Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 142
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً١ۚ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ
وَوٰعَدْنَا : اور ہم نے وعدہ کیا مُوْسٰي : موسیٰ ثَلٰثِيْنَ : تیس لَيْلَةً : رات وَّاَتْمَمْنٰهَا : اور اس کو ہم نے پورا کیا بِعَشْرٍ : دس سے فَتَمَّ : تو پوری ہوئی مِيْقَاتُ : مدت رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَرْبَعِيْنَ : چالیس لَيْلَةً : رات وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَخِيْهِ : اپنے بھائی سے هٰرُوْنَ : ہارون اخْلُفْنِيْ : میرا خلیفہ (نائب) رہ فِيْ قَوْمِيْ : میری قوم میں وَاَصْلِحْ : اور اصلاح کرنا وَلَا تَتَّبِعْ : اور نہ پیروی کرنا سَبِيْلَ : راستہ الْمُفْسِدِيْنَ : مفسد (جمع)
اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا اور پورا کیا ہم نے ان کو دس کے ساتھ۔ پس پوری ہوگئی مدت اس کے پروردگار کی چالیس راتیں اور کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہ تم میرے خلیفہ بن جائو میری قوم میں اور اصلاح کرتے رہنا اور نہ پیروی کرنا مفسدوں کے راستے کی
رابط آیات جب فرعون اور اس کا لشکر بحیرہ قلزم میں غرق ہوگئے تو موسیٰ (علیہ السلام) واپس مصر میں نہیں آئے بلکہ آگے صحرائے سینا کی طرف چلے گئے گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب انہوں نے بحیرہ قلزم کو عبور کیا تو ان کا گزر ایک بستی پر ہوا ج کے لوگ اپنے معبودان باطلہ پر جھکے وہئے تھے یعنی ان کی پرستش کر رہے تھے بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کو عبادت کا یہ ریقہ بھلا معلوم ہوا اور انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ان کے لیے بھی ایک معبود بنا دیاجائے جسے سامنے رکھ کر وہ عبادت کیا کریں آپ نے قوم کو ڈانٹا اور فرمایا ، تم بڑے جاہل ہوگ ہو جس خدا نے تمہیں فضیلت بخشی اور تم پر احسانات کیے کیا اسے چھوڑ کر میں تمہارے لیے کوئی دوسرا الٰہ تلاش کروں ؟ یہ لوگ تو کفرو شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس کارگزاری کی وجہ سے تباہ ہونے والے ہیں کیونکہ ان کا مذہب باطل ہے پھر اللہ نے بنی اسرائیل کو اپنے احسان یاد کرائے جب کہ وہ فرعون کی حکومت میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے ان کے بچوں کو قتل کردیا جاتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جاتا تھا اور وہ بہت بڑی آزمائش سے گزر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عذاب سے نجات عطا فرمائی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر کیے گئے احسانات یاد دلاکر انہیں شرم دلائی کہ کچھ تو احساس کرو کہ جس اللہ تعالیٰ نے تم پر انعامات کیے اسی کے ساتھ شرک کرنا چاہتے ہو۔ قانون کا مطالبہ اب یہاں درمیان میں ایک واقعہ بیان کیا جارہا جو بنی اسرائیل کے ساتھ صحرائے سینا میں پیش آیا فرعون کی غلامی سے آزادی کے بعد اللہ تعالیٰ کی مصلحت یہ تھی کہ اب یہ لوگ مصر واپس نہ جائیں فرعون کی غلامی میں رہ کر ان کی ذہنیت خراب ہوچکی تھی اور وہ طرح طرح کی مادی اور اخلاقی کمزوریوں میں مبتلا ہوچکے تھے اللہ تعالیٰ کو ان کی اصلاح مطلوب تھی اس کا نشاریہ تھا کہ بنی اسرائیل صحرائی زندگی اختیار کریں اور یہاں کی آزمائشوں سے گزریں اور اپنی کھوئی ہوئی مستعدی اور صلاحیت کو پھر سے بحال کریں مصر میں تو وہ فرعون کے قانون کے پابند تھے جس کے ذریعے ان پر طرح طرح کے مظالم روا رکھے جاتے تھے صحرائے سینا میں پہنچ کر انہوں نے آزادی کا سانس لیا اللہ کے دوجلیل القدر پیغمبر ان کے ساتھ تھے چناچہ انہوں نے خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے قانون کی کوئی کتاب لائیں جس کی پابندی کرکے ہم اپنی آزادانہ زندگی کو بہتر طور پر گزار سکیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں قوم کا مطالبہ پیش کیا تو اللہ نے فرمایا کہ تم کوہ طور پر آکر اعتکاف بیٹھو تو تمہیں کتاب عطا کی جائے گی موسیٰ (علیہ السلام) قوم کو صحرا میں چھوڑ کر خود اعتکاف کے لیے پہاڑ پر چل دیئے ابتداء میں یہ اعتکاف تیس رات کا تھا مگر بعد میں دس رات کا اضافہ کرکے چالیس رات کا کردیا گیا جس کا ذکر آگے آرہا ہے اعتکاف کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتاب تورات عطا فرمائی تاکہ بنی اسرائیل اس کے احکام کے مطبق زندگی گزاریں۔ تورات کا لفظی معنی قانون ہوتا ہے چونکہ بنی اسرائیل قانون کے خواہشمند تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ کتاب عطا کردی جس کا نام ہی قانون رکھا باقی آسمانی کتابوں کے اسماء میں بھی مفہوم پایا جاتا ہے جیسے انجیل کا معنی بشارت ہے اور زبور صحیفہ کو کہتے ہیں اسی طرح قرآن کا معنی پڑھی جانے والی کتاب ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کی موجودہ بائیبل کے پہلے چار ابواب تورات پر مشتمل ہیں اگرچہ اس میں یہودیوں اور نصرانیوں کے ہاتھوں بڑی گڑ بڑ ہوچکی ہے تاہم اس وقت جو کچھ بھی موجود ہے وہ یہی چار باب ہیں جنہیں تورات کا نام دیا جاسکتا ہے اگرچہ یہ متن تحریف شدہ ہے۔ اعتکاف کی مدت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ ہم نے وعدہ کیا موسیٰ (علیہ السلام) اسے تیس راتوں کا یعنی کوہ طور پر تیس رات مسلسل اعتکاف کریں تو آپ کو کتاب دی جائے گی کا تممنھا بعشر اور پورا کیا ہم نے اس کو مزید دس کے ساتھ فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ پس پوری ہوگئی مدت اس کے پروردگار کی چالیس راتیں۔ یعنی تیس رات کی بجائے اعتکاف کی مدت چالیس رات کردی گئی بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اعتکاف کی لازمی مدت تو تیس رات ہی تھی تاہم مزید دس راتیں اختیاری تھیں یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اگر چاہتے تو دس رات کا اضافہ کرسکتے تھے اس کی مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کے دوسرے واقعہ میں ملتی ہے جس کا ذکر سورة قصص میں موجود ہے جب آپ مدین پہنچے اور وہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر تم آٹھ سال یہاں رہ کر میری خدمت کرو تو میں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں گا پھر انہوں نے یہ بھی فرمایا فان اتمصت عشرا فمن عندک اور اگر دس سال پورے کردو تو یہ تمہاری طرف سے ہوگا مفسرین فرماتے ہیں کہ اسی طرح کوہ طور پر اعتکاف بھی تیس رات کے لیے ضروری تھا اور مزید دس رات اختیاری تھا۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ جب تیس رات کا اعتکاف مکمل ہوگیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے مسواک کرلی جس کی وجہ سے ان کے منہ میں روزے اور اعتکاف کی وجہ سے جو بو پیدا ہوگئی تھی وہ جاتی رہی اور روزے دار کے منہ کی بو کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کستوری سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے اس خوشبو سے فرشتے بھی خوش تھے مگر مسواک کرنے سے وہ بھی محروم ہوگئے اس لیے حکم ہوا کہ دس دن مزید اعتکاف کرو بہرحال یہ وجہ تھی یا کوئی دوسری موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر چالیس رات دن کا مجاہدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تورات عطا فرمائی۔ چالیس دن کو بعض دوسرے امور میں بھی اہمیت حاصل ہے مثلاً ماں کے پیٹ میں بچے کی پیدائش کے مراحل چالیس چالیس دن کے بعد تبدیل ہوتے ہیں حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے من اخلص للہ اربعین یوماً جو شخص چالیس دن تک خلوص نیت کے ساتھ رب تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب سے حکمت کے چشمے جاری فرما دیتا ہے بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن تک روزہ رکھا ، اعتکاف کیا ، اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت کی تو جیسا کہ اگلی آیتوں میں آرہا ہے اللہ تعالیٰ نے تختیوں پر لکھی لکھائی تورات عطا فرمائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی جانشینی ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی اور عمر میں تین سال بڑے تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ ان کے بھائی کو بھی نبوت عطا کی جائے تاکہ وہ ان کی فرض منصبی میں ان کی معاونت کرسکیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول کرکے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرمایا بلکہ انہیں موسیٰ (علیہ السلام) کا وزیر بنا دیا اب جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) اعتکاف کے لیے طور پر جا رہے تھے تو قوم کو نگرانی کے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا تھا قرآن پاک میں موجود ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے تو ان کے بارہ قبیلے تھے ہر ایک قبیلے کا نقیب (سردار) تھا جو ان کی رہنمائی کرتا تھا اور پھر بحیثیت مجموعی وہ سب موسیٰ (علیہ السلام) کی نگرانی میں تھے۔ تفسیری روایات کے مطابق چھ لاکھ ستر ہزار افراد پر مشتمل اس قوم کی رہنمائی کے لیے نگرانی کی ضرورت تھی اظہر ہے کہ کوئی چرواہا بھی بکریوں کو بلا نگرانی چھوڑ کر نہیں جاسکتا وہ بھی کسی کے سپرد کرک یجاتا ہے مگر یہ لاکھوں انسانوں کا مسئلہ تھا خاص طور پر ان حالات میں کہ مسلسل غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان کے قویٰ ضعیف ہوچکے تھے تو موسیٰ (علیہ السلام) جب کوہ طور پر جانے لگے تو انہوں نے قوم کی رہنمائی کے لیے اپنے بڑے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا نائب مقرر کرنا چاہا یہاں پر اسی بات کو بیان کیا گیا ہے وقال موسیٰ لاخیہ ھرون اخلفنی فی قومی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا آپ میری قوم میں میرے نائب بن جائیں جب تک میں طور سے واپس آئوں قوم کی نگرانی کا فیرضہ آپ انجام دیتے ہیں آج کی دنیا میں بھی یہ اصول رائج ہے جب کبھی کسی ملک کا سربراہ بیرون ملک جاتا ہے تو وہ اپنا جانشین مقرر کرکے جاتا ہے تاکہ اس کی غیر حاضری میں امور مملکت کی انجام دہی میں رکاوٹ نہ آئے یہ طریقہ دراصل انبیاء کی تعلیم ہی سے اخذ کیا گیا ہے تو اس اصول کے مطابق موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اسلامی حکومت کی ذمہ داری اسلامی نظام حکومت میں اجتماعیت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اجتماعیت کے بغیر ملک و ملت کا کوئی کام بطریق احسن انجام نہیں دیا جاتا خاص طور پر لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے موثر نظام کی ضرورت ہوتی ہے امام شاطبی (رح) اپنی کتاب موافقات میں رقمطراز ہیں کہ خلیفہ وقت کے ذمے اپنی قوم کی پانچ چیزوں کی حفاظت لازم ہے یعنی جان ، مال ، دین ، عقل اور نسل ، مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی جان محفوظ ہو اور قتل و غارت گری کا بازار گرم نہ ہوجائے چوروں اور ڈاکوئوں پر موثر کنٹرول ہوتا کہ لوگوں کا مال محفوظ رہس کے دین کی حفاظت اس لیے ضروری ہے کہ لوگ مرتد نہ ہوجائیں اسی طرح ان کی عقل کی حفاظت ہونی چاہیے تاکہ وہ جہالت میں مبتلا ہو کر رسومات باطلہ میں مبتلا نہ ہوجائیں اور پھر فحاشی اور بدکاری پر بھی مناسب کنٹرول ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کی نسل خراب نہ ہو۔ انگریزی نظام حکومت میں اسلام کے ان زریں اصولوں کی قطعاً پروا نہ کی جاتی حتیٰ کہ اسلامی حکومتوں میں بھی دین کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں اس ملکت خداداد میں قیام پاکستان کے بعد پچاس ساتھ لاکھ سے زیادہ افراد عیسائی بن چکے ہیں کسی حکومت نے غور کرنا بھی گوارا نہیں کیا کہ آخر یہ لوگ دین اسلام چھوڑنے پر کیوں مجبور ہیں ان کی کون سی ضروریات ہیں جو پوری نہیں ہوئیں اور آخر کار یہ دین چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہی کسی مسلمان کا مرتد ہوجانا بہت بڑا حادثہ ہے جس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے یہ تو صرف عیسائی ہونے والوں کی تعداد ہے مرزائی اور دہریہ بن جانے والے ان کے علاوہ ہیں حکومت کے وزیر اور مشیروں کو محض کوٹھیوں میں بیٹھنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے عنان حکومت ان کے ہاتھ میں دی ہے تو ان پر ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں انہیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے محض بیان بازی یا کھیل تماشے کی سرپرستی سے حکومت کرنے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ہارون (علیہ السلام) کو وصیت بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ میرے جانشین بن جائیں واصلح اور قوم کی اصلاح کی طرف توجہ دینا تاکہ کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوجائے ولا تتبع سبیل المفسدین اور فساد کرنے والوں کے راستے پر نہ چلنا موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے کردار سے واقف تھے فرعون کی غلامی میں رہ کر ان کی صلاحیتیں بگڑ چکی تھیں۔ ان میں بہت سے فسادی لوگ بھی موجود تھے اس لیے اپنے جانشین سے فرمایا کہ قوم کی اصلاح کرنا اور فسادیوں کے پیچھے نہ لگنا غلط کار لوگ قوم میں بگاڑ کا باعث بنیں گے لہٰذا ان کے طریقے سے اجتناب کرنا اور میری نیابت کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کرنا۔ اللہ سے ہم کلامی فرمایا پروگرام کے مطابق ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا اور جب آئے موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے وعدے کے وقت پر پھر انہوں نے اعتکاف مکمل کیا اور آخر میں وکلمہ ربہ ان کے رب نے ان سے کلام کیا بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جس دن موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا وہ عرفہ کا دن تھا گویا نو ذی الحج کو اللہ نے آپ سے کلام کیا اور اگلے دن یعنی دس ذی الحج کو تورات عطا فرمائی موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ مرتبہ یکدم حاصل نہیں ہوا بلکہ آپ بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے گئے پہلے مدین سے واپسی پر نبوت عطا فرمائی فرعون سے بحث مباحثہ ہوتا رہا آخر کار فرعون اور اس کی قوم غرق ہوئی اور بنی اسرائیل کو آزادی نصیب ہوئی اس کے بعد اللہ کے حکم سے آپ نے طور پر اعتکاف کیا پھر اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی ہوئی اور آخر میں تورات عطا ہوئی بہرحال فرمایا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) وعدے کے مطابق طور پر آئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا اور دوسرے مقام پر آتا ہے وکلم اللہ موسیٰ تکلیماً (النسائ) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے تو ہر بنی سے کلام کیا ہے مگر براہ راست ہم کلامی کا شرف صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل ہوا امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ کوئی استعارہ نہیں تھا بلکہ آپ نے ان جسمانی کانوں کے ساتھ کلام الٰہی سنا تھا حدیث شریف میں آدم (علیہ السلام) کے متعلق بھی ذکر آتا ہے جب حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آدم (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں تو آپ نے فرمایا نبی نبی مکلم یعنی آپ اللہ کے نبی تھے اور آپ سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا یہ بھی براہ راست کلام کی مثال ہے۔ رویت الٰہی کی درخواست جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف تکلمہ بخشا تو انہیں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا تاکہ جس ذات باری تعالیٰ سے بات چیت ہوئی ہے اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیں چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جذبہ شوق کے ساتھ عرض کیا قال رب ارنی اے پروردگار مجھے دکھا انظرالیک تاکہ میں تیری طرف دیکھ سکوں کلام تو سن لیا ہے اب بالمشافہ رویت بھی حاصل ہوجائے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا قال لن ترٰنی تو مھجے ہرگز نہیں دیکھے گا کیونکہ تیرے اندر وہ استعداد موجود نہیں جس سے مجھ کو دسکھ سکے فرمایا ولکن انظرالی للجبل اس پہاڑ کی طرف دیکھو فان استقص مکانہ اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہا فسوف ترٰہنی تو ممکن ہے کہ تو مجھے دیکھ سکے۔ مادیت کے اعتبار سے پہاڑ بڑی ٹھوس اور مضبوط چیز ہے اس کے مقابلے میں انسان ایک کمزور سی ہستی ہے اللہ نے فرمایا خلق الانسان ضعیفاً (النسائ) انسان کو جسمانی لحاظ سے کمزور پیدا کیا گیا ہے مگر یہی انسان لطافت اور باطنی قویٰ کے لحاظ سے بہت مضوبط ہے اللہ تعالیٰ نے اپنا بار امانت آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر کسی نے بھی اس امانت کو اٹھانے کی جرات نہ کی اللہ نے فرمایا ” وحملھم الانسان “ پھر اس کو انسان نے اٹھایا ” انہ کان ظلوماً جھولا “ (احزاب) بیشک وہ ظلوم اور جہول تھا تو معلوم ہوا کہ انسان کی باطنی قوت سب سے زیادہ ہے مگر یہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) کا ظاہر جسم مراد ہے اللہ نے فرمایا کہ اگر پہاڑ جیسی مضبوط چیز میری تجلی کو برداشت کرسکی تو پھر سمجھ لینا کہ تم بھی مجھے ان سر کی آنکھوں سے دیکھ سکو گے۔ تجلی اور پہاڑ کی شکستگی فرمایا فلما تجلی ربہ للجبل جب آپ کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی ڈالی جعلہ دکا تو اس کے ریزہ ریزہ کردیا روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹی انگلی یعنی چھنگلی کے ذرا سے کنارے کے برابر اپنی تجلی ڈالی مگر پہاڑ اسے بھی برداشت نہ کرسکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ تجلی کی تعریف میں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس کائنات کو ظاہر کرنے کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کی چار صفات کام کرتی ہیں اللہ کی پہلی صفت ابداع ہے جیسے ” بدیع السموٰت والارض “ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ابداع اس ایجاد کو کہتے ہیں جو بغیر کسی ماردے ، آلے یا مکان و زمان کے پیدا کی جائے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اپنی صفت ابداع کے ذریعے بغیر کسی مادے یا آلے کے پیدا کیا اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت خلق ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ ایک چیز کو کسی دوسری چیز کے مادے سے تیار کیا جائے جیسے ” خلق ادم من تراب “ مٹی موجود تھی اور اس سے آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ تیار کیا اسی طرح جنات کو آگ سے تخلیق کیا خدا تعالیٰ کی تیسری صفت تدبیر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کسی موجود چیز کو گھٹاتا بڑھاتا ہے اور ترقی و تنزلی سے دو چار کرتا ہے مدبرالسموت والارض ہے پوری کائنات کا نظام اسی کے دست قدرت میں ہے ہر چیز کی دہی تدبیر کرتا ہے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت تدلی ہے تدلی اللہ تعالیٰ کی عرش عظیم پر ہمہ وقت پڑنے والی تجلی اعظم کا خفیف ساعکس ہے جو اس مادی دنیا میں آنے پر ہر شخص کے قلب پر پڑتا ہے یہ تجلی اس وقت نظر نہیں آتی جب انسان سے یہ مادی خول اتر جائے گا تو وہ تجلی فوراً ظاہر ہوجائے گی یہی تدلی ہے عرش عظیم کی تجلی اعظم اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے مگر اس مادی دنیا میں رہ کر انسان اپنی ملکیت کو ترقی نہیں دے سکتا۔ اس لیے اس کی کوشش نیچے کی طرف ہوتی ہے اس واسطے تجلی اعظم اور انسان ملکیت و بہیمیت میں کشمکش جاری رہتی ہے بہرحال ہر آدمی کے قلب پر تجلی اعظم کا عکس پڑتا ہے جو تدلی کہلاتا ہے۔ ذات بمعہ حجاب بعض فرماتے ہیں کہ تجلی کا معنی ذات کا بمعہ حجاب کے ظاہر ہوتا ہے یہ حجاب نوری یا ناری کہلات ہے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اگر ذات سے یہ حجاب اٹھ جائے تو یہ تجلی جس چیز پر پڑے اسے جلاکر رکھ دے اگر اللہ تعالیٰ حجاب کو ہٹا دے لاحرقت سبحات وجھہ ما انتھی الیہ بصرہ من خلقہ جہاں تک نگاہ پہنچتی ہے سب چیزیں ہلاک ہوجائیں کوئی بھی اس تجلی کو برداشت نہ کرسکے اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ تجلی پردے میں رکھی ہوئی ہے اور پھر یہ ہے کہ ان پردوں کی تعداد بھی بیشمار ہے روایات میں آتا ہے کہ ایک موقع پر جبریل امین نے کہا کہ آج مجھے خدا تعالیٰ کا بہت ہی قرب حاصل ہوا پوچھا گیا کس قدر ؟ کہا میرے اور رب تعالیٰ کے درمیان سرف ستر ہزار پردے رہ گئے باقی سب اٹھ گئے ان پردوں کی تعداد کتنی ہے مخلوق میں سے کوئی نہیں جانتا اور یہ سارے پردے کبھی نہیں کھلیں گے تجلی کا یہی معنی ہے۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں تجلی سے مراد ہے ظہور الشیء فی مرتبۃ الثانیۃ یعنی کسی چیز کا اپنے مرتبے پر موجود ہوتے ہوئے دوسرے مرتبے پر ظاہر ہوتا ہے اس کی مثال آئینہ ہے جب انسان اس میں دیکھتا ہے تو وہ اپنی ذا تکو بعینہ تو نہیں دیکھتا بلکہ وہ ذات کے ظہور کو دوسرے مرتبے میں دیکھتا ہے یہ مرتبہ حقیقت میں نہیں بلکہ عالم اشباہ میں آگیا ہے یہ ایک دوسرا جہان ہے جس میں انسان دیکھ رہا ہے کہ اس کی شکل و صورت کیسی ہے مگر اس کی اصل حیثیت میں کوئی تغیر و تبدیل نہیں ہوتا اس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات تو اپنی جگہ قائم ہوتی ہے مگر اس کا اظہار کسی تجلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تجلیات بےحدو بشمار ہیں جن کا ظہور مختلف عالموں میں مختلف طریقے سے ہوتا ہے جیسا کہ عرض کیا کہ جب انسان آئینے میں اپنی شکل دیکھتا ہے تو وہ عالم اشباہ میں ہوتا ہے اور وہ جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی ذات کے مشابہ ہوتا ہے اگرچہ خود ذات نہیں ہوتی اس طرح ایک عالم رویا ہے انسان خواب کی حالت میں مختلف اشیا کو مختلف انداز میں دیکھتا ہے یہ دوسرا جہان ہے اسی طرح عالم برزخ ہے مرنے کے بعد جب انسان اس جہان میں پہنچتا ہے تو وہاں کے معاملات اس کے مطابق پیش آتے ہیں پھر عالم مثال ہے اس جہان میں بھی چیزیں خاص طریقے سے ظاہر ہوتی ہیں اس کے بعد عالم ارواح اس سے بھی بلند ہے اور اس جہان کا اپنا نظام ہے اور آخر میں عالم جبروت ہے جو بلند تر مقام ہے اور جہاں پر خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کے اسمائے پاک کا ظہور ہوتا ہے پھر عالم لاہوت ہے جو وراء الوراء ہے اور جہاں تک کسی کی رسائی نہیں وہی ذات خدا وندی ہے بہرحال تجلی کا معنی حجاب کے ساتھ ذات کا ظہور ہے اللہ تعالیٰ نے چھنگلی کے سرے کے برابر پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ برداشت نہ کرسکا اور ریزہ ریزہ ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بےہوشی اور افاقہ وخرموسیٰ صعقاً اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ بےہوش کر گر پڑے مفسرین فرماتے ہیں کہ کوہ طور پر تجلی کے ظہور سے پہلے خاص کیفیات پیدا ہوئیں ایسا محسوس ہوا جیسے بادل ہوں اس میں سے فرشتوں کی نسبیح کی آوازیں آرہی تھیں جس کی وہ سے زبردست گونج تھی اور اس کے بعد ذرا سی چمک پڑی تو پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) برداشت نہ کرسکے فلما افاق پھر جب آپ کو قدرے افاقہ ہوا ، ہوش میں آئے قال سبحنک عرض کیا پروردگار ! تیری ذات پاک ہے تبت الیک میں تیرے پاس توبہ کرتا ہوں مجھے رویت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے تھا اے مولا کریم وانا اول المومنین میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اس مادی جہان میں انسان خدا تعالیٰ کے دیدار کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ آخرت میں رویت الٰہی معتزلہ ، خوارج اور روافض وغیرہ نے رویت الٰہی کا مطلق انکار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جس طرح اس مادی جان میں خدا تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں اسی طرح آخرت میں بھی رویت نہیں ہوسکتی ان کے مطابق اگر روایت الٰہی کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس کو کسی جہت یا سمیت کو بھی ماننا پڑے گا مگر خدا تعالیٰ مادیت اور جہت سے پاک ہے مگر قرآنی نصوص اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل ایمان کو جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ یہ دیدار بےکیف ہوگا یعنی اس کی کیفیت انسانی ذہن میں نہیں آسکتی کیونکہ انسان سمت کے بغیر کسی چیز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر خدا تعالیٰ چونکہ قادر مطلق ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ کسی انسان کو بغیر جہت اور مکان کے کس یچیز کا مشاہدہ کرادے یہ تو اس کا کام ہے مقصد یہ ہے ہے کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو رویت الٰہی نصیب ہوگی حضور ﷺ کا اشراد مبارک ہے انکم لن تروا ربکم حتیٰ تمونوا تم مرنے سے پہلے اس جہان میں اپنے پروردگار کو نہیں دیکھ سکتے جب اگلے جہان میں پہنچ کر مادیت کم ہوجائے گی روحانیت بہت بڑھ جائے گی اور ملکیت غالب اور بہیمیت کمزور ہوگی تو پھر آج کا ناممکن بھی ممکن ہوجائے گا فکشفنا عنک غطاء ک قبصرک الیوم حدید (سورۃ ق) اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے اس جہاں میں ہم فرشتوں اور جنات کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے مگر وہاں سب کچھ نظر آئے گا قاضی ثناء اللہ اپنی پتی (رح) اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ معراج کے موقع پر حضور ﷺ کو جو رویت الٰہی نصیب ہوئی تھی وہ اس جہاں میں نہیں بلکہ خطیرۃ القدس میں ہوئی تھی جہاں جنت الماویٰ ہے ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت اللہ کا کلام ہے اور حضور ﷺ کی خصویت میں رویت الٰہی ہے آخرت کی رویت کے متعلق شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جنتی لوگ تجلی اعظم کو بڑے نمایاں طریقے سے مشاہدہ کرسکیں گے اب بھی اگر کوئی شخص بالفرض عرش کے نیچے چلا جائے تو وہ تجلی اعظم کو نمایاں طور پر دیکھ سکے گا کیونکہ وہ وہاں ہر وقت پڑتی رہتی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو نصیحت جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا اظہار کیا اس کی تقدیس بیان کی اور اس کے سامنے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا قال یموسیٰ انی اصطفیتک علی الناس میں نے تمہیں لوگوں پر برگزیذگی عطا فرمائی ہے بر سلتی اپنی رسالت کے ساتھ وبکلامی اللہ نے فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! میں نے تمہیں رسول بنایا تاکہ میرا پیغام لوگوں تک پہنچائو پھر تجھے شرف تکلم بخشا دوسرے انبیاء کے ساتھ بالواسطہ کلام کیا جب کہ تیرے ساتھ براہ راست کلام کیا میں نے تمہارے ساتھ یہ احسانات کیے فخذما اتیتک پس لے لیں جو میں نے تجھے دیا ہے جو کچھ مل گیا ہے اسی پر اکتفا کرو وکن من الشکرین اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جائو میں نے آپ کو اتنا اعلیٰ مرتبہ عطا کیا ہے لہٰذا آپ کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہ کریں جو اس مادی جہان میں ممکن نہیں یہاں پر مادیت کا غلبہ ہے تمہارا ظاہری جسم کمزور اور تمہارے قویٰ معمولی ہیں یہ رویت الٰہی کے متحمل نہیں ہوسکتے لہٰذا جو چیز مل گئی ہے اسی کو کوئی سمجھو اور خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرو۔
Top