لیے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
Top