Mualim-ul-Irfan - Al-Hashr : 9
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے تَبَوَّؤُ : انہوں نے قرار پکڑا الدَّارَ : اس گھر وَالْاِيْمَانَ : اور ایمان مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے يُحِبُّوْنَ : وہ محبت کرتے ہیں مَنْ هَاجَرَ : جس نے ہجرت کی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پاتے فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : اپنے سینوں (دلوں) حَاجَةً : کوئی حاجت مِّمَّآ : اس کی اُوْتُوْا : دیا گیا انہیں وَيُؤْثِرُوْنَ : اور وہ اختیار کرتے ہیں عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَلَوْ كَانَ : اور خواہ ہو بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ : انہیں تنگی وَمَنْ يُّوْقَ : اور جس نے بچایا شُحَّ نَفْسِهٖ : بخل سے اپنی ذات کو فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور ان لوگوں کے لئے جنہوں نے جگہ پکڑی اس گھر میں اور ایمان میں ان سے پہلے۔ وہ محبت کرتے ہیں ان سے جو ہجرت کرکے آتے ہیں ان کے پاس ، اور نہیں پاتے اپنے دلوں میں کوئی خلش اس چیز سے جو ان کو دی جاتی ہے۔ اور ترجیح دیتے ہیں۔ ان کو اپنی جانوں پر اگرچہ ہو ان میں کچھ حاجت ۔ اور جو بچایا گیا اپنے نفس کے بخل سے ، پس یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے
ربط آیات : گزشتہ آیات میں مال فے کی تعریف اور اس کے مختلف مصارف کا ذکر ہوچکا ہے۔ اللہ نے اس مال میں اللہ ، اس کے رسول ، رسول کے قرابتداروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا حصہ رکھا ہے۔ اللہ نے اس تقسیم کی حکمت بھی بیان فرمائی کہ مال و دولت صرف اغنیاء میں ہی نہ گردش کرتا رہے بلکہ اس کادوران معاشرے کے نچلے طبقوں تک پہنچنا چاہیے۔ اللہ نے اہل ایمان کو تلقین کی کہ وہ اپنے نبی کی تقسیم کو بخوشی خاطر قبول کریں اور جو چیز اللہ کا نبی دے دے اس کو قبول کرلو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جائو۔ اس کے بعد اللہ نے نادار مہاجرین کے حصے کا ذکر کیا جو لوگ اپنا گھر بار اور مال متاع چھوڑ کر دارالحجرت میں پہنچ چکے ہیں اور نادار مال فے میں ان کا بھی حصہ ہے جو ادا کیا جائے۔ اس کے ساتھ اللہ نے مہاجرین کے بعض اوصاف بھی بیان فرمائے اور ان کو مخلص مومن قرار دیا گیا۔ انصار مدینہ کا استحقاق : اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کے ایثار کا تذکرہ فرمایا ہے اور انہیں بھی مال فے کا حقدار قرار دیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے اس مال کے حقدار وہ بھی ہیں۔ والذین تبوئو الدار والایمان جنہوں نے جگہ پکڑی گھر میں اور ایمان میں۔ من قبلھم ان سے پہلے ہم نے تبو کا معنی جگہ پکڑنا کیا ہے۔ یعنی ٹھکانہ پکڑنا یارہائش اختیار کرنا۔ یہ لفظ جنت میں اہل جنت کے لئے بھی استعمال ہوا ہے ، جیسے فرمایا نتبوا من الجنۃ حیث نشاء (الزمر 74) جنتی لوگ جنت میں جہاں چاہیں گے ٹھکانا پکڑیں گے ، جگہ حاصل کرینگے۔ اور دار سے مراد دارالہجرت مدینہ منورہ ہے۔ اللہ نے اس شہر کا نام طاب یا طیبہ رکھا ہے۔ اور اس کو مدینہ الرسول بھی کہا جاتا ہے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ اس مال میں سے وہ لوگ بھی حقدار ہیں جنہوں نے مہاجرین کی آمد سے قبل شہر مدینہ میں رہائش اختیار کررکھی تھی اور وہ ایمان کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔ ان سے مراد انصار مدینہ ہیں جن کا تعلق اوس اور خزرج کے قبائل سے تھا اور جو ہجرت سے آٹھ سو یا ایک ہزار سال قبل یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ ہجرت نبوی سے تین سال پہلے تک یہ لوگ کفر وشرک میں مبتلا تھے۔ بعض نے یہودیت اور بعض نے نصرانیت اختیار کرلی بھی۔ مگر ان کی اکثریت شرک میں ہی مبتلا تھی۔ اللہ نے انہی میں سے بعض کو ایمان کی دولت سے مشرف فرمایا۔ انہوں نے حج کے موقع پر حضور ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا ، مدینہ میں آکر اس کی اشاعت کی اور پھر سر زمین مدینہ کو اسلام کی آبیاری کے لئے موزوں پاکر حضور ﷺ کو ہجرت کی دعوت دی یہ لوگ انصار مدینہ کہلائے اور انہی کے نادار لوگوں کے لئے اللہ نے مال فے میں سے حصہ مقرر فرمایا ہے مدینہ کا خطہ تجارتی خط تھا اور یہاں کے زیادہ تر باشندے تجارت پیشہ تھے۔ تاہم زرخیز زمین اور پانی بھی موجود تھا جس کی وجہ سے یہ لوگ زراعت پیشہ بھی تھے یہاں کھجوروں کے بڑے بڑے باغ اور غلہ بھی پیدا ہوتا تھا۔ ان کی تجارت زیادہ تر مصر شام اور فلسطین کے ساتھ ہوتی تھی۔ روم اور یمن کی طرف بھی تجارتی قافلے جاتے رہتے تھے اور اس طرح آپس میں اجناس کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ فارس یا ہندوستان کے ساتھ تجارت یمن کی بندرگاہ کے ذریعے ہوتی تھی۔ ادھر کا مال اونٹوں کے ذریعے یمن پہنچایا جاتا اور پھر وہاں سے بحری راستے سے ہندوستان کی طرف جاتا۔ اسی طرح وہاں سے آنے والا مال بھی اسی بندرگاہ پر اتار لیا جاتا اور پھر زمینی راستے سے اگلے علاقوں میں پہنچایا جاتا۔ مطلب یہ ہے کہ مدینہ طیبہ تجارتی اور زرعی خطہ تھا۔ اور یہاں کے لوگ دونوں قسم کے کام کرتے تھے۔ ان کو اللہ نے حضور ﷺ اور دیگر مہاجرین کی مہمان نوازی کا شرف بخشا۔ اللہ نے ان لوگوں کے مستحقین کو بھی مال فے کی تقسیم میں برابر کا شریک ٹھہرایا ہے۔ مہاجرین سے محبت : آیت کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کی مہاجرین سے محبت کا ذکر کیا ہے اور ان کی تعریف بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ یحبون من ھاجرالیھم ، جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کرکے آنے والوں کے ساتھ محبت کی ہے۔ یہ لوگ مہاجرین کی حتی المقدور خدمت کرتے ہیں جو ان کے اخلاص کا بہترین نمونہ ہے۔ فرمایا ان کی محبت اس قدر پر خلوص ہے۔ ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوا کہ مہاجرین کو ملنے والی اشیاء کی وجہ سے اپنے دل میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ ان کے دل حسد کے مادہ سے پاک ہیں اور انہوں نے کبھی یہ خیال نہیں کیا کہ مہاجرین کو تو مل رہا ہے اور وہ محروم رہ رہے ہیں۔ بلکہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کے دین کی خاطر مصائب وآلام برداشت کرتے ہوئے اپنا گھر بار اور مال متاع چھوڑ کر آگئے ہیں ان کا زیادہ حق ہے ، لہٰذا ان کے دلوں اور زبانوں پر اس معاملہ میں کبھی حرف شکایت نہیں آیا۔ اللہ نے انصار مدینہ کی تعریف میں فرمایا کہ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے خلاف حسد نہیں کرتے اور ان کی تیسری صفت یہ ہے و یوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ ، وہ ان مہاجرین کو خود پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود حاجت مند ہوں۔ اسی لئے انصار کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے حب الانصار ایۃ الایمان وبغض الا نصار ایۃ النفاق (صحیحین) انصار مدینہ کے ساتھ محبت ایمان کی نشانی ہے جب کہ ان کے ساتھ بغض اور عداوت رکھنا نفاق کی علامت ہے اللہ تعالیٰ نے تو ان کے اخلاص کی گواہی دی ہے۔ اب جو کوئی ان سے عداوت رکھے گا۔ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہوگا۔ انصار کا ایثار : انصار کے مہاجرین کے ساتھ خلوص ، محبت اور ایثار کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے مہاجر بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی۔ انہوں نے مکانات ، زمینیں ، باغات اور کاروبار سب مہاجرین میں تقسیم کردیے۔ حضور ﷺ نے مواخات کا بہترین نظام قائم کیا اور ایک ایک انصار اور ایک ایک مہاجر کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا۔ ان دینی بھائیوں نے اپنا اپنا آدھا مکان زمین ، باغ مہاجر بھائیوں کو پیش کردیا۔ ان کو کاروبار میں شریک کرلیا اور اس طرح اخوت اسلامی کی بہترین نمونہ پیش کیا۔ بخاری شریف میں آتا ہے کہ ان کا یہ بھائی چارہ اس قدر پختہ تھا کہ ابتدائی دور میں ایک دینی بھائی فوت ہوجاتا تو دوسرے کو اس کی وراثت سے حصہ ملتا۔ ترمذی شریف میں آتا ہے کہ مہاجرین زیادہ تر تجارت پیش لوگ تھے جو کھیتی باڑی کرنا نہیں جانتے تھے۔ جب مہاجرین کو کھیتی باڑی میں بھی شریک کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو کھیتی باڑی کرنا جانتے ہی نہیں۔ ہم سے یہ کام کیسے ہوگا ؟ اس پر انصار نے کہا کہ باغات اور کھیتوں میں کام ہم کریں گے مگر اپنے مہاجر بھائی کو پیداوار کا نصف حصہ ضرور دیں گے۔ پھر مہاجرین نے حضور ﷺ کے سامنے ذکر کیا کہ انصار نے ہمارے ساتھ اس قدر ایثار کا سلوک کیا ہے کہ سارا ثواب یہ سمیٹ کرلے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا ، تم فکر نہ کرو اور اپنے انصار بھائیوں کے لئے دعا کردیا کرو اللہ تمہیں بھی ان جیسا اجر عطا فرمائے گا۔ چناچہ مہاجرین اپنے انصاری بھائیوں کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بہترین اجر عطا فرمائے۔ خود پر مہاجرین کو ترجیح کے واقعات : ترمذی شریف کی روایت میں انصار کے ایثار اور مہاجرین کو خود پر ترجیح کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ کسی انصاری کے گھر مہمان آگیا۔ اس وقت صاحب خانہ کے پاس صرف اس قدر کھانا تھا جس سے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے پیٹ بھر سکتے تھے۔ میزبان نے اپنی بیوی سے کہا کہ کسی طرح بچوں کو بہلا پھسلاکر سلادو اور جو کھانا موجود ہے۔ وہ مہمان کو پیش کردو۔ ساتھ ہدایت بھی کردی کہ جب کھانا پیش کرو تو چراغ کو گل کردینا تاکہ مہمان کو علم نہ ہوسکے کہ گھر والے کھانا نہیں کھا رہے ہیں۔ بیوی نے ایسا ہی کیا اور سارا کھانا مہمان کو کھلادیا۔ پھر جب صبح کے وقت وہ انصاری مسلمان حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ نے فرمایا کہ تمہاری رات کی مہمان نوازی اور ایثار کا ذکر اللہ نے قرآن میں بیان کردیا ہے اور پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ویئوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ ، یعنی خود ضرورت مند ہونے کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب بنی نضیر کی جائیدادیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں تو حضور ﷺ نے انصار مدینہ کے سرداران حضرت سعد بن معاذ ؓ اور سعد بن عبادہ ؓ کو طلب فرمایا۔ یہ دونوں حضرات قبیلہ اوس اور خزرج کے سردار تھے۔ آپ نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں ان سرداروں سے فرمایا کہ اللہ کی مہربانی سے ہمیں بنی نضیر سے بہت سا مال واسباب حاصل ہوا ہے۔ مہاجرین کی مالی حلت کمزور ہے ، اگر تم اجازت دو تو یہ مال مہاجرین میں تقسیم کردیا جائے ، اس طرح آپ لوگوں پر مہاجرین کا بوجھ بھی کم ہوجائے گا ۔ ان انصار سرداروں نے بخوشی اجازت دے دی کی یہ سارا مال مہاجرین میں تقسیم کردیا جائے۔ انہوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ ہم نے مہاجرین کی امداد کے طور پر جو کچھ ان کو دے رکھا ہے۔ وہ بھی انہی کے پاس ہی رہے گا۔ اور یہ مال بھی انہی میں تقسیم کردیا جائے ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ یہ بھی انصار کے ایثار کا ایک نمونہ تھا کہ کس طرح انہوں نے مہاجرین کو خود پر ترجیح دی۔ انصار اور مہاجرین کی آزمائش : دن سے محبت اور ان کے ایثار اور قربانی کی آزمائش انصار اور مہاجرین دونوں گروہوں کی ہوتی رہتی تھی۔ جب بھی اللہ کے دین کے لئے جانی اور مالی قربانی کی ضرورت پڑتی دونوں گروہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ایک موقعہ پر حضرت عمر ؓ نے چار سو دینار کی ایک تھیلی خادم کے ہاتھ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ کے پاس بھیجی اور کہلا بھیجا کہ یہ امیر المومنین کی طرف سے تمہارے لئے تحفہ ہے۔ یہ تھیلی پیش کرنے کے بعد خادم حضرت عمر ؓ کی ہدایت کے مطابق تھوڑی دیر کے لئے وہاں ٹھہر گیا انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے ہدیہ قبول کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعدیہ رقم محتاجوں میں تقسیم کرنا شروع کردی۔ سارا مال تقسیم کردیا اور اپنے لئے ایک دینار بھی نہ رکھا۔ یہ ساری رپورٹ خادم نے واپس آکر حضرت عمر ؓ کی خدمت میں پیش کردی۔ ایسی ہی ایک تھیلی حضرت عمر ؓ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کے پاس ہدیتاً بھیجی۔ انہوں نے بھی قبول کرلی اور پھر اسے تقسیم کرنا شروع کردیا۔ جب سارے دینار اختتام کو پہنچنے والے تھے تو آپ کی بیوی نے کہا کہ ہم خود بھی تو مستحق ہیں ، کچھ اپنے لئے بھی رکھ دیا ہوتا۔ اس وقت صرف دو دینار باقی تھے ، آپ نے خادم کو فرمایا کہ یہ بیوی کو دے دو ۔ پھر یہ رپورٹ بھی حضرت عمر ؓ کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراع ؓ (مہاجر) اور حضرت معاذ بن جبل ؓ (انصاری) آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کے مزاج بھی یکساں بنادیے ہیں اور ان دونوں حضرات نے دوسروں کو خود پر ترجیح دے کر ایثار وقربانی کی مثال قائم کردی ہے۔ میدان جنگ میں مجاہدین کے ایثار اور ایک دوسرے پر ترجیح کا یہ واقعہ بھی مشہور ہے۔ کئی زخمی میدان میں پڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے پانی طلب کیا ۔ پانی کا پیالہ پیش کیا گیا تو اس نے دوسرے زخمی مجاہد کی طرف دیکھا جو زخموں کی شدت سے کراہ رہا تھا۔ اس کو بھی پانی کی ضرورت تھی۔ پہلے مجاہد نے پانی پلانے والے کو کہا کہ اس زخمی کو پانی کی زیادہ ضرورت ہے لہٰذا یہ پیالہ اس کو پیش کردو۔ جب وہ آدمی پانی لے کر اس کے پاس پہنچا تو اس نے خود پر تیسرے زخمی کو ترجیح دیتے ہوئے پانی اس کی طرف بھیج دیا۔ اس طرح چلتے چلتے پانی کا یہ پیالہ ساتویں زخمی تک پہنچا مگر کسی نے بھی پانی نہ پیا اور سب کے سب اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ، انہوں نے پانی کی بجائے جام شہادت ہی نوش فرمایا۔ اللہ نے ایسے ایثار پیشہ لوگوں کی تعریف فرمائی ہے۔ اگر ان میں نفرت اور حسد کا جذبہ ہوتا تو یہ جماعت کبھی ترقی نہ کرسکتی۔ وہ لوگ کسی کے مال ، عزت ، عہدہ وغیرہ پر حسد نہیں کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے لئے نہایت خلوص کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بخل سے بچائو : آخر میں اللہ نے فرمایا ومن یوق شح نفسہ اور جو کوئی اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا تو یقین جانو فاولئک ھم المفلحون ، کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ بخل بدترین خصلت ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے اتقوا الظلم والبخل لوگو ! ظلم اور بخل سے بچو۔ دوسروں پر ظلم و زیادتی کی وجہ سے ہی پہلی قومیں ہلاک ہوئیں۔ جن لوگوں نے لوگوں کے خون بہائے ان کے اموال پر قبضہ کیا۔ وہ اس دنیا میں بھی تباہ ہوئے اور آخرت میں بھی جہنم کے کندہ ناتراش بنے۔ اس طرح حرص اور بخل بھی تباہ کن بیماری ہے۔ فرمایا اس سے بچو ورنہ یہ تمہیں بھی ہلاک کردے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت سعید بن جبیر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ، یادرکھو ! جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے جارہا ہے ، یا تبلیغ دین کے مشن پر ہے۔ علم دین حاصل کرنے کے لئے جارہا ہے یا حج وعمرہ کے سفر پر ہے اور پھر اس کے چہرے پر راستے کا گرد و غبار پڑجاتا ہے تو فرمایا کہ یہ گردوغبار اور دوزخ کا دھواں کبھی ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے مطلب یہ کہ جس شخص کے چہرے پر اللہ کے راستے میں چلتے ہوئے گردوغبار پڑے گا۔ وہ کبھی دوزخ میں نہیں جائے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص کے قلب میں ایمان موجود ہے وہاں بخل داخل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بخل ایمان کے منافی چیز ہے۔ ایسا آدمی مومن نہیں ہوگا۔ بلکہ کافر یا منافق ہوگا۔ مطلب یہ کہ سچے ایماندار کے دل میں بخل نہیں ہوتا۔ تو فرمایا جس کو بخل سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ آخرت میں کامیاب ہوں گے اور ان میں انصار اور مہاجرین دونوں گروہ شامل ہیں۔
Top