Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
کیا نہیں واضح ہوا ان لوگوں کے لئے جو وارث ہوتے ہیں زمین کے اس کے اہل کے ہلاک ہونے کے بعد ، کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو مبتلائے مصیبت کردیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ، اور مہر مہر کردیں ان کے دلوں پر ، پس وہ لوگ نہیں سنتے
ربط آیات گزشتہ چند رکوع میں اللہ تعالیٰ نے تاریخ انبیاء کے سلسلے میں اپنچ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کا حال بیان فرمایا ان قوموں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی اور اللہ کی ناشکر گزاری کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور وہ دنیا سے ناپید ہوگئے اب اللہ تعالیٰ نے ان پانچ اقوام کی مجموعی حالت پر تبصرہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے مواقع فراہم کیے مگر انہوں نے ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا انہوں نے اپنی پیش رو اقوام کے انجام سے کوئی سبق نہ سیکھا اور خود بھی ہلاک ہوئے ان واقعات میں امت آخرالزمان کو تسلی بھی دی گئی ہے اور انہیں نصیحت بھی کی گئی ہے کہ وہ ان حالات سے ضرورت فائدہ اٹھائیں اور ان اقوام کے کردار کو نہ اپنائیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کا شکار ہوئیں اس تبصرے کے بعد آیات کا ربط پھر تاریخ انبیاء کے ساتھ ہوجائے گا اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا تفصیل کے ساتھ ذکر آئے گا۔ مقام عبرت ارشاد ہوتا ہے اولم یھد للذین یرثون الارض من بعد اھلھا کیا واضح نہیں ہوئی ان لوگوں کے لیے جو زمین کے وارث بنے اس کے اہل کی ہلاکت کے بعد۔ یھد کا عام فہم معنی ہدایت دینا یا راہ دکھانا ہے مگر یہاں پر مطلب ہے اولم یتبین یعنی کیا نئی آنے والی اقوام پر سابقہ قوموں کی ہلاکت سے یہ بات واضح نہیں ہوئی ان تونشاء اصبنھم بذنوبھم کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں بھی مبتلائے مصیبت کردیں سابقہ لوگوں کے حالات بیان کرکے موجودہ لوگوں کو عبرت دلانا مقصود ہوتا ہے کہ دیکھو ! ان لوگوں نے کس طرح خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی ، انبیاء کو جھٹلایا اور اپنی ضد پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے تباہ و برباد کردیا لہٰذا تم ان کے نقش قدم پر نہ چلنا ورنہ تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔ زمین کا وارث بنانے سے مراد یہ ہے کہ جن مکانوں میں پہلے لوگ رہتے تھے اور جس زمین پرکھیتی باڑی اور کاروبار کرتے تھے ان پر ہم نے تمہارا تصرف قائم کردیا گویا تم ہی ان کے وارث بنے ہو۔ یہ تو عام قولہ ہے کہ ” اگلا گرا تو پچھلا ہوشیار ہوگیا “ کہ جونسی غلطی کرکے یہ گرا ہے اس کو میں نہ دہرائوں مگر عام طور پر اقوام عالم کی ذہنیت یہی رہی ہے کہ انہوں نے پہلی قوموں کے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پچھلے آنے والے اس بات پر غور کرتے کہ پہلوں کی تباہی کی کیا وجہ تھی تاکہ اس سے بچ جاتے مگر تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے بھی اگلوں کی راہ پر ہی اسی طرح تباہی کے گڑھ میں گرے جس طرح پہلے گرے تھے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اقوام عالم کے حالات کا تجزیہ کرتے فرماتے ہیں کہ عام طور پر یہ لوگ تین قسم کے حجابات میں مبتلا ہو کر غفلت کا شکار ہوتے رہے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی گرفت کا شکار ہوئے ہیں پہلا حجاب حجاب طبع ہے۔ انسان مادی تقاضوں یعنی اپنے جسمانی لوازمات کی تکمیل میں ہی مصروف رہے۔ انہیں کھانے پینے ، کام کاج ، چلنے پھرنے اور میل ملاقات سے ہی فرصت نہ ملی۔ انہوں نے عجائبات قدرت کی طرف غور ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ کی اور جسمانی تقاضوں کو ہی پورا کرتے رہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں جاب کی دوسری قسم حجاب رسم ہے۔ اکثر لوگ قوم ، قبیلہ ، برادری ، محلہ یا گائوں کی رسم و رواج میں ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ حقیقی زندگی کی طرف ان کی توجہ مبذول ہی نہیں ہوتی۔ نہ انہوں نے فکر کو پاک کیا ، نہ فرائض کو سمجھا بلکہ شادی بیاہ ، کھیل کود اور دیگر رسومات میں ہی پھنسے رہے اور زندگی میں ناکام ہوگئے۔ شاہ صاحب (رح) کی اصلاح میں تیسرا حجاب سوء معرفت ہے۔ یعنی انہوں نے خدا تعالیٰ کی ذات کو صحیح طور پر پہچانا ہی نہیں۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے متعلق غلط قسم کا عقیدہ قائم کرکے حجاب سوء معرفت میں مبتلا رہتے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ حجاب سوء معرفت کے مصداق دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے کہ لوگ تشبیہ میں مبتلا ہوجاتے یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے وہ صفات ثابت کرتے ہیں جو مخلوق کا خاصہ ہے۔ عیسائیوں نے ولدیت اور انبیت کا عقیدہ خدا کے لیے ثابت کیا اور کہا مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہودیوں نے عزیز (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا تسلیم کرلیا اور اس طرح مخلوق کی صفات خدا کی ذات میں مان کر عقیدہ تشبیہ میں مبتلا ہوئے اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات خاصہ مخلوق میں مان کر شرک کے مرتکب ہوئے خدا کے علاوہ دوسروں کو بھی عالم الغیب علم کل ، قادرِ مطلق اور مختار کل تسلیم کیا ، کبھی انبیاء کو پکارا کبھی جنات اور فرشتوں کی دہائی دی کبھی اولیا اللہ سے استعانت طلب کی ، کسی سے مراد پوری کرائی ، کسی سے حاجت روائی کرائی اور جو تعظیم خدا تعالیٰ کے ساتھ مختص تھی وہی دوسروں کے سامنے بھی کرنے لگے ، یہی شرک ہے اور اسی کے ارتکاب سے حجاب سوء معرفت کا شکار ہوئے۔ گویا شاہ صاحب نے تین حجابات کا ذکر کیا ہے جن میں مبتلا ہو کر اکثر اقوام قہر الٰہی کا نشانہ بنیں۔ فرمایا اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں مبتلائے مصیبت کردیں۔ پہلی قوموں کو بھی اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہی متتلا مصیبت کیا تھجا۔ سورة کہف میں فرمایا ” وتلک القری اھلکنھم لما ظلمو “ یہی وہ تباہ شدہ) بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ان کے گناہوں (کفر و شرکت وغیرہ) کی وجہ سے ہلاک کیا۔ سورة ابراہیم میں ہے۔ وسکنتم فی مسکن الذین ظلمو انفسھم وتبین لکم کیف فعلنا پھم تم انہی لوگوں کے ٹھکانوں میں رہائش پذیر ہوئے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تمہارے لیے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ” وضربنا لکھم المثال “ اور ہم نے تمہارے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان کیں۔ پہلی قوموں کی ہلاکت کے یہی اسباب ہیں۔ جن پانچ قوموں کا ذکر گزشتہ دروس میں ہوچکا ہے وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے ہی ہلاکت کے گڑھے میں گریں مگر اکثر لوگوں نے ان تاریخی واقعات سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ پہلے لوگوں کی طرح خرمستیوں میں پڑے اور حجابات کا شکار رہے۔ دنیا میں عروج وزوال کی داستانیں بار بار دہرائی جاتی ہیں مگر کتنے لوگ ہیں جو ان سے عبرت حاصل کرتے ہیں ہمارے ملک کے لوگوں نے سقوط ڈھا کہ سے کیا عبرت حاصل کی۔ آدھا ملک کٹ گیا ، کتنے لوگ ہلاک ہوئے ، کتنے بےگھر ہوئے ، مگر پچھلوں نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا۔ پھر وہی عیش و عشرت ، وہی نافرمانی ، وہی چال ڈھال ، کوئی فرق نہیں پڑا۔ اللہ تعالیٰ بار بار توجہ دلا رہے ہیں کہ سابق امتوں کے واقعات سے عبرت پکڑو اور ظلم و زیادتی اور نافرمانی سے باز آجائو۔ مقصد یہ کہ گناہ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے قوموں پر زوال آتا ہے ذلت چھا جاتی ہے۔ نظام بگڑ جاتا ہے اور پوری انسانی سوسائٹی خراب ہوجاتی ہے۔ جب اعتقادی اور عملی گناہوں کی فراوانی ہوجاتی ہے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت آتی ہے۔ اگر گناہوں سے بچتے رہیں تو امن و سکون قائم رہتا ہے اور خدا کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ فرمایا اگر ہم چاہیں تو انہیں گناہوں کی وجہ سے مبتلائے مصیبت کردیں ونطبع علی قلوبھم فھم لایسمعون اور بطور سزا ان کے دلوں پر مہر لگا دیں۔ پس وہ لوگ نہیں سنتے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ پہلے گناہ پر ہی دل پر ٹھپہ نہیں لگتا بلکہ کوئی انسان جوں جوں برائی اختیار کرتا جاتا ہے اس کا دل سیاہ ہوتا جاتا ہے اور پھر آخر میں اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اس کی صلاحیت اور استعداد ہی ختم ہوجاتی ہے۔ پھر اس کے نزدیک نیکی اور برائی میں کوئی تمیز نہیں رہتی اور برائیوں میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے سورة بقرہ کی ابتدا میں بھی فرمایا ہے ” ختم اللہ علیٰ قلوبھم “ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور اب ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جب کسی کے دل پر ٹھپہ لگ جاتا ہے تو وہ دل سخت ہوجاتا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے۔ سورة بقرہ ہی میں بنی اسرائیل کے متعلق فرمایا ” ثم قست قلوبکم من بعد ذلک “ پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے ” کا لحجارۃ اواشد فسوۃ “ پھر یہ پتھر یا اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ اب ایسے دل میں نیکی کی کوئی بات داخل نہیں ہوسکتی او آدمی ہلاک ہوجاتا ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ان بعد شئی من اللہ القلب القاسی یعنی اللہ تعالیٰ سے دور رہنے والی چیزوں میں سب سے دور وہ دل ہے جو سخت ہے۔ خدا سے دوری کا مطلب کوئی مسافت کی دوری نہیں بلکہ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ انسان پر غفلت کے دبیز پردے پڑجاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کی ذات ، صفات اور توحید کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ دل کو سختی سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نسخہ بیان فرمایا ہے۔ ” واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفۃ ودون الجھرمن القول بالغذو والاصال ولاتکن من العفلین “ (اعراف :205) اے لوگو اپنے رب کو صبح و شام اپنے دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور اس سے ڈرتے ہوئے پست آواز سے یاد کرتے رہو۔ اور دیکھو اس سے غافل نہ ہونا فرمایا القری یہ بستیاں ہیں نقص علیک من انبائھا ہم آپ پر بیان کرتے ان کی خبروں میں سے کچھ۔ تمام حالات نہیں بلکہ ان میں بعض حالات بیان کرتے ہیں۔ یہاں من تبعیضیہ ہے دوسری جگہ آتا ہے ” ومنھم من لم نقصص علیک “ ان میں سے بعض واقعات ایسے ہیں جو ہم نے بیان نہیں کیے۔ ویسے اجمالاً فرما دیا کہ ہم نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے نبی بھیجے مگر اللہ نے ہر ایک کی تفصیل ذکر نہیں کی کہ ہر ایک کے ساتھ کس قسم کے حالات پیش آئے۔ البتہ اتنی بات واضح کردی کہ اللہ کے ہر نبی نے خدا کا پیغام اپنی امت تک پہنچایا اور انہیں پوری پوری نصیحت کردی مگر اکثر وبیشتر لوگوں نے تسلیم نہیں کیا عاد وثمود جیسی قوموں کے کھنڈرات سے ان کی تہذیب کا کچھ پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے۔ ہمارے ہاں ٹیکسلا میں پرانی گندھارا تہذیب کے آثار موجود ہیں۔ کھدائی کے دوران نکلنے والے برتن اور اوزار سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کا تذہیب و تمدن کیسا تھا۔ اب تو ٹیکلا چھوٹی سی بستی ہے مگر آج سے تقریباً تین ہزار سال پہلے یہ شہر میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ یہ مہاتما بدھ کے زمانے کی تہذیب ہے جو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی پانچ سو سال پہلے ہوئی ہے۔ اس دور میں موجودہ پشاور پر شادری کہلاتا تھا اسی طرح سندھ میں منجودھاڑو کے مقام پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ ادھر عراق میں آشوریو کی تہذیب کا پتہ چلتا ہے۔ مصر کے عجائبات تو مشہور و معروف یہں۔ یہ سب پرانی تہذیبیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ اللہ نے فرمایا کہ ان میں سے ہم نے بعض کے کچھ حالات بیان کردیئے ہیں تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ فرمایا ولقد جاء تھم رسلھم بالبیکنت البتہ ان بستیوں اور قمھوں کے ساس ہمارے رسول آئے واضح باتیں لے کر اللہ تعالیٰ نے مجملاً بتا دیا ہے کہ ہمارے رسول ہمارا پیغام لے کر ان پرانی اقوام کی طرف آئے بینہ سے عام طور پر معجزہ مراد لیتے ہیں۔ تاہم یہ لفظ دلیل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ان فی ذلک لایت اسی طرح قرآن پاک میں احکام کو بھی بینات کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے احکام بڑے واضح ہوتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ سورة یونس میں موجود ہے۔ آپ نے قوم سے فرمایا ، میری باتیں اچھی طرح سن لو ثم لایکن امرکم علیکم غمۃ اب کوئی چیز مخفی نہیں رہنی چاہئے۔ میں واضح باتیں کر رہا ہوں۔ بینہ سے خود نبی کی ذات بھی مراد ہوتی ہے اور احکام اور دلائل بھی۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کا آنا چوتھے درجے میں ہوتا ہے سب سے پہلے انسان کی فطرت سلیمہ پر پیدائش ہے۔ پھر اس کے ساتھ ملا اعلیٰ کی توجہ اور ان کی دعائیں یا بددعائیں انسان کے ساتھ شامل ہوجاتی ہیں پھر شرائع مکتوبہ نازل ہوتے اور اس کے بعد چوتھے نمبر پر نبی آتا ہے جو تمام باتوں کو واضح کردیتا ہے۔ اس کے بعد حجت تمام ہوجاتی ہے۔ لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل “ (النسائ) رسول آنے کے بعد خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اللہ کا نبی توحید اور شرک ، اچھائی اور برائی ، حلال اور حرام ، ایمان اور کفر ، اخلاص اور نفاق ہر چیز کو واضح کردیتا ہے۔ اس کے بعد جو لوگ نافرمانی کرتے ہیں وہ اللہ کے غضب کا نشانہ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” وما کنا معذبین حتی نبعت رسولا “ (بنی اسرائیل) ہم اس وقت تک سزا نہیں دیتے جب تک رسول بھیج کر اپنی حجت تمام نہ کردیں۔ مفسر قرآن مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں بینات اور ہدی دو مختلف چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ سورة بقرۃ میں آتا ہے۔ ” ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینھت والھدی “ بینات سے مراد واضح باتیں ہیں جن کو ہر انسان بغیر محنت اور کاوش کے آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ جیسے توحید جو بغیر کاوش کے سمجھ میں آجاتی ہے خدا تعالیٰ کا شکر ، صبر ، عبادت وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو ذرا سی توجہ سے انسانی عقل میں آجاتی ہیں اور ہدایت سے مراد باریک باتیں ہیں جو بغیر کاوش کے انسانی فہم میں نہیں آتیں اور ان کے لیے استاذ اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جیسے تعظیم شعائر اللہ ، حلال و حرام کی تمیز وغیرہ ہدیٰ میں شامل ہیں۔ جنہیں نبی یا استاذ سمجھاتا ہیغ۔ فرمایا ہمارے رسول ان کے پاس واضح باتیں لے کر آئے فما کانو لیئو منو بما کذبوا من قبل وہ لوگ اس چیز پر ایمان لانے والے نہیں تھے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے۔ جب اللہ کے نبی نے خدا کا پیغام پہلی دفعہ پہچایا اور امت نے نہ مانا تو پھر کتنے بھی دلائل و شواہد پیش کیے ان لوگوں نے نہ مانا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کافر لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ ہمیں واپس دینا میں لوٹا دیا جائے ہم نیکی اختیار کریں گے مگر اللہ فرمائیں گے ولو ردوا لعادو لما نھوا عنۃ “ (الانعام “ اگر ان کو واپس لوٹا دیا جائے تو پھر بھی وہی کچھ کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ یہ ضدی لوگ ہی ، اللہ تعالیٰ ان کی مخفی استعداد سے واقف ہے کہ واپس جا کر یہ کیا کریں گے فرمایا کذلک یطبع اللہ علی قلوب الکفرین اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتا ہے۔ ان کے ضد ، عناد اور تعصب کی بنا پر ان کے دل سربمہر کردیئے جاتے ہیں۔ فرمایا وما وجدنا لاکثرھم من عہد ہم نے ان کی اکثریت میں کوئی عہد نہیں پایا۔ یعنی اکثر لوگوں نے عہد کی وفا نہیں کی۔ اس جہان میں آنے سے پہلے سب نے اللہ تعالیٰ سے عہدالست کیا تھا کہ مولا کریم تو ہی ہمارا رب ہے پھر انبیاء (علیہم السلام) آکر اس عہد کی یاد دہانی کراتے رہے کہ جو کوئی اس عہدو پیمان کو توڑے گا ، اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئے گا مگر ان میں سے اکثروں نے عہد سے وفا نہ کی اس دنیا میں آکر بھی انسان ایک عہد کرتا ہے ہر کلمہ گو دو باتوں کا عہد کرتا ہے ایک یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور دوسرا یہ کہ حضرت محمد ﷺ کے برحق رسول ہیں میں ان کا اتباع کروں گا مگر افسوس کا مقام ہے کہ اکثر لوگ ان دونوں عہدوں کو فراوش کردیتے ہیں اور ان کے خلاف چلتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختہ رہتے ہیں اور نہ اللہ کے نبی کی اطاعت پر قائم رہتے ہیں اسی لیے فرمایا کہ ہم نے بہتوں کو عہدشکن ہی پایا۔ فسق کی تین اقسام فرمایا ایک تو ہم نے اکثریت کو عہد کی خلاف ورزی کرتے پایا وان وجدنا اکثرھم لفسقین اور دوسری بات یہ کہ ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں کو نافرمان ہی پایا اب فسق یا نافرمانی کی تین قسمیں ہیں جن میں سے کسی نہ کسی قسم میں اکثر لوگ مبتلا ہوتے ہیں پہلی قسم کا نافرمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کا صریحاً انکار کرتا ہے اللہ کے نبیوں کا جھوٹا کہتا ہے ایسا آدمی کافر ہوتا ہے یہ بھی فاسق کے زمرے میں داخل ہے دوسرا فاسق وہ ہے جو زبان سے تو تسلیم کرتا ہے مگر دل سے انکار کرتا ہے اس کو عام اصطلاح میں اعتقادی منافق کہتے ہیں اور یہ بھی فاسق ہے تیسرا فاسق وہ ہے جو دل و زبان سے اقرار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کے رسولوں کی رسالت کتب سماویہ اور معاد پر ایمان رکھتا ہے مگر عمل نہیں کرتا یہ عملی منافق ہے اور آج ایسے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے اعتقادی منافق کی نسبت عملی منافقوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ہر چیز کو مانتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتے نماز کی فرضیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر پڑھتے نہیں عدل کو ضروری سمجھتے ہیں مگر حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر اس سے پہلوتہی کرتے ہیں زبان سے اقرار کرتے ہیں اور دل سے رسومات کو برا سمجھتے ہیں مگر ایسے مجبور ہیں کہ ان کو انجام بھی دیے جا رہے ہیں تو فاسق کی تعریف میں یہ تینوں گروہ آتے ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ ہم نے ان میں سے اکثریت کو فسق کے درجے میں پایا۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ اقوام کے حالات ذکر کرنے کے بعد اس درس میں ان پر بحیثیت مجموعی تبصرہ فرمایا ہے آگے پھر سلسلہ کلام تاریخ انبیاء کے ساتھ منسلک ہوجائے گا اور چھٹے نبی اور ان کی قوم کا حال بیان ہوگا دو دور اس سے پہلے گزر چکے ہیں اب تیسرے دور کے حالات تفصیل کے ساتھ بیان ہوں گے۔
Top