Mualim-ul-Irfan - Adh-Dhaariyat : 7
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِۙ
وَالسَّمَآءِ : اور قسم ہے آسمانوں کی ذَاتِ الْحُبُكِ : راستوں والے
قسم ہے جالی دار آسمان کی
جالی دار آسمان سورۃ کے ابتداء چار جملوں میں اللہ تعالیٰ نے ہوائوں کا ذکر کیا ۔ اور ان سے وقوع قیامت اور جزائے عمل پر دلیل قائم کی۔ اب اسی سلسلے میں آسمان کا ذکر فرمایا ۔ والسماء ذات الحبک قسم ہے جالی دار آسمان کی ۔ حبک کے کئی معنی آتے ہیں ، مثلاً مضبوط کردینا ، گروہ لگانا ، جوڑ دینا اور جالی دار ہونا جس میں تارتا نظر آئیں۔ رات کے وقت چونکہ آسمان بالکل صاف نظر نہیں آتا بلکہ ستاروں کی موجودگی کی وجہ سے جالی دار نظر آتا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ستاروں کا جال بچھا ہوا ہے ، لہٰذ اس کا معنی خوبصورت اور ستاروں سے پر رونق آسمان کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جالیوں سے وہ کہکشاں مراد ہیں جو باریک باریک ستاروں کے ملنے سے سڑک سی بنی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ اس مقام پر جالی دار آسمان سے مراد بادل ہیں ۔ سردی کے موسم میں جب بادل چھا جاتے ہیں اور اگر ان میں کچھ سرخی بھی ہو تو وہ جالی دار معلوم ہوتے ہیں ۔ چونکہ سما کا اطلاق چھت اور بادل پر بھی ہوتا ہے ، اس لیے بعض نے یہ مراد لیا ہے۔ بہر حال حبک کا مصداق یہ تینوں چیزیں بن سکتی ہیں یعنی بارونق ستارے ، کہکشاں یاد بادل ، ان ساری چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا پتہ چلتا ہے جس سے اللہ کی وحدانیت سمجھ میں آتی ہے ، بشرطیکہ انسان اس میں غور و فکر کرے ۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح دن کے بعد اچانک رات آجاتی ہے اور ستاروں سے مزین جالی دار آسمان نظر آنے لگتا ہے۔ اسی طرح قیامت بھی اچانک ہی آجائے گی ۔ جیسا کہ سورة الاعراف میں اللہ کا فرمان ہے لا تاتیکم الا نعتہ ( آیت : 187) کہ یہ تو اچانک ہی وارد ہو جائیگی جبکہ کسی کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا ۔ وقوع قیامت میں اختلافت آگے اسی ضمن میں فرمایا انکم لفی قول مختلف بیشک تم ایک مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو ۔ اس اختلاف سے مراد بھی قیامت کا اختلاف ہے جس کے وقوع کے متعلق لوگوں میں اختلاف پایا جاتا تھا ۔ اس بات کی وضاحت اللہ نے سورة النبا کے آغاز میں بھی کردی ہے عم یتساء لون عن النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون یہ لوگ کس چیز کے متعلق پوچھتے ہیں کسی بڑی خبر کے متعلق ، جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ؟ اگلی سورة میں پیغمبر (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت سے متعلق بھی مختلف باتوں کا ذکر آ رہا ہے ۔ حضور ﷺ کو کوئی شاعر کہتا ، کوئی کاہن ، کوئی جادوگر اور کوئی دیوانہ ، لہٰذا یہ اختلاف وقوع قیامت اور جزائے عمل کے متعلق بھی ہو سکتا ہے اور نبوت و رسالت کے متعلق بھی ۔ تو فرمایا کہ تم ایک مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو یوفک عنہ من افک جزائے عمل یا رسالت پر ایمان لانے سے وہ شخص باز رکھا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ۔ یعنی جس کی عقل ہی ٹھکانے نہیں ہے ان حقائق سے وہی شخص انکار کرے گا جو بصیرت اور فہم سے خالی ہے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اسکی حکمت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، وہ کبھی ان چیزوں کا انکار نہیں کرسکتا ۔ پھر فرمایا قتل الخراصون تباہ بربادہونے ، اٹکل چلانے والے ، دین اور اس کے قطعی اصولوں میں اٹکل پچو باتیں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں تو تصدیق کرنے اور ایمان لانے کا حکم ہے ، جنہوں نے محض گمان اور اٹکل سے بات کی وہ ہمیشہ ہلاک ہوئے۔ اور یہ وہی لوگ ہیں الذین ھم فی غمرۃ ساھون جو غفلت میں بھولے ہوئے ہیں ، دنیا کے مزے اڑا رہے ہیں ، مگر جزائے عمل کے معاملے میں بالکل غفلت کا شکار ہوچکے ہیں ۔ اللہ نے سورة الانبیاء کے آغاز میں فرمایا ہے اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون لوگوں کے حساب کا وقت تو قریب آ چکا ہے ، مگر یہ لوگ غفلت میں مبتلا اس سے منہ پھیر رہے ہیں ۔ ہر شخص کی زندگی تو محدود ہے ، مگر اسے اس کی اگلی زندگی کا کچھ خیال ہی نہیں آ رہا ہے کہ اس کے لیے کیا تیاری کرنا ہے ؟ فرمایا اس معاملہ میں لوگوں کی بےحسی ملاحظہ فرمائیں یسئلون ایان یوم الذین تمسخر کی بناء پر پوچھتے ہیں کہ انصاف کا دن کب آئے گا ! کہتے ہیں کہ قیامت برپا ہوگی ۔ پھر سب لوگ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ حساب کتاب کی منزل پیش آئے گی اور پھر جزائے عمل کے فیصلے ہوں گے۔ بھلا بتلائو تو وہ وقت کب آئے گا ۔ سورة الملک میں اللہ نے منکرین کی یہی بات اس طرح نقل کی ہے یقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین ( آیت : 25) اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو بتلائو وہ وعدہ کب پورا ہوگا ۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ انصاف کا دن وہ ہوگا یوم ھم علی النار یفتنون جس دن یہ لوگ آپ پر تپائے جائیں گے۔ فتنہ کا لغوی معنی آزمائش اور ابتلا ہوتا ہے ، تا ہم یہاں مراد یہ ہے کہ جس طرح سونے کو کٹھالی میں ڈال کر پگھلا یا جاتا ہے اسی طرح ان ناہنجاروں کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور پھر ان سے کہا جائے گا ۔ ذوقوا فتنتکم آج اپنی شرارت کا مزا چکھو ۔ تم دنیا میں کہتے تھے کہ جس عذاب کی وعید سناتے ہو وہ آ کیوں نہیں جاتا ۔ تو یہ دیکھ لو ھذا الذی کنتم بہ تستجعلون یہی وہ سزا ہے جس کے متعلق تم جلدی کیا کرتے تھے ۔ اگلی سورة میں آرہا ہے کہ ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ اپنے عقائد کے بدلے میں جہنم میں داخل ہو جائوفَاصْبِرُوْٓا اَوْلَا تَصْبِرُُوْاج سََوَآئٌ عَلَیْکُمْ (الطور : 16) اب صبر کرو بےصبری کا اظہار کرو ، تمہارے لیے برابر ہے ، آج تمہیں تمہاری کارکردگی کا بدلہ مل رہا ہے ، بہر حال اس سارے مضمون سے باور یہ کرانا مقصود ہے کہ وقوع قیامت اور جزائے عمل بر حق ہے اور ایسا ضروری ہو کر رہے گا ، اس معاملہ میں غور و فکر کی آج ضرورت ہے ، وگرنہ جب پانی سر سے گزر گیا تو پھر پچھتانا کچھ کام نہیں آسکے گا ۔ متقین کے لیے انعامات اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ ترہیب کے ساتھ ترغیب کا ذکر بھی اکثر آتا ہے ، چناچہ منکرین کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اور ان کو ملنے والے بعض انعامات کا ذکر بھی کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان المتقین فی جنت وعیون بیشک متقی لوگ جنتیوں اور چشموں میں ہوں گے۔ نبی ادی طور پر متقی وہ شخص ہوتا ہے جو کفر ، شرک ، نفاق ، ارتداد اور معصیت سے بچتا ہو ۔ حدود شرع کا خیال رکھتا ہو اور اس کے دل میں خوف خدا جا گزیں ہو۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمت کے مقام جنت میں داخل ہوں گے جہاں انہیں ہر قسم کی نعمتیں میسر ہوں گی ، آرام و آسائش کی تمام سہولتیں حاصل ہوں گی ، خوبصورت اور دل خوش کن باغات ہوں گے جن میں پانی کی نہریں اور چشمے بہتے ہوں گے اخذین ما اتھم ربھم وہ ہر چیز اور نعمت کو حاصل کرنے والے ہوں گے جو ان کو ان کا پروردگار عطا کرے گا ۔ وہ لوگ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو خوشی سے قبول کریں گے کیونکہ انھم کانوا قبل ذلک محسنین اس سے پہلے دنیا کی زندگی میں وہ نیکی کے کام انجام دینے والے تھے۔ انہی نیکیوں کا پھل آج ان کو مل رہا ہے اور وہ ان سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ متقین کی صفات آگے اللہ نے ان متقیوں کی بعض صفات کا ذکر بھی کیا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں کانوا قلیلا ً من الیل ما یھجعون جو رات کے وقت بہت کم ہی سوتے تھے بلکہ رات کا بیشتر حصہ بیدار رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزار دیتے تھے۔ وہ نمازیں پڑھتے تھے اور تسبیح و تمحید کے کلمات زبان پر لاتے تھے ساری رات جاگنا تو ویسے ہی مناسب نہیں کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ انسان کے لیے سونا بھی ضروری ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ ساری رات عبادت کیا کرتے تھے مگر آپ نے یہ کہہ کر منع فرما دیا کہ تم اس عمل کو نبھا نہیں سکو گے کیونکہ تم پر تمہارے آپ نے یہ کہہ کر منع فرما دیا کہ تم اس عمل کو نبھا نہیں سکو گے کیونکہ تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے ، بیوی اور مہمان کا حق بھی ہے تمہیں آرام کی بھی ضرورت ہے ، مسلسل عبادت سے جسم کمزور ہوجائے گا ، آنکھیں اندر کو دھنس جائیں گی اور پھر تم حقوق العباد ادا نہیں کرسکو گے ، لہٰذا عبادت بھی کرو اور ساتھ ساتھ آرام بھی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے سورة المزمل میں بھی فرمایا ہے کہ اے پیغمبر (علیہ السلام) قم الیل الا قلیلا ً (آیت : 2) رات کا تھوڑا حصہ قیام کرو ، یعنی نصف رات ایک تہائی یا اس سے بھی کم وقت میں عبادت کیا کرو اور باقی وقت آرام کیا کر ۔ بہر حال یہاں پر اللہ نے نیکی کرنے والوں کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ سوتے کم اور عبادت زیادہ کرتے تھے۔ وبالا سحار ھم یستغفرون اور وہ سحریوں کے وقت اپنے پروردگار سے استغفار کرتے تھے۔ وہ اللہ سے اپنی لغزشوں کی معافی طلب کیا کرتے تھے اور ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ پروردگار ! ہم سے حق عبادت ادا نہیں ہوسکا ۔ پھر وہ لوگ اس عبادت و ریاضت پر مغرور نہیں ہوتے تھے بلکہ نہایں عاجزی کا اظہار کرتے تھے ، ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہتی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا ۔ سحری کے استغفار کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ دعا کی قبولیت کا خاص وقت ہوتا ہے۔ اس وقت خدا کی خصوصی تجلیات اور رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے ، اور ارشاد فرماتا ہے من یدعونی فاستجیب لہ من یسالنی فاعطیہ من یستغفر نی فاغفرلہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعاقبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اس کو عطا کروں ، اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اس کو معاف کر دوں ۔ فرمایا یہ آوازیں برابر آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ طلوع فجر ہوجاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے متقی بندے سحریوں کے وقت اپنے پروردگار سے استغفار کرتے ہیں۔
Top