Mualim-ul-Irfan - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
پس آپ نصیحت کریں ( اے پیغمبر) پس نہیں آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور نہ دیوانے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت ، رسالت اور توحید کے منکرین کا رد کیا اور ان کا انجام بھی بیان فرمایا ۔ اس کے ساتھ ساتھ متقیوں کا انجام اور ان کو ملنے والے انعام و اکرام کا تذکرہ کیا ۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مقا م اور عز ت وشرف حاصل ہوگا ۔ اب اس درس میں اللہ نے منکرین کی ذہیت اور ان کے مختلف نظریات کی تردید فرمائی ہے ۔ ابتداء میں رسالت کا ذکر ہے اور آگے توحید اور جزائے عمل کی بات ہے۔ ضمنا ً قرآن حکیم کی حقانیت اور صداقت کا بیان بھی ہے ۔ کہانت اور دیوانگی کی نفی اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا فذکر پس آپ لوگوں کو نصیحت کردیں ، ان کو سمجھا دیں یا یاد دہانی کرا دیں ۔ مطلب یہ کہ آپ ان کو احکام الٰہی سے آگاہ کرتے رہیں فما انت بنعمت ربک بکاھن آپ اپنے پروردگار کے فضل سے کاہن نہیں ہیں ۔ کاہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو سادہ لوح لوگوں کو غیب کی خبریں بتا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ یہ کاہن کبھی تو طبعی چیزوں کے ذریعے کچھ باتیں معلوم کرلیتے ہیں ۔ کبھی جنات کے ذریعے اور کچھ ستاروں کے ذریعے سے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے کہانت کے متعلق فرمایا کہ شیاطین اور جنات اوپر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو فرشتوں کی بعض باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ فرشتے ان کو مار کر بھگاتے ہیں ۔ ان پر شہاب پڑتے ہیں تو ان میں سے کوئی زخمی ہوجاتے ہیں ، کوئی ہلاک ہوجاتے ہیں اور کوئی بھاگ کر زمین کی طرف آجاتے ہیں ، پھر جو کوئی ان میں سے فرشتوں کی کوئی بات سن پاتے ہیں وہ آ کر اپنے کاہنوں کو بتاتے ہیں جو ان میں سو جھوٹ ملا کر آگے لوگوں کو بتا دیتے ہیں ۔ اس طرح کاہنوں کی ایک آدھ بات درست بھی نکلتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ان کے پاس آتے رہتے ہیں ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کاہن کے پاس گیا اور اس نے اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے گویا محمد ﷺ اور آپ کی شریعت کا انکار کیا ۔ اگر وہ شخص یقین کرلے کہ کاہن واقع سچ کہتا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ، اور اگر اس کو سچا نہیں سمجھتا مگر پھر اس کے پاس جاتا ہے تو یہ بھی سخت ناجائز اور حرام ہے یہ کاہن یا جوتشی کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ بعض رمل کے ذریعے خبریں معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بعض جوتش اور نجوم کے ذریعے ، جو کہ بہر حال غلط ہے ۔ نزول قرآن کے زمانے میں شعرو شاعری کی طرح کہانت کا بھی بڑا زور تھا۔ کاہن لوگ مسجمع عبارتیں بولا کرتے تھے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت نے دوسری سے لڑائی جھگڑا کیا ۔ جس کی وجہ سے اس کے پیٹ کا حمل گر گیا اور بچہ ضائع ہوگیا ۔ حضور ﷺ کے پاس یہ مقدمہ پیش ہوا تو آپ ﷺ نے غرہ یعنی پانچ صد درہم یا ایک خچر یا ایک لونڈی اس بچے کی دیت مقرر فرمائی تو متعلقہ شخص نے مسجع عبارت بولنی شروع کردی کہ حضرت ! نہ اس بچے نے کھایا نہ پیا اور نہ کوئی آواز نکالی ، ہم تو ایسے خون کو رائیگاں سمجھتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کاہنوں جیسی مسجع باتیں کرتا ہے۔ میں تو اللہ اور اس کی شریعت کا حکم بتا رہا ہوں اور یہ آگے سے کاہنوں والی عبارت بول رہا ہے۔ ہر زمانے کی اپنی اپنی بات اور اپنا اپنا رواج ہوتا ہے فرعون کے زمانے میں سحر کا بڑا چرچا تھا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں علم نجوم کی بڑی مشہوری تھی ۔ یہ لوگ بادشاہوں کی مجلسوں میں بطور مشیر بیٹھتے تھے اور حکومتی معاملات میں ان کا بڑا عمل دخل ہوتا تھا۔ جس طرح آج کے زمانے میں ڈاکٹر او انجینئر وغیرہ فنی ماہرین سمجھے جاتے ہیں ۔ ماہرین اقتصادیات کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ اخبار نویس ، ایڈیٹر ، کالم نگار وغیرہ زندگی کے اہم کردار سمجھے جاتے ہیں ، اسی طرح پرانے زمانے میں کاہنوں ، نجومیوں اور جوتشیوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ بہر حال اللہ نے ان چیزوں کی تردید فرمائی ہے ، اور کہا ہے کہ اے پیغمبر ! آپ نہ تو کاہن ہیں ولا مجنوں اور نہ ہی آپ ( نعوذ باللہ) دیوانے ہیں ۔ سورة القلم میں ہے ما انت بنعمۃ ربک بمجنون ( آیت : 3) آپ اپنے رب کی مہربانی سے دیوانے نہیں ہیں ، بلکہ آپ کے لیے تو بےانتہا اجر ہے اور آپ اخلاق عالیہ کے مالک ہیں ۔ یہ لوگ آپ کو دیوانہ کہہ کر خود اپنی دیوانگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ آپ تو علم و حکمت کی باتیں کرتے ہیں ، جن میں انسانیت کی فلاح کا پروگرام ہے ، بھلا یہ کوئی دیوانوں والی باتیں ہیں ؟۔ شاعری کی تردید پھر فرمایا امر یقولون شاعر کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ ( نعوذ باللہ) شاعر ہیں ؟ اور ساتھ یہ بھی گمان کرتے ہیں نتربص بہ ریب المنون ہم اس کے ساتھ زمانے کی گردش کا انتظار کرتے ہیں ۔ ایسا کہنے سے مشرکین کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ شاعر ہر زمانے میں ہوتے رہے ہیں جو اپنا وقت گزار جاتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں لوگ ان کی واہ واہ کرتے ہیں ، پھر زمانے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کے دلوں سے محوہو جاتے ہیں ۔ ان کا زعم باطل تھا کہ نبوت کا یہ دعویدار محض شاعر ہے جو زمانے کے ساتھ خود ہی ختم ہوجائے گا لہٰذا ہمیں اس کے پیچھے پڑنے کی بجائے اس کے از خود خاتمے کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا قل تربصوا اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ بیشک تم انتظار کرو ۔ فانی معکم من المتربصین بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والا ہوں ۔ گویا تم میرے بارے میں انتظار کرو اور میں تمہارے متعلق انتظا ر کرتا ہوں ، عنقریب پتہ چل جائے گا کہ کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام ہوتا ہے ؟ کس کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور کس کا لایا ہوا دین قائم و دائم رہتا ہے ؟ پھر فرمایا ذرا غور تو کرو ، کیا اللہ کا نبی کوئی شاعرانہ تخیل پیش کر رہا ہے ؟ شاعر لوگ تو کسی کی مدح کر کے اور کسی کی قدح کر کے لوگوں سے مال وصول کرتے ہیں ، ان سے داد حاصل کرتے ہیں مگر آپ تو وحی الٰہی کی بات کرتے ہیں اور ان لوگوں سے تبلیغ حق کا کوئی معاوضہ تو طلب نہیں کرتے بلکہ اللہ کے ہر نبی نے یہی کہا وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العلمین (الشعرائ : 127) کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا بلکہ میرا اجر تو تمام جہانوں کے پروردگار کے ذمے ہے بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے شاعر ہونے کی بھی تردید کی ہے۔ پھر فرمایا امر تامر ھم احلامھم بھذا کیا ان لوگوں کی عقلیں ان کو اس قسم کا حکم دیتی ہیں کہ تم پیغمبر خدا ﷺ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو ؟ مطلب یہ کہ ان لوگوں کی یہ باتیں تو عقل کے بھل خلاف ہیں ۔ اللہ کا نبی تو مخلوق میں سب سے زیادہ عقل مند ہوتا ہے ، اس کی گفتگو ، اس کا اخلاق اور اس کا کردار سب معیار ی ہوتے ہیں ۔ وہ تو دوسرے لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہوتا ہے مگر یہ لوگ ایسی گھٹیا باتیں کر رہے ہیں ۔ کیا یہ لوگ عقل سے عاری ہوچکے ہیں جو نبی اور شاعر کے کلام میں تمیز ہی نہیں کرسکتے۔ فرمایا پھر یہ بات ہے امر ھم قوم طاغون کہ یہ لوگ سر کش ہوچکے ہیں اور اس سر کشی کی بنا پر پیغمبر (علیہ السلام) کو کبھی کاہن کہتے ہیں کبھی دیوانہ اور کبھی شاعر ، حقیقت میں ان کی اپنی عقلوں کا جنازہ نکل چکا ہے۔ قرآن کے متعلق بد گمانی پھر فرمایا کہ ان کے انکار کی ایک وجہ قرآن پاک سے متعلق بد گمانی بھی ہو سکتی ہے ، چناچہ استفہامہ انداز میں فرمایا ام یقولون تقولہ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص قرآن خود گھڑ کرلے آیا ہے ؟ اور خود ساختہ کلام کو وحی الٰہی سے تعبیر کرتا ہے ، فرمایا یہ چیز بھی خلاف واقعہ ہے۔ اگر قرآن پاک کو انسانی کلام سمجھتے ہو تو کسی شاعر ، دانشور یا خطیب کا اس جیسا کلام پیش کرو تا کہ پتہ چل جائے کہ انسان بھی ایسا جامع اور مانع کلام پیش کرسکتے ہیں ۔ ادھر قرآن پاک نے خود چیلنج کردیا ہے وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (البقرہ : 23) اگر تمہیں اپنے بندے پر نازل کردہ کلام میں کوئی شک ہے تو پھر اس جیسی ایک سورة ہی بنا کرلے آئو پتہ چل جائے گا کہ یہ خدا کا کلام ہے یا کسی انسان کا ہے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے بل لا یومنون کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ یہاں بھی فرمایا کہ اگر یہ اسے انسانی کلام سمجھتے ہیں فلیا توا بحدیث مثلہ تو اس جیسی ایک بات ہی بنا کرلے آئیں ۔ ان کانوا صدقین اگر یہ واقعی سچے ہیں ۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن پاک کے اس چیلنج کو آج تک کوئی بھی قبول نہیں کرسکا۔ خالق اور مخلوق اگلی آیت میں اللہ نے منکرین کی طرف سے ایک اور ممکنہ وجہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ام خلقوا من غیر شی یا یہ لوگ بغیر کسی چیز کے پیدا کیے گئے ہیں ۔ اس لیے قرآن ، رسالت اور معاد کا انکار کرتے ہیں ؟ مفسرین نے غیر شئی کا معنی یہ کیا ہے کہ کیا یہ بغیر خالق کے خود بخود ہی پیدا ہوگئے ہیں ؟ کیا یہ والدین کے توسط سے پیدا نہیں ہوئے ؟ کیا یہ پتھر اور دھات کی طرح بےجان چیزیں ہیں ۔ جن کی پیدائش کے لیے سلسلہ تناسل کی ضروت نہیں ؟ غیر شی کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ کیا یہ لوگ بےمقصد پیدا کیے گئے ہیں ؟ کیا ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو یہ ہے اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی (القیامہ : 36) کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائیگا ۔ اس کی زندگی کی کوئی غرض وغایت نہیں ؟ اللہ نے اس کو بیکار محض اور فضول نہیں پیدا کیا بلکہ اس کو عقل و شعور دے کر بھیجا ہے۔ اس کے لیے ہدایت کے تمام سامان مہیا کیے ہیں اور پھر اسے مکلف یعنی قانون کا پابند بنایا ہے اور اسی چیز پر اس کا محاسبہ بھی ہوگا اور جزا یا سزا کا فیصلہ بھی ہوگا ۔ فرمایا کیا یہ لوگ اپنے آپ کو اس لئے غیر مسئول سمجھتے ہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں یا یہ بیکار محض پیدا کیے گئے ہیں امر ھم الخالقون یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں ، العیاذ باللہ ۔ آخر وہ کون سی چیز ہے جو انہیں وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال پر ایمان سے روکتی ہے اور جس کے لیے یہ تیاری نہیں کرتے خالقیت کا مسئلہ تو ایسا ہے کہ دہریوں کی ایک قلیل جماعت کے علاوہ ہر مذہب و ملت کے داعی حتیٰ کہ مشرکوں کے تمام طبقات بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ فرمایا کیا بحیثیت خالق امر خلق السموات والارض کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ آخر کچھ تو بتلائیں کہ انہوں نے کیا چیز پیدا کی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ خالق بھی نہیں ہیں بلکہ صرف الٹی سیدھی باتیں کر رہے ہیں بل لا یوقنون اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ پیغمبر خدا کی بات پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ وحی الٰہی اور محاسبہ اعمال پر بےیقینی کی وجہ سے یہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں اگر ان میں ذرا بھی شعور ہوتا ۔ تو یہ انکار نہ کرتے۔ رحمت کے خزانے فرمایا ان کے انکار کی ایک یہ وجہ بھی ان کے زعم میں ہو سکتی ہے امر عندھم خزائن ربک یا ان کے پا س تیرے پروردگار کے خزانے ہیں ، لہٰذا وہ اپنے معاملات میں خود کفیل ہیں اور اپنی ضروریات کی تمام چیزیں ان خزانوں سے نکالتے رہتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کو نہ کسی ہدایت کی ضرورت ہے ، نہ قرآن کی نہ توحید کی اور نہ رسالت کی ۔ کیا ان کے پاس خزانے ہیں ؟ امر ھم المصیطرون یا یہ دوسروں پر مسلط ہیں یعنی یہ لوگوں پر داروغہ مقرر ہیں کہ ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں اور خود کسی اصول یا قانون کے پابند نہیں بلکہ ہر معاملہ میں خود مختار ہیں ۔ فرمایا امر لھم سلم یستمعون فیہ یا پھر ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے ۔ جس کے ذریعے یہ عالم بالا پر چڑھ جاتے ہیں اور اوپر کی باتیں سن کر آتے ہیں اور پھر انہیں نافذ کرتے ہیں ۔ فرمایا اگر ایسی کوئی بات ہے فلیات مستمعھم بسلطن مبین تو پھر بات سننے والا اس کے لیے کوئی کھلی سند لے کر آئے اور پیش کرے تا کہ پتہ چلے کہ واقعی یہ شخص عالم بالا سے براہ راست حکم لے آیا ہے اور اب اسے وحی الٰہی ، رسالت یا قرآن کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ بھی کہ اب یہ شخص محاسبہ اعمال سے مستثنیٰ ہوچکا ہے۔ فرمایا ، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بالکل تہی دامن ہیں ۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس نہیں ، بلکہ یہ محض ضد ، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہر چیز کا انکار کیے جا رہے ہیں ۔ انکار کی دیگر وجوہات آگے اللہ نے مشرکین کی ایک اور حماقت کا ذکر کیا ہے وہ خود تو لڑکی کی پیدائش پر چین بچپن ہوتے تھے بلکہ بعض اسے زند ہ درگور کردیتے تھے مگر فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں تسلیم کرتے ہیں ۔ اس بات کا شکوہ اللہ نے قرآن کی مختلف سورتوں میں کیا ہے۔ یہاں بھی فرمایا ام لہ البنت ولکم البنون کیا اس پروردگار کیلئے بیٹیاں ہیں اور تمہارے لیے بیٹے ؟ تم نے یہ کیسی بھونڈی تقسیم کر رکھی ہے کہ جس صفت کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب کرتے ہو ، حالانکہ پروردگار عالم تو ان چیزوں سے پاک ہے۔ تو بھلا کیا تم اس وجہ سے توحید ، رسالت ، وحی الٰہی اور معاد کا انکار کرتے ہو ؟ امر تسئلھم اجرا ًیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ آپ کی بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ فھم من مغرم مثقلون اور وہ اس تاوان کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں ۔ وہ کوئی بہت بڑا حق تبلیغ ادا کرنے کی وجہ سے مرے جاتے ہیں ، لہٰذا وہ آپ کی بات نہیں مانتے کہ اگر ان کو سچا تسلیم کرلیا تو پھر اتنا معاوضہ دینا پڑے گا ۔ یہ بات بھی نہیں ہے ، بلکہ اللہ کا کوئی بھی رسول مخلوق سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ۔ وہ تو اللہ کے حکم سے اللہ کا پیغام پہنچاتا ہے اور اس کا معاوضہ بھی اسی مالک الملک سے طلب کرتا ہے۔ چناچہ اللہ کے ہر نبی نے اپنی امت پر پورے طریقے سے واضع کردیا وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلٰی رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ (الشعرائ : 180) کہ میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا کیونکہ میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی مجھے عطا کرے گا ۔ تم پر اس معاملہ میں کوئی مالی پریشان نہیں ہونی چاہئے۔ فرمایا انکار کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ام عند ھم الغیب فھم یکتبون کہ یا ان کے پاس غیب کی کوئی خبر ہے جسے وہ لکھ لیتے ہیں اور پھر ہر چیز سے بےنیاز ہوجاتے ہیں ۔ فرمایا ایسی بات بھی نہیں ہے کہ ان کو غیب سے کوئی علیحدہ ہدایت ملتی ہو یا ان پر وحی نازل ہوتی ہو۔ اگر کوئی ایسی چیز ان کے پاس ہے تو پیش کریں۔ فرمایا امر یریدون کیدا ً یا یہ کوئی دائوپیچ کھیلنا چاہتے ہیں ۔ کسی مخفی تدبیر کے ذریعے کوئی سکیم لڑانا چاہتے ہیں فرمایا ان کو اچھے طریقے سے جان لینا چاہئے فالذین کفروا ھم المکیدون کہ کافر لوگ جو اس قسم کی تدبیریں کرتے ہیں جو مکرو فریب بناتے ہیں ، یہ خود ہی ان تدابیر کا شکار ہوجائیں گے اور اپنے پھیلائے ہوئے جال میں خودہی پھنس جائیں گے۔ اللہ کا فرمان ہے ولا یحیق المکرالسی الا باھلہ ( فاطر : 43) جو شخص کسی دوسرے کے بارے میں بری تدبیر سوچتا ہے وہ خود اسی پر پڑتی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک بھی ہے من حفرلا خیہ برا وقع فیہ جس نے اپنے بھائی کے لیے گڑھا کھودا ، وہ خود ہی اس میں گرتا ہے ، فارسی کا مقولہ بھی ہے ” چاہ کن را چاہ در پیش “ جو شخص دوسرے کے لیے کنواں کھودتا ہے ، وہ خود اس میں جا گرتا ہے۔ الغرض ! فرمایا کہ جو لوگ غلط تدبیریں سوچتے ہیں ، وہ خود مغلوب ہوجائیں گے۔ اللہ کے مقابلے میں ان کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ بنی اسرائیل کی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہ ُ ط وَ اللہ ُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (آل عمران : 54) انہوں نے بھی دائو پیچ چلایا اور ہم نے تدبیر کی ، بہترین تدبیر کرنے والی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا ہے ۔ منکرین کے انکار کی بعض ممکنہ وجوہات کی تذکرہ کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ کوئی دائو بیچ کھیلناچاہتے ہیں ۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے کسی بھی دائو بیچ کا یہ خود ہی شکار بن جائیں گے اور اللہ اس کے دین ، اس کے پیغمبر اور اہل ایمان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
Top