Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 167
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب تَاَذَّنَ : خبر دی رَبُّكَ : تمہارا رب لَيَبْعَثَنَّ : البتہ ضرور بھیجتا رہے گا عَلَيْهِمْ : ان پر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَنْ : جو يَّسُوْمُهُمْ : تکلیف دے انہیں سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برا عذاب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ : جلد عذاب دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور (اس وقت کو دھیان میں لائو) جب خبردار کیا تیرے پروردگار نے کہا کہ وہ ضرور بھیجے گا ان (یہود) پر قیامت کے دن تک ایسے لوگوں کو جو ان کو سزا دیں گے برے طریقے سے بیشک تیرا پروردگار جلد سزا دینے والا اور بہت بخشش کرنے والا اور مہربان ہے
ربط آیات گزشتہ درس میں یہودیوں کے اس گروہ کی سزا کا ذکر تھا جو ہفتے کے دن تعدی کرتے تھے اور منع کرنے والوں کی نصیحت پر بھی عمل نہیں کرتے تھے بالآخر جب وہ سرکشی میں حد سے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بندروں کی شکل میں تبدیل کردیا اور تین دن کے بعد صفحہ ہستی سے بالکل ناپید ہوگئے اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو موجودہ اور آئندہ آنے والے لوگوں کے لیے باعث عبرت بنادیا اس سے پہلے بنی اسرائیل کی بعض دوسری نافرمانیوں کا ذکر بھی ہوچکا ہے صحرائے سینا میں من اور سلویٰ کھاتے کھاتے جب تنگ آگئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے سبزی تر کاری کا سوال کیا اللہ نے فرمایا کہ اس بستی کے رہنے والوں سے جہاد کرکے بستی پر قابض ہوجائو تو وہاں تمہیں تمہاری مطلوبہ اشیاء میسر ہوں گی ان لوگوں نے جہاد سے انکار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے چالیس برس تک اسی صحرا میں سرگرداں پھرتے رہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے جانشین یوشیع (علیہ السلام) کے زمانے میں نئی پود آئی تو وہ آمادہ جہاد ہوئی اللہ نے بستی میں داخلے کے لیے دو شرائط عائد کیں ایک یہ کہ معافی مانگتے ہوئے عاجزی کے ساتھ داخل ہونا اور دوسرا یہ کہ زبان سے کوئی بےہودہ بات نہ کرنا مگر ان لوگوں نے دونوں شرائط کے خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون کی بیماری مسلط کی جس سے ہزاروں آدمی ہلاک ہوگئے جیسا کہ سورة مائدہ میں ذکر آتا ہے بنی اسرائیل کی ایسی ہی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر حضرت دائود (علیہ السلام) اور پھر آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت بھیجی اور اللہ نے یہود کو بحیثیت مجموعی مغضوب اور ملعون قرار دیا۔ بنی اسرائیل کو نوٹس اب آج کے درس میں یہودیوں پر ہونے والی لعنت اور غضب کے نتیجے میں ان پر جو افتاد آئی اس کا ذکر ہورہا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے وازتاذن ربک اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے رب نے خبردار کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو نوٹس دیا کہ تمہاری ان پے درپے خرابیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے تم پر مستقل ذلت مسلط کی جارہی ہے جس میں تم قیامت تک مبتلا ہوگئے فرمایا تمہارے پروردگار نے انہیں خبردار کیا لیعبثن علیھم کہ ضرور بھیجے گا ان پر الیٰ یوم القیمہ قیامت کے دن تک کے لیے من یسومہم سوء العذاب ایسے لوگوں کو جوا نہیں برے طریقے سے سزا دیں گے یہاں پر قیامت کے دن سے مراد وہی دن نہیں جب قیامت فی الواقع برپا ہوجائے گی بلکہ اس سے قرب قیامت مراد ہے قرب قیامت میں جب مسیح (علیہ السلام) نازل ہوں گے تو وہ تمام یہودیوں کو قتل کردیں گے حتیٰ کہ ان کا جدامجد دجال بھی آپ کے ہاتھوں قتل ہوگا مطلب یہ ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اس وقت یعنی قرب قیامت تک مختلف ذرائع سے ذلت مسلط رہے گی۔ اذان کا مفہوم یہاں تاذن کا لفظ غور طلب ہے جس کا معنی خبردار کرنا یا اعلان کرنا ہے یہ لفظ سورة توبہ میں بھی آیا ہے و اذان من اللہ ورسولہ حج کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں سے بیزار ہے چناچہ اس سال کے بعد مشرکین کا مکہ معظمہ میں داخلہ بند کردیا گیا نماز کے لیے جو اعلان کیا جاتا ہے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اس کو بھی اذان ہی کہا جاتا ہے تاہم اب اذان کا لفظ مخصوص اصطلاح بن گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص الفاظ کے ساتھ نماز کا اعلان کیا جائے یہ مخصوص اذان نماز کے علاوہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی جگہ سے شیاطین کو بھگانے کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے اذان کہنا درست نہیں ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس مقدس اذان کو اب سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے بعض سیاسی لیڈر لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے گلی کوچوں میں اذانیں دو اذان تو نماز کے لیے مخصوص ہے نماز کے وقت کے علاوہ اذان دینا تو بدعت میں شمار ہوگا مگر لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کیا حرج ہے بھائی ! بدعات انجام دینے والے اکثریتی کہتے ہیں کہ حرج کیا ہے ؟ اگر بدعات ہی انجام دینا ہے تو پھر دین کدھر گیا ؟ دین کے اصول و ضوابط کہاں گے ؟ بدعت تو ایجاد بندہ ہے اور اسکے لیی سخت وعید آئی ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے سامنے اعلان کردیا یعنی ان کو خبردار کردیا کہ میں قیامت تک کے لیے ان پر ایسے لوگ مسلط کروں گا جو انہیں سخت سزا میں مبتلا رکھیں گے۔
Top