Mualim-ul-Irfan - Ar-Rahmaan : 37
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِۚ
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ : تو جب پھٹ جائے گا آسمان فَكَانَتْ : تو ہوجائے گا وَرْدَةً : سرخ كَالدِّهَانِ : سرخ چمڑے کی طرح۔ تیل کی تلچھٹ کی طرح
پھر جب پھٹ جائے گا آسمان ، پس ہوجائے گا سرخ کھال کی طرح
ربطہ آیات سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان خصوصی انعامات کا ذکر کیا جو اس نے اپنی مخلوق اور خاص طور پر نسل انسانی پر کیے ہیں۔ پھر جزائے عمل کے بارے میں فرمایا کہ زمین و آسمان کی ہر چیز فانی ہے اور باقی رہنے والی صرف پروردگار کی ذات ہے اس کے ساتھ انعامات کے سلسلے کو دہرا کر لوگوں کو یہ بات باور کرائی گئی کہ وہ محتاج ہیں اور ہر چیز خدا تعالیٰ سے ہی اپنی حاجات طلب کرتی ہے ۔ پھر وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کا ذکر کیا۔ مجرمین کے متعلق فرمایا کہ ان پر آگ کے شعلے اور دھواں پھینکاجائے گا۔ مگر انہیں کسی طرف سے مدد نہیں مل سکے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے یہ جملہ بھی دہرایا کہ اے جنو اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ آسمان پھٹ جائے گا آج کے درس میں بھی وقوع قیامت اور جزائے عمل ہی کا بیا ن ہے۔ ارشاد ہوتا ہے فاذا انشقت السماء جس وقت آسمان پھٹ جائے گا یہ وقوع قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا فکانت وردۃً لدھان پس وہ ہوجائے گا سرخ کھال کی طرح۔ وردۃً گلاب کو کہتے ہیں اور دھان دباغت شدہ کھال کو کہتے ہیں جو سرخی مائل ہوتی ہے مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ کر گلابی یا سرخ رنگ کا ہوجائے گا۔ دھان تیل کی تلچھٹ کو بھی کہتے ہیں جو سرخی مائل ہوتی ہے۔ اس وقت تو آسمان نیلگوں نظر آتا ہے۔ مگر قیامت والے دن سرخی مائل ہوجائے گا۔ دوسری جگہ ہے کہ آسمان پھٹ کر دریچے دریچے ہوجائے گا۔ اور اس سے اوپر کی چیزیں نظر آنے لگیں گی۔ پھر وہی جملہ دہرایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن تم دونوں ( جن اور انسان) اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کی تکذیب کروگے ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مجرموں کی سزا یابی اہل ایمان کے حق میں نعمت ہے اسی لیے سورة الانعام میں ارشاد فرمایا ہے فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العٰلمین (45) پس ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریفیں تمام جہانوں کے پروردگار کے لیے ہی سزا وار ہیں۔ وفاداروں کے حق میں تو یہ نعمت ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ سزا کا حال سن کر مجرم لوگ جرائم سے باز ہی آجائیں۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہر آیت میں اپنی نعمت جتائی ہے کوئی تو فی الواقعہ نعمت ہے جس سے مخلوق مستفید ہورہی ہے اور کسی برے انجام کی خبر دینا بھی نعمت ہے کہ لوگ ڈر کر اس برائی سے باز آجائیں اور سزا سے بچ جائیں۔ مجرمین کی پہچان آگے ارشاد ہوتا ہے فیومذ لا یسئل عن ذنبہ انس والاجان اس قیامت والے دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے یعرف المجرمون بسیمھم مجرم لوگ اپنی نشانیوں سے پہچان لیے جائیں گے۔ اس عدم باز پرس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں بغیر سزا کے کھلا چھوڑ دیاجائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ان کے گناہوں کی آلودگی ان کے چہروں سے ظاہر ہوگی جیسا کہ سورة عبس میں فرمایا وجوہ یومذ علیھا غبرۃ (40) ترھقھا قترۃ (41) اور کتنے منہ ہوں گے جن پر اس دنگ گرد پڑ رہی ہوگی اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ خود بھی ہر شخص کے حالات کو جانتا ہے اور ہر شخص کا ہر عمل لوح محفوظ میں بھی محفوظ ہے۔ فرشتوں کی کتابوں میں بھی درج ہے اور ہر انسان کے اعمال نامہ میں بھی محفوظ ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) کی حکمت کے مطابق انسان کی نیکی اور بدی اس کی روح اور نسمے میں بھی محفوظ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ اس دن مجرموں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ البتہ ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش کے لیے ضرور باز پرس ہوگی جیسے سورة الحجر میں فرمایا فوربک لنسئلنھم اجمعین (92) تیرے پروردگار کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھ گچھ کریں گے اور یہ باز پرس سزا کے لیے ہوگی۔ مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ قیامت کو کئی مواقع پیش آئیں گے۔ بعض مواقع پر بازپرس ہوگی اور بعض پر نہیں ہوگی۔ تو اس لحاظ سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ مجرموں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ جرم کی نوعیت کے اعتبار سے فیوخذ بالنواصی والاقدام وہ پیشانی کے بالوں سے پکڑے جائیں گے اور پائوں سے پکڑ کر گھسیٹے جائیں گے فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائوگے۔ نمازی اور مون کی پہچان جس طرح مجرم اپنی نشانیوں سے پہچانے جائیں گے اسی طرح اہل ایمان بھی بعض نشانیوں سے پہچانے جائیں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میری امت کے لوگ وضو ، کے اعضاء سے پہچانے جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا ، حضور ! حشر کے ہجوم میں آپ اپنی امت کے لوگوں کو کیسے پہچانیں گے تو فرمایا ، اگر کسی شخص کے بہت سے گھوڑے ہوں جن میں پنچ کلیاں بھی ہوں تو ان کو کیسے پہچانا جاتا ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ایسے گھوٹے اپنے چہرے اور چاروں پائوں کی سفیدی سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے لوگوں کے چہرے ، ہاتھ اور پائوں وضو کرنے کی وجہ سے روشن ہوں گے لہٰذا میں انہیں آسانی کے ساتھ پہچان لوں گا۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ کی رضا کی خاطر اذان دینے والوں کی گردنیں قیامت کے دن بلند ہوں گی اور اس طرح مؤذن لوگ پہچانے جاسکیں گے۔ گردنیں لمبی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اونٹ کی طرح لمبی ہوں گی۔ بلکہ ان پر خاص قسم کی نورانیت چھائی ہوگی۔ جس سے یہ پتہ چل جائے گا کہ یہ موذن ہیں جو دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرتے رہے اور لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دیتے رہے۔ متکبر اور بدکار کی پہچان حدیث شریف میں اللہ کے نبی نے بعض دوسرے لوگوں کی پہچان کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ مثلاً متکبر اور مغرور لوگ قیامت والے دن چیونٹیوں کے برابر چھوٹے چھوٹے ہوں گے۔ دنیا میں تو بڑے بنتے رہے ، حسب نسب اور مال و دولت پر غرور کرتے رہے مگر اس دن ان کے جسم چیونٹیوں جتنے ہوں گے اور وہ پہچانے جائیں گے۔ مولانا رومی (رح) فرماتے ہیں…؎ حشر پُر حرص ، سگ مردار خوار صورتِ خوک بود روز شمار حر ص کا مریض دنیا میں مردار کھانے والے کتے کی مانند ہوگا۔ اور وہ قیامت والے دن خنزیر کی شکل و صورت میں ہوگا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا…؎ زانی را گندہ اندام نہاں خمر خوردہ بود وگندہ وہاں زنا کاروں کے اعضائے تناسل سے اس قدر بدبو آئیگی کہ کوئی پاس نہیں کھڑا ہوسکے گا۔ اور شراب خور کے منہ سے بھی ایسی بدبو آئے گی جیسا کہ گندہ دہنی کی بیماری ہوتی ہے۔ یہ بیماری بعض کو بغل میں ہوتی ہے ، بعض کو پائوں میں اور بعض کو منہ میں۔ غرضیکہ مختلف قسم کے لوگ اپنی اپنی نشانیوں سے پہچانیں جائیں گے۔ مجرمین کے لیے سزا فرمایا مجرم لوگوں کو پیشانی کے بالوں اور پائوں سے گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیاجائے گا ، اور کہاجائے گا ھذا جھنم التی یکذب بھا المجرمون یہ ہے وہ جہنم جس کو مجرم لوگ جھٹلا تے رہے۔ جب انہیں دنیا کی زندگی میں برے اعمال اور جہنم کے عذاب سے ڈرایاجاتا تھا۔ تو وہ تکذیب کردیتے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی قیامت نہیں ، نہ کوئی حساب کتاب ہے اور نہ اس کے نتیجے میں جنت دوزخ ہے۔ یہ سب کہانیاں ہیں جو لوگوں نے بنا رکھی ہیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کو جہنم رسید کرکے کہاجائے گا کہ اس جہنم کا تم انکار کرتے تھے۔ اب اس کا مزا چکھ لو ، سورة الحاقہ میں جہنم رسیدگی کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے حکم ہوگا خذوہ فغلوۃ (30) ثم الحجیم صلوہ (31) ثم فی سلسلۃٍ ذرعھا سبعون ذراعاً فاسلکوہ (32) اسے پکڑلو اور طوق پہنادو۔ پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو ۔ پھر ستر ستر گز لمبی زنجیروں میں جکڑدو۔ فرمایا پھر اس وقت حالت یہ ہوگی یطوفون بینھا وبین حمیمٍ ان پھر وہ چکر لگائیں دوزخ اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان۔ جب آگ کی شدت سے پیاس محسوس ہوگی تو پانی کی طرف دوڑیں گے۔ مگر وہ کھولتا ہوا گرم پانی ہوگا۔ سورة محمد میں ہے کہ جب وہ پانی کا ایک گھونٹ پیں گے تو وہ اس قدر گرم ہوگا فقطع امعائھم ( آیت۔ 15) کہ ان کی آنتوں کو کاٹ کر نیچے پھینک دے گا۔ وہ پھر اپنی اصلی جگہ پر آئیں گے۔ پھر پانی پئے گا۔ اور پھر وہی حالت ہوگی۔ ان کی ایک اور حالت سورة النساء میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم میں کلما نضجت جلودھم بدلنھم جلودًا غیرھا جب ان کی کھال جل جائے گی تو ہم دوسری کھال پہنا دیں گے۔ پھر وہ بھی جل جائے گی تو اور کھال چڑھا دی جائے گی ، اور اس طرح ان کو مسلسل سزا ملتی رہے گی۔ سورة الواقعہ میں دوزخیوں کے کھانے پینے کا ذکر بھی آتا ہے لاکلون من شجرٍ من زقوم (52) کھانے کے لیے تھوہر کا کڑوا درخت ہوگا۔ جس سے وہ پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے فشاربون علیہ من الحمیم اور پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ سورة الحاقہ میں فرمایا ولا طعام الا من غسلین (26) ان کے کھانے کے لیے ایس بدبودار پیپ ہوگی کہ جس کا ایک ڈول بھر کر اگر دنیا میں پھینک دیاجائے تو دنیا کی کوئی چیز استعمال کے قابل نہ رہے۔ ایسا ہی ایک نقشہ سورة الغاشیہ میں کھینچا ہے۔ تسقی من عین اتیتہٍ (5) لیس لھم طعام الامین ضریعٍ (6) لا یسمن ولا یغنی من جوعٍ (7) ان کو کھولتے ہوئے چشمے کا پانی پلایاجائے گا۔ اور کھانے کے لیے خار دار جھاڑ ہوگا۔ جو کہ جسم کو نہ فربہ کرے گا۔ اور نہ اس سے بھوک دور ہوگی۔ اور پھر آخر میں وہی جملہ دہرایا گیا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن اے جنو ! اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کا انکار کروگے۔ یہ مذکورہ سزائیں بھی اس لحاظ سے نعمت ہیں کہ ان کی ہولناکی کو سن کر لوگ برائی سے باز آجائیں گے اور نیکی کو اختیار کرلیں۔ اگر یہ بات کسی کو سمجھ میں آجائے تو سزا کا بیان فی الواقعہ اس کے لیے نعمت ثابت ہوگا۔
Top