بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
قسم ہے قلم کی اور جو کچھ قلم کے ساتھ لکھتے ہیں۔
وجہ تسمیہ اور کوائف : اس سور ۃ کی پہلی آیت میں قلم کا لفظ مذکور ہے۔ اور اسی وجہ سے اس سورة کا نام سورة قلم ہے اس سورة کی باون آیات ، تین سو الفاط اور ایک ہز اور دو سوچھپن حروف ہیں۔ اس سے پہلے سورة ملک کی تیس آیات تھیں اور اس کی باون آیتیں ہیں۔ مضامین سورة (ربطہ) : اس سے پہلی سورة میں توحید ذات خداوندی ، دلائل توحید ، جزائے اعمال اور ضمنا رسالت کا ذکر تھا۔ اس سورة میں زیادہ تر رسالت کا تذکرہ ہے۔ جزائے اعمال اور قیامت کا ذکر بھی ہے۔ پہلی سورة میں توحید کے دلائل زیادہ تھے اس میں نبوت اور رسالت پر اعتراضا کے جواب دیے گئے ہیں ان کا رد کیا گیا ہے۔ اور تبنیہ کی گئی ہے۔ خاص طور پر مکہ کے خوشحال لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے۔ ایک خوشحال باغ والوں کا ذکر ہے جن کی نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عطا کردہ نعمت ان سے چھین لی۔ دوسری طرف حضور ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ طعن کرنے والوں کی وجہ سے زیادہ پریشان نہ ہوں بلکہ صبر کریں اور برداشت سے کام لیں۔ آخر میں مچھلی والے نبی کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بےصبری سے کام لیا تھا لہذا وہ آزمائش میں مبتلا ہوگئے۔ اس مثال سے نبی ﷺ کو صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قیامت اور اس میں پیش آنے والے بعض حالات کا بیان بھی ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورة ان سورتوں میں سے ہے جو ابتدائے نبوت میں نازل ہوئیں بعض فرماتے ہیں کہ نزول کے لحاظ سے اس کا تیسرا نمبر ہے۔ پہلے نمبر پر سورة علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں۔ اس کے متصل بعد سورة فاتحہ نازل ہوئی۔ اور جبرائل (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کو وضو کا طریقہ بتایا۔ اور آپ ﷺ نما ز کے لیے کھڑے ہوئے۔ دوسرے نمبر پر سورة مزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ اس کے بعد تیسرا نمبر اس سورة مبارکہ کا ہے اگر سورة فاتحہ کو الگ شمار کریں تو اس کا چوتھا نمبر ہوگا۔ نماز کی ابتدائ : پہلی وحی کے بعد دوسرے روز آپ نے نماز ادا کی۔ اس نماز میں آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ ، حضور ﷺ کے منہ بولے بیٹے زید ؓ اور آزاد کردہ لونڈی ام ایمن ؓ تھے۔ یہ آپ کے والدہ ماجد کی لونڈی تھی جسے آپ ﷺ نے آزاد کردیا تھا۔ اس نے آپ کو گود میں کھلایا تھا اور آپ کے لیے بمنزلہ ماں کے تھی۔ آپ ﷺ اس کا بڑا احترام فرماتے تھے بچوں میں حضرت علی ؓ بھی حضور کے ساتھ نماز میں شریک تھے۔ کفار کا اعتراض : مکہ کے اکثر وبیشتر لوگ جاہل تھے۔ حضور ﷺ کا نماز پڑھنا ان کے لیے عجیب بات تھی وہ اسے عجیب و غریب حرکات خیال کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے شروع میں ہی یہ طعنہ دیا کہ لوگ پاگل اور مجنون ہوگئے ہیں جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کو مجنون کا خطاب اسی دور میں دیا گیا۔ عقیدہ توحید سے انحراف : شاہ ولی اللہ (رح) اپنی مشہور کتاب الفوز الکبیر میں لکھتے ہیں اگرچہ نماز اور طہارت کا طریقہ عربوں میں معروف تھا۔ مگر عام لوگ جاہل تھے۔ ان کا عقیدہ بگڑ چکا تھا۔ حضور ﷺ کی بعثت سے چار سو سال تک لوگ موحد تھے۔ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین پر تھے۔ یہ قریش کے جدا مجد قصی ابن کلاب کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد عربوں کے ایک شخص عمرو بن الحی نے بت پرستی سیکھی اور یہاں آکر رائج کی۔ اور پھر عقیدہ توحید میں ایسا بگاڑ پیدا ہوا ، کہ سارے عرب میں توحید پرست کوئی اکا دکا آدمی ہی نظر آتا تھا۔ توحیدکی رسق : مکہ کی اتنی بڑی آبادی میں صرف ایک شخص ورقہ بن نوفل کا نام ملتا تھا۔ اس نے پہلی کتابوں کا علم سیکھا تھا اس لیے کسی حد تک توحید پرست تھا۔ اس کے علاوہ زید بن خمروبن نفیل کا نام ملتا ہے۔ زید حضرت سعید ؓ کے والد تھے جو عشرہ بشرہ میں سے تھے۔ حضور ﷺ نے دس آدمیوں کو ایک ہی مجلس میں بہشتی ہونے کی بشار ت دی تھی۔ یہ زید ابن عمر نفیل خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ ہر طرف بت ہی بت تھے۔ بتوں کا طواف ہو رہا ہے۔ صفاء مروہ کے درمیان بت رکھے ہیں۔ مشل کے مقام پر بڑے بڑے بت تھے۔ کعبے کی دیواریں پر ، چھت پر ، مقام ابراہیم پر الغرض چاروں طرف بت ہی بت تھے۔ اس حالت میں زید بن عمرو حقیقت سے تو بیخبر تھے۔ مگر کہتے تھے کہ یہ جو کچھ ہور ہا ہے۔ غلط ہے شرک ہورہا ہے مگر وہ شرک سے بیزار تھے۔ مشرکوں کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا بھی نہیں کھاتے تھے۔ کہتے تھے یہ غیر اللہ کا نام پر ، لات وعزیٰ کا نام پر کاٹتے ہیں۔ لہذا میں اسے نہیں کھائوں گا۔ جیسا کہ حضور ﷺ بھی مشرکین کا ذبیحہ نہیں کھاتے تھے۔ وہاں اگر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو تو استعمال کرلیتے تھے۔ تو گویا اس گئے گذرے زمانے میں بھی ایسے اکا دکا آدمی نظر آتے تھے۔ جن میں توحید کی رمق کسی حد تک باقی تھی۔ ورنہ 999 آدمی مشرک ہی تھے۔ کفار کے طعن کا جواب : ان حالات میں جب مشرکین مکہ حضور ﷺ کو وضو کرتے ، کھڑے ہوتے ، رکوع کرتے ، سجدہ کرتے دیکھتے تھے تو کہتے تھے فلاں آدمی پاگل ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرے بھی شریک ہوگئے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کفار مکہ اور مخالفین کے اعتراض کا رد فرمایا ہے۔ حرف ن کے مختلف معافی : اس سورة کون کے حرف سے شروع کیا۔ جیسے الم کھیعص بعض سورتوں کی ابتداء میں یہ حروف آتے ہیں۔ اور حروف مقطعات کہلاتے ہیں اس مقام پر ن سے درمعانی مراد لیے گئے ہیں۔ ن کا ایک معنی مچھلی ہے اور اس سورة کے آخر میں مچھلی والے پیغمبر کا ذکر ہے۔ اور ان کے حال کو سامنے رکھ کر تسلی دی گئی ہے۔ کہ بےصبری نہ کرو۔ اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیں۔ صبرو اطمینان سے کام لیں یہ کفار طعن کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیں۔ دوسری جگہ سورة انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا اور مچھلی والے پیغمبر کا حال بھی سنو ، جب وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم گرفت نہیں کریں گے۔ مگر ہم نے ا ن کو آزمائش میں ڈال دیا۔ پھر ان کے ساتھ مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کا جو واقعہ پیش آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا۔ اس سورة میں آگے چونکہ مچھلی والے پیغمبر حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ لہذا حرف ن کو شروع میں لانے میں شاید اسی واقعہ کی طرف اشارہ مقصود ہو ن کا دوسرا معنی اس مقام پر دوات بھی ہوسکتا ہے۔ عربوں میں ن کا اطلاق دوات پر بھی کیا جاتا ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) اور دوسرے مفسرین فرماتے ہیں۔ جس وقت مجھے شوق ان کی طرف ستاتا ہے۔ تو پھر دوات اپنے آنسو مسلسل بہانے لگتی ہے۔ یعنی جب میں قلم لے کر خط لکھتا ہوں تو دوات اپنے آنسوں مسلسل بہاتی ہے۔ تو گویا قلم کے کناروں سے جو سیاہی گرتی ہے اسے آنسوئوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تو گویا اس ن سے مراد دوات بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ قلم کا قریبی رابطہ دوات سے ہی ہوتا ہے۔ قلم عام وخاص معانی میں : اور جو کچھ قلم کے ساتھ لکھتے ہیں۔ اس جگہ قلم کا معنی عام بھی ہوسکتا ہے۔ اور خاص بھی اگر اس سے خاص قلم مراد لیا جائے تو وہ تقدیر کا قلم ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور حکم دیا۔ یعنی جو واقعات ہونے والے ہیں سب لکھ دو یہ قلم تقدیر ہے عام قلم وہ ہے جسے لاکھوں کروڑوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یہ قلم بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے قلم کے ذریعے لوگوں کو علم سکھایا۔ اس لحاظ سے قلم کو بڑی حیثیت حاصل ہے حکومت کا مدار دو چیزوں پر ہے یعنی قلم اور تلوار اور ان دونوں میں قلم کو غلبہ حاصل ہے۔ قلم جو کچھ تحریر کرتی ہے ، تلوار اس کے مطابق عمل کرتی ہے۔ یعنی طاقت کا استعمال قلم کے حکم کے تابع ہے۔ اسی طرح دفتروں کے دفتر قلم سے لکھے جاتے ہیں۔ علوم و معارف اور فنون وغیرہ سب قلم ہی سے احاطہ تحریر میں آتے ہیں۔ تو یہاں پر سے وہ تحریر مراد ہے۔ جو عام لوگ لکھتے ہیں۔ اور جس کے ذریعے لوگوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھیں یعنی عام قلم یہاں پر قلم سے مراد خاص قلم یعنی تقدیر کا قلم مراد نہیں ہے ۔ قسم اور اس کا جواب : پہلی آیت میں قلم اور اس کے ذریعے جو لکھا جاتا ہے اس کی قسم کا ذکر ہے۔ اگلی آیت میں اس قسم کا جواب ہے۔ یعنی اے بنی (علیہ السلام) آپ اپنے بات پر گواہ ہے کہ آپ ﷺ دیوانے نہیں ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے لیکر آج تک جس نے جو بھی قلم سے لکھا ہے۔ اسے ایک طرف رکھ دیں اور خاتم النبیین ﷺ کی زبان سے نکا ہوا ایک جملہ ایک طرف رکھ دیا جائے تو یہ ایک جملہ ہر چیز پر بھاری ہوگا۔ اور پتہ چل جائے گا کہ کیا یہ پاگلوں کا کلام ہے ؟ حضور ﷺ کا ہر فرمان علم و حکمت کا خزانہ ہے : ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک بچے کے ساتھ دل لگی کے لیے بطور مزاح ایک جملہ فرمایا تھا ، تو اس ایک ازارہ مراج فرمودہ جملے سے محدثین اور فقہائے کرام نے ایک سو مسائل کا استنباط کای۔ سوچو تو سہی کہ ایک بچے کا دل خوش کرنے کے لیے فرمائے گئے ایک جملے سے اگر اس قدر مسائل اخذ ہو سکتے ہیں۔ تو کیا حضور ﷺ کا کوئی بھی فرمان بھلا پاگلوں کی باتیں ہو سکتی ہیںَ ؟ یہ حیثیت تو نبی ﷺ کے اپنے کلام کی ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن پاک اپنی زبان سے ادا فرماتے ہیں۔ اس کا مقام کیا ہوگا۔ بھلا ایسی باتیں پاگلوں کی زبان سے نکا کرتی ہیں ؟ پھر فرمایا کہ مجنون آدمی تو کوئی صحیح کا م نہیں کرسکتا۔ مگر آپ کے افعال ایسے ہیں کہ دوست اور دشمن سب ان کو تسلیم کرتے ہیں۔ جس وقت تک آپ کو نبوت نہیں ملی تھی ، اس وقت بھی آپ کے حالات اتنے مستقیم تھے اور آپ کی ذات اقدس کو اس قدر حکمت و دانائی عطا کی تھی جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ حجرا سود کی تنصیب کا کارنامہ : حضور کریم ﷺ کی عمر مبارک ابھی پینتیس سال کی تھی ، نبوت عطا ہونے میں ابھی پانچ سال باقی تھے کہ کعبہ کی تعمیر میں تنازعہ پید ا ہوگیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ حجراسود کو اپنے مقام پر کون رکھے ہر قبیلے کا سردار اس سعادت کے حصول کا خواہشمند تھا۔ آپس میں جھگڑا فساد شروع ہوگیا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ دنگا فساد ٹھیک نہیں ہے۔ اس معاملہ کسی کو اپنا فیصل مقرر کو اور اس کے فیصلے کو سارے تسلیم کرلو۔ چناچہ طے پایا کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے حرم شریف میں داخل ہو ، وہی فیصل ہوگا دوسرے دن لوگوں نے دیکھا کہ حرم پاک میں سب سے پہلے داخل ہونے والے حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ چناچہ سب نے آپ کو اس تنازعہ میں فیصل تسلیم کرلیا۔ حضور ﷺ فیصل ایسا فیصلہ صادر فرمایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جب حجر اسود کی تنصیب کا وقت آیا تو آپ نے اپنی چادر مبارک بچھائی ، اپنے ہاتھ سے حجرا سود اس میں رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں سے کہ کہ وہ چادر کے کونے پکڑ لیں اور اسے تنصیب کی جگہ تک لے جائیں جب وہ اس مقام پر پہنچے تو حضور ﷺ نے اپنے دست مبارکہ سے پتھر کو اٹھا کر تنصیب کی جگہ پر رکھ دیا۔ اس فیصلے سے سب لوگ راضی ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ نے کمال کردیا یعنی کمال درجے کا فیصلہ کیا۔ حکمت و دانائی سے چادر کے کونے سارے سرداروں کو پکڑ ا دیے اور کسی کو اعتراض کا موقع نہیں دیا۔ سب کہنے لگے ہم راضی ہیں ، ہم خوش ہیں ، یہ خوب فیصلہ ۔ حضور ﷺ کے لیے بےانتہا اجر : تو فرمایا کہ اے نبی ﷺ یہ پاگلوں کے کام نہیں ہیں بلکہ یعنی آپ کیلئے بےانتہا اور کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ آپ کے اعمال اور آپ سے علم سیکھ کر آگے سر انجام دیے جانے والے سب اعمال کا اجر آپ کو ملتا چلا جائے گا۔ پیغمبر کے اجر کی کوئی انتہا نہیں۔ تمام لوگ پیغمبر کے واسطے سے جو بھی اچھی بات سیکھیں گے اس کا اجر پیغمبر ﷺ کو برابر ملتا رہے گا۔ تو گویا اس طرح پیغمبر کا اجر بےانتہا ہے۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ آپ کا خلق عظیم : اس پس منظر میں کہ کفار آپ ﷺ کو مجنون اور پاگل کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ معاذ اللہ آپ دیوانے نہیں ہیں بلکہ بیشک آپ بہت بڑے اخلاق پر ہیں ۔ آپ کا اخلاق بہت عظیم ہے۔ یہ کفار و مشرکین حماقت ، جہالت اور تعصب کی بنا پر آپکی ذات پر اعتراض کرتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ آپ سب سے بڑے اخلاق پر ہیں۔ کائنات میں آپ سے بڑا اخلاق ہے ہی نہیں۔ حضرت جنید بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کو سب سے بڑا اخلاق اس لیے کہا گیا کہ یعنی آپ کے دل میں رضائے الہی کے سوا کوئی اور مقصد ہی نہیں ہے۔ اور مخلوق کے ساتھ آپ کمال درجے کے اخلاق کے ساتھ پیش آئے۔ اب ظاہر میں آپ مخلوق کے ساتھ ہیں اور باطن میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اسی لیے لوگوں کے ساتھ کمال درجے کا معاملہ کرتے ہوئے بھی بےگانہ ہی ہیں کیونکہ اندر کا معاملہ اللہ کے ساتھ چل رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے سوا آپ کا کوئی مقصود نہیں۔ تو ظاہر آپ کا مخلوق کے ساتھ تھا اور باطن حق کی ساتھ اسی لیے آپ کا اخلاق خلق عظیم یعنی سب سے بڑا اخلاق ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا یعنی خدا نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کردوں حضور کے اخلاق کی کوئی مثال نہیں۔ تمام نبیوں اور انسانوں میں آپ کا اخلاق سب سے بلند ہے اور اسی اخلاق کو معیار مقرر کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ سے قرب کا مدار اچھے اخلاق پر ہے : حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تم میں سے مجھ سے زیادہ قریب وہ ہوگا جس کا اخلاق اچھا ہوگا۔ اور فرمایا جنت میں بھی وہ لوگ کثیر تعداد میں جائیں ، جن کے اخلاق اچھے ہونگے۔ منافق کے بارے میں فرمایا۔ اس کا اخلاق کبھی اچھا نہیں ہوگا۔ اور اسے دین کی سمجھ کبھی حاصل نہیں ہوگی۔ امت محمدیہ کا فتنہ مالی ہے : حضور ﷺ نے فرمایا ہر امت کا کوئی فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ یہ مال میں تباہ ہوگی۔ اور ہر امت کا کوئی خاص اخلاق ہوتا ہے۔ اور میری امت کا خاص اخلاق حیا ہے۔ جب تک ان کے اندر حیا موجود رہے گی۔ یہ بالکل ٹھیک رہیں گے۔ جب حیا کا خلق ضائع ہوگیا۔ خرابی آجائے گی ، بےحیائی پیدا ہوجائے گی۔ مفتوں کون ہے : اخلاق محمدی کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ربانی ہے یعنی آپ بھی عنقریب دیکھ لیں گے اور یہ معترضین بھی دیکھ لیں گے۔ کہ تم میں سے کون فتنے میں ڈالا گیا ہے۔ یہ خود پاگل ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں حالانکہ تیرا رب خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بہک گیا ہے۔ اور وہ خوب جانتا ہے ان لوگوں کو بھی جو ہدایت کے راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ آپ ان لوگوں کے اعتراض سے نہ گھبرائیں۔ آگے مزید تسلی اور بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہیں۔
Top