Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ
: اور
لَقَدْ اَرْسَلْنَآ
: تحقیق ہم نے بھیجے (رسول)
اِلٰٓى
: طرف
اُمَمٍ
: امتیں
مِّنْ قَبْلِكَ
: تم سے پہلے
فَاَخَذْنٰهُمْ
: پس ہم نے انہیں پکڑا
بِالْبَاْسَآءِ
: سختی میں
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَضَرَّعُوْنَ
: تاکہ وہ عاجزی کریں
البتہ تحقیق ہم نے بھیجے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول ‘ پس پکڑا ہم نے ان لوگوں کو سختی کے ساتھ اور تکلیف کے ساتھ تا کہ وہ گڑ گڑائیں اور عاجزی کریں
گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے احتمال کے طور پر مکذبین کو ڈرایا تھا کہ آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ اگر موت یا قیامت کی گھڑی آپہنچے تو خدا کے سوا تمہاری مصیبت کو کون دور کرسکتا ہے۔ یقینا کوئی نہیں۔ وہ صرف خدا کی ذات ہے جس کے قبضے میں اقتدار اور تصرف ہے۔ لہٰذا یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے کہ تمہاری پکار یا دعا کو قبول کر کے عذاب کو ٹم سے ٹال دے۔ اب اللہ تعالیٰ نے بعض سابقہ امتوں کے واقعات کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ہے کہ دیکھو ! ان پر خدا کا عذاب فی الواقع آ گیا اور وہ اس میں ہلاک ہوگئے۔ لہٰذا تمہیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ کہیں تم پر بھی ایسا عذاب نہ آجائے کیونکہ تمہارے افعال و کردار بھی ویسے ہی ہیں جیسے پہلی قوموں کے تھے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سرکشی اور عناد کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے کہ عام طور پر لوگ کس طرح کفر ‘ شرک اور معاصی میں مبتلا ہوتے ہیں پھر اللہ کی طرف سے مہلت دی جاتی ہے۔ اور جب لوگ قبیح حرکتوں سے باز نہیں آتے تو پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت اچانک آجاتی ہے اور ان کا کام تمام کردیتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ولقد ارسلنا الی ام امم من قبلک تحقیق آپ سے پہلے ہم نے تو ہت سی امتوں کی طرف اپنے رسول بھیجے امم امت کی جمع ہے اور مطلب یہ ہے کہ کسی ایک دو امت کی طرف نہیں بلکہ بہت سی امتوں کی طرف رسول مبعوث فرمائے۔ یہ خاطب حضور ﷺ کی ذات مبارکہ سے ہو رہا ہے کیونکہ آپ نبیوں اور رسولوں کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں ولکن رسول اللہ و خاتم النبین (احزاب ) آپ اللہ کے رسول اور سلسلہ نبو ت کو ختم کرنے والے ہیں۔ دوسری جگہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض رسولوں کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے اور بعض کا حال وحی کے علاوہ بھی بتلا دیا ہے اور بعض ایسے رسول بھی ہیں۔ جن کا ذکر اللہ نے نہیں کیا۔ تاریخ سے بھی ان کے حالات کا پتہ نہیں چلتا۔ غرضیکہ بہت سے رسول ایسے ہیں جن کے حالات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لا یعلمھم الا اللہ “ تنگی حالات فرمایا آپ سے پہلے ہم نے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے فاخذنھم بالباساء والضراء پس پکڑا ہم نے ان کو سختی اور تکلیف کی صورت میں۔ باس سے مراد معاشی تنگدستی ہے اور ضرا سے مراد جسمانی تکلیف یا بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ ج لوگ سرکشی پر اتر آتے ہیں تو اولاً انہیں کسی سختی میں ڈال کر تنبیہ کی جاتی ہے تا کہ وہ سمجھ جائیں اور سرکشی کو چھوڑ کر اللہ کی طررجوع کریں۔ یہاں پر بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے ‘ پھر انہوں نے ان کی تکذیب کی اور احکام الٰہی سے اغراض کیا تو ہم نے انہیں جسمانی اور معاشی تکالیف میں ڈال دیا اور ان پر یہ سختی اس لئے کی للعھم یتضرعون تا کہ وہ گڑگڑائیں اور عاجزی کا اظہار کریں۔ مقصد یہ کہ ہم نے تکلیف میں مبتلا کر کے متنبہ کردیا کہ ابھی وقت ہے بغاوت کو چھوڑ کر اللہ کی طرف آجائیں۔ اگر ان میں انسانیت کی کچھ رمق باقی ہوگی تو وہ گناہوں سے توبہ کرلیں گے ‘ کفر اور شرک کو ترک کردیں گے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں گے۔ یہاں پر باس یعنی معاشی تنگی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص محتاج ہوجائے مالی لحاظ سے کمزور ہوجائے اور اس کی گزر بسر اچھے طریقے سے نہ ہو سکے اور ضرا یعنی جسمانی تکلیف کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بیماری میں مبتلا ہو ہوجائے۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ معاشی یا جسمانی تکلیف دے کر وارننگ دیتا ہے تا کہ لوگ معصیت سے باز آجائیں۔ فرمایا فلو لا اذجاء باسنا تضرعوا پھر جب ہماری طرف سے تکلیف آپہنچی تو ان لوگوں نے کیوں نہ گریہ وزاری کی۔ مناسب تو یہ تھا کہ جب ہماری چھوٹی سی گرفت آئی تو فوراً سنبھل جاتے اور اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر معافی طلب کرتے ‘ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا ولکن قست قلوبھم بلکہ ان کے دل سخت ہوگئے۔ انہوں نے اس تنبیہ سے فائدہ نہ اٹھایا اور معاصی سے باز نہ آئے ‘ اس کے برخلاف ہوا یہ کہ وزین لھم الشیطین ماکانوا یعملون جو کچھ وہ کر رہے تھے شیطان نے اس کو مزین کر کے دکھا دیا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو ‘ ٹھیک کر رہے ہو اور اس پر قائم رہو ‘ یہ تکلیفیں اور مصیبتیں تو آتی رہتی ہیں ‘ ان کی کچھ پروانہ کرو۔ اچانک گرفت اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ توبہ استغفار کرنے کی بجائے وہ برائیوں میں پہلے سے زیادہ منہمک ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلما نسوا ما ذکروا بہ پھر جب وہ ہماری تنبیہ اور نصیحت کو بھول گئے اس کا مثبت اثر قبول نہ کیا۔ بلکہ انہوں نے اس بات پر غور ہی نہ کیا کہ ہمیں یہ تکلیف کیوں پہنچی ہے تو فرمایا فتحنا علیھم ابواب کل شئی ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ ان کی معیشت کو وسیع کردیا اور دنیاوی عیش و آرام کے سامان مہیا کردیئے۔ حتیٰ اذا فرحوا بما اوتوا پھر جب وہ خوش ہوگئے اس چیز سے جو ان کو دی گئی۔ یعنی جب انہیں کھانے پینے ‘ اچھی رہائش ‘ اچھی سواری ‘ زن و فرزند اور دیگر ہر قسم کی سہولتیں میسر آگئیں اور وہ خیال کرنے لگے کہ جو کچھ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔ اخذنھم بغتتہ ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا۔ ہماری گرفت آئی اور وہ فوراً عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ جب کوئی قوم حد سے تجاوز کرگئی تو کوئی آسمانی یا زمینی آفت آئی اور قوم تباہ و برباد ہو کر رہ گئی۔ جب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ آنے پر معافی نہیں مانگتے بلکہ معاصی میں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو پھر تباہی ان کا مقصدر بن جاتی ہے ۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ گنہگاروں کو اللہ تعالیٰ پہلی دفعہ تھوڑی سی تکلیف دے کر رجوع کرنے کا موقع دیتا ہے۔ پھر اگر وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر توبہ کرلیتے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے ہیں تو بچ جاتے ہیں۔ بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان پر خوشحالی کے دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر جب ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے گناہوں میں مزید ملوث ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دفعتاً پکڑ آجاتی ہے۔ اسی لئے فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کو تھوڑی سی تکلیف پہنچے تو فوراً توبہ کر لینی چاہئے۔ اسے کسی نشانی کے اظہار یا زیادہ مصیبت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی تنبیہہ پر ہی سمجھ جانا چاہئے اور گڑ گڑا کر اس سے معافی طلب کر لینی چاہئے ‘ اسی میں اس کا فائدہ ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بڑے اونچے درجے کے صحابی رسول ہیں۔ ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل انعام و اکام بھی ہو رہے ہیں ‘ اس کو ہر طرح سے وسعت حاصل ہو رہی ہے تو اس سے دھوکا نہ کھانا ‘ اللہ تعالیٰ اس پر راضی نہیں ہے بلکہ یہ تو استدراج اور مہلت ہے ‘ اللہ تعالیٰ کسی وقت بھی گرفت کرنے پر قادر ہے ‘ حضرت عقبہ ؓ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر حضور ﷺ نے یہی آیت تلاوت فرمائی فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شئی حتیٰ اذا فرحوا بما اوتوا اخذنھم بغتتہ فرمایا جب ہماری گرفت آجاتی ہے فاذا ھم مبلسون پھر وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقیقی گرفت میں مبتلا ہو کر ان کے لئے بچائو کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا تو پھرنا امید ہوجاتے ہیں۔ میانہ روی اور پاکدامنی حضرت عبادہ بن صامت ؓ انصار مدینہ میں سے تھے۔ دس فٹ قد کے کڑیل جوان ‘ دراز قامت ‘ سانولی رنگت ‘ حضور کے مخلص جانثاروں میں سے تھے۔ فتح مصر والے لشکر میں شامل تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب اللہ کسی قوم کو باقی رکھنا اور ترقی دینا چاہتا ہے تو اس قوم کو اقتصاد یعنی میانہ روی اور عفت یعنی پاکدامنی عطا فرماتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ رسوم و رواج میں پڑ کر یا معیار زندگی کو حد سے زیادہ بلند کر کے میانہ روی کو ترک کر بیٹھتے ہیں۔ کھیل کود ‘ رسومات ‘ لباس اور رہائش اور دیگر مکروہ امور پر بےدریغ روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح عفت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حرام اور مشکوک چیزوں سے بچ جائے ‘ خوراک ‘ لباس ‘ شہوات اور دیگر معاملات میں عفت کو ملحوظ خاطر رکھے۔ اگر کوئی شخص اقتاد اور عفت کی پروا نہیں کرتا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ تباہی کے راستے پر گامزن ہے جو بالآخر اس کی بربادی کا باعث ہوگا۔ خیانت کی لعنت فرمایا جس کسی قوم کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس پر خیانت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر وہ نماز اور روزے میں خیانت کرنے لگتے ہیں ‘ وضو اور طہارت میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں ‘ دکانداری اور ملازمت میں خیانت کرتے ہیں اپنے کاروباری ساتھی کو دھوکا دیتے ہیں ‘ غرض یہ کہ ان پر ہر طرف سے خیانت کے دروازے کھل جاتے ہیں ‘ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ بظاہر اس قوم میں خوشحالی نظر آتی ہے لوگ کھیل تماشے میں مشغول ہوتے ہیں ‘ فیشن کی بہتات ہوتی ہے مگر یہ خوشحالی نہیں بلکہ استدراج ہوتا ہے۔ یہ ترقی کی بجائے تنزلی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ترقی تو ایمان کی دولت اور اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ اصولوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ آج ہر گھر میں ٹیلی ویژن کے ذریعے کھیل تماشے کی فراوانی ہے۔ شادی بیاہ کی رسوم پر بےدریغ روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی پرتکلف دعوتیں ہوتی ہیں ‘ انتظامات پر دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے۔ ادھر موت کی رسوم پر بھی دیگیں پکتی ہیں۔ پھر قبروں کو پختہ بنایا جاتا ہے ان پر گنبد تعمیر ہوتے ہیں ‘ چادریں چڑھتی ہیں اور اس طرح لوگ فضول خرچی کر کے امانت کی بجائے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ظلم کا بدلہ فرمایا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت تما م ہوجاتی ہے بگڑی ہوئی قوم کسی طریقے سے راہ راست پر آنے کے لئے تیار نہیں ہوتی ۔ فقطع دابر القوم الذین ظلموا پھر ظلم کرنے والی قوم کی جڑ کاٹ دی جاتی ہے۔ ظلم صرف انسانی برادری سے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ لوگ کفر اور شرک جیسے ظلم عظیم کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اور پھر اللہ کا عذاب انہیں اچانک آ پکڑتا ہے۔ پہلی امتوں میں بسا اوقات ایسا عذاب نازل ہوتا تھا کہ پوری کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی تھی ‘ مگر اس آخری امت کو حضور ﷺ کی برکت سے ایسے سخت عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لئے عذاب کبھی زلزلے کی صورت میں آتا ہے اور کبھی طوفان کی شکل میں کبھی کثرت اموات عذاب کا ذریعہ بنتی ہیں اور کبھی ان پر دشمن کا تسلط قائم کر کے عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے تو اللہ نے فرمایا کہ جنہوں نے ظلم کیا ان کی جڑ کاٹ دی گئی۔ والحمد للہ رب العالمین اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ ظالم لوگ چونکہ پوری انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں ‘ لہٰذا ان کی جڑ کٹ جانے سے پوری دنیا کا بھلا ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ سب تعریفیں اس مالک الملک کے لئے ہیں جو اپنی مخلوق کو ظالموں کے ظلم سے نجات دیتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اسلام میں جہاد کو اسی لئے فرض قرار دیا گیا ہے تا کہ مفسدین کی سرکوبی ہو سکے ‘ مفسد لوگ معاشرے میں ایسے ہیں۔ جیسے انسانی جسم میں پھوڑا۔ جس طرح انسان کی بھلائی اس مہلک پھوڑے کو کاٹ پھینکنے میں ہی ہے اسی طرح پوری نسل انسانی کی بھلائی اور خیر خواہی مفسدین کے قلع قمع میں ہے۔ معاشرہ جبھی پاک صاف ہو سکتا ہے جب ظلم کے تمام ذرائع کو کاٹ دیا جائے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ ان ظالموں کو ختم کرنے میں ہی انسانیت کی بھلائی ہے۔ موطا امام مالک (رح) کی حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب برا آدمی مرتا ہے تو درخت پتھر اور جانور الحمد للہ کہ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ موذی آدمی آدمی نابود ہوا۔ ایسا شخص نہ صرف انسانیت کا دشمن تھا بلکہ درختوں ‘ پتھروں اور جانوروں کے لئے بھی باعث وبال تھا اس کے برخلاف اگر کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس پر ارض و سما روتے ہیں۔ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ آسمان کے وہ دروازے رنجیدہ ہوجاتے ہیں جن کے راستے نیک آدمی کے اعمال اوپر جاتے تھے ‘ مگر ظالموں پر نہ آسمان روتا ہے اور نہ زمین ‘ بلکہ ہر چیز کہتی ہے الحمد للہ خس کم جہاں پاک۔
Top