Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
(اے پیغمبر ! ) اور آپ پڑھ کر سنائیں ان لوگوں کو خبر اس شخص کی جس کو دی تھی ہم نے اپنی آیتیں ، پس وہ ان آیتوں سے نکل گیا اور اس کا پیچھا کیا شیطان نے ، پس ہوگیا وہ گمراہوں میں سے
ربط آیات گزشتہ آیات میں عہدو پیمان کا تذکرہ ہوچکا ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس خاص عہد کا ذکر کیا جو بنی اسرائیل سے اس بات پر لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں گے اور اس پر عمل کریں گے اس کے بعد عہد عمومی کا ذکر تھا جو عالم ارواح میں تمام بنی نوع انسان سے لیا گیا اور جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ کا اقرار کیا اس عہد کا بیج ہر انسان کے قلب میں موجود ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی ربوبیت اور اس کی خالقیت کو ماننا انسان کی فطرت میں داخل ہے اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے عہد و پیمان کو توڑنے والے لوگوں کے حال اور برے انجام کا ذکر کیا ہے اور اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے واتل علیھم نباالذی اتینہ ایتنا اے پیغمبر ! آپ ان کو پڑھ کر سنائیں اس شخص کی خبر جسے ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں وہ شخص کون تھا اور کس امت سے تعلق رکھتا تھا اس سلسلے میں تین اشخاص کے نام تفاسیر میں ملتے ہیں ان میں سے پہلا شخص بلعم بن باعور ہے جس کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے اور دو اشخاص ابوعار صیفی اور امیہ بن ابی صلت جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ہوئے ہیں۔ بملع بن باعور اکثر مفسرین جن میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ، عبداللہ بن مسعود ؓ اور مجاہد (رح) شامل ہیں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں جس شخص کا ذکر کیا ہے اور پھر اس کی مثال بیان فرمائی ہے روہ بنی اسرائیل یاکنعانی قوم سے تعلق رکھتا تھا اور تورات میں اس کا نام بلعام یا بلعم ابن باعور مذکور ہے نام کے تلفظ میں قدرے فرق زبان کے ادل بدل سے واقع ہوجاتا ہے جیسے عربی میں ابراہیم ہے اور عبرانی زبان میں اسے ابراہام کہتے ہیں بلعام اور بلعم میں بھی غالباط اسی قسم کا تفادت پایا جاتا ہے بہرحال یہ شخص اپنے زمانے میں نہایت نیک ، عبادت گزار اور صاحب کرامت آدمی تھا اس کی مشہور کرامت یہ تھی کہ یہ مستجاب الدعوٰۃ تھا اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا تھا اور لوگ اپنی حاجات میں اس سے دعائیں کراتے تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر اس علاقے میں پہنچے جہاں یہ شخص رہتا تھا تو وہاں کا بادشاہ خوفزدہ ہوگیا کہ کہیں بنی اسرائیل ان پر حملہ آور ہو کر انہیں مغلوب نہ کرلیں اس نے بلعم بن باعور کو بلا بھیجا کہ یہاں آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف دعا کرے تاکہ وہ کامیاب نہ ہوسکیں وہ شخص جانتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں اور ان کے مقابلے میں بددعا کرنا لعنتیوں کا کام ہے لہٰذا اس شخص نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اب بادشاہ نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور بلعم بن باعور کو پیسے اور عورت کا لالچ دیا تو وہ بددعا کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دنیا میں اکثر یہی دو چیزیں ایمان کو ضائع کرنے والی ہیں انگریز نے یہی حربہ اختیار کرکے بہت سے لوگوں کے ایمان کو خراب کیا مرزائیوں نے بھی نوکری اور چھوکری کا لالچ دے کر بہت سے مسلمانوں کو مرزائی بنالیا سرطفر اللہ جب اسمبلی کا ممبر اور ریلوے کا وزیر تھا تو اس نے لوگوں کو نوکری دے کر ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالا بلکہ عورتیں دے کر بھی مرزائی بنایا دنیا میں ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں جن کا باطن گندا ہوتا ہے اور وہ لالچ میں آکر ایمان بھی فروخت کردیتے ہیں۔ بہرحال بلعم بن باعور بھی لالچ میں آگیا اس نے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے خلاف بددعا کے لیے پہاڑی پر کھڑا ہو کر ہاتھ پھیلا دیے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا سارا کمال سلب کرلیا اور اس کے منہ لے الٹے الفاظ نکلنے لگے وہ شخص موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بد دعا کہنا چاہتا تو اس کے منہ سے دعائیہ الفاظ ادا ہوتے پھر اللہ تعالیٰ نے اسے یہ سزا دی کہ اس کی زبان کتے کی طرح لٹک گئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ مثال بیان فرما کر نہ صرف بنی اسرائیل کو وعید سنائی ہے بلکہ اس آخری امت کے لوگوں کو بھی بات سمجھائی ہے کہ عہدوپیمان توڑنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ ابوعامر صیفی دوسرا شخص جو ان آیات کا مصداق سمجھا جاتا ہے وہ مدینہ کا رہنے والا ابو عامر صیفی تھا یہ بڑا عبادت گزار اور راہب تھا ٹاٹ پہنتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حق کا متلاشی ہے یہی وہ شخص ہے جس کے کہنے پر منافقین نے مسجد ضرار تعمیر کی تھی اس کا مقصد یہ تھا کہ جب وہ مدینہ طیبہ میں آئے تو کسی کے گھر میں ٹھہرنے کی بجائے مسجد میں ٹھہرے اللہ نے اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جنگ احد میں یہ کفار کے ساتھ تھا اور اس نے میدان جنگ میں بہت سے گڑھے بھی کھدوائے تھے تاکہ مسلمان ان میں گر کر نقصان اٹھائیں چناچہ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ایک گڑھے میں گر گئے اور آپ کو بڑی چوٹیں آئی تھیں یہ شخص پیغمبر اسلام اور مسلمانوں سے سخت بغض رکھتا تھا البتہ اس کا بیٹا عبدالرحمان ؓ بڑا مخلص اور کامل الایمان صحابی تھا۔ امیہ ابن ابی صلت بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان آیات کا مصداق قبیلہ تصیف کا امیہ ابن ابی صلت تھا یہ بہت بڑا شاعر اور جہاں گشت آدمی تھا یہ روم اور شام وغیرہ کے علاقوں میں گھومتا رہا ، تورات اور انجیل پڑھ چکا تھا اور سچے مذہب کا متلاشی تھا مگر جب حضور ﷺ کی بعثت ہوئی تو حسد کی آگ میں جل گیا یہ خود نبوت کا خواہشمند تھا لہٰذا حضور ﷺ کا سخت مخالف ہوگیا جنگ بدر کے واقعہ تک اس شخص کی اسلام دشمنی بہت بڑھ گئی جنگ بدر میں امہ الکفر مارے گئے تو کہنے لگا اگر محمد ﷺ سچے بنی ہوتے تو اپنی قوم کے خلاف کیوں صف آرا ہوتے اور ان کو کیوں قتل کرتے اس نے بدر کے کافروں کا مرثیہ بھی لکھا تھا۔ یہ مختلف آراء ہیں تاہم مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ اس مثال کا مصداق ملعم بن باعور کو مانتے ہیں اس نے خدا کے عہدو پیمان کو توڑا اور لالچ میں آکر اہل ایمان کے واسطے بددعا کرنے کی کوشش کی مگر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا پھر اس دنیا میں بھی ذلت کی زندگی بسر کی اور آخرت میں بھی دائمی عذاب کا مستحق ہوا۔ آیات الٰہی سے انسلاخ فرمایا ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیں جسے ہم نے بڑی بزرگی عطا کی تھی اور مستجاب الدعوات بنایا تھا فانسلخ منھا مگر وہ ان آیات سے باہر نکل گیا یعنی ہمارے انعامات سے مستقلاً مستفید نہ ہوسکا انسلاخ کا معنی کسی چیز سے نکل جانا ہے کسی کی کھال کھینچ لی جائے تو و انسلاخ کہلاتا ہے سانپ جب اپنی کینچلی اتارتا ہے تو اس کو بھی انسلاخ کہتے ہیں مقصد یہ ہے کہ جس شخص کو ہم نے کرامات عطا کی تھیں وہ ان سے باہر نکل گیا اس انعام کو اپنے اوپر قائم نہ رکھ سکا اس کا نتیجہ یہ ہوا فاتبعہ الشیطن پس شیطان نے اس کا پیچھا کیا فکان من الغوین پس ہوگیا وہ گمراہوں میں سے اس کو بھی شیطان سے مماثلت ہوگئی شیطان نے بھی بڑی عبادت و ریاضت کی تھی مگر حکم عدولی کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا اسی طرح یہ شخص بھی بڑا عابد و زاہد تھا صاحب کرامت اور مستجاب الدعوات تھا مگر لالچ میں آکر سب کچھ گنوا بیٹھا امام ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں برصیصا نامی راہب تھا جس نے چار سو سال تک عبادت کی مگر وہ بھی لالچ میں آکر گمراہ ہوا اور اس کا خاتمہ کفر پر ہوا بلعم بن باعور بھی شیطان کے بہکاوے میں آگیا شیطان جب دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اصل راستے سے پھسل رہا ہے تو اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہے یہاں تک کہ اسے اپنا ساتھی بناکر جہنم کی رفاقت حاصل کرلیتا ہے۔ فرمایا ولوشینا لرفعنہ بھا اور اگر ہم چاہتے تو اس شخص کو اپنی آیات کی بدولت بلندی تک پہنچاتے بعض فرماتے ہیں کہ وہ شخص اسم اعظم جانتا تھا جس کی وجہ سے مستجاب الدعوات تھا مگر خدا کا قانون یہ ہے کہ ترقی اور بلندی اس کو حاصل ہوتی ہے جو حق وصداقت پر قائم رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے ولکنہ اخلد الی الارض مگر وہ شخص زمین کی طرف جھک گیا زمین سے مراد مادی مفاد ہے یعنی وہ حقیر دنیا ، پیسے اور عورت کی طرف جھک گیا……… اللہ کے عظیم انعامات کے بدلے ان حقیر چیزوں کو پسند کیا ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ساری پارسائی واپس لے لی اب نہ اس کے پاس کوئی کرامت باقی رہی اور نہ ہی وہ مستجاب الدعوات باقی رہا اللہ نے اس کی تمام اچھایاں سلب کرلیں اور وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گیا وہ آیات ا لٰہی پر عمل کرنے کی بجائے واتبع ھوہہ خواہش نفسانی کے پیچھے لگ گیا گویا اس نے ایسا راستہ اختیار کیا جو انسان کو بلندی کی بجائے پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ کتے کی مثال اللہ تعالیٰ نے شخص کی کی بہت بری مثال بیان فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے فمثلہ کمثل الکب اس کی مثال کتے جیسی ہے ان تحمل علیہ یلھث اگر تم اس کو ڈانٹ پلا دو تو ہانپتا ہے اوتتر کہ یلھث یا اگر چھوڑ دو پھر بھی ہانپتا ہے تحمل کے کئی معنی آتے ہیں یعنی کوئی چیز لادنا ، حملہ کرنا یا ڈانٹ پلانا ، مقصد یہ ہے کہ کتا ہمیشہ ہانپتا رہتا ہے خواہ اسے کوئی تکلیف پہنچے یا نہ پہنچے دراصل کتے میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ بےچین رہتا ہے اور ہانپتا رہتا ہے ان میں سے ایک حرص ہے اور دوسری شہوت پرستی ، اس کی حرص اور لالچ اس بات سے عیاں ہے کہ ہر چیز کو سونگھتا پھرتا ہے اور شہوت پرستی کی مثال یہ ہے کہ ایک ایک مادہ کے پیچھے کئی کئی نر پڑے رہتے ہیں ان دونوں بری خصلتوں کی وجہ سے کتے کے جسم میں ایک قسم کی گرمی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ہمیشہ ہانپتا رہتا ہے اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ کتا ہمیشہ ہانپتا رہتا ہے خواہ ڈانٹ پلائی جائے یا چھوڑ دیا جائے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ کتے کو شیطان کے ساتھ بڑی مناسبت ہے یہی وجہ ہے اس کے متعلق بڑے سخت احکام دیئے گئے ہیں فرمایا گر کتا کسی برین میں منہ ڈال دے تو برتن کو سات دفعہ دھونا ضروری ہوجاتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کے مطابق ایسے برتن کو ایک دفعہ مٹی سے مانجھنا چاہیے اور تین دفعہ پانی سے دھویا جائے تو پاک ہوگا اس کے لعب میں ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو صابن کے ساتھ دھونے سے ضائع نہیں ہوتے لہٰذا برتن میں مٹی مارنا ضروری ہوجاتا ہے کتے کو قتل کرنے کا حکم بھی ہے تاکہ لوگ اس سے زیادہ محبت نہ کریں اس کو شوقیہ طور پر پالنے کی اجازت نہیں البتہ گھر ، کھیت یا باغ کی حفاظت کے لیے یا شکار کے لیے کتے کو پالا جاسکتا ہے فرمایا جو شخص بلا ضرورت کتا پالے گا اس کی نیکیاں ہر دن میں ایک قیراط یا دو قیراط کے برابر کم ہوتی رہیں گی قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بھی کتوں سے محبت کرتے تھے اسی لیے اس کو سخت نجس جانور قرار دیا گیا ہے آج کل انگریز لوگ اس سے بڑی محبت کرتے ہیں اس کی پرورش کرتے ہیں حتیٰ کہ بسکٹ ، ڈبل روٹی اور مکھن بھی کھلاتے ہیں جب کہ اسلام نے اس سے نفرت کی تلقین کی ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے مسلمانوں کو یہ بات سمجھائی اور فرمایا لیس لنا مثل السوء ہم اہل اسلام کی بری مثال نہیں ہونی چاہیے فرمایا العابد فی ھبتہ کا لکب یعود فی قیمہ یعنی جو شخص کوئی چیز ہبہ کرکے پھر واپس لیتا ہے اس کی مثال کتے کی ہے جو قے کرکے خود ہی چاٹ لیتا ہے یہ بری خصلت اس میں شدید حرص کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔ فرمایا ہماری مثال کتے جیسی نہیں ہونی چاہیے ایماندار کو لالچی نہیں ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہودیوں کی مثال گدھے کے ساتھ دی ہے سورة جمعہ میں ہے ” مثل الذین حملوا التورۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفاراً “ یعنی جن لوگوں کو تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل نہ کیا ان کی مثال گدھے کی ہے جس پر کتابوں کا گٹھا لدھا ہوا ہو پیٹھ پر کتابیں لانے سے گدھا عالم فاضل نہیں بن سکتا اسی لیے یہودی بھی تورات کے علوم و فیوض سے اسی طرح محروم ہیں جس طرح ایک گدھا محروم ہے مگر اس سے بھی بدترین مثال کتے کی ہے جو اللہ نے بیان فرمائی ہے کہ جو شخص دنیا کی حرص یا عورت کی خاطر حق سے نہ موڑ لیتا ہے وہ اس کتے کی طرح ہے جو ہر وقت حرص اور شہوت پرستی کی وجہ سے ہانپتا رہتا ہے۔ علمائے سوء کے لیے زجر صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ امام طیبی (رح) بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں علمائے سوء کے لیے سخت زجر ہے علمائے حق تو کسی لالچ میں نہیں آتے مگر علمائے سوء سخت ملعون ہیں جو غلط بیانی کرتے ہیں ، غلط فتویٰ دیتے ہیں اور بڑے آدمیوں کی خوشامد کرتے ہیں ایسے لوگ خود بھی حق پر عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی حق بات سے روکتے ہیں یہ ایسے ہی علماء کے فتنے ہیں کہ کہیں قبرپستی ہورہی ہے اور کہیں رسم و رواج کی آبیاری ہورہی ہے علمائے سوء نہیں چاہتے کہ عوام الناس قرآن و سنت کے پروگرام کو سمجھیں لہٰذا یہ انہیں بدعات میں پھنسائے رکھتے ہیں کبھی میلاد مناتے ہیں کبھی جھنڈیاں لگاتے ہیں روشنی کا اہتمام کرتے ہیں نعت خوانی ، قوالی اور غزل گوئی میں لوگوں کو الجھائے رکھتے