Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیا ہے تم کو پھر صورتیں بنائی ہیں تمہاری پھر کہا ہم نے فرشتوں سے کہ سجدہ کرو آدم (علہی السلام) کو پس سجدہ کیا انہوں نے مگر ابلیس نے نہ تھا وہ سجدہ کرنے والوں میں سے
ربط آیات سورۃ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول اور اس کی اشاعت کا تذکرہ کیا اور منکرین کو اس دنیا اور آخرت کے انجام سے آگاہ کیا پھر گزشتہ درس میں انسانی اعمال کی حفاظت اور آخرت میں ان کے وزن کا بیان آیا اور اس کے نتیجے میں نجات یا خسارے کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر اللہ نے ان دو عظیم نعمتوں کا ذکر کیا جو اس نے انسان کو عطا فرمائی ہیں یعنی زمین میں اقتدار اور معیشت کے سامان ، مگر بطورشکوہ یہ بھی بیان فرمایا کہ اکثر لوگ ان نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں اور ان کا غلط استعمال کرتے ہیں اور بالآخر ناکام رہتے ہیں اللہ نے فرمایا کہ بہت قلیل لوگ ہیں جو ان نعمتوں کا حق ادا کرتے ہیں۔ انعامات کے ہی ضمن میں اج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے تحلیق انسان جیسے انعام کا ذکر فرمایا ہے انسانی تحلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک نمود ہے اس مقام پر نسل انسانی کے جدامجد حضرت آدم (علیہ السلام) کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انسان کے ازلی ابدی دشمن شیطان اور اس کی کارگزاری کا بھی ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا ہے کہ یہ تمہارا دیرینہ دشمن ہے لہٰذا اس سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے اگر اسکے پھندے میں پھنس گئے تو ناکام ہوجائو گے بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ انسان کی تمام ترقیات کی بنیاد حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود میں ہے اور پھر آپ کے زمین پر اترنے اور یہاں نشونما پانے کی غرض وغایت یہ ہے کہ انسان کو ترقی اور عروج حاصل ہو اور اس کا واحد ذریعہ اتباع ہدایت ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ کی وحی کا اتبع کرے گا تو وہ اپنے جدامجد کا کھویا مقام جنت دوبارہ حاصل کرسکتا ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے عمل کا وسیع میدان چھوڑ دیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش میں ان کے خلیفۃ اللہ ہونے کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے گزشتہ سورة الانعام کے آخر میں خلافت الٰہی کا ذکر ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنا نائب مقرر کیا اور نائب کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے حاکم اعلیٰ کی مکمل فرمانبرداری کرے اور اسکے دیے ہوئے قانون کو نافذ کرے آدم (علیہ السلام) کی وساطت سے پوری نوع انسانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب خلاف پر فائز ہے گزشتہ سورة میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات یاد دلائی ہے وھوالذی جعلکم خلٰف الارض اسی اللہ نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے اب یہ تمہارا فرض ہے کہ خلافت کے حق کو ٹھیک ٹھیک ادا کرو۔ تخلیق نوع انساتی ارشاد باری تعالیٰ ہے وقلد خلقنکم البتہ تحقیق ہم نے تمہیں پیدا کیا نسل انسانی کی پیدائش کی ابتداء اس طرح کی کہ سب سے پہلے تمہارے جدامجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا خلقہ من تراب (آل عمران) آپ کی پیدائش مٹی سے ہوئی اور پھر آگے اللہ تعالیٰ نے توالد اور تناسل کے ذریعے نسل انسانی کو پھیلایا اللہ تعالیٰ نے مٹی سے آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ بنایا پھر اس میں شرح ڈالی اور اس طرح نسل انسانی کی ابتداء فرمائی۔ ثم صورنکم پھر یعنی پیدا کرنے کے بعد ہم نے تمہیں صورت بخشی لفظ ثم سے اشکال پیدا ہوتا ہے کیا انسانی شکل و صورت پیدائش کے بعد بنتی ہے ؟ نہیں بلکہ انسان اپنی شکل و صورت کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے دراصل بعض اوقات ثم تاخیر کے لیے نہیں بلکہ عطف کے لیے بھی آتا ہے تو یہاں پر عطف ہی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا اور صورت بخشی ، بعض مفسرین کرام پیدائش سے مراد جدامجد حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش لیتے ہیں اور اس کے بعد تمہیں یعنی انسانی نسل کو پیدا کیا اور شکل وصورتیں عطا کیں حقیقت یہ ہے کہ انسان کی شکل و صورت تو شکم مادر ہی بن جاتی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ھوالذی یصور کم فی الارحام کیف یشاء وہی اللہ ہے جو رحموں میں تمہاری صورت بناتا ہے جیسی چاہتا ہے اللہ تعالیٰ رحم مادر میں قطرہ آب پر تصویر کشتی کرتا ہے غرضیکہ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر خلق کا تعلق حضرت ادم (علیہ السلام) سے ہے اور تصویر کا تعلق نوع انسانی ہے۔ بعض مفسرین اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ خلق اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جب اعیان ثابتہ کے دور میں اس صفت کا ظہور ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی عین یعنی تشخص کو قائم فرما دیا جب کہ خارج میں ابھی اس کا وجود نہیں تھا پھر اس مادی جہان میں آکر انسان کا خاکی وجود تیار ہوا اور چار ماہ میں اس کا جسم بنا پھر امر الٰہی جسے روح الٰہی بھی کہتے ہیں چوتھے مہینے میں آکر جسم کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور پھر وہ ایک مکمل انسان بن جاتا ہے شکم مادر میں ساری منزلیں طے کرنے کے بعد اسے اس جہان میں وارد ہونے کا موقع ملتا ہے غرضیکہ ہر انسان کا تشخص تو بہت پہلے سے قائم ہے اور خدا تعالیٰ کے علم میں ہے مگر اس کا ظاہری جسم بعد میں بنتا ہے دنیا میں آکر انسان پھر اپنی آخری منزل کی طرف رواں ہوجاتا ہے پھر یا تو اعلیٰ مقام حاصل کرلیتا ہے یا تنزل میں پہنچ جاتا ہے۔ عظمت انسان اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اسے شکل و صورت بخشی اور اسے ساری مخلوق پر عظمت عطا کی انسانی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے اسی نے اپنے مقربین فرشتوں کو حکم دیا ثم قلنا للملٰکۃ اسجدو والادم پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی طرف سجدہ کرو امام شاہ ولی اللہ (رح) کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کی خدمت اور مصلحت کے لیے ملائکہ کو توارب ہا سال پہلے پیدا کردیا تھا گویا تخلیق کائنات کا مقصود انسان کی پیدائش ہے اور باقی چیزیں اللہ نے اس کی خدمت کے لیے پیدا فرمائیں پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی بلندی عظمت کا اظہار کرنے کے لیے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہر شریعت میں سجدہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے روا رہا ہے اور اس کے علاوہ کسی کے سامنے یہ سجدہ نہیں کیا جاسکتا اللہ تعالیٰ نے جس سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا وہ تعظیمی سجدہ تھا جو بعض شریعتوں میں مباح تھا مگر ہماری شریعت میں تعظیمی سجدہ بھی روا نہیں ہے البتہ تعظیم ہوسکتی ہے جیسے ملاقات کے وقت ہوتی ہے مگر انتہائی تعظیم عبادت کا دوسرا نام ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے بہرحال یہ سجدہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے کرایا گیا تھا۔ بعض فرماتے ہیں کہ جس سجدہ کا ذکر ہورہا ہے یہ سجدہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تھا البتہ اس کے لیے حضرت آدم (علیہ السلام) بمنزلہ قبلہ کے تھے۔ جس طرح اب مسلمان قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں اسی طرح فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی طرف رخ کرکے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا تھا (یا فرشتوں کاس جدہ اس تجلی اعظم کی طرف تھا جو آدم (علیہ السلام) کے قلب مبارک پر پڑی تھی) بہرحال اگر اس کو آدم (علیہ السلام) کی ذات پر محمول کیا جائے تو یہ تعظیمی سجدہ تھا ، نہ کہ سجدہ عبادت۔ فرشتوں کا سجدہ بہرحال اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں فسجدو الا ابلیس سب نے سجدہ کیا مساوائے ابلیس کے ، سورة الحجر میں آتا ہے فسجدہ الملکۃ کلھم اجمعون تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اما شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں تمام فرشتوں سے مراد ملاء اعلیٰ کے علاوہ باقی تمام فرشتے ہیں اگر ہ ملاء اعلیٰ کے فرشتے سجدہ کرنے کے حق میں تھے مگر فی الحقیقت انہوں نے خود سجدہ نہیں کیا شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ملاء اعلیٰ کے علاوہ باقی ملائکہ عنصرین کہلاتے ہیں اور ان کا درجہ ملاء اعلیٰ سے کم ہے ملائکہ عنصرین کا وجود مختلف عناصر سے بنا ہوا ہے اسی طرح شیطان اور جنات کا وجود بھی مختلف عناصر کا مرکب ہے اس لحاظ سے ابلیس کو فرشتوں کے ساتھ نسبت تھی وگرنہ وہ فرشتہ نہیں تھا فرشتوں میں رچا بسا تھا اور اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار تھا صوبہ بہار کے خواجہ یحییٰ منیری (رح) کے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ابلیس نے سات لاکھ برس خدا تعالیٰ کی عبادت کی مگر جب امتحان کا وقت آیا تو ناکام ہوگیا اسی لیے خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ کسی انسان کو عبادت یا کسی اور چیز پر مغرور نہیں ہونا چاہیے نامعلوم کب انسان کسی ابتلا میں مبتلا ہوجائے آپ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں برصیصا نامی ایک راہب گزرا ہے جس نے چار سو سال تک خدا کی عبادت کی مگر اس کا انجام کفر پر ہوا اسی طرح بلعم بن باعوراء بھی نیک اور صاحب کرامت آدمی تھا مگر موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی وجہ سے ایمان کی دولت سے محروم ہو کر اس دنیا سے گیا لہٰذا ہر شخص کو ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا چاہیے اور غرور وتکبر کو قریب نہیں آنے دینا چاہیے خواجہ صاحب کا مذکورہ قول کسی حدیث سے تو ثابت نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ آپ کی کشفی بات ہو یا کسی تاریخ نے واقعہ نقل کیا ہو خواجہ صاحب کی بات ایسے ہی نہیں ہوسکتی ، آپ بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں حضرت خواجہ نظام الدین چشتی (رح) کے مرید اور خلیفہ تھے ان کے مکتوبات میں یہ درج ہے۔ ابلیس کا انکار فرمایا ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے انکار کردیا لھم یکن من الجسدین وہ سجدہ کرنے والوں میں نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے دریافت کیا قال مامنعک الا تسجد اذا مرتک جب میں نے تجھے حکم دیا تھا تو تو نے سجدہ کیوں نہ کیا یعنی کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے منع کیا تو شیطان نے اپنا فلسفہ چھانٹتے ہوئے کہا قال انا خیر منہ یعنی میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں لہٰذا میں اس کے سامنے کیسے