Mualim-ul-Irfan - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
جو کاٹے ہیں تم نے کھجور کے درخت یا چھوڑا ہے ان کو اپنی جڑوں پر ، پس اللہ کے حکم سے ، اور تاکہ رسوا کرے اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو
ربط آیات : سورۃ کی ابتدائی آیات میں قبیلہ بنی نضیر کی بدعہدی کا ذکر ہوا۔ یہ قبیلہ مدینہ کے اطراف میں آباد ان قبیلوں میں سے ایک تھا جنہوں نے معاہدہ مدینہ پر دستخط کر رکھے تھے اور جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان اور یہ قبائل اپنے اپنے مذاہب پر قائم رہتے ہوئے کسی بیرونی حملہ کی صورت میں اکٹھے دفاع کریں گے اور معاہدہ میں شامل کوئی فریق کسی دوسرے فریق کے خلاف دشمن کی مدد نہیں کرے گا۔ بنی نضیر نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کے ساتھ ساز باز کی اور انہیں مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دی دوسری طرف مدینہ میں مسلمانوں کو طرح طرح سے تکالیف پہنچانے لگے ۔ حتیٰ کہ حضور ﷺ کو بالکل ختم کردینے کی سازش کی۔ اللہ نے ان بدبختوں کو ناکام بنایا اور اہل ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔ پھر اللہ نے ان ظالموں کی سرکوبی کے لئے مسلمانوں کو اجازت دی کہ ان پر حملہ کرکے ان کو عہد شکنی کا مزا چکھایا جائے۔ چناچہ مسلمان بنی نضیر پر حملہ آور ہوئے اور وہ جواب میں قلعہ بند ہوگئے۔ جب محاصرہ کو دو تین ہفتے گزر گئے اور یہودی مقابلہ کرنے کے لئے باہر نہ نکلے تو حضور ﷺ نے مجاہدین کو اجازت دیدی ، کہ بیرون قلعہ ان کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا جائے تاکہ یہ لوگ اس کے بچائو کے لئے ہی باہر نکل آئیں تو ان سے فیصلہ کن معرکہ ہوجائے۔ چناچہ صحابہ ؓ نے بویرۃ کے مقام پر یہودوں کے کھجور کے کچھ درخت کاٹ ڈالے۔ اس پر یہودیوں نے اعتراض کیا کہ محمد ﷺ خود تو فتنہ و فساد سے منع کرتے ہیں مگر خود ہی درختوں کو کاٹ رہے ہیں۔ درخت کاٹنے کی اجازت : اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا ماقطعتم من لینۃ ، تم نے جو بھی کھجور کے درخت کاٹے ہیں۔ اوترکتموھا قائمۃ علی اصولھا ، یا ان کو اپنی جڑوں سے کھڑا رہنے دیا ہے فباذن اللہ ، یہ اللہ کے حکم سے کیا ہے مطلب یہ کہ اللہ کی اجازت کے بغیر تو کوئی کام نہیں لہٰذا ان یہودیوں کا اعتراض معتبر نہیں ہے۔ یہ اجازت اگرچہ وحی کے ذریعے نہیں آئی مگر اللہ کے نبی کا حکم اللہ ہی کا حکم سمجھا جائے گا کیونکہ پیغمبر اللہ کے احکام کا شارح ہوتا ہے حضور ﷺ نے کھجوروں کے درخت کاٹنے کا اس لئے حکم دیا تاکہ یہودیوں کو اپنے باغات کی ویرانی کا دکھ پہنچے اور وہ باہر نکل کر مقابلہ کریں یا مغلوب ہوجائیں۔ لینہ کھجور کے پھلدار درخت کو کہتے ہیں۔ اس میں عجوہ اور برنی نامی کھجوروں کے علاوہ باقی ہر قسم کی کھجور کے درخت آجاتے ہیں۔ جو درخت کاٹے گئے تھے وہ یہودوں کو تنگ کرنے کے لئے اور جو چھوڑ دیے گئے تھے وہ اس لئے کہ غلبہ ہونے کی صورت میں یہ مسلمانوں ہی کے کام آئیں گے۔ فرمایا درخت کاٹنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا۔ ولیخزی الفسقین ، تاکہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو رسوا کردے۔ غرضیکہ درختوں کی بربادی اللہ تعالیٰ کی منشاء کے عین مطابق تھی ، لہٰذا اس پر اعتراض کرنا خود اللہ تعالیٰ کی مشیت پر اعتراض کے مترادف ہے۔ فقہی مسائل : اس ضمن میں بعض فقہی مسائل بھی متفرع ہوتے ہیں۔ چناچہ سیرالکبیر ، ہدایہ اور فتح القدیر جیسی کتب فقہ میں اس مسئلہ کی وضاحت موجود ہے کہ اگر مسلمان کسی کافر قوم پر حملہ آورہوں تو ان کے قلعے ، باغات اور جانوروں وغیرہکو نقصان پہنچانے کی اجازت ہے۔ البتہ امام ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اجازت صرف اس صورت میں ہوگی جب کہ کفار ہتھیار ڈالنے پر تیار نہ ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے لئے ان چیزوں سے مستفید ہونا ممکن نہ ہو تو پھر ان کو ضائع کردینا ہی بہتر ہے تاکہ کافر بھی ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں اور اگر کفار کے مغلوب ہوجانے کا یقین ہو تو پھر کسی چیز کو تلف کرنا درست نہیں کیونکہ ایسا کرنا خود اپنا نقصان کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس قسم کی کاروائی جنگی کاروائی سمجھی جائے گی اور اسے فساد کے ساتھ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ کے دوران اس قسم کے حربے استعمال کرنا جائز ہے۔ بنی نضیر کے محاصرے کو بیس بائیس دن گزر چکے تھے۔ مگر یہودی نہ تو باہر نکل کر جنگ کرتے تھے اور نہ ہی صلح کی درخواست کرتے تھے۔ لہٰذا ان کی املاک کو نقصان پہنچانا ناگزیر ہوگیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور قلعے کھول کر مصالحت پر آمادہ ہوگئے۔ انہوں نے اس شرط پر جنگ سے گریز کیا کہ وہ مسلمانوں کی تمام شرائط قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ چناچہ حضور ﷺ نے ان یہودیوں کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ انہیں قتل کرنے کی بجائے جلاوطن کردیا جائے۔ البتہ ان کو یہ رعایت دی کہ وہ اپنا جس قدر سامان اٹھا سکتے ہوں ، اٹھا کرلے جائیں۔ ابتدائی آیات میں اس بات کی طرف اشارہ ہوچکا ہے کہ یہ لوگ اپناسامان وغیرہ اٹھا کر چلے گئے۔ ان کی اکثریت شام کی طرف چلی گئی۔ اور کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے گئے۔ ان کی غیر منقولہ جائیدادیں ، زمین ، باغات اور مکانات وغیرہ باقی رہ گئے جن پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا۔ اب اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس مقبوضہ جائیداد کی حیثیت کا تعین کیا ہے اور پھر اس کی تقسیم کا قانون بھی بیان کیا ہے۔ مال فے کی تعریف : ارشاد ہوتا ہے وما افاء اللہ علی رسولہ منھم ، ان یہودیوں کے اموال میں سے اللہ نے جو کچھ اپنے رسول پر لوٹا دیا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا اس مال میں زرعی زمینیں ، باغات قلعے اور مکان وغیرہ تھے جو مسلمانوں کے قبضہ میں آئے مورخین لکھتے ہیں کہ ان کے علاوہ پچاس زرہیں اور تین سو پینتالیس اونٹ بھی مسلمانوں کو حاصل ہوئے۔ اللہ نے فرمایا کہ اس مال کے حصول کے لئے فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب تم نے کوئی گھوڑے اور اونٹ تو نہیں دوڑائے تھے۔ یعنی تم نے باقاعدہ جنگ کرکے تو یہ مال ومتاع حاصل نہیں کیا تھا بلکہ یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے بغیر جنگ کے مل گیا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے مسلط کردیتا ہے۔ یہاں بھی اللہ نے اپنے نبی کو بنی نضیر پر غالب کیا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا مال اللہ نے تمہیں تمہاری مشقت کے بغیر اپنی خاص مہربانی سے دلایا ہے۔ غرضیکہ جو مال اہل ایمان کو بغیر جنگ کے دشمن کے ہاں سے مل جائے ، ہ مال فے کہلاتا ہے۔ اگلے درس میں اس کی تقسیم پر خرچ کی مختلف مدات کا ذکر بھی آرہا ہے۔ مال فے کی تقسیم : مال فے کی تقسیم اللہ نے اپنے نبی کے اختیار میں دے رکھی ہے ، اور یہ اختیار مالکانہ نہیں بلکہ حاکمانہ ہے۔ اللہ کا رسول اس مال میں سے اپنے ذاتی اخرجات اور خاندان والوں کا حصہ نکال کر کچھ محتاجوں میں تقسیم کردیتا ہے اور باقی مال عام مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر استعمال ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کے بعد تقسیم کا یہ حق مسلمانوں کے امیر یا مقررہ حاکم کو تفویض ہوجاتا ہے اور جیسا کہ عرض کیا۔ یہ حق حاکمانہ ہوتا ہے ۔ اگر اس کو مالکانہ حق سمجھا جئے تو پھر تو اس کی وراثت چلے گی۔ یعنی حاکم یا امیر کے بعد اس کی اولاد میں یہ حق چلا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ بلکہ جو بھی امیر یا حاکم وقت ہوگا اس کو اس مال میں تصرف کا حق حاصل ہوگا۔ بنی نضیر سے حاصل ہونے والے مال میں سے حضور ﷺ نے اپنی ذاتی اور خاندان کی ضروریات کے لئے مال علیحدہ کرکے باقی سارا مال مسلمانوں کے مشترکہ مفادات جہاد وغیرہ کے لئے صرف کردیا۔ یہاں پر مال فے کا تذکرہ ہے جس کہ دسویں پارے کی ابتداء میں مال غنیمت اور اس کے مصرف کا ذکر بھی آتا ہے۔ مال غنیمت وہ کال ہوتا ہے جو جنگ کی صورت میں مسلمان کفار سے لڑکر چھین لیے ہیں۔ اس مال کی تقسیم کا قانون یہ ہے کہ اس کا پانچواں حصہ اللہ کی نیاز کے طور علیحدہ کرلو۔ یہ خمس مال اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہوتا ہے اور باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کوئی مجاہد ایک سوئی تک بھی اٹھانے کا مجاز نہیں بلکہ ایسا کرنا سرقہ سے بھی بڑا جرم تصور ہوتا ہے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ مجاہدین میں یہ مال اس صورت میں تقسیم ہوگا جب ان کے لئے تنخواہ اور راشن وغیرہ حکومت کی طرف سے مقرر نہ ہو ، اگر تنخواہ ، راشن یا دروی وغیرہ حکومت مہیا کرتی ہے تو پھر مجاہدین میں کچھ تقسیم نہیں ہوتا۔ بلکہ سارے کا سارا مال بیت المال میں جمع ہوجاتا ہے جہاں سے فوج کی تنخواہ ، اسلحہ ، خوراک اور وردی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ مال غنیمت اور مال فے کے علاوہ انفال کا لفظ بھی آتا ہے اور اس کا اطلاق غنیمت اور فے دونوں قسم کے مال پر ہوتا ہے۔ فرمایا مال فے اللہ تعالیٰ بغیر جنگ کے اہل ایمان کو دلاتا ہے واللہ علی کل شیء قدیر ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ چاہے تو جنگ کی صورت میں مسلمانوں کو مال دلا دے یا بغیر جنگ کے بھی مال مسلمانوں کے قبضہ میں دے دے۔ وہ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ مال غنیمت اور فے میں یہی فرق ہے کہ جو مال جنگ کرکے حاصل ہو وہغنیمت ہے اور جو بغیر جنگ کے حاصل ہو وہ فے ہے۔ آگے اس کی تقسیم کا اصول بیان کردیا گیا ہے۔
Top