Mualim-ul-Irfan - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو کوئی بھی ہے زمین پر فنا ہونے والا ہے
ربطہ آیات گذشتہ دروس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان انعامات اور احسانات کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنی مخلوق خاص طور پر انسانوں اور اہل ایمان پر کیے ہیں۔ پھر اپنی قدرت کی بعض نشانیوں کا ذکر کیا جو اس کی وحدانیت اور وقوع قیامت پر دلیل بنتی ہیں اب آج کے درس میں اللہ نے جزائے عمل کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ فانی اور باقی ارشاد ہوتا ہے کل من علیھا فانٍ جو کچھ بھی زمین پر ہے ، وہ فنا ہونے والا ہے۔ گذشتہ درس میں فرمایا والارض وضعھا للانام ہم نے زمین کو اپنی مخلوق کے لیے بچھا دیا۔ اللہ کی بیشمار مخلوق انسان ، جانور ، درندے پرندے ، کیڑے مکوڑے اس زمین پر آباد ہیں اور اسی سے پیدا ہونے والی روزی استعمال کرتے ہیں۔ اب اللہ نے فرمایا کہ اس نے جو چیز بھی اس زمین پر پیدا کی ہے ، وہ سب فنا ہونے والی ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں رہے گی۔ البتہ ویبقی وجہ ربک ذوالجلٰل والا کرام باقی رہنے والی صرف تیرے پروردگار کی ذات ہے جو بزرگی اور عظمت والی ذات ہے۔ عربی زبان میں وجہ چہرے کو کہتے ہیں مگر اس سے مراد ذات ہوتی ہے مطلب یہ کہ قیام و دوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ باقی ہر چیز فانی ہے اور ظاہر ہے کہ فانی چیز میں الوہیت کی صفت نہیں پائی جاسکتی۔ لہٰذا کسی فانی چیز کی پرستش کرنا شرک اور کفر ہے۔ اس سے قیامت والی بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کو لازماً اس دنیا سے جانا ہے اور حساب کتاب کی منزل سے گزر کر جزا یا سزا پانی ہے۔ بہر حال فرمایا کہ ہر چیز فانی ہے۔ سوائے اللہ کی ذات کے کہ وہی باقی رہنے والا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے…؎ قضٰی علیٰ خلقہٖ منایا وکل شیئٍ سواہ فان اس نے اپنے سوا ہر چیز پر موت کا فیصلہ کر رکھا ہے خواہ وہ ملائکہ مقربین ہوں ، عالم بالا کی کوئی مخلوق ہو ، فضائوں اور ہوائوں کی مخلوق یا زمین پر بسنے والے جن ، انسان ، چرند ، پرند یا کیڑے مکوڑے ہوں۔ ہر چیز فانی ہے…؎ تعالیٰ اللہ لا یبقیٰ سواہ اذا وردت بریتہ الغناء اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بلندو برتر اور باقی ہے۔ اور اس کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے…؎ انت نعم المتاع لو کنت تبقیٰ غیر ان لا بقاء للانسان اگر باقی رہتے تو تم بہتر چیز ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کیلئے بقا نہیں…؎ انت خلو من العیوب ومما یکرہ الناس غیر انک فان تم میں نہ کوئی عیب ہے اور نہ کوئی ایسی چیز جس کو لوگ ناپسند کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم فانی ہو۔ جانداروں کے متعلق تو اللہ نے خاص طور پر فرما دیا ہے کل نفس ذائقۃ الموت ( آل عمران۔ 158) ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ جانداروں کے علاوہ دوسری کوئی چیز بھی قائم و دائم نہیں ہے بلکہ سب کو ایک دن ختم ہوجانا ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت آئے گا جب آسمان بھی پھٹ جائے گا اور یہ زمین بھی تبدیل کردی جائے گی۔ غرضیکہ اللہ کی ذات کے سوا کائنات کی کسی چیز کو دوام حاصل نہیں۔ لہٰذا عبادت کے لائق بھی وہی ذات ہے جو ہمیشہ سے قائم ودائم ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ یہ حقیقت بیان کرنے کے بعد اللہ نے وہی بات دہرائی فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن اے جنو اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائوگے۔ سائل اور مسؤل الیہ ارشاد ہوتا ہے یسئلہ من فی السموٰت والارض اسی سے مانگتا ہے جو کوئی ہے آسمانوں اور زمین میں۔ اللہ کی مخلوق خواہ ارضی ہو یا سماوی سب کے سب اسی کے آگے دست سوال دراز کرتے ہیں اور اسی کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے ہیں۔ البتہ یہ سوال دو طرح سے ہوتا ہے ، زبانِ قال سے یا زبان حال سے۔ اللہ نے انسان کو قوت گویائی عطا فرمائی ہے لہٰذا یہ اپنی ضروریات زبان سے بول کر طلب کرتا ہے۔ اور باقی چیزیں یعنی جانور ، درندے ، چرند ، پرندے ، کیڑے مکوڑے ، شجروحجر زبان حال سے مانگتے ہیں۔ ان کی حالت ہی بتاتی ہے کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے چناچہ اللہ تعالیٰ ان کی حاجات پوری کرتا ہے۔ مخلوق میں سے کوئی چیز ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے مستغنی نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے حضور ﷺ نے دعا میں اس طرح سکھایا ہے۔ اللھم لا تکلنی الی نفسی طرفۃ عینٍ اے اللہ ! مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کی طرف نہ سونپ بلکہ مجھ پر شفقت فرما اور ہر حالت میں میری مدد فرما۔ اگر تو نے مجھے میرے نفس کی طرف سونپ دیا تو میں شر کے قریب ہو جائوں گا۔ غرضیکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے اور غنی صرف وہی ذات ہے جو قادر مطلق محیط کل ، علیم کل اور مختار مطلق ہے۔ سارے محتاج ہیں جبھی تو ماگتے ہیں فرشتوں جیسی مقرب مخلوق بھی اپنے عروج اور ترقی کے لیے اسی سے سوال کرتی ہے ساری مخلوق کی حاجت روائی کرنا اسی مالک الملک کا کام ہے اور وہ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق ہر مانگنے والے کو دیتا ہے۔ اگر اس کی مشیت نہ ہو تو روک بھی لیتا ہے۔ یہ سارا اختیار اسی کے پاس ہے۔ چاہے تو تکلیف کو دور کردے اور چاہے تو اسے لمبا کردے۔ شانِ خداوندی فرمایا آسمان و زمین کی ہر چیز ؁ُسی سے مانگتی ہے۔ کل یومٍ ھو فی شانٍ وہ ہر دن ایک شان اور حالت میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی حکمت کے مطابق ہر وقت اور ہر لمحہ ایک نئی شان کو ظاہر کرتا ہے ، کسی کو زندگی بخشتا ہے تو کسی کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ کسی کو صحت بخشتا ہے تو کسی کو بیماری میں مبتلا کردیتا ہے۔ کسی کو ترقی عطا کرتا ہے اور کسی کو تنزل میں گرا دیتا ہے کسی کو بڑھا دیتا ہے اور کسی کو گھٹا دیتا ہے ، کسی کے گناہ بخش دیتا ہے ، کسی کی مصیبت دور کردیتا ہے۔ اور کسی کے درجات بلند کردیتا ہے کہیں خوشحالی عطا کرتا ہے اور کہیں قحط برپا کردیتا ہے تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں جنہیں وہ اپنی مشیت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے بیدہ المیزان اسی کے ہاتھ میں اختیار کا ترازو ہے جس کو چاہے کم کردے اور جس کو چاہے زیادہ کردے بعض فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ایک شان دنیا کے دن کی ہے اور ایک قیامت کے دن کی اس کی دنیا کی شان یہ ہے کہ وہ زندگی بخشتا ہے موت طاری کرتا ہے۔ عطا کرتا ہے اور روک لیتا ہے۔ حکم دیتا ہے اور منع کرتا ہے۔ اور اس کی قیامت کی شان یہ ہے کہ کسی کو ثواب ہوگا اور کسی کو عذاب ہوگا۔ غرضیکہ دنیا کی شان ہو یا آخرت کی ، وہ ہر دن ایک شان میں ہوتا ہے جس میں اس کی صفاتِ کمال کا ظہور ہوتا ہے فرمایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن اے جنو ! اور انسانو ! تم خدا تعالیٰ کی کس کس نعمت کا انکار کروگے۔ حساب کتاب کی منزل پھر فرمایا سنفرع لکم ایّہ الثقلن عنقریب ہم تمہارے لیے فارغ ہوں گے۔ اے دو بھاری قافلو ! ان دو قافلوں سے مراد ایک جنوں کا گروہ ہے۔ اور دوسرا انسانوں کا۔ یہ آدمیت کا دور ہے جس کو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے شروع کیا۔ اور یہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ اس دور میں انسان ہی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے اور باقی تمام چیزوں کو اللہ نے انسان کی مصلحت کے لیے پیدا فرمایا ہے دوسرا گروہ جنات کا ہے جو کہ آدم (علیہ السلام) سے بھی پہلے کے دور سے چلے آرہے ہیں انسانوں کی طرح جنات بھی مکلف ہیں۔ انسانوں کی طرح ان کے بھی مختلف گروہ اور پارٹیاں ہیں۔ ان میں منصف مزاج بھی ہیں اور ظالم بھی ، مومن بھی ہیں اور کافر بھی ، ناجی بھی ہیں اور ناری بھی۔ بہرحال انسان اور جن دونوں قسم کی مخلوف مکلف ہے یہ دونوں بھاری قافلے قیامت تک چلتے رہیں گے۔ پھر سارا جہان تبدیل ہوجائے گا۔ حساب کتاب کی منزل آئے گی اور پھر جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ ہم عنقریب تمہارے حساب کتاب کے لیے فارغ ہونگے۔ اس سنفرع کے لفظ سے اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ایسی ہے کہ اس کو کوئی شان دوسری شان سے مصرف نہیں رکھتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی ایک کام میں مصروف ہو تو کیا وہ کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دے سکتا ؟ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ ہر چیز اور ہر کام ہمہ وقت اس کی نگاہ میں ہے اور کوئی چیز اسے دوسری چیز سے غافل نہیں کرسکتی۔ اگر یہ بات ہے تو پھر اس جملے کا کیا مطلب ہے کہ ہم عنقریب تمہارے حساب کتاب کے لیے فارغ ہوں گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پہلے فارغ نہیں تھے عنقریب جب فارغ ہوں گے تو اس طرف متوجہ ہوں گے۔ اس سلسلہ میں صرف ، نحو اور تفسیر کے مشہور امام زجاج فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں فراغت دو معنی میں آتا ہے ایک فراغت تو عام ہے کہ کوئی شخص کسی کام میں مصروف ہے اور جب اس کو ختم کرلیتا ہے تو فارغ ہوجاتا ہے۔ فراغت کا دوسرا معنی کسی کام کا قصد کرنا ہوتا ہے۔ اور اس مقام پر یہی معنی مراد ہے اور جملے کا معنی یہ بنتا ہے کہ عنقریب ہم قصد کریں گے تمہارے لیے اے دو بوجھل قافلو ! یہ انسانوں اور جنوں دونوں گروہوں سے خطاب ہے کیونکہ یہ دونوں انواع مکلف ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم عنقریب تمہارا حساب کتاب لینے کا قصد کریں گے جس کے بعد جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ البتہ بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں پر سنفرغ کا حقیقی نہیں بلکہ مجازی معنی مراد ہے کہ عنقریب ہم بدلہ دیں گے۔ یہ بدلہ دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں حساب کتاب کی منزل کے بعد دیاجائے گا۔ دنیا میں تو پورا بدلہ نہیں ملتا کسی کو تھوڑا بہت مل گیا ، مگر مکمل بدلہ آخرت میں ہی ملے گا۔ ساتھ پھر وہی جملہ دہرایافبای اٰلاء ربکما تکذبٰن تم دونوں گروہ اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت کو جھٹلائوگے۔ مخلوق کی بےبسی آگے پھر دونوں گروہوں کو مخاطب کرکے فرمایا یمعشر الجن والانس اے جنوں اور انسانوں کے گروہ ان استطعتم ان تنفذو امن اقطار السموت والارض فانفذوا اگر تم اس بات کی طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جائو تو بھاگ نکلو۔ اللہ نے چیلنج کیا ہے کہ تم میری نافرمانی کرکے میری گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ میری بادشاہت تو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اگر تم میں ہمت ہے تو میری سلطنت سے بھاگ کر دکھائو۔ تاکہ تم گرفت سے بچ سکو۔ پھر اللہ نے خود ہی فرما دیا لا تنفذون الا بسلطن یاد رکھو ! تم نہیں بھاگ سکتے مگر غلبے کے ساتھ۔ سلطان کا معنی سند ، دلیل یا غلبہ۔ اور یہ غلبہ تمہارے پاس موجود نہیں ، لہٰذا تم خدا تعالیٰ کے قبضے اور تصرف سے نکل نہیں سکتے۔ پوری کائنات تواسی کی قلمرو ہے ، پھر تم بھاگ کر کہاں جائو گے ؟ عام دنیا کی حکومتوں کا بھی دستور ہے کہ وہ حتی الامکان مجرم کو بھاگنے نہیں دیتیں۔ مگر اس کے باوجود بعض لوگ روپوش ہوجاتے ہیں یا ایک ملک چھوٹ کر دوسرے ملک میں چلے جاتے ہیں۔ جسکی وجہ سے گرفت سے باہر ہوجاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی سلطنت تو ہر جگہ ہے۔ آخر کوئی بھاگ کر کہاں جائے گا ؟ لہٰذا مجرم لازماً پکڑے جائیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی عدالت سے سزا بھی پائیں گے فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائوگے۔ فرمایا یرسل علیکما شواظ من نارہ و نحاس تم دونوں پر آگ اور دھوئیں کے شعلے پھینکے جائیں گے ، یعنی اگر کوئی جن یا انسان خدا تعالیٰ کی گرفت سے بھاگ کر بچنا چاہے گا تو اس پر آگ اور دھواں پھینکاجائے گا۔ جس کی وجہ سے کوئی مجرم بھاگ نہیں سکے گا۔ سورة الصفت میں اللہ نے شیاطین کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور ہر سرکش شیطان سے اس کی حفاظت کی ہے تاکہ ملاوا علیٰ کی بات نہ سن سکیں۔ و یقذفون من کل جانب ( آیت۔ 8) اور ہر طرف سے ان پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ یہاں بھی فرمایا کہ جنوں اور انسانوں میں سے اگر کوئی بھاگنا چاہے گا تو ان پر آگ اور دھواں چھوڑاجائے گا فلا تنتصرن پس تم دونوں بدل نہیں لے سکو گے۔ مطلب یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی سلطنت سے بھاگ کر نہیں جا سکو گے اور تمہیں اپنے عقائد و اعمال کا حساب دینا ہی پڑے گا۔ فرمایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن بھلا بتلائو تو دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کا انکار کروگے۔ اعتراض اور جواب دیا نند سرسوتی ، آریہ سماج ہندوئوں کا لیڈر تھا۔ اس نے اپنی کتاب ” سیتارتھ پر کاش “ میں تورات ، انجیل اور قرآن پر بہت سے اعتراض کیے ہیں۔ کتاب کے چودھویں باب میں قرآن پاک کی اسی آیت فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں کا خدا بھی عجیب ہے کہ ایک طرف تو جنوں اور انسانوں پر آگ کے شعلے اور دھواں پھینکنے کا رعب دے رہا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے کہ تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے ؟ بھلا آگ اور دھواں پھینکنے میں کونسی نعمت رکھی ہے جس کا انکار ممکن نہیں ؟ اس کے جواب میں شاہ عبدالقادر (رح) نے حاشیہ قرآن پر جواب لکھا ہے کہ کسی کو عداب کی خبر دینا بھی خدا تعالیٰ کی ایک نعمت ہے کہ اس طرح کوئی شخص اپنا بچائو کرسکتا ہے اور اگر یہ اطلاع نہ دی جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ شخص اس مصیبت میں مبتلا ہوجائے۔ تو اللہ نے آگ اور دھوئیں کا ذکر کرکے جنوں اور انسانوں کو خبر دار کردیا ہے کہ قیامت والے دن تو تم بھاگ نہیں سکوگے لہٰذا آج موقع ہے کہ ایمان اور توحید کو اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ جائو۔ دنیا کا بھی یہ دستور ہے کہ جس خطہ ملک میں طوفان یا سیلاب وغیرہ آنے کا خطرہ ہو ، وہاں کے لوگوں کو پیشگی خبردار کردیاجاتا ہے کہ اپنا بچائو کرلو ورنہ طوفان کی نذر ہوجائوگے۔ تو اطلاع کرنا بھی نعمت ہے وگرنہ لوگ طوفان یا سیلاب کی زد میں آکر ہلاک ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ تو اسی طرح اللہ تعالیٰ کا خبردار کرنا بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔ امام محمد بن ابوبکر عبدالقادر رازی (رح) فرماتے ہیں کہ کسی سزا کو موخر کردینا یا مصیبت کو ٹال دینا بھی تو نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بسا اوقات مصیبت کو ٹال دیتا ہے اور فوری سزا نہیں دیتا بلکہ اسے مؤخر کردیتا ہے تو یہ بھی تو اس کا احسان ہی ہے۔ اسی سرح پیشگی اطلاع دے دینا اور آنیوالی آفت سے خبردار کردینا بھی خدا کا انعام ہے۔ جو شخص اس بات کو نہیں سمجھتا وہ احمق ہے اور فضول اعتراض کرتا ہے۔
Top