Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 145
قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : فرما دیجئے لَّآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا فِيْ : میں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف مُحَرَّمًا : حرام عَلٰي : پر طَاعِمٍ : کوئی کھانے والا يَّطْعَمُهٗٓ : اس کو کھائے اِلَّآ : مگر اَنْ يَّكُوْنَ : یہ کہ ہو مَيْتَةً : مردار اَوْ دَمًا : یا خون مَّسْفُوْحًا : بہتا ہوا اَوْ لَحْمَ : یا گوشت خِنْزِيْرٍ : سور فَاِنَّهٗ : پس وہ رِجْسٌ : ناپاک اَوْ فِسْقًا : یا گناہ کی چیز اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : غیر اللہ کا نام بِهٖ : اس پر فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے غَيْرَ بَاغٍ : نہ نافرمانی کرنیوالا وَّلَا عَادٍ : اور نہ سرکش فَاِنَّ : تو بیشک رَبَّكَ : تیرا رب غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے پیغمبر ! آپ کہ دیجئے نہیں پاتا میں اس چیز میں جو وحی کی گئی ہے میری طرف کسی چیز کو حرام ، کھانے والے پر جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خوان ہو یا خنزیر کا گوشت ہو پس بیشک وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز اور گناہ ہو جس پر پکارا گیا ہو اور اللہ کے سوا کسی اور کا نام پس جو شخص مجبور ہوگیا اس حال میں نہ کہ وہ سرکشی کرنے والو ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا پس بیشک تیرا پروردگار بخشش کرنے والا اور مہربان ہے
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے انمحرمات کا کر فرمایا تھا جن کو مشرکین نے اپنے اعتقاد فاسد کے ساتھ مشرکہ نہ طریقے سے از خود حرام قرار دے رکھا تھا۔ اللہ نے ان باطل عقائد کی تردید فرمائی اور پھر مویشیوں میں سے آٹھ قسم کے مویشیوں کی حلت کا زکر کیا۔ اور فرمایا اگر تم ان میں سے بعض کو حرام سمجھتے ہو تو اس کے لیے کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کرو۔ اور اگر اس کے لیے کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ اور بغیر علم اور تحقیق کے لوگوں کو گمراہ کرنے والی بات ہے۔ ایسا کرنا بڑاظلم ہے اور اللہ تعالیٰ ظالم کو کبھی صراط مستقیم کی طرف ہدیت نہیں کرتا اب آج کی دایت میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی محرمات کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کھانے میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں ان کو بیان فرمایا ہے۔ آج کے درس میں جن محرمات کا ذکر ہے وہ چار بنیادی چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے سورتوں میں بیان فرمایا ہے۔ انہی چار چیزو کا بیان سورة بقرہ کے رکو 21 میں ان الفاظ میں آچکا ہے ” انما حرم علیکم المیتت والد م ولحم الخنزیر و ما اھل بہ بغیر اللہ “ بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام قرار دیا ہے۔ مردار ، خون ، خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو ۔ پھر یہی مضمون سورة مائدہ کے پہلے رکوع میں بھی بیان ہوا ہے۔ طرز بیان ذرا مختلف ہے ” حرمتعلیکم المیتۃ والدم الحم الخنزیر وما اہل بغیر اللہ بہ “ اسی طرح اب اس آیت میں بھی انہی چار چیزوں کی حرمت کا تذکرہ ہے البتہ یہاں طرز بیان بالکل مختلف ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ او دما مسفوھا او لحم خبنزیر فانہ رجس او فسقا احل بغیر اللہ بہ “ حجور نبی کریم ﷺ سے خطاب ہے کہ آپ کہ دیں کہ جو چیز میری طرف وحی کی گئی ہے ۔ میں اس میں ان چیزوں کے علاوہ اور کسی چیز کو حرام نہیں پاتا یعنی مردار بہتا ہوا خون ، خنزیر کا گوشت کہ یہ نا پاک ہے اور گناہ کی یہ بات ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ اس آیت کریمہ میں محرمات کے ضمن میں حصر کا یہی تاثر اشکال کا باعث بن رہا ہے کیونکہ سورة مائدہ میں ان چاروں کی حرمت کے ساتھ بعض دوسری چیزوں کا بھی ذکر ہے ” سوالمنخنقۃ والموقوذۃ والمتردیۃ والنطیحۃ وما اکل السبع الا ماذکیتم وما ذلج علی النصب وان تستقسمو ابالازلام “ یعنی مذکورہ چار چیزوں کے علاوہ یہ جانور بھی حرام ہیں جو گلا گھٹنے سے مر گیا ہو ، جو چوٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا ہو۔ اور جو اونچی جگہ سے گر کر ہلاک ہوگیا ہو اور جس کو دوسرے جانور نے سینگ مار کر ہلاک کردیا ہو اور جس کو درندوں نے پھاڑ کھایا ہو ، البتہ جسے ذبح کرلیا گیا ہو (وہ حلال ہے) ان کے علاوہ جانور بھی حرام ہے جو کسی استھان پر ذبح کیا ہے۔ اور جوئے کے تیروں کے ساتھ تقسیم کرنا بھی حرام ہے۔ اس اشکال کے جواب میں مفسرین کرام نے کئی توجیہات پیش کی ہیں شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) نے صرف ایک جملے میں اس اشکال کو حل کرنے کی کوشش کی ہے ” یعنی جن جانوروں کا کھانا دستور ہے ، ان میں یہی حرام ہیں۔ مطلب یہ کہ عام طو ر پر انسانی خوراک بننے والی چیزوں میں صرف یہی حرام اشیاء ہیں۔ ان کے علاوہ جو درندے وغیرہ ہیں ، وہ تو ایسے ہی لوگ نہیں کھاتے اس لیے ان کا یہاں پر ذکر نہیں کیا گیا۔ بعض جانور قطعی حرام نہیں بلکہ کراہیت کی فہرست میں آتے ہیں اور بعض کو فقہائے کر امنے جائز بھی قرار دیا ہے اس لیے ہر مکروہ چیز کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ قطعی طور پر حرام نہیں ہیں۔ بعض جانوروں کے معاملہ میں فقہائے کرام میں قطعی اختلافپایا جاتا ہے۔ جیسے امام شافعی (رح) بجو کو جائز قرار دیتے ہیں جب امام ابو حنفیہ (رح) اسے حرام کہتے ہیں۔ امام لیث (رح) بلی کو حلال قرار دیتے ہیں اور بعض گھریلو گدھوں کو مکروہ کہتے ہیں۔ یعنی یہ گدھے مذکورہ قطعی چار حرام اشیاء کے برابر حرام نہیں بلکہ حرمت میں ان کا درجہ کم تر ہے۔ مقصد یہ کہ عام طور پر کھائی جانے والی اشیاء میں سے قطی حرام چار ہیں اور باقی مکروہات کے درجے میں آتی ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) نے اپنی تفسیر ” اتقان “ میں امام شافعی (رح) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہاں پر جن چار یزوں کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے اس سے مراد قانون ھرمت کو انہیں چار چیزوں تک محدود کرنا مقصود نہیں بلکہ ان چارچیزوں کا تذکرہ کر کے مشرکین کے عقائد باطلہ کا رد کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان چیزوں کو حلال قرا دیتے تھے ۔ مثلاً مردار کی حلت کے متعلق گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ بحیرہ ، سائبہ وغیرہ کے بطن سے اگر مردہ بچہ پیدا ہوتا تو مردوں اور عورتوں سب کے لیے حلال سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح نصاریٰ اور مشرکین خنزیر کو حلال سمجھتے تھے اور اس کا گوشت کھاتے تھے۔ پھر نذر لغیر اللہ کا عام رواج تھا۔ یہ نہ صرف جائز تھی بلکہ کار ثواب سمجھی جاتی تھی۔ غرضیکہ ان چیزوں کی حرمت کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے غلط عقائد کا ردفرایا ہے ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سورة بقرہ میں جہاں ان محرماتکا ذکر کیا ہے وہاں بھی انما حرم سے شروع کیا ہے۔ اور اس میں بھی کسی حد تک حصر کا مفہوم پایا جاتا ہے ، لہٰذا اس آیت کریمہ میں واضح حصر کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بہر حال فرمایا اے پیغمبر ! آپ اعلان فرمادیں کہ کھانے کے معاملے میں تو ان چیزوں کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ ان میں پہلی چیزمیتۃ یعنی مردار ہے مردار وہ جانور ہے جو حلال ہو مگر بغیر ذبح کیے خود بخود مر جائ ، یا گر ذبح بھی کیا جائے تو خلاف شریعت طریقہ سے مثلا گلا گھونٹ دیا جائے یا لکڑی پتھر مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے یا دیدہ دانستہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے اگر کسی زندہ جانور کا کوئی عضو کاٹ لیا جائے تو وہ بھی مردار ہی کی تعریف میں آئے گا کسی جانور کو اگر کوئی دوسرا جانور سینگ مار کر ہلاک کر دے یا کوئی درندہ پھاڑ کھائے اور وہ مرجائے تو وہ بھی مردار کے حکم میں آئے گا ۔ حضرت مولانا شیخ الہند (رح) فرمات ہیں کہ ایسے تمام جانور مردار تصور ہوں گے۔ البتہ دو جانور بمطابق حدیث اس ھرمت سے مستثنیٰ ہیں اور بغیر ذبح کیے ان کا کھانا درست ہے۔ فرمایا احلت لنا میتتان السماک والجراد یعنی ہمارے لیے دو مردار حلال ہیں ایک مچھلی اور دوسرے ٹڈی۔ ان دو جانوروں کو بغیر ذبح کیے کھانا حلال ہے۔ محرمات اربعہ میں س دوسری چیز رما مسفوحا یعنی بہتا ہوا خون ہے ذبح کرتے وقت جانور کی رگوں سے جو خون بہتا ہے وہ قطعی حرام ہے البتہ ذبح کے بعد جو تھوڑا بہت خون گوشت کے ساتھ رہ جاتا ہے ، وہ ناپاک نہیں ہے۔ اس لیے اگر گوشت کو دھوئے بغیر بھی پکا کر کھالیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، تاہم نظافت کا تقاضا ہے کہ گوشت کو دھو کر اور صاف کر کے پکایا جائے۔ ظاہر ہے کہ جانور کی رگ کاٹنے سے یہی مقصود ہے کہ اس کا تمام خون بہہ جائے جو کہ حرام ہے۔ البتہ ایک چیز کی گنجائش ہے ۔ جس جانور کو شرعی طریقہ سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو مثلاً کوئی پرندہ یا تیز بھاگنے والا جانور ہے تو اسے اللہ کا نام لے کر ذکمی کردینا ہی کافی ہے۔ ایسے جانور کو تیر چلاتے وقت یا نیزہ بھالا وغیرہ مارتے وقت اللہ کا نام لے لیا جائے تو جانور حلال ہوجائے گا ۔ مقصد یہ کہ اگر اللہ کا نام لے کر تیز دھار آلے سے حملہ کیا جائے تو جانور حلال ہوگا ورنہ نہیں۔ اگر لکڑی ، غلیل یا بندوق کا نشانہ لگایا جائے تو بغیر ذبح کیے جانور حلا ل نہیں ہوگا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے دم مسفوح کو بھی قطعی حرام قرار دیا ہے۔ البتہ خون کی دو قسمیں حدیث شریف کے مطابق حلال ہیں حضور نے فرمایا احلت لنا دمان الکبد والطعال ہمارے لیے دو خون حلال ہیں ایک جگر اور دوسرا تلی۔ یہ دونوں اعضا منجمد خون ہیں اور حلال جانور کے حلال ہیں۔ حرام خون کی مذکورہ توضیح کے پیش نظر قفہائے کرام میں مسئلہ انتقال خون (Blood Transffudsion) میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قطعی حرام اور بض جائز قرار دیتے ہیں۔ تاہم صحیح صورتحال یہ ہے کہ انتقال ِ خون صرف اضطرار کی حالت میں جائز ہے۔ اور عام حالات میں درست نہیں۔ بعض اوقات ڈاکٹر معمولی امراض میں بھی خون لگا دیتے ہیں۔ جو یقینا درست نہیں۔ البتہ جہاں جان جانے کا خطرہ ہو اور خون دینے کے بغر کوئی چارہ کار نہ ہو وہاں اگر حسب ضرورت ایک آدھ بوتل لگا دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی لیے پاکستان کے سب سے بڑے مفتی مولانا محمد شفیع صاحب (رح) نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں بڑے احتیاط کی ضرورت ہے۔ خون کا انتقال صرف متدین اور ماہر ڈاکٹر (Specialist Doctor) کے مشورہ سے ہی دینا چاہئے اور وہ بھی کم از کم مطلوبہ مقدار میں ورنہ آدمی گناہ گار ہوگا۔ محرمات اربعہ میں سے تیسری حرام چیز لحم خنزیر یعنی خنزیر کا گوشت ہے۔ خنزیر نجس العین جانور ہے۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ اسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی معبوث فرمائے ہیں سب کی شرائع میں خنزیر رہا ہے۔ عیسائیوں کا تو دماغ خراب ہوگیا ہے جنہوں نے اسے بھیڑ بکری کی طرح کھانا شروع کردیا ہے۔ چناچہ جب حضرت عیسیٰ علی السلام کا دوبارہ نزول ہوگا تو آپ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے تاکہ عیسائیوں کی تذلیل ہو اور ان کی غلط کارروائی کا پردہ چاک ہو۔ انگریز عیسائی اور سکھ جو خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ وہ مغوی طور پر نجاست کا شکار ہوتے ہیں۔ خنزیر گندگی خور ہے لہٰذا اس کے کھانے والے بھی گندی ذہنیت کے حامل ہیں۔ خنزیر بڑا بےغیرت جانور ہے لہٰذا اس کو کھانے والے بھی انتہائی بےغیرتی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایسا ناپاک جانور جسے اللہ نے فناہ رجس اوفسقا فرمایا ہے۔ جس طرح پاخانہ ، پیشاب وغیرہ کسی صورت میں بھی پاک نہیں ہو سکتے اس طرح یہ جانور بھی نجس العین ہے اور اس کا کوئی حصہ یعنی گوشت ، پوست ، ہڈی ، چمڑا وغیرہ سب ناپاک ہیں۔ حتیٰ کہ باقی حرام جانوروں کی کھال دباغت سے پا ہوجاتی ہے مگر خنزیر کی کھال دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتی۔ محرمات میں چوتھا نمبر اھل لغیر اللہ بہ کا ہے۔ یعنی وہ چیز بھی حرام ہے جس پر اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے فسقا سے تعبیر کیا ہے کہ یہ گناہ کی بات ہے اگر کوئی چیز کسی بت ، جن ، فرشتے ، نبی یا بزرگ کے تقریب یا خوشنودی کے لیے بطور نیاز دی جائے جیسے شیخ سدھو کا بکرا ، شیخ کبیر کی گائے ، زین خاں کا مرغا شیخ علی ہجویری کا دنبہ یا پیران پیر کی گیارھیویں تو یہی نذر لغیر اللہ ہے ۔ اس سے اگر یہ مقصود ہو کہ فلاں ہستی خوش ہو کر کسی مصیبت سے بچائے گی یا کوئی بگڑا ہوا کام بن جائے گا تو ایسی چیز بہر حال حرام ہوجاتی ہے۔ اگر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ بھی پڑھ لی جائے ، تب بھی جانور ہی رہے گا ۔ کیونکہ وہ غیر اللہ سے منسوب ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص ایسے عقیدے سے تائب ہو کر ذبح کرتا ہے تو پھر جانور حلال ہوگا۔ نذر لغیر اللہ تمام انبیاء اور ملت حنفیہ کے اماموں کے نزدیک حرام ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسی چیزیں معنوی نجاست پیدا ہوجاتی ہے اور یہ کسی صورت میں بھی حلال نہیں ہوتی بلکہ اس کی خباثت مردار کی خباثت سے بھی بڑھ جاتی ہے وجہ یہ ہے کہ مردار میں تو صرف یہ خرابی ہے کہ اسکی جان اللہ کے نام پر نہیں نکلی مگر جو جانور غیر اللہ کے نام پر نزر کیا گیا ہے اس پر تو غیر کا نام آگیا ہے جو عین شرک ہے۔ جس طرح کوئی کتا یا خنزیر تکبیر کہہ کر ذبح کرنے سے حلال نہیں ہوتا۔ اسی طرح نذر لغیر اللہ کا جانور بھی بسم اللہ اللہ اکبر کہنے سے حلال نہیں ہوتا۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی بادشاہ کی دعوت پر اسکی تعظیم کی نیت سے جانور ذبح کیا جائے یا اینٹوں کا بھٹہ پکانے کے لیے کوئی جانور اس کی بھینٹ کیا جائے تو وہ جانور مردار کی طرح حرام ہوگا۔ اور ایسا کرنے والا آدمی مشرک ٹھرہیگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ جو غیر اللہ کی تعظیم خوشنودی یا تقریب کے لیے جانور ذبح کرتا ہے۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے یا نہ لے ، اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ جانور غیر اللہ کی طرف نسبت کی بنا پر ہی حرام ہوگیا ہے اور اب تکبیر اسے حلال نہیں کرسکتی۔ ہاں اگر اللہ تعالٰ کے نام پر ، اسکی رضا اور تقریب کے لیے ذبح کرے اور پھر اس کا ثواب کسی وت شدہ عزیز ، پیر یا بزرگ کو ایصال ثواب کرے تو جائز نہ ہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن (رح) دارالعلوم دیو بند کے صدر مدرس تھے۔ آپ نے پچا س سال تک مدرسے میں تعلیم دی۔ آپ عظیم المرتبت علما میں سے تھے۔ انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔ انگریز نے آپ کو بغاوت کے الزام میں سزائے موت دینے کا ارادہ کیا مگر اللہ نے بچا لیا اور آپ کو جزیرہ مالٹا میں ساڑے چار سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ قرآن پاک کا یہ ترجمہ اور سورة بقرہ اور سورة نساء کا حاشیہ آپ نے اسی جیل میں قلمبند کیا تھا۔ مالٹا سے واپس آئے تو جلدی ہی فوت ہوگئے۔ آپ کے شاگردوں میں مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) مولانا احمد علی لاہوری (رح) ، مولانا انور شاہ صاحب کشمیری (رح) ، مفتی کفایت اللہ (رح) ، مولانا عبدالعزیز گوجرانوالہ ، مولانا عبید اللہ سندھی (رح) ، مولوی محمد صادق (رح) کھڈے والے مفتی عبدالرحیم (رح) پوپلزئی جیسے اکابر علماء شامل ہیں۔ تاریخ بین حضرات جانتے ہیں کہ انگریزوں نے مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچایا۔ اسلامی سلطنتوں کو درہم برہم کیا ، مسلمانوں کے مذہب ، اخلاق اور تہذیب کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ گذشتہ چار صدیوں سے دنیا میں انگریز ہی کا عروج رہا۔ روس بھی اصل میں انگریز ہی تھے جو بعد میں اشتراکی بن گئے۔ امریکہ ، فرانس ، جرمنی وغیرہ کے لوگ انگریزی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سب کے سب اسلام کے بد ترین دشمن ثابت ہوئے ۔ حضرت شیخ الہند (رح) نے ان سے حتی المقدور ٹکر لی۔ بہر حال ان آیات کی تشریح میں جو کچھ غرض کیا ہے یہ حضرت شیخ الہند (رح) ہی کے الفاظ ہیں جو آپ کو پڑھ کر سنائے گئے ہیں۔ آیت کے آکر میں ارشاد ہے فمن اجطر پس جو کوئی مجبور ہوگیا۔ غیر باغ نہ وہ نافرمانی کرنے والا ہے ولا عاد اور نہ تعدی کرنے والا ہے۔ فان ربک غفور رحیم تو بیشک تیرا پروردگار بخشش کرنے والا اور مہر بان ہے مجبوری سے مرادیہ ہے کہ کسی شخص کے پاس فی الوقت کھانے کی کوئی چیز موجود نہیں اور نہ ہی اسے کسی حلال چیز تک دسترس حاصل ہے۔ تو ایسی حالت میں اگر وہ مذکورہ حرام اشیاء میں سے کوئی چیز کھا کر جان بچالے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا ۔ مگر یہ ضروری ہے کہ مجبوری کی حالت ہو نہ کہ جان بوجھ کر بلا عذر حرام خوری کر کے بغاوت کا مرتکب ہو۔ غیر باغ کا یہی مطلب ہے کہ نافرمانی کرنے والا نہ ہو بلکہ صحیح معنوں میں مجبور ہو۔ اور دوسری بات یہ کہ ولاعاد ذیادتی بھی نہ کرے یعنی صرف اتنا کھائے جس سے جان بچ سکتی ہو اس سے زیادہ کا لالچ نہ کرے۔ اگر پائوبھر چیز کھانے سے جان بچا سکتا ہے تو پھر اس سے زیادہ ایک لقمہ بھی کھانے کی کوشش نہ کرے۔ اگر ان دو شرایط کے ساتھ سخت اضطراری حالت میں کوئی حرام چیز بھی استعمال کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیگا۔ بلکہ فقہائے کرام تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ مجبوری کی حالت میں اگر حرم چیز میسر ہے مگر کوئی شخص نہ کھا کر اپنی جان ضائع کرلیتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں ماخوز ہوگا۔ جب ایسی حالت میں اللہ نے حرام چیز کو مباح قرار دیا ہے تو پھر اس نے کیوں نہ استعمال کی۔ البتہ کسی شخص پر اگر ایسی مجبوری کی حالت آجئے کہ اسے جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر کفر کا کلمہ کہنے پر آمادہ کیا جائے ، تو اس کے لیے بہتر یہ ہے ، کہ کلمہ کفر نہ کہے چاہے جان چلی جائے۔ البتہ جان بچانے کے لیے حرام کا کھا لینا بہتر ہے بجائے اس کے کہ اس کی جان ضائع ہو۔
Top