جھک سکتا ہوں میں تو صرف تیرے سامنے ہی سجدہ ریز ہوں گا شیطان نے اپنی برتری کے لیے یہ دلیل پیش کی خلقتنی من نار وخلقتہ من طین تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے جبکہ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے ، لہٰذا میں اس سے افضل ہوں حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ تیار کیا تو ملائیکہ دیکھ رہے تھے ابلیس نے بھی اس کا بغور جائزہ لیا اور کہنے لگا کہ یہ مجسمہ اندر سے کھوکھلا ہے اور اس میں کوئی چیز داخل کی جاسکتی ہے یعنی انسان کو بہکایا جاسکتا ہے اور بات بھی یہ ہے کہ انسان واقعی کھوکھلا ہے اور وسوسے کے ذریعے اسے ورغلایا جاسکتا ہے چناچہ آگ آرہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مردود قرار دے دیا تو پھر اس نے بنی آدم کو ورغلانے کے لیی اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی جو دے دی گئی اور اب قیامت تک انسان کا دشمن ہے اور ہر طریقے سے اسے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں پر ایک اور اشکال کی وضاحت بھی ہوجانی چاہیے کہ قلنا للملکۃ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم صرف ملائکہ کے لیے تھے سورة بقرہ میں بھی اسی قسم کے الفاظ آتے ہیں واذ قلنا للملکۃ اسجدو الادم تو اشکال یہ پیدا ہوتا کہے کہ جب حکم صرف ملائکہ کو تھا تو پھر ابلیس نے سجدہ نہ کرکے کون سی حکم عدولی کی ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے الفاظ اذا مرلک سے واضح ہوتا ہے کہ فرشتوں کے علاوہ ابلیس کو بھی سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا ملائکہ خوا کہ ملاء اعلیٰ کے ہوں یا ملائکہ عنصرین ان کو سجدے کا حکم ہوا تو یہ حکم ابلیس کے لیے بھی تھا وہ انکار کرکے ہمیشہ کے لیے ملعون ٹھہرا۔ آگ اور مٹی میں افضلیت ابلیس نے اپنی برتری کی جو وجہ بیان کی وہ تھی کہ آگ کو مٹی پر فوقیت حاصل ہے آگ میں روشنی ، چمک اور بلندی پائی جاتی ہے جبکہ مٹی ایک حقیر چیز ہے جو پائوں تلے روندھی جاتی ہے یہ شیطان کی سوچ تھی حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے آگ بھی ایک عنصر ہے اور مٹی بھی اس لحاظ سے تو کسی کو فوقیت حاصل نہیں مگر یہ شیطان کی بدقسمتی ہے کہ وہ فضیلت کے اصلی عنصر کونہ سمجھ سکا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ آگ کی نسبت مٹی کو زیادہ افضلیت حاصل ہے کیونکہ خاک میں علم ، بردباری ، انکساری وغیرہ پائی جاتی ہے جب کہ آگ میں حدت ، تلخی ، خفت ، طیش اور چھچھورا پن پایا جاتا ہے یہی چیزیں ابلیس میں بھی پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس میں ہلکا پن پایا جاتا ہے۔ حضرت مجد الف ثانی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات سے مستفید ہونے کی صفت صرف انسان میں پائی جاتی ہے حتیٰ کہ ملائکہ بھی اللہ کی صفاتی تجلیات سے ہی مستفید ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی سحال جنات کا ہے حضرت مجدد (رح) اس کی مثال یوں بیان فرماتے ہیں کہ سورج کی روشنی لطیف چیز میں نمایاں نہیں ہوتی بلکہ کثیف چیز میں ہوتی ہے جیسے ہوا ایک لطیف چیز ہے ، سورج کی روشنی اس پر پڑتی ہے مگر اپنے آپ کو نمایاں نہیں کرسکتی جب یہی روشنی زمین اور اس پر موجود اشیاء پر پڑتی ہے تو بالکل نمایاں ہوتی ہے اسی طرح فرشتے اور جنات چونکہ لطیف مخلوق ہیں اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور صرف صفاتی تجلیات سے مستفید ہوتے ہیں جب کہ انسان ایک کثیف مخلوق ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی ذاتی تجلیات کا متحمل ہونے کا اہل ہے اس معاملہ میں غالب نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ لطافت بےکثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا یہاں پر صبح کی نسیم طیب کو شیشے اور چمن کو اس کے زنگار سے تشبیہ دی گئی ہے جس طرح شیشہ بغیر نگار کے تصویرپیدا نہیں کرسکتا اسی طرح بغیر چمن کے نسیم طیب بھی اپنا جلوہ نہیں دکھا سکتی گویا رنگا رنگ پھول اور پھل چمن کے مرہون منت ہیں مطلب یہ کہ انسان میں ایک قسم کی کثافت پائی جاتی ہے جس پر خدا تعالیٰ کی ذاتی تجلیات کا جلوہ ظاہر ہوسکتا ہے جو کہ ملائکہ اور جنات جیسی لطیف مخلوق پر نہیں ہو سکتا اس لحاظ سے فوقیت ابلیس ناری کو حاصل نہیں بلکہ انسان خاکی کو ہے۔ بشار ابن بردآتش پرست تھا اور شاعر تھا اس نے شیطانی فلسفے کو اس طرح بیان کیا ہے ؎ ابلیس افضل من ابیکم آدم فتبینوا یا معشر الاشرار النار عنصرہ وآدم طینۃ والطین لا یسمو سمو النار اے گروہ انسان ابلیس تمہارے جدامجد آدم (علیہ السلام) سے افضل ہے ابلیس کا عنصر آگ ہے جب کہ آدم مٹی سے ہے اور مٹی آگ کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتی غرضیکہ شیطان کی دلیل غلط تھی اللہ تعالیٰ نے آدم خاکی میں وہ کمال رکھا ہے جو ابلیس اور آگ کو حاصل نہیں۔ حسد اور تکبر حسد اور تکبر دو مہلک بیماریاں ہیں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے کی نعمت پر حسد کرنا بہت بری خصلتیں ہیں ترمذی شریف کی حدیث میں آتا ہے من فارق روحہ الجسد وھو بری من الکبر والغلول والذین دخل الجنۃ جس شخص کی روح اس کے جسم سے اس حالت میں جدا ہو کر کر اس میں تین چیزیں تکبر ، خیانت اور قرضہ نہ پایا جائے وہ جنت میں داخل ہوجائے گا ان تینوں عیوب سے پاک آدمی جنت کا مستحق ہے بشرطیکہ اس میں ایمان موجود ہو حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے لاتفخر بعضکم علی بعض ولا یبغی بعضکم علی بعض تم میں سے بعض بعض فخر نہ کرے اور نہ ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کرے ہمیشہ آپس میں تواقع سے پیش آنا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ اخبات کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔ اخبتوا الی ربھم اپنے رب کے سامنے عاجزی کرو ، بلندی نصیب ہوگی تکبر صرف اللہ کو سزاوار ہے لہٰذا وربک فکبر (سورۃ مدثر) اپنے رب کی کبریائی بیان کرو ، حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الکبر رداء ی والعظمۃ آزادی یعنی بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند ہے جو ان چیزوں کو اپنے اوپر فٹ کرنا چاہے گا میں اسے ذلیل کردوں گا کیونکہ عظمت وکبریائی ، بلندی اور تکبر خدا کی ذات کے ساتھ لائق ہے اس کے علاوہ کوئی حقدار نہیں ابلیس نے بھی تکبر کیا اپنے آپ کو بڑا اور افضل سمجھا اور آدم کو حقیر جانا لہٰذا وہ رامذہ درگاہ ہوا۔ ابلیس کی رسوائی جب ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی اور تکبر کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا قال فاھبط منھا جنت سے نکل جائو وما یکون لک ان تتکبر فیھا تیرے لائق نہیں تھا کہ تو یہاں غرور تکبر کا مظاہرہ کرتا تجھے تو عاجزی کا اظہار کرنا چاہیے اور تعمیل حکم کرنی چاہیے تھی فاخرج یہاں سے نکل جائو انک من الصغرین تم ذلیلوں میں سے ہو غرور کی وجہ سے شیطان پر ذلت کا ٹھپہ لگ گیا جو بھی غرور کرے گا ذلیل و خوار ہوگا اس کے برخلاف من تواضع للہ رفعہ اللہ جو عاجزی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا یہ مکالمہ اگلی آیات میں بھی چل رہا ہے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور شیطان سے مکالمے کے ضمن میں بہت سی باتیں سمجھائی گئی ہیں جن میں ہمارے لیے بڑی تعلیم ہے۔
Top