بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
تسبیح بیان کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی چیز ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور وہ زبردست اور حکمتوں والا ہے
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الحدید ہے جو اس کی آیت 25 میں آمدہ لفظ سے ماخوذ ہے۔ حدیدلو ہے کہ کہتے ہیں ، اور اس سورة میں دیگر مضامین کے علاوہ لوہے کی افادیت اور اس کی ضرورت کا ذکر آرہا ہے۔ سورة ق ٓ سے لے کر گذشتہ سورة واقعہ کت مکی سورتیں تھیں۔ جب کہ یہ سورة اور اس کے بعد والی دو مزید سورتیں مدنی ہیں مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ سورة سوۃ زلزال کے بعد نازل ہوئی۔ اس سورة مبارکہ کی انتیس آیات اور چار رکوع میں اور یہ سورة 544 الفاظ اور 2473 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة : سابقہ مکی سورتوں کی طرح اس مدنی سورة میں بھی دین کے بنیادی عقائد توحید اور اس کے دلائل ، وقوع قیامت اور جزائے عمل کا ذکر ہے رسالت کے سلسلے میں اللہ نے خاص طور پر حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے۔ مدنی سورة ہونے کے ناطے اس میں بعض احکام بھی بیان ہوئے ہیں۔ خاص طور پر جہاد کی فضیلت اور اس کے لئے مال خرچ کرنے کا بیان ہے۔ جس طرحجہاد میں جان کی قربانی پیش کرنا ضروری ہوتا ہے ، اسی طرح اس سلسلہ میں انفاق فی سبیل اللہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سورة کا سابقہ سورة الواقعہ کے ساتھ ربط اس طرح ہے کہ سابقہ سورة کے آخر میں حکم تھا فسبح باسم ربک العظیم ، یعنی اپنی عظمتوں والے پروردگار کی تسبیح بیان کریں۔ اور اس سورة کی ابتداء میں فرمایا ہے سبح للہ مافی السموت والارض ، یعنی آسمانوں و زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتنزیہہ : ہرایماندار شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتنزیہہ بیان کرنا لازمی امر ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان تمام چیزوں سے پاک سمجھا جائے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ تنزیہہ زبان سے بھی ہوتی ہے ، دل سے بھی اور اعضاء جوارح سے بھی۔ زبان کی تسبیح تو اللہ تعالیٰ کے لئے پاک کلمات سبحان اللہ ، شرک ، الحاد شک وغیرہ سے بچ جائے ، اور دل میں کوئی ایسی بات نہ رکھے جو اللہ تعالیٰ کی پاکی کے خلاف ہو۔ اس کے علاوہ اعضاء جوارح کے ذریعے تنزیہہ یہ ہے کہ انسان نماز ، روزہ ، حج جیسی عبادات انجام دے ، اور اس طرح زبان کے ………ساتھ اس کے اعضاء جوارح بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں شرک ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو حقیقت میں بھی یہی چیز اللہ کی تنزیہہ اور پاکیزگی پر دلالت کرتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے سبح للہ مافی السموت والارض آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ آسمانی مخلوق ملائکہ اپنی مرضی اور اختیار سے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ جیسے فرمایا یسبحون ……………لایفترون (الا نبی ائ 20) وہ دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں مگر تھکتے نہیں۔ اس کے علاوہ کائنات کی تمام چیزیں مثلاً آسمانی کرے ، انسان ، حیوانات ، نباتات اور جمادات سب اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وان من…………… …تسبیحھم (بنی اسرائیل 44) ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اس کی تعریف کے ساتھ مگر تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے ان کی زبان کو اللہ ہی جانتا ہے جس کے ساتھ وہ چیزیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں۔ تمام نباتات ، درختوں کے پتے ، حیوانات ، سمندروں کی مخلوق اور ابروباد سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ان کی تسبیح کو اللہ خوب جانتا ہے جس کی وہ تسبیح کرتے ہیں مگر انسان اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح سورة النحل میں ارشاد ہوتا ہے وللہ یسجد………………لا یستکبرون (آیت 49) آسمان و زمین کی ہر چیز اور جانور اور فرشتے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ البتہ انسانوں میں سے بہت لوگ ہیں۔ جو اپنے اختیار اور ارادے سے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ، اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو نہ سجدہ کرتے ہیں اور نہ اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے ہیں ایسے لوگ کافر ، مشرک یا دہریے ہوتے ہیں۔ تاہم فرمایا کہ اگر کوئی اسنان سجدہ یا تسبیح بیان نہیں کرتا تو اس کا سایہ تو بہرحال سجدہ ریز ہوتا ہے جیسے فرمایا وللہ یسجد… …………………والاصال (الرعد 15) جو بھی آسمان اور زمین میں ہے وہ خوشی یا ناخوشی سے اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور ان کے سائے بھی صبح شام سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ کسی کے سائے کا مشرق ومغرب کی طرف جھکنا ہی اس کی سجدہ ریزی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے کہ وہ پروردگار تمام عیوب ونقائص اور ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ۔ اور تحمید کا معنی یہ ہے کہ تمام صفات کمال اللہ تعالیٰ کی ذات میں پائی جاتی تھی۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ کے فرشتے سبحن اللہ الحمد للہ لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر جیسے پاکیزہ کلمات سے اس کی تنزیہہ بیان کرتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کا کم از کم اتنا حصہ ضرور ہونا چاہیے کہ وہ دن میں سو مرتبہ ان کلمات کو ادا کرے فرمایا ہر چیز اس کی تسبیح بیان کرتی ہے وھو العزیزالحکیم اور وہ ذات غالب ، زبردست اور حکمت والا ہے۔ ہر جگہ اسی کا اختیار ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے۔ ہر چیز کو وہی پیدا کرتا ہے اور وہی فنا کرتا ہے۔ اس طرح توحید کی بات بھی ذہن میں آجاتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جن سورتوں کی ابتداء تسبیح سے ہوتی ہے۔ مثلاً یہی سورة الحدید یا سور ۃ الصف یا سورة الجمعہ وغیرہ حضور ﷺ ان سورتوں کو رات کے وقت سونے سے پہلے تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ان سورتوں میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوں سے زیادہ فضیلت والی ہے۔ اور وہ ہے سبحن الذی اسری بعبدہ…الاٰیۃ ، یعنی سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت۔ آسمان و زمین کی بادشاہت : فرمایا ارض وسما کی ہر چیز اسی وحدہ لا شریک کی تسبیح بیان کرتی ہے کیونکہ لہ ملک السموت والارض آسمانوں اور زمین کی بادشاہت بھی اسی کی ہے۔ کائنات کا کوئی گوشہ اس کی سلطنت سے باہر نہیں ، لہٰذا مکمل تسلط اور تصرف بھی اسی کا ہے یحییٰ ویمیت وہی زندہ کرتا ہے اور وہی موت طاری کرتا ہے ، گویا موت وحیات کا سررشتہ اسی کے قبضہ واختیار میں ہے۔ ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اور ہر چیز فنا بھی اسی کے حکم سے ہوگی۔ مخلوق میں سے بعض پر فنا طاری ہوتی ہے ، اور بعض ایسی مخلوق ہے کہ اس کی ذات میں ہی فنا پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ممکن چیز کا وجود اور عدم برابر ہے۔ جب اس کے خالق نے چاہا اس کو موجود کردیا اور جب چاہا معدوم کردیا۔ اپنی ذات سے قائم ودائم صرف ذات خداوندی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ تمام چیزیں خواہ وہ ارضی ہوں یا سماوی ، علوی ہوں یا سفلی ، ملائکہ مقربین ہوں یا جن وانس سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ، اللہ خالق………………… ……(الزمر 62) ہر چیز کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے اور ہر چیز کا کارساز ، مدبر اور متصرف بھی وہی ہے وھو علی کل شیء قدیر وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، کوئی چیز بھی اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ اول وآخر ظاہر و باطن : آگے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا ذکر کیا ہے۔ جس سے اس کی وحدانیت اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ھوالاول والاخر سب سے پہلے بھی وہی ہے اور سب آخر بھی وہی ہے۔ اول سے مراد یہ ہے کہ اس کی کوئی ابتداء نہیں یعنی وہ ازلی ہے اور آخر کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی انتہاء نہیں اور وہ ابدی ہے۔ حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کان ان اللہ ولم یکن سواہ شیء ایک وقت ایسا تھا جب صرف اللہ کی ذات تھی اور اس کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی۔ اسی طرح ایک وقت آئے گا جب صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائیگی اور اس کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی۔ فرمایا والظاھر والباطن ، ظاہر بھی وہی ہے اور باطن بھی وہی ہے ظاہر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پدرت کی نشانیاں ظاہر ہیں جن سے اس کی ہستی کا اندازہ ہوتا ، گویا وہ اپنی نشانیوں اور آثار کے اعتبار سے ظاہر ہے۔ اور باطن اس اعتبار سے ہے کہ اس کا ادراک عقل یا جو اس کے ذریعے ممکن نہیں۔ خدا کی ذات وراء الوراء ہے ، وہ بہت لطیف اور باطن ہے۔ امام غزالی (رح) لکھتے ہیں کہ باطن باعتبار معرفت ہے۔ یعنی جن چیزوں کو انسان جانتا ہے ان میں سے سب سے دقیق ، لطیف اور پیچیدہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کی ذات تک مخلوق کی رسائی ممکن نہیں۔ اسی لئے فرمایا لا فکرۃ فی الرب یعنی خدا تعالیٰ کی ذات میں غوروفکر نہ کرو۔ بلکہ اس کو اس کی صفات کے مظاہر سے پہچانو۔ اس بات میں غور کرو کہ یہ انواع و اقسام کی مخلوق کس نے پیدا کی ہے ، اس سے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق سمجھ میں آگئی۔ پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر جاندار کو کس طرح روزی بہم پہنچاتا ہے۔ اس سے اس کی صفت رزاقیت عیاں ہوتی ہے۔ ذرا غورکرو کہ ہر چیز کو حد کمال تک کون پہنچاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا کرشمہ ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کی مخلوقات اور مصنوعات سے سمجھا جاتا ہے براہ راست اس کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ففی کل شیء لہ ایۃ ندل علی انہ واحد ہرچیز میں اس کی وحدانیت کی دلیل پائی جاتی ہے۔ سعدی صاحب (رح) نے بھی کہا ہے کہ پہچان والے لوگوں کے لئے درختوں کے سبز پتے ہی اللہ کی معرفت کے دفتر ہیں۔ اور مظاہر قدرت ہی اس کی پہچان کا ذریعہ ہیں۔ حدیث میں یہ بھی آتا ہے انت الظاھر ولیس فوقک شیء تو اس قدر غالب ہے کہ تیرے اوپر کوئی چیز نہیں۔ یعنی تو ہی سب پر غالب ہے تیرے اوپر کسی کا غلبہ ، تصرف ، یا اقتدار نہیں وانت الباطن ولیس ورآء ک شیئ ، اور تو باطن ہے کہ تجھ سے ورے یعنی تجھ سے پوشیدہ کوئی چیز نہیں۔ الغرض ! پیدا کرنا ، زندہ کرنا ، موت دینا ، کائنات کا بادشاہ ہونا ، قدرت تامہ کا مالک ہونا ، ازلی اور ابدی ہونا ، علامات کے اعتبار سے نمایاں اور ذات کے لحاظ سے پوشیدہ ہونا سب اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جس میں کوئی دوسری ہستی شریک نہیں۔ وھوبکل شیء علیم اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔ اس کی نگاہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق : ارشاد ہوتا ہے ھوالذی خلق السموت والارض فی ستۃ ایام اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن کے وقفے میں پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کو ایک لحظہ میں پیدا کرنے پر پادر ہے۔ مگر کچھ دن کے وقفہ میں بھی اس کی خاص مصلحت ہے۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ اتنے عرصہ میں پیدا کرنے سے انسان کو یہ اور کرانا مقصود ہے۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ اتنے عرصہ میں پیدا کرنے سے انسان کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ہر کام بتدریج ہونا چاہیے کیونکہ۔ التئودۃ من الرحمن والعجلۃ من الشیطن ، آہستگی اور پختگی رحمانی کام ہے جب کہ جلد بازی شیطانی کام ہے۔ انسانوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ کسی کام میں جلد بازی نہ کرو۔ کہ اس سے کام خراب ہو کر ندامت کا باعث بنتا ہے باقی رہی یہ بات کو چھ دن سے کتنا عرصہ مراد ہے تو اس سے ہماری دنیا کے نظام شمسی والے چوبیس گھنٹے والے دن مراد نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک کان…………… …تعدون (الم السجدۃ 5) ایک دن کی مقدار ہزار سال کے برابر ہے ۔ اللہ نے اپنی مصلحت کے مطابق کائنات کو گویا چھ ہزار سال کے عرصہ میں پیدا فرمایا۔ فرمایا ثم استویٰ علی العرش پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ قرآن میں استویٰ علی العرش کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا اس طرح نہیں جس طرح ہم کسی پلنگ ، کرسی یا تخت پر بیٹھے ہیں ، بلکہ اللہ کا استویٰ اس طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے اور جو ہماری عقل وفہم سے بالا ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے استویٰ علی العرش کا مطلب یہ ہے کہ وہ عرش پر اپنی تجلی اعظم ڈالتا ہے جس سے سارا عرش اور اس سے نیچے ساری کائنات رنگین ہوجاتی ہے اور پھر اس تجلی کے تغیرات اور آثار پلٹ کر واپس چلے جاتے ہیں یہ تجلیات کب سے پڑ رہی ہیں۔ اور کب تک پڑتی رہیں گی۔ اس کو کوئی انسان نہیں جان سکتا۔ اللہ کا علم محیط : فرمایا علم محیط صرف اللہ تعالیٰ کا ہے یعلم مایلج فی الارض وما یخرج منہا وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو چیز زمین سے نکلتی ہے۔ زمین میں داخل ہونے والی اشیاء میں بارش کا پانی ، نباتات کے بیج اور خود مرنے والے انسان ہیں۔ اس سے نکلنے والی چیزوں میں پانی ، تیل ، گیس ، سونا ، چاندی ، لوہا ، کوئلہ ، غلہ ، سبزیاں ، پھل اور پھول ہیں۔ غرضیکہ ہر قسم کی نباتا اور مع دنیات زمین ہی سے نکلتی ہیں۔ جن سے انسان اور دیگر جاندار مستفید ہوتے ہیں۔ فرمایا ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ فرمایا وما ینزل من السماء وما یعرج فیھا اللہ تعالیٰ ان اشیاء کو بھی جانتا ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے آسمان سے نازل ہونے والی اشیاء ، بارش ، قضا وقدر کے فیصلے ، روزی کا حکم ، ترقی وتنزل کا فرمان وغیرہ ہیں اور اس کی طرف چڑھنے والی چیزوں میں فرشتے ہیں جو اوپر جاتے ہیں اور نیچے بھی آتے ہیں۔ انسانوں کے اعمال بھی اوپر جاکر خطیرۃ القدس میں اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔ یہ سب چیزیں بھی اللہ کے علم میں ہیں۔ معیت خداوندی : پھر ارشاد ہوتا ہے وھو معکم این ماکنتم اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں بھی تم ہو۔ اگلی سورة المجادلۃ میں آرہا ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ نہیں ہوتے سرگوشی کرنے والے تین مگر ان کے پاس چوتھاوہ ہوتا ہے اور نہیں ہوتے پانچ مگر چھٹا وہ ہوتا ہے اس سے کم ہوں یا زیادہ الاھو…………کانوا (المجادلۃ 7) مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے ، جہاں بھی ہوں۔ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ معیت اس کے علم ، قدرت اور تصرف کے ساتھ ہے۔ تاہم دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مطلق معیت ہے۔ یعنی یہ علم ، قدرت اور تصرف کے ساتھ تو ہے ہی ، مگر ذاتی معیت بھی ہے۔ وہ ذاتی اعتبار سے بھی تمہارے ساتھ ہے۔ جیسا کہ سورة ق ٓ میں گزر چکا ونحن………………الورید (آیت 16) ہم تو انسان کی شہ رگ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہیں۔ یہ معیت ذاتی ہونے کے ساتھ ساتھ بےکیف بھی ہے یعنی اس کی کیفیت کو کوئی بیان نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس کو مخلوف کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ہست رب الناس را باجان ناس اتصال بےتکیف بےقیاس اللہ تعالیٰ کی ذات کو لوگوں کی جانوں کے ساتھ اتصال حاصل ہے۔ مگر یہ معیت کیفیت اور قیاس کے بغیر ہے ، ہم اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ روئیت باری تعالیٰ کے بارے میں بھی اہل حق اس بات کے قائل ہیں کہ یہ آخرت میں اہل ایمان کو حاصل ہوگی۔ مگر اس کی کیفیت کو آج کوئی نہیں بیان کرسکتا بہرحال اللہ تعالیٰ کی معیت ہر انسان کے ساتھ ذاتی بھی ہے مگر بےکیف۔ اللہ کی ملکیت اعلیٰ : فرمایا واللہ بما تعملون بصیر ، اور جو کام تم کرتے ہو اللہ دیکھنے والا ہے۔ تمہارے اعمال حسنہ یا سیسہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں۔ لہ ملک السموت والارض ، آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے تسلط سے کوئی چیز باہر نہیں۔ والی اللہ ترجع الامور ، اور تما معاملات اسی کی طرف لوٹ کر جاتے ہیں۔ انسانوں کے تمام اعمال قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے اور پھر وہ ہر ایک کی جزا اور سزا کا فیصلہ کریگا۔ انسانوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے بارے صحیح صحیح علم حاصل کرے۔ اسی علم سے انسان کو حقیقی حیات نصیب ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی اچھا نظام قائم ہوگا ، اس کو قائم کرنے والی صالح جماعت ہی ہوگی جس کا اعتقاد ، اخلاق اور اعمال صحیح ہوں گے۔ ایسی جماعت کے بغیر اسلام نظام کا قیام ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں صحیح نظام جاری کرنے کے دعویدار بروکریٹ ، نیم ملحد ، دہریے ، رافضی۔ قادیانی اور ایسے ہی دوسرے بےدین لوگ ہیں جن سے صالح نظام کی توقع عبث ہے ، یہ لوگ نہ اسلامی نظام کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل کرسکتے ہیں اگر سمجھ بھی جائیں تو یہ ان کے مزاج کے خلاف ہوگا ۔ لہٰذا وہ کبھی بھی اس کو رائج کرنے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ زبانی کلامی اس کی تعریفیں کرتے رہیں گے۔ دنیاوی اعتبار سے تو یہ لوگ بیوقوف نہیں ہیں بلکہ ان میں فکر معاش تو کمال درجے کی ہے ، البتہ ان میں فکر معاد کا فقدان ہے۔ دنیا کی سپر طاقتیں اور ان کے نمائندے سب ایسے ہی ہیں۔ قرآن کے نظام کو صرف نیک لوگ ہی جاری کرسکتے ہیں۔ تو فرمایا کہ اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی ، اور تمام چیزیں اس کی طرف لوٹ کر جانے والی ہیں۔ یولج الیل فی النھار ویولج النھار فی الیل وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ کبھی رات بڑی ہوتی ہے اور کبھی دن بڑا ہوتا ہے اور اسی بناء پر سال بھر میں چار موسم گرما ، سرما ، بہار اور خزاں آتے ہیں۔ یہ تمام ظاہری تصرفات اور تقلبات اس کی قدرت اور حکمت کی علامات ہیں۔ وھو علیم بذات الصور اور وہ دلوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ اس کو علم ہے کہ کس کے دل میں توحید ہے یا کفر ، شرک ، ایمان ہے یانفاق ، الحاد اور شک۔ وہ ہر ایک کو اس کے عقیدے اور عمل کے مطابق ہی بدلہ دے گا۔
Top