بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
قسم ہے ستارے کی جب کہ وہ گر گیا
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة النجم ہے جو اس کی پہلی آیت کے پہلے لفظ سے مآخوذ ہے ۔ سورة الحجرات سے لے کر سورة واقعہ تک تمام مکی سورتیں ہیں ، چناچہ یہ سورة بھی مکی دور میں نازل ہوئی ۔ اس سورة مبارکہ کی باسٹھ آیات اور تین رکوع ہیں اور یہ سورة تین سو الفاظ اور چودہ سو حروف پر مشتمل ہے۔ یہ سورة سورة اخلاص سے پہلے نازل ہوئی۔ مضامین سورة اس سورة کے مضامین بھی زیادہ تر وہی ہیں جو سابقہ سورة الطور کے ہیں ۔ دیگر مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی اسلا م کے بنیادی عقائد توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن کی حقانیت ہی کا تذکرہ ہے ، تا ہم رسالت کا پہلو غالب ہے۔ ساتھ ساتھ جزائے عمل کا مسئلہ بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اس سورة مبارکہ میں مشرکین کے بعض معبودان باطلہ کا نام لے کر ان کار د کیا گیا ہے۔ الات ، منات اور عزی کے نام سے جو بت بنائے گئے ۔ اللہ نے ان کی نفی فرمائی ہے اور جو لوگ شعریٰ ستارے کی پرستش کرتے تھے ان کا بھی تعاقب کیا گیا ہے۔ نبوت و رسالت کے سلسلے میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر ہے اور عبرت کے طور پر بعض سابقہ نافرمان قوموں کا ذکر بھی ہے اس سورة میں واقعہ معراج کی طرف بھی مختصر اشارہ ہے اور عالم بالا کے ایک حصے سے متعلق بھی ذکر موجود ہے۔ اولین سجدہ تلاوت قرآن پاک میں کل چودہ سجدہ ہائے تلاوت آتے ہیں جن میں سے تین سجدے اس ساتویں منزل میں ہیں اور اس سورة میں آمدہ سجدہ ان میں سے ایک ہے تا ہم اس سجدہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب سے پہلی سورة ہے جس میں سجدہ تلاوت آیا ہے۔ بخاری ، مسلم ، ابو دائود اور نسائی میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ ایک موقع پر کسی ایسی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ جہاں مسلمانوں کے علاوہ کافر اور مشرک بھی موجود تھے۔ آپ نے اس مجلس میں اس سورة مبارکہ کی تلاوت فرمائی اور پھر آخر میں جب سجدہ کی آیت تلاوت کی تو وہیں سجدہ کیا ۔ آپ کی اقتداء میں مسلمانوں نے بھی سجدہ کیا اور وہاں پر موجود مشرک بھی سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے اور آپ کے ساتھ انہوں نے بھی سجدہ کیا ۔ صرف ایک بوڑھا کافر امیہ ابن خلف ایسا تھا جو سجدے میں شریک نہ ہوا ۔ اس نے سجدہ کرنے کی بجائے زمین سے تھوڑی سی مٹی لے کر اپنی پیشانی پر لگا لی اور کہنے لگا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس کافر کو بدر کے موقع پر قتل کیا ہوا دیکھا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ آیت سجدہ تلاوت کرنے پر حضور ﷺ نے تو اللہ کے حکم سے سجدہ کیا اور مسلمان آپ کے اتباع میں سجدہ ریز ہوگئے ، البتہ کفار کا سجدہ ریز ہوجانا اس وجہ سے تھا کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی قہری تجلیات کا نزول ہو رہا تھا اور وہ ایسا کرنے پر مجبورہو گئے۔ ستارے کی قسم گزشتہ سورة کی طرح اس سورة مبارکہ کی ابتداء بھی قسم سے کی گئی والنجم اذا ھوی قسم ہے ستارے کی جب کہ وہ گر گیا ۔ عربی زبان میں نجم ستارے کو بھی کہتے ہیں اور زمین پر پھیلی ہوئی جڑی بوٹیوں اور پودوں کو بھی نجم کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال سورة الرحمن میں موجود ہے جہاں فرمایا والنجم الشجر یسجدن ( آیت : 6) اور بوٹیاں اور درخت بھی اللہ کے سامنے سجدہ ریزہ ہوتے ہیں ۔ تا ہم اس مقام پر نجم سے مراد ستارہ ہی ہے۔ اس ستارے سے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔ بعض اسے زہرہ ستارے پر محمول کرتے ہیں جو زیادہ چمکدار ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے ثریا ستارہ مراد ہے جو مشرقی جانب گچھے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ بعض اس سے کہکشاں مرادلیتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے ستاروں سے مل کر سڑک سی بنی ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے استاد حضرت عطا (رح) کے قول کے مطابق یہاں پر نجم سے مراد قرآن کریم اور اس کی آیات ہیں ۔ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے 23 سال کے عصرہ میں نجما ً نجما ً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے سازل فرمایا ، لہٰذا قرآن بھی مراد ہو سکتا ہے۔ امام جعفر صادق (رح) سے منقول ہے کہ اس مقام پر نجم سے مراد حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے اور آپکے نیچے اترنے کا اشارہ شب معراج میں عالم بالا اور خطیرہ القدس سے نیچے اترنے کی طرف ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ نجم سے مراد مطلقا ً مومن کی ذات ہے کہ جب وہ مرنے کے بعد قبر میں اترتا ہے تو وہ روشن ستارے کی مانندہوتا ہے بہر حال یہ مختلف اقوال ہیں مگر زیادہ تر نجم کا اطلاق ثریا ستارے پر کیا جاتا ہے اور ہویٰ سے مراد گر جانا اتر جانا یعنی غروب ہوجانا ہے قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب ہوجائے۔ آفتاب ختم نبوۃ ستارے سے مراد سابقہ انبیاء بھی ہو سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ۔ یہ انبیاء کرام اپنے اپنے دور میں فریضہ نبوت و رسالت ادا کرتے رہے۔ یہ اپنے اپنے وقت میں روشنی کے ستارے تھے ۔ جن سے لوگ ہدایت پاتے تھے۔ پھر جب وہ اپنا اپنا دور ختم کر کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، روشنی کے یہ مینار غروب ہوگئے تو لوگ ان کی تربیت سے بھی محروم ہوگئے۔ ہماری اس کائنات میں جاری نظام شمسی کا بھی یہ اصول ہے کہ رات بھر ستارے چمکتے رہتے ہیں ، پھر جب طلوع فجر پر آفتاب کی روشنی پھیلنے لگتی ہے تو یہ ستارے ماند پڑجاتے ہیں یہ ستارے کہیں غائب نہیں ہوجاتے بلکہ ان کی روشنی آفتاب کی تیز تر روشنی کے سامنے نابود ہوجاتی ہے جسے ہم ستاروں کے ڈوب جانے سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی طرح جب سلسلہ نبوت کی آخری کڑی کے طور پر حضور خاتم النبین ﷺ کا آفتاب نبوت طلوع ہوا تو باقی انبیاء کی ساری روشنیاں ماند پڑگئیں اور ہدایت کا سارا نظام اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت کے ساتھ وابستہ کردیا ۔ ہدایت کے تمام سابقہ ذرائع ختم ہو کر صرف یہی ایک ذریعہ باقی رہ گیا ہے جس سے قیامت تک لوگ ہدایت حاصل کرتے رہیں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ دنیا کا ہر شخص خواہ وہ یہودی ہے ، نصرانی ہے ، مجوسی ہے یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہے جب وہ سن لے کہ حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لا چکے ہیں اور انہوں نے ہدایت کا پروگرام دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے اور اس کے باوجود وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتا تو ایسا شخص دخل النار جہنم میں داخل ہوگا ۔ حضور ﷺ کی صداقت کی گواہی گزشتہ دو سورتوں یعنی سورة الذرایات اور سورة الطور میں اللہ نے مختلف چیزوں کی قسم اٹھانے کے بعد وقوع قیامت اور جزائے عمل کی تصدیق فرمائی تھی ۔ اب اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم اٹھا کر حضور ﷺ کی رسالت کی صداقت کی گواہی دی ہے۔ جو اب قسم ہے ما ضل صاحبکم وما غویٰ آپ کا صاحب ، رفیق اور ساتھی یعنی حضرت محمد ﷺ نہ تو بہکے اور نہ بےراہ ہوئے۔ مشرکین مکہ آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے پچھلی سورة میں گزر چکا ہے کہ وہ لوگ آپ کو کبھی کاہن کہتے ، کبھی مجنوں اور کبھی شاعر مگر اللہ نے ان سب باتوں کی تردید کی ۔ وہ لوگ آپ کو بہکا ہوا اور بےراہ بھی کہتے تھے مگر اللہ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہارے ساتھی نہ تو بہکے ہیں اور نہ ہی بےراہ ہوئے ہیں ، بلکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اس کا پیغام تمہیں سناتے ہیں ۔ آپ کی باتیں نہایت معنی خیز اور علم و حکمت پر مبنی ہیں لہٰذا تمہیں آپ کی رسالت کا انکار کرنے کی بجائے آپ پر ایمان لے اننا چاہئے کہ اسی میں تمہاری فلاح ہے۔ ضل اس شخص کے متعلق کہا جاتا ہے جس کو ہدایت ملی ہی نہ ہو اور وہ بھٹک جائے اور غویٰ کا معنی یہ ہے کہ ہدایت تو واضح ہوچکی ہے۔ مگر کوئی شخص از خود غلط راستے پر جا رہا ہے ۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے متعلق فرمایا کہ ان میں سے بعض بہک گئے ہیں کیونکہ ان کو صحیح راستہ میسر ہی نہیں آیا اور بعض مغضوب علیہ ہیں جن کو صحیح راستے تو مل گیا ہے مگر وہ جان بوجھ کر ٹیڑھا چل رہے ہیں ۔ اللہ نے یہاں پر حضور ﷺ کے متعلق فرمایا ہے کہ نہ تو آپ بہکے اور نہ بےراہ ہوئے نیز فرمایا کہ تم بلا وجہ وحی الٰہی کا انکار کر رہے ہو ، حقیقت یہ ہے کہ وما ینطق عن الھوی اللہ کا نبی اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولتا ۔ ان ھو الا وحی یوحی مگر وہ تو وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے ، اللہ کا نبی تمہیں اللہ کا کلام پیش کرتا ہے جو اسے بذریعہ وحی وصول ہوتا ہے۔ مگر کس قدر بد نصیبی کی بات ہے کہ تم اسے خود ساختہ کلام کہہ کر رد کردیتے ہو۔ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات وحی الٰہی ہوتی ہے ، خواہ وہ وحی جلی ہو یا وحی خفی ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ میں حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات لکھ لیا کرتا تھا مگر بعض لوگوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ حضور ﷺ بھی آخر انسان ہیں اور انسان سے خطا بھی سر زد ہوجاتی ہے۔ حضور ﷺ کبھی غصے کی حالت میں بھی ہوتے ہیں ، کبھی کسی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں ، لہٰذا آپ کو ہر بات لکھنادرست نہیں ۔ کہتے ہیں کہ اس پر میں حضور ﷺ کی ہر بات لکھنے سے رک گیا ۔ پھر میں نے اس کا تذکرہ خود حضور ﷺ کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا اکتب فوالذی نفسی بیدہ ما خرج منحد الا الحق لکھ لیا کرو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کبھی کبھی مزاج بھی فرماتے تھے ایسے ہی ایک موقع پر صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ! انک تداعبنا وانت رسول اللہ آپ ہمارے ساتھ مزاج بھی فرماتے ہیں حالانکہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں جو کہتا ہوں وہ حق ہی ہوتا ہے۔ ایسے مزاج میں بھی کوئی نہ کوئی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے۔ میری زبان سے غصہ کی حالت میں بھی کوئی لغو بات نہیں نکلتی ۔ بہر حال فرمایا کہ اللہ کا رسول اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتا بلکہ وہ جو کچھ بھی پیش کرتا ہے ، وہ وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ جبریل (علیہ السلام) کا تعارف آگے وحی الٰہی لانے والے فرشتے جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا علمہ شدید القویٰ اللہ کے نبی کو سکھلانے والا یعنی وحی لانے والا زبردست قوتوں کا مالک ہے ذومرۃ وہ بڑے زور والا ہے اور اللہ کا نبی اس کو پہچانتا ہے کہ یہ جبریل (علیہ السلام) ہے جو اللہ کی طرف سے وحی لانے پر مامور ہے۔ لہٰذا وہ کچھ بھی لاتا ہے ، وہ شک و شبہ سے پاک اور بالکل بر حق بات ہوتی ہے۔ جبریل (علیہ السلام) عام طور پر انسانی شکل میں وحی لے کر حضور ﷺ کے پاس آتے تھے مگر آپ نے جبریل کو دو دفعہ ان کی اصل شکل میں بھی دیکھا ہے ۔ پہلی روایت میں متعلق فرمایا فاستوی پھر وہ سیدھا ہوا۔ وھو بالافق الاعلی اور وہ بلند کنارے پر تھا۔ یہ ابتدائے نبوت کے زمانے کا ذکر ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جبریل (علیہ السلام) کرسی پر بیٹھے ہیں اور آپ کے جسم سے زمین و آسمان کی سار ی فضا پر ہے۔ آپ پر دہشت طاری ہوگئی ، جسم کپکپا رہا تھا آپ اسی حالت میں گھر تشریف لے آئے ۔ بہر حال جبریل (علیہ السلام) کو اصلی شکل میں دیکھنا حضور ﷺ کی خصوصیت ہے ، کسی اور نبی نے ان کو اصل حالت میں نہیں دیکھا۔ حضور ﷺ نے جبریل (علیہ السلام) کو دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر اصل شکل میں دیکھا تھا۔ جس کا ذکر اگلے درس میں آ رہا ہے ۔ بہر حال فرمایا ثم دنا فتدلی پھر وہ قریب ہوا ، اور نیچے آ گیا فکان قاب قوسین او ادنی پس وہ دو کمان کے برابر یا اس سے بھی قریب ہوا اور اس حالت میں فاوحی الی عبدہ ما اوحی اللہ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی ، جو وحی نازل کی ۔ ما کذب الفواد ما رای جس چیز کو دیکھا۔ اس کو دل نے جھٹلایا نہیں ۔ یعنی آپ نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا ، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا اللہ تعالیٰ جو کچھ دکھانا چاہتا تھا ، آپ نے وہ چیز ٹھیک طریقے سے مشاہدہ کرلی ۔ اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ فرمایا افتمرونہ علی ما یری کیا تم پیغمبر ﷺ کے ساتھ اس چیز میں جھگڑا کرتے ہو جو انہوں نے دیکھی ؟ نہیں بلکہ جو کچھ آپ نے دیکھا وہ بر حق تھا اور اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی ۔ اس مقام پر مفسرین کرام وضاحت کرتے ہیں کہ قاب قوسین او ادنی میں او شک کے لیے نہیں آیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوعیت کے اعتبار سے آپ ﷺ نے دو کمانوں سے بھی زیادہ قریب ہے جبریل (علیہ السلام) کو اس کی اصلی شکل میں دیکھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہی بیان ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آمدہ الفاظ علی ما یردی سے عالم بالا کے مشاہدات مراد ہیں اور اس سلسلہ میں رویت الٰہی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ تا ہم اس بارے میں محدثین کا اختلاف ہے۔ البتہ اکثریت کا خیال ہے کہ معراج کے واقعہ میں حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی رویت بھی نصیب ہوئی تھی اور اس کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔
Top