Mualim-ul-Irfan - Al-Haaqqa : 25
وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ١ۙ۬ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْۚ
وَاَمَّا : اور رہا مَنْ اُوْتِيَ : وہ جو کوئی دیا گیا كِتٰبَهٗ : کتاب اپنی بِشِمَالِهٖ : اپنے بائیں ہاتھ میں فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش کہ میں لَمْ اُوْتَ : نہ دیا جاتا كِتٰبِيَهْ : اپنا نامہ اعمال۔ اپنی کتاب
بہرحال وہ انسان جس کو اس کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا کاش کہ میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا۔
گذشتہ سے پیوستہ : قیامت واقع ہونے پر انسانوں کے دو گروہ ہوجائیں گے۔ پہلی آیتوں میں صور پھونکنے کا ذکر ہوا۔ نظام کے درہم برہم ہوجانے اور زمین و آسمان کے تغیر و تبدل کا بیان ہوا۔ اس روز عرش الہٰی اور ملائکہ کی کیفیت کا حال بھی ذکر کیا گیا پچھلے درس میں اس گروہ کا ذکر ہوا جس کو اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ وہ بڑا خوش ہوگا۔ اپنا اعمالنامہ لوگوں کو دکھاتاپھرے گا۔ اس گروہ کو ملنے والے انعام و اکرام کا ذکر بھی پچھلے درس میں ہوچکا ہے۔ بائیں ہاتھ والے : اب ناکام ہونے والے گروہ کا بیان ہوتا ہے بہرحال وہ انسان جس کو اس کا اعمالنامہ بائیں ہاتھ میں دیا گیا۔ ہوہ کہے گا کاش کہ یہ اعمالنامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا۔ یہ اصحاب شمال ہیں۔ جیسا کہ سورة واقعہ میں گذر چکا ہے۔ اس دن لوگوں کا بہت براحال ہوگا۔ یہ اصحاب شمال ہیں ۔ جن کا اعمال نامہ قیامت والے دن بائیں ہاتھ میں دیا جائیگا۔ اور سورة انشقاق میں ورآء ظہرہٖ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کا اعمال نامہ پیچھے سے دیا جائے گا۔ یعنی سامنے نہیں دیا جائے گا۔ ان لوگوں کو نہایت ذلت کے ساتھ پیچھے کی طرف سے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا۔ دایاں ہاتھ برکت اور قوت والا ہوتا ہے۔ جب کہ بایاں ہاتھ دائیں کی نسبت کمزور ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ عزت والے کام دائیں ہاتھ سے کرنے چاہیں۔ کسی کو کوئی چیز دنیا ہو ، مصافحہ کرنا ہو ، دائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے۔ حقارت کے کام ، گندگی صاف کرنا ، استنجا پاک کرنا وغیرہ بائیں ہاتھ سے کئے جاتے ہیں۔ الغرض جس کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائیگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اعمال اس قدر کمزور ہیں کہ وہ خدا کے عذاب کو روک نہیں سکتے۔ لہذا یہ شخص عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اگر اس کے اعمال میں قوت ہوتی تو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملتا۔ اور اس کے اعمال غضب الہٰی کو روک سکتے۔ اظہار افسوس : لہذا بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ حاصل کرنے والا شخص افسوس اور حسرت کا اظہار کرے گا اور کہے گا کاش کیا اچھا ہوتا یہ اعمال نامہ مجھے ملتا ہی نہ میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ مجھے علم ہی نہ ہوتا۔ افسوس کہ یہ قیامت یا موت مجھے ختم ہی کردیتی۔ میرا وجود ہی باقی نہ رہتا دوبارہ زندگی حاصل نہ ہوتی۔ سورة النبا میں ہے کا ش میں مٹی ہوتا۔ بےجان ہوتا ، عقل و شعور سے خالی ہوتا تو آج اس عذات میں مبتلا نہ ہوتا۔ مگر اس کا اظہار افسوس کچھ کام نہیں ۔ مال کچھ کام نہیں آئیگا : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کا ذکر فرمایا جن کی وجہ سے لوگ غرور کرتے تھے۔ اتراتے تھے۔ اور جن کی وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ بائیں ہاتھ والے لوگ کف افسوس ملتے ہوئے کہیں گے۔ کہ افسوس میرا مال آج میرے کچھ کام نہ آیا۔ وہ مال جسے دنیا میں سمیٹ سمیٹ کر رکھتے تھے اور اسے من مانے طریقے سے خرچ کرتے تھے۔ آ ج وہ ان کے کسی کام نہیں آئے گا۔ گذشتہ سورة میں گذر چکا ہے کہ وہ لوگ اس بات پر غرور ر کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں مال اور اولاد دی ہے ۔ حالانکہ آخرت میں یہ چیزیں کسی کام نہ آئیں گی۔ اسی طرح سورة ہمزہ میں آتا ہے کہ دنیا میں مال جمع کرنے والا سمجھتا تھا کہ میں ہمیشہ خوشحال رہوں گا۔ حالانکہ حیقیت یہ ہے کہ عام طور پر انسان اسی مال کی وجہ سے مفتوں ہوتا ہے۔ اور آزمائش میں پڑجاتا ہے۔ سورة والعٰدیٰت میں ہے انسان مال کی محبت میں پکا بھی ہے۔ فطرت انسانی ہے کہ عام طور پر مال سے بڑی محبت ہوی ہے اسی لیے شرائع لہیہ یعنی آسمانی شریعتیں لوگوں کو تہذیب سکھاتی ہیں۔ مال کی محبت بیشک فطری ہے لیکن ایسانہ ہو کہ اس میں مبتلا ہوکرا نسان فرائض کو ترک کر بیٹھے۔ ایسی صورت میں یہی مال وبال بن جائیگا۔ اگر مال کی ہی معبود نبالیا۔ حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دی تو یہی مال فتنہ بن جائے گا۔ چناچہ اس جگہ یہی بات بیان ہورہی ہے کہ بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ حاصل کرنے والا آدمی کہے گا۔ افسوس ! میرے مال نے مجھے کچھ کام نہ دیا۔ ابولہب کا واقعہ قرآن پاک میں موجود ہے ابولہب بڑا دولت مید آدمی تھا مگر جب خدا تعالیٰ کی گرفت آئی تو اس کے مال نے اور جو کچھ اس نے کمایا تھا ، کچھ بھی کام نہ آیا۔ اسی لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ آخرت میں جب دنیا کے دولت مند دیکھیں گے کہ غربا و مساکین کو بڑے درجے اور فلاح نصیب ہورہی ہے۔ تو تمنا کریں گے کاش دنیا میں ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی جاتیں۔ ہم ایسی تکالیف وہاں برداشت کرلیتے اور اس کے بدلے آج ہمیں راحت نصٰب ہوتی ، درجہ متلا مگر ا س وقت ان کا کف افسوس ملنا کسی کام نہ آئے گا۔ اقتدار بھی جاتا رہے گا : مال کے بعد اقتدا ایسی چیز ہے جس پر انسان اتراتا ہے۔ جس کے پاس حکومت ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ غرور کرتا ہے۔ ایسا انسان شاذو نادر ہی ہوگا جو اقتدار پر فائزہونے کے باوجود جامئہ انسانیت میں رہے۔ انصاف قائم کرے مخلوق خدا پر ظلم نہ رکے۔ لوگوں کا استحصال نہ کرے۔ مگر قیامت کے روز یہ چیز بھی اس کے کام نہ آئے گی۔ اور وہ کہے گا افسوس کہ آج میرا اقتدار بھی برباد ہوگیا۔ حکومت بھی چھن گئی۔ آج نہ کوئی نوکر چاکر ہے۔ نہ فوج ہے۔ نہ پولیس ہے نہ سیکیورٹی والے ہیں ، جو میرے کا م آئیں گے۔ مگر وہاں ایسی کوئی بات نہیں ہوگی۔ انسان بےیارو مددگار ہوگا۔ بلکہ یہی چیزیں ا س کے لیے مہلک ثابت ہوں گی۔ امت محمدیہ کا فتنہ مال ہے : حضور ﷺ کا ارشاد ہے ہر امت کا کوئی نہ کوئی فتنہ ہوتا ہے۔ اور میری امت کا فتنہ مال ہے فرمایا مجھے اس بات کا خطرہ نہیں ہے کہ تم فقر میں ہلاک ہوجائوگے۔ مجھے خطرہ یہ ہے کہ تم پر دینا پھیلا دی جائیگی۔ پھر تم کو وہ اس طرح ہلاک کردے گی جس طرح پہلے لوگوں کو کیا۔ دنیا میں غرور تکبر کیا ۔ برائیوں میں پڑگئے۔ اور تباہ ہوئے۔ دنیا کا پھیلائوہی سب کو تباہ کر دے گا۔ اور ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ میری امت کا فتنہ مال ہے۔ مخصوص اخلا حیا ہے : نبی ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہر امت کا کوئی مخصوص اخلاق ہوتا ہے۔ اور میر ی امت کا مخصوص اخلاق حیا ہے۔ جب تک امت میں حیا باقی رہے گی۔ ٹھیک رہیں گے۔ جب حیا اٹھ جائے گی تو ناکام و نامراد ہوں گے ، برباد ہو جائینگے۔ مال و جاہ کا غلط استعمال : تو فرمایا کہ مال اور اقتدار یہ دو چیزیں ہیں جن میں مبتلا ہو کر اکثر وبیشر لوگ ناکام ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان دونوں چیزوں کو غلط استعمال کرتے ہیں ۔ قیامت کے روز ان کے پاس نہ مال ہوگا نہ اقتدار ہوگا بلکہ وہاں تو قلاش ہونگے۔ اور جیسا کہ آگے آخری آیت میں آرہا ہے ۔ ا سوقت انسان اسکا افسوس کریگا۔ مجرمین کا جہنم رسید ہونا : ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا اس کو پکڑ اور اور اس کے گلے میں طوق ڈال دو ، یہ مجرم ہے جیسا کہ سورة یٰسین میں آتا ہے۔ ان کے گلے میں طوق ہوں گے۔ اسی طرح یہاں بھی فرمای کہ حکم ہوگا کہ طوق پہنا کر اسے جہنم کی آگ میں ڈال دو ۔ پھر ان کو زنجیروں میں جکڑ دو ان زنجیروں میں لمبائی ستر ستر گز ہے۔ ان میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دو ۔ بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والا شخص آج اسی کا مستحق ہے۔ اسے زنجیروں میں جکڑ کر اور گلے میں طوق ڈال کر جہنم رسید کر دو ۔ خدائے اعظم کا انکار : ایسے لوگوں کو جہنم رسید کی دو وجوہات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائیں۔ ایک تو یہ کہ وہ عظمتوں والے خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ جب اللہ کے نبی ﷺ کہتے تھے یعنی اللہ پر ایمان لے آئو۔ فلاح پا جائو گے ، تو یہ اکڑ تا تھا۔ خدا کی توحید کو نہیں مانتا تھا۔ بلکہ کہتا تھا کہ بات دادا کے تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کو مان لیں یہ کیسے ہوسکتا ہ۔ الٹا اکڑتا تھا۔ کہتا تھا العیاذ باللہ اس بیوقوف آدمی کی بات کیسے مان لوں ، پاگل ہے ، دیوانہ ہے ، اسے جرم کی پاداش میں جہنم رسید کیا جار ہا ہے۔ کہ وہ خدائے برتر پر ایمان نہیں لاتا تھا۔ اطعام مسکین سے اعراض : اس کا دوسرا جرم یہ ہے کہ مسکین کو کھانا کھلانے پر برا نگیختہ بھی نہیں کرتا تھا۔ نہ خود مساکین کو کھانا کھلاتا تھا ، نہ دوسروں کو ہی ترغیب دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دو جرائم کا ذکر کیا جان کی پاداش میں اس کو ذلت و رسوائی کے ساتھ دوذخ میں ڈالا جارہا ہے۔ دین کا خلاصہ : امام رازی (رح) جو چھٹی صدی کے آخر میں اور ساتویں صدی کے شروع میں گذرے ہیں۔ آپ کا انتقال 202 ھ میں ہوا۔ آپ بڑے امام تھے۔ انہوں نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ دین کا خلاصہ اور نچوڑ دو چیزیں ہیں اگر کوئی شخص دین کو سمجھنا چاہے تو اس کا خلاصہ دو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے۔ یعنی اللہ کے احکام کی تعظیم اور مخلوق خدا پر شفقت ۔ ان دو چیزوں کو پھیلایا جائے تو دین کے سارے قوانین انہیں میں آجائیں گے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد : عام متکلمین کے انداز میں ا س کو یون بیان کریں گے کہ دین نام ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا۔ یا اللہ کے حقوق ہیں یا مخلوق کے ، تیسری چیز کوئی نہیں۔ حقوق اللہ ہیں۔ جو شخص اللہ کے حقوق نہیں مانتا وہ دہریہ ہے یا کافر ۔ لہذا ناکام ہوتا ہے۔ اور جو شخص مخلوق کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ مخلوق پر شفقت نہیں کرتا۔ وہ بھی ناکام اور مردود ہے۔ الغرض ان دو قوانین کو پھیلائیں گے تو ہر چیز اس میں آجائے گی۔ ان سے باہر کوئی چیز نہیں ہے۔ دین اسی کا نام ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ شخص نہ تو اللہ کا حق ادا کر ت تھا ، نہ مخلوق کا حق اور عنوان یہ ہے خدائے عظیم کی توحید کو نہیں مانتا تھا۔ اور مسکین کے کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔ خود کھلانا تو کجا ، دوسرے کو بھی امادہ نہیں کرتا تھا۔ اس میں یہ ادنیٰ درجے کی نیکی بھی نہیں تھی۔ جیسا کہ سورة دہر میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی جو اپنی خوشی سے مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ باعزت روٹی انسان کا بنیادی حق ہے : مسکین کو روٹی کھلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھیک مانگنے والوں کو دے کر بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ محتاج کی روزی کا مستقل بندوبست کیا جائے۔ اس کے لیے باعزت روزگار مہیا کرکے باعزت روٹی کا انتظام کیا جائے۔ آج کی دنیا میں بھی الخبز باالکَرامتہ کا نبی ادی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ کہ ہر شخص کو باعزت روٹی ملنی چاہیے۔ در بدر بھیک مانگنا انسانیت کی تذلیل ہے۔ یہ صرف ہمارے ملک کا ہی رواج ہے اور یہ ذلت ہمارے ہی مقدر میں ہے۔ ورنہ عیسائی ممالک میں کوئی بھیک نہیں مانگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین سے دور ہوگئے ہیں ، مذہب سے بیگانہ ہوگئے۔ جہالت تاریکی ، شرک ، بدعت وغیرہ تمام قباحتیں مسلمانوں میں اپئی جاتی ہیں۔ حلبی (رح) نے سیرت میں لکھا ہے کہ پہلی صدی کے آخر میں آدھی دنیا سے زیادہ پر ، مسلمانوں کی سلطنت تھی ، جہاں جہاں مسلمان تھے کہیں ایک جگہ بھی کوئی قحبہ خانہ نہیں تھا۔ انگریز کے زمانہ میں لائسنس لے کر برائی کرنے والی پچھتر فی صد عورتیں مسلمان تھیں ، یہی حال مصر ، ایران ، اور ہندوستان میں تھا۔ مسلمانوں پر اس قدر ذلت مسلط ہوگئی تھی۔ گدا گری حرام ہے : شاہ والی اللہ (رح) کہتے ہیں کہ ہمارے دین میں گدا گری حرام ہے۔ یہ اسی طرح اکساب ضارہ میں شمار ہوتی ہے۔ جیسے چوری ، ڈاکہ ، زنا وغیرہ ۔ لیکن حکومتیں اس کا خاطرخواہ انتظام نہیں کرتیں۔ وہ اپنی عیاشی میں لگی ہوئی ہیں ، سکی میں بن رہی ہیں۔ اعلان ہو رہے ہیں۔ یہ ہوجائیگا وہ ہوجائے گا۔ اتنے کروڑ منظور ہوا۔ مگر حال یہ ہے کہ لوگ بھیک مانگ رہے ہیں۔ اور ان کی عیاشی چل رہی ہے۔ ٹی وی جیسی بُری اور حرام چیزوں پر کیوں دولت خرچ کی جارہی ہے۔ غیر ضروری چیزوں کی حکومت کیوں اجازت دے رہی ہے۔ عیاشی کے کاموں پر اربوں روپیہ خرچ کر نیکی بجائے حکومت مساکین اور غربا پروری کا بندوبست کیوں نہیں کررہی۔ مگر ہم جس نظام کا حصہ ہیں اس کا خاصہ ہی یہ ہے کہ خودعیش کرو ، دوسروں کی فکر نہ کرو۔ کوئی مرتا ہے مرنے دو ۔ اسلام کا نام لیتے رہو ، غریبوں اور مزدوروں کا نام لیتے رہو مگر ان کی خدمت کا کام مت کرو۔ محض نام لے کر زندگی گذارو۔ غربا کی دستگیری مسلمان سوسائٹی کا فریضہ ہے : الغرض سے مراد یہ ہے کہ مسکین کو بھکاری نہ بنائو۔ ان کو باروزگار نہ بنائو۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے کر چلو۔ جو سوسائٹی اپنے غربائو مساکین کی دست گیری نہیں کرتی ، وہ ذلیل سوسائٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں باعزت نہیں ہے ۔ صدقہ خیرات تو وقتی چیزیں ہیں ان سے وقتی طور پر گزراوقات ہوسکتی ہے۔ بھیک کا دروازہ نہیں کھل جانا چاہیے۔ بھیک کی اجازت دینا انسانیت کی تذلیل ہے اپنے غربا و مساکین کی مستقل بحلای کا بندوبست مسلمان سوسائٹی کا فریضہ ہے۔ دوزخی بےیارو مددگار رہ جائیں گے : چونکہ بائیں ہاتھ والا شخص نہ حقوق اللہ اد ا کرتا تھا ، نہ حقوق العباد اس لیے فرمایا کہ اسے ستر ستر گز لمبی زنجیروں میں جکڑ کر اور گلے میں طوق ڈال کر جہنم میں پھینک دو ۔ آج اس کا یہاں کوئی دست نہیں ہے۔ دنیا میں اس کے بڑے دوست تھے جو برائی میں اس کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ مگر آج وہ بےیارومدد گار ہے۔ آج اسے غسلین کے سوا کھانا بھی کوئی نہیں ملیگا۔ غسلین ، زخموں کے دھو دن یعنی پیپ اور خون ملے ہوئے زرد پانی کو کہتے ہیں ۔ یہ اسکی خوراک ہوگی۔ جب انسان جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے ۔ یا غم میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے دو ہی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک مخلص دوست جو دکھ درد میں اس کی غم خواری کرے ، اس سے باتیں کرے اور دوسرا کھانا جو اسکی جسمانی قوت کی بحالی میں مدد دے۔ تو اس ضمن میں فرمایا کہ دوزخیوں کا نہ کوئی دوست ہوگا جو ان سے ہمدردی کا اظہار کرے ان کے دکھ درد میں شریک ہو ، پیارو محبت کی بات کرے اور نہ انہیں کھانا ہی ایسا میسر ہوگاجو کمزوری کا مقابلہ کرسکے۔ سورة غاشیہ میں فرمایا۔ دوزخیوں کا کھانا نہ بھوک سے بچائے گا نہ جسم کو فائدہ دے گا۔ فرمایا اس قسم کا کھانا صرف خطا کار ہی کھائیں گے۔ وہ خطا کار جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے اعراض کرتے رہے۔ یہ کھانا ان کے لیے ہوگا۔ البتہ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے اعزاز رکھتے ہیں۔ ان کا ذکر پہلی آیات میں آچکا ہے۔ کہ ان کو حکم ہوگا تم ان اچھے کاموں کے بدلے میں جو دنیا میں سرانجام دیتے رہے ، خوب کھائو پیو ، عیش و آرام کی زندگی بسر کرو۔
Top