Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 191
اَیُشْرِكُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ٘ۖ
اَيُشْرِكُوْنَ : کیا وہ شریک ٹھہراتے ہیں مَا : جو لَا يَخْلُقُ : نہیں پیدا کرتے شَيْئًا : کچھ بھی وَّهُمْ : اور وہ يُخْلَقُوْنَ : پیدا کیے جاتے ہیں
کیا یہ شریک بناتے ہیں ان کو جو نہیں پیدا کرتے کسی چیز کو اور وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے اولین انسان اور اس کے جوڑے کی پیدائش کا تذکرہ فرمایا اور اس پیدائش کی غرض وغایت بھی بیان فرمائی پھر انسان کے شرک میں مبتلا ہونے کی مثال بیان فرمائی کہ میاں بیوی کی مقاربت سے ہلکا سا حمل ٹھہرتا ہے جب یہ بڑھتا ہے تو میاں بیوی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح سلامت ، صحت مند بچہ عطا فرمائے پھر جب بچہ کی پیدائش ٹھیک طریقے سے ہوجاتی ہے تو اللہ کے ساتھ شریک بنانے لگتے ہیں اول تو بچے کا نام ہی شرکیہ رکھتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے غیروں کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ اس کی پیدائش ، تندرستی اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ، فرمایا خدا تعالیٰ کی ذالت ان چیزوں سے بلندو برتر ہے جن کو یہ اس کے ساتھ شریک بناتے ہیں یہ شرک کا رد ہوگیا۔ بت پرستی اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے بت پرستی کا رد بیان کیا ہے مٹی پتھر یا لکڑی کے مجسمے بناکر ان کی پوجا کرنا شرک کی ایک صورت ہے اور بت پرستی کی یہ لعنت حضرت نوع (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر تمام اقوام میں پائی جاتی رہی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کا بار بار رد فرمایا ہے اس کے علاوہ جو لوگ ملائکہ اور جنات کو عبادت میں شریک کرتے ہیں اللہ نے ان کا بھی رد فرمایا ہے شرک اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہو یا عبادت میں یہ قابل مذمت ہے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے بت پرستی کا اس طرح رد فرمایا ہے ایشرکون مالا یخلق شیئاً کیا یہ لوگ ان کو شریک بناتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے وھم یخلقون اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اگلی آیت میں خاص طور پر مٹی اور پتھر کے گھڑے ہوئے بتوں کا ذکر آئے گا جب کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ کے سوا تمام معبودان مراد ہیں خواہ وہ بت ہوں ، عام انسان ہوں ، انبیاء ہوں ، ملائکہ ہوں یا جنات ہوں فرمایا کہ یہ لوگ ان کی پوجا کرتے ہیں جو کچھ پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں چونکہ کائنات کی تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اس لیے ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو الٰہ اور معبود برحق کی شریک بنائی جاسکے۔ صفات الوہیت کسی ذات کے الٰہہ ونے کے لیے اس میں بعض صفات کا ہونا لازمی ہے مثلاً یہ کہ وہ ذات واجب الوجود ہو ، ایسی ذات جس کا وجود خود بخود ہو ، نہ کہ کسی دوسری ذات کا عطا کردہ یہ الوہیت کی سب سے پہلی صفت ہے ظاہر ہے واجب الوجود صرف ذات خداوندی ہے اس کے علاوہ ہر ذات کا وجود خدا تعالیٰ کا عطا کردہ ہے لہٰذا اللہ کے بغیر نہ کوئی واجب الوجود ہے اور نہ وہ الٰہ ہوسکتا ہے الٰہ کی دوسری صفت یہ کہ وہ خالق ہو ، مخلوق نہ ہو اور یہ صفت بھی صرف باری تعالیٰ میں پائی جاتی ہے اس کے علاوہ کوئی خالق نہیں لہٰذا معبود برحق بھی صرف وہی ہے الوہیت کے لیے علیم کل ہونا بھی ضرورت ہے اور یہ صفت بھی صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے انہ بکل شی علیم وہی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر (الملک) یاد رکھو ! ہر چیز کا ظاہر و باطن اور اس کی ضرورت وہی جانتا ہے جو اس کا خالق ہے چونکہ خالق اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا مخلوق کی تمام جزئیات کو جاننے والا یعنی علیم کل بھی وہی ہے الوہیت کی صفات میں مدبر ہونا اور غیر مرئی ہونا بھی شامل ہے وہی ہر چیز کی تدبیر کرتا ہے وہ خود ہر چیز کو دیکھتا ہے مگر اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا بہرحال اس آیت کریمہ میں خلق کی صفت کے ساتھ الوہیت کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے کوئی انسان ہو یا جن یا فرشتہ ، ان میں سے کوئی بھی خالق نہیں ہے بلکہ سب مخلوق ہیں تو اللہ نے فرمایا کہ ان کو شریک بناتے ہیں جو خالق نہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو انسان کی پیدائش سے اربوں کھربوں سال پہلے پیدا فرمایا امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ مصلحت انسانی کی تکمیل کے لیے اس سے پہلے فرشتوں کا پیدا کیا جانا ضروری ہے لہٰذا اس نے فرشتوں کو پہلے پیدا کیا۔ سب سے پہلے ملاء اعلیٰ کی جماعت کو پیدا کیا پھر ملاء سافل کی جماعت کو پیدا فرمایا اور اس کے بعد عام ملائکہ کو ، اور ان سب سے آخر میں انسان کو پیدا کیا تو فرمایا جو کسی چیز کے خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں انہیں خدا کے ساتھ کیسے شریک بنا رہے ہیں۔ امداد از غیر اللہ فرمایا جن کو یہ شریک بناتے ہیں ان کی ایک بات تو یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو پیدا کرنے پر قادر نہیں اور دوسری بات یہ ولا یستطیعون لھم نصرا وہ معبود ان باطلہ شرک کرنے والوں کی مدد کرنے پر بھی قادر نہیں ہیں والانفسھم ینصرون اور نہ وہ خود اپنی جانوں کی مدد کرسکتے ہیں گزشتہ رکوع میں حضور ﷺ کی ذات مبارکہ کے متعلق گزر چکا ہے قل لا املک لنفسی نفعاً ولامنی اے لوگو ! سن لو ، میں اپنی جان کے لیے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں الا ما شاء اللہ ، مگر جو اللہ چاہے ظاہر ہے کہ بنی نوع انسان کی بلند ترین ہستی بھی اگر اپنے نفع نقصان کے مالک نہیں ہے تو وہ کسی دوسرے کو مانوق الاسباب نفع نقصان کیسے پہنچا سکتی ہے یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے انبیائ ، ملائکہ اور جنات جو زندہ ہستیاں ہیں وہ بھی اس معاملہ میں بےبس ہیں تو اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے مٹی یا پتھر کے مجسمے ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں فرمایا وہ تو اتنے عاجز ہیں وہ ان تدعو ھم کہ اگر تم انہیں پکارو الی الھدی ہدایت کے راستے کی طرف لایتبعوکم تو وہ تمہاری پیروی نہیں کرسکتے یعنی وہ تمہاری کوئی خواہش پوری نہیں کرسکتے جب وہ اس قدر بےبس ہیں تو فرمایا سواء علیکم تمہارے لیے برابر ہے ادعوتھم ھم ام انتم صامتون کہ تم انہیں پکارو یا خاموش رہو مطلب یہ ہے کہ جب وہ معبود ان باطلہ تمہارے لیے کسی چیز پر قادر ہی نہیں ہیں تو انہیں لاکھ پکارے جائو وہ سنتے ہی نہیں تو پھر انہی پکارنا اور نہ پکارنا برابر ہے۔ غیر اللہ کی پرستش شرک فی العبادت قدیم اقوام میں بھی پایا جاتا ہے اور آج بھی موجود ہے چناچہ رومی ، یونانی ، مصری اور کلدانی قومیں شجر وحجر کی پرستش میں ملوث تھیں بعض لوگ بچھو ، سانپ اور درختوں کی پوجا بھی کرتے تھے سورج پرستی بھی قدم زمانے سے چلی آرہی ہے اور سورج کے پجاری کراچی میں آج بھی موجود ہیں جو طلوع شمس کے وقت اس کی طرف ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں اور زبان سے کچھ الفاظ بھی ادا کرتے