ہیں ان کی مثال بھی بلعم بن باعور جیسی ہے جو دنیا کے حقیر مال کی خاطر حق بات کو چھپاتے ہیں حضرت مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے اپنے تذکرہ میں ایک فقرہ لکھا ہے کہ غلاظت پر بیٹھنے والی مکھی ان علمائے سو سے ہزار درجہ بہتر ہے جو لوگوں کو حق کے قریب نہیں آنے دیتے اور اہل باطل کا راستہ بتلاتے ہیں ایسے لوگ امیروں ، وزیروں اور بادشاہوں کا تقرب اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسائل کو تبدیل کردیتے ہیں اور حق کے راستے میں رکاوٹ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مقام غور و فکر فرمایا ذلک مثل القوم الذین کذبو بایتنا یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا یہ تکذیب قول سے بھی ہوتی ہے اور عمل سے بھی۔ آج کل کے مسلمان اکثر امور میں قرآن پاک کی عملی تکذیب کر رہے ہیں قرآن کے خلاف عمل کرنا اس کی تکذیب کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے پیغمبر ! فاقصص القصص آپ یہ حالات و واقعات لوگوں کے سامنے بیان کردیں لعلھم یتفکرون تاکہ یہ غور و فکریں اور سوچیں کہ خدا تعالیٰ کے عہدو پیمان کو توڑ کر کس قدر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلعم بن باعور ، امیہ ابن ابی صلت اور راہب ابو عامر صیفی کا انجام ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ ارشاد ہوتا ہے ساء مثلاً ن القوم الذین کذبو بایتنا ان لوگوں کی بری مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ایسے لوگوں کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو سب سے بری مثال ہے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا وانفسھم کانوا یظلمون وہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے تھے یعنی اپنا ہی برا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ تو بےنیاز ہے اسے کچھ پروا نہیں نقصان بلعم بن باعور ہی کا ہوگا یا اس سے ملتے جلتے علمائے سو نقصان اٹھائیں گے۔ ہدایت خدا وندی فرمایا ، یاد رکھو ! من یھد اللہ فھوالمھتدی ہدایت وہی شخص پاتا ہے جس کو اللہ ہدایت عطا کرتا ہے لہٰذا ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرنی چاہیے اور گمراہی سے بچنا چاہیے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ کلکم ضال الامن ھدیتہ فاستھدونی اھد کم اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سب بھٹکے ہوئے ہو مگر وہ جسے میں ہدایت دوں لہٰذا ہدایت مجھ ہی سے طلب کیا کرو میں تمہیں راہ راست پر چلائوں گا نماز کی ہر رکعت میں بھی یہ بات سکھلائی گئی ہے ” اھدنا الصراط المستقیم “ اے مولا کریم ! ہمیں ہر معاملہ میں راہ راست ہی دکھا کیونکہ راہ وہی پاتا ہے جسے اللہ راہ دکھا دے اور جو شخص حق کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے لازمی طور پر گمراہ کردے گا پھر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو بلا وجہ گمراہ نہیں کرتا ان کی گمراہی ان کی استعداد پر موقوف ہوتی ہے جو لوگ حق کی مخالفت کریں گے وہ گمراہی میں پڑیں گے اور جو ہدایت کی طرف آنا چاہیں گے انہیں ہدایت نصیب ہوجائے گی یہاں پر بھی یہ بات فرمائی ہے کہ جس کو اللہ راہ دکھا دے وہی راہ پانے والا ہے ومن یضلل اور جس کو اللہ گمراہ کردے فاولیک ھم الخسرون پس یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں یہ لوگ ناکام ہوں گے اور ابدی نقصان میں رہیں گے جو شخص دنیا سے گمراہی کا سامان لے کر جائے گا وہ ہمیشہ کے لیے ناکام ہوجائے گا۔
Top