Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہارے نفسوں میں مگر وہ ایک کتاب میں درج ہے قبل اس کے کہ ہم اس کو ظاہر کریں۔ بیشک یہ کام اللہ پر آسان ہے
ربط آیات : گزشتہ آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر ہوا ، دنیا کی لہو ولعب زیب وزینت اور مال واولاد کی کثرت طلب کو مہلک قرار دیا گیا۔ دنیا کی بےثباتی کا ذکر کرکے خدا تعالیٰ کی بخشش ومغفرت اور وسیع وعرویض جنت کی طرف سبقت کرنے کی ترغیب دی گئی پھر فرمایا کہ یہ جنت ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کے نظام کے قیام کے لئے مال صرف کیا۔ جس کا معاوضہ اللہ کے ہاں ملنے والا ہے۔ اندرونی اور بیرونی مصائب : بعض لوگ مال کو اللہ کے راستے میں اس لئے خرچ نہیں کرتے کہ یہ مال ان کی مصیبت میں کام آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کی تردید فرمائی ہے اور اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ تمام آلام ومصائب اللہ تعالیٰ کے علم میں مقدر ہیں اور اللہ کی لوح محفوظ میں بھی درج ہیں لہٰذا ان کو مال و دولت یا کوئی دوسری تدبیر دور نہیں کرسکتی ، بلکہ وہ ضرور آکر رہیں گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر یقین ہوگا تو مصائب کم معلوم ہوں گے ، لہٰذا مال خرچ کرنے میں بخل نہیں کرنا چاہیے۔ ارشاد ہوتا ہے ما اصاب من مصیبتۃ فی الارض ولا فی انفسکم ، زمین میں یا تمہارے نفسوں میں کوئی مصیبت یا تکلیف نہیں پہنچتی الا فی کتب مگر وہ ایک کتاب میں درج ہے من قبل ان نبراھا پیشتر اس کے کہ ہم اسے ظاہر کریں۔ زمین سے مراد ملک ، علاقہ یا خطہ ہے اور نفس سے مراد انسان کا اپنا جسم ہے۔ مطلب یہ ہے ہر اندرونی اور بیرونی طور پر پیش آنے والی تکلیف اچانک نہیں آجاتی بلکہ یہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی تقدیر اور لوح محفوظ میں درج ہے اور وہ ہر صورت میں وارد ہو کر رہے گی۔ لہٰذا کسی مصیبت کو ٹالنے کے لئے مال کو روک رکھنا بےسود ہے۔ بیرونی مصائب میں زلزلہ ، قحط ، جنگ یا طوفان وغیرہ آتے ہیں جن کی وجہ سے بہت سا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے ، دنیا میں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں جن میں ہزاروں آدمی جاں بحق اور لاکھوں بےگھر ہوجاتے ہیں ، لوگوں کی املاک تباہ ہوجاتی ہیں اور پوری زندگی درہم برہم ہو کر رہ جاتی ہے 1933 ء کا جاپان کا زلزلہ ، بیس پچیس سال قبل بذرتہ بستی کا زلزلہ اور 1935 ء میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے کی مثالیں موجود ہیں۔ افریقی ممالک میں اکثر قحط نمودار ہوتا رہتا ہے جس سے وسیع پیمانے پر جانیں تلف ہوجاتیں ہیں۔ بنگال کا قحط تو بڑا مشہور ہے۔ سرحدی علاقے کی بھاشان بستی کے زلزلہ میں چار ہزار بنگال کا قحط تو بڑا مشہور ہے۔ سرحدی علاقے کی بھاشان بستی کے زلزلہ میں چار ہزار کی آبادی ختم ہوگئی تھی اسی طرح سمندری طوفانوں کا سلسلہ بھی دنیا میں چلتا رہتا ہے ہمارے اس خطے میں بنگلہ دیش اکثر اس کا شکار بنتا ہے جس کی وجہ سے جانی نقصان کے علاوہ کھڑی فصلوں ، مکانوں اور کارخانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اندرونی طور پر انسانی جسم طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ آج کل بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماریاں عام ہیں ، دل کی بیماریوں کی وجہ سے بھی بہت سی جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ اس زمانے میں ماحول کی آلودگی بھی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے نتیجے میں کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور مختلف کیمیائی چیزوں کا فضلہ ماحول کی آلودگی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے جس سے انسانی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح روز افزوں مہنگائی ، عوام کی تنگدستی ، منافقین کی ریشہ دوانیاں سڑکوں پر بڑھتے ہوئے حادثات ، عیاشی ، فحاشی ، اور عریانی کا بڑھتا ہوا سیلاب سب مصائب ہی تو ہیں۔ جن کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ کی کتاب میں درج ہیں۔ اور انہیں وارد ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ حضرت عبداللہ بن عم ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ ارض وسماء کی پیدائش سے پچاس ہزار سال قبل اللہ نے تقدیر کو مقدر کردیا تھا ، اس وقت خدا تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ ایک حدیث میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی موجود ہے ما اصابک لم یکن لیخطئک یعنی جو چیز تجھے پہنچنے والی ہے وہ چوکنے والی نہیں۔ خواہ تم کتنی ہی تدابیر اختیار کرلو اور آکر رہے گی۔ اور جو چیز تجھے نہیں پہنچتی ، وہ سمجھ لو کہ کبھی پہنچنے والی نہ تھی۔ سورة التعابن میں اللہ کا فرمان ہے ما اصاب ……………اللہ (آیت 11) ہر آنے والی مصیبت اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی وارد ہوتی ہے۔ سورة الشوریٰ میں یہ بھی موجود ہے۔ وما اصابکم………………عن کثیر (آیت 30) تمہیں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ ہر مصیبت کے آنے میں انسان کی نیت ارادے اور عمل کا ضرور دخل ہوتا ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ بہت سی مصیبتوں سے درگزر فرماتا ہے اور وہ تکلیف انسان کو نہیں پہنچتی۔ مفسر قرآن حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات اپنے اساتذہ یا بزرگوں کے ذریعے پہنچی ہے کہ اگر انسان کو لکڑی کی ایک خراش آجاتی ہے ، پائوں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ زخمی ہوجاتا ہے یا انسان کی کوئی رگ پھٹکتی ہے جس سے اسے تکلیف لاحق ہوجاتی ہے تو یہ ساری تکالیف کسی نہ کسی گناہ کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان کے علاوہ جن سے اللہ درگزر فرمادیتا ہے وہ تو بہت زیادہ ہیں۔ ہاں اگر انسان کا عقیدہ درست ہو ، اس کا ایمان صحیح ہو اور وہ تکلیف میں صبر سے کام لے تو یہی تکلیف اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ، اسی لئے بعض حضرات فرماتے ہیں من عرف سرالقدر ھانت علیہ المصائب جو شخص اللہ کی تقدیر کے راز کو پالیتا ہے اس پر دنیا کی مصیبتیں آسان ہوجاتی ہیں اور وہ جزع فزع نہیں کرتا۔ اسی لئے حضور ﷺ نے یہ دعا بھی سکھلائی ہے ومن الیقین ما تھون بہ علینا مصائب الدنیا اے اللہ ! ہمیں یقین میں سے اتنا حصہ عطا فرمادے ۔ جس کی وجہ سے ہم پر دنیا کی مصیبت آسان ہوجائے۔ چناچہ جس قدر انسان کا یقین پختہ ہوگا۔ اسی قدر اس کو تکالیف کم محسوس ہوں گی۔ جزع فزع اور گلہ شکوہ عموماً ایمان کے نقص اور یقین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ مصائب میں سے زیادہ خطرناک دینی مصائب ہیں کیونکہ دنیا کی تکالیف تو انسان کی زندگی تک محدود ہیں ، انسان ختم ہوا تو اس کی تکالیف بھی ختم ہوگئیں۔ مگر دین کی مصیبت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اگر انسان کا اعتقاد خراب ہے ، اس میں کفر ، شرک ، نفاق یا الحاد کا کچھ حصہ پایا جاتا ہے اور پھر وہ اسی حالت میں دنیا سے چلا گیا تو وہ ہمیشہ کے لئے مصائب وآلام میں گرفتار رہے گا۔ اسی لئے حضور ﷺ نے دعا سکھائی ہے اللھم لا تجعل مصیبتنا فی دیننا اے اللہ ! دین کے معاملے میں ہمیں کسی مصیبت میں نہ ڈال کیونکہ دنیا کی مصیبت تو ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی ، مگر دین کی مصیبت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ بہرحال فرمایا کہ کوئی مصیبت نہیں پہنچتی زمین میں یا تمہارے نفسوں میں مگر یہ ایک کتاب میں درج ہے پیشتر اس کے کہ ہم اس کو ظاہر کری۔ فرمایا ان ذلک علی اللہ یسیر ، یہ کام یعنی تمام پیش آنے والے حالات کو کتاب میں پہلے ہی درج کردینا اللہ کے لئے مشکل نہیں بلکہ آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ، وہ ازلی اور ابدی ہے ، لہٰذا اس کے لئے کوئی کام دشوار نہیں۔ حسرت اور تکبر کی ممانت : اللہ تعالیٰ نے ہر تکلیف کو پہلے سے کتاب میں درج کرنے کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے۔ لکیلا تاسوا علی مافاتکم تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل گئی ہے اس پر افسوس نہ کرو۔ تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کے علم اور تقدیر میں اسی طرح تھا کہ مجھے یہ تکلیف پہنچے گی یا یہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اگر یہ یقین پیدا ہوجائے تو پھر متاثرہ شخص پریشانی ، بےچینی اور جزع فزع کا اظہار نہیں کرے گا۔ پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا ولا تفرحوا بما اتکم اور جو نعمت اللہ نے تمہیں عطا فرمائی ہے اس سر شیخی نہ بھگارو ، اور نہ اس پر غرور وتکبر کا اظہار کرو۔ تقدیر میں پہلے سے مقدر ہونے کی یہ بھی حکمت ہے۔ جب انسان کو علم ہوگا ، کہ اسے ملنے والا مال و دولت ، اولاد ، عزت وجاہ سب اللہ کی طرف سے لکھا ہوا ہے تو وہ اسے اپنی محنت اور کوشش کا ثمرہ نہیں سمجھے گا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوگا۔ بہرحال فرمایا کہ کسی مصیبت کے آنے پر افسوس نہ کرو اور کسی چیز کے حصول پر اترائو نہیں کیونکہ واللہ لا یحب کل مختال فخور ، اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ سورة لقمان میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کے بیٹے کے حق میں نصاء میں سے ایک یہ نصیحت بھی بیان فرمائی ہے ولا تصعر خدک للناس ……………………فخور (آیت 18) اے بیٹے ! لوگوں کے سامنے اپنے گال مت پھلائو اور زمین پر اتراتے ہوئے نہ چلو۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے اور اپنی بڑائی بیان کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض ہوتے ہیں۔ بخل کی مذمت : دولت مند عام طور پر بخل کے مرتکب ہوتے ہیں ، وہ اپنی بڑائی تو بیان کرنے سے نہیں چوکتے مگر جب خرچ کرنے کا وقت آتا ہے تو بخل کرتے ہیں۔ اللہ نے ایسے لوگوں کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ الذین یبخلون ، جو لوگ بخل کرتے ہیں ، انہیں خود تو خرچ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ویامرون الناس بالبخل ، اور دوسرے لوگوں کو بھی بخل کرنے کی تلقین کرتے ہیں اپنے قول وفعل سے لوگوں کو کنجوسی پر آمادہ کرتے ہیں۔ کوئی دوسرا شخص نیکی کا کام کرنا بھی چاہے تو اس پر طعنہ زنی کرتے ہیں یا غلط پراپیگنڈا کے ذریعے اس کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مال کو ضائع کررہا ہے۔ ہاں اگر کسی برے کام یا بری رسم و رواج میں خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ تو بخوشی خاطر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اور اس طرح اسراف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بخل بہت بری خصلت ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ بخل سے مہلک کوئی روحانی بیماری نہیں ہے۔ جو شخص سب کچھ ہونے کے باوجودصحیح جگہ پر خرچ نہیں کرتا بلکہ روگردانی کرتا ہے تو اللہ نے فرمایا ومن یتول جو آدمی روگردانی کرتا ہے یعنی صحیح مقام پر خرچ کرنے کی بجائے اس سے اعراض کرتا ہے ، تو فرمایا فان اللہ ھوالغنی الحمید تو بیشک اللہ تعالیٰ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔ اسے کسی کے مال کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس میں خود خرچ کرنے والے کا ہی فائدہ ہے۔ سورة کی ابتداء میں یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے خرچ کیے گئے مال کا کم از کم دگنا عطا کریگا۔ اگر تم قرآن کے پروگرام کی ترویج کے لئے مال خرچ کرو گے تو اللہ دنیا میں بھی کئی گنا عطا کرے گا اور آختر کا اجر تو بیحد وبے شمار ہے۔ انفاق کا فائدہ : انفاق کا فائدہ یہ ہے کہ فرض ادا ہوتا ہے ، انسان کی تہذیب نفس حاصل ہوتی ہے اور وہ اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے قابل ہوجاتا ہے۔ سخی آدمی بخل کی بیماری سے بچ جاتا ہے اور اس سے بنی نوح انسان کا بھلا بھی ہوتا ہے۔ دو خصلتیں بہت بڑی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق درست ہو ، اور دوسری یہ کہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھی رشتہ صحیح ہو۔ انفاق فی سبیل اللہ سے یہ دونوں مقصد حاصل ہوتے ہیں۔ صدقات اور زکوٰۃ کی یہی حکمت ہے کہ ایک طرف محتاجوں کی ضروریات پوری ہوں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہوجائے۔ مال کے متعلق پہلے واضح کردیا گیا ہے کہ یہ کسی کا ذاتی نہیں ہے ، انسان تو اس کے صرف امین ہیں ، اصل مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی متصرف ہے۔ اس نے مجازی طور پر انسانوں کو تھوڑے عرصہ کے لئے اس کا مالک بنایا ہے اور اس کو صرف کرنے کا اختیار بھی دیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ انسان کی آزمائش کرتا ہے کہ وہ میرے دیے ہوئے مال میں سے میرے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر طریقے سے انسان کو آزماتا ہے………کبھی مال دے کر آزماتا ہے اور کبھی چھین کر آزماتا ہے۔ کبھی تندرستی دے کر اور کبھی بیمارے دے کر ، کبھی عروج دے کر اور کبھی زوال دے کر۔ پھر جو شخص اس آزمائش میں پورا اترتا ہے وہ اس کے اجروثواب کا مستحق بنتا ہے ، اور جو اس آزمائش پر پورا نہیں اترتا وہ ہمیشہ کے لئے ناکام ہوجاتا ہے۔ بہرحال اللہ نے مصائب کے وقت دو چیزوں کو بطور علاج تجویز کیا ہے جن میں سے ایک ایمان ہے اور دوسرا صبر۔ ان پر عمل کرنے والا کامیابی سے ہم کنار ہوگا۔
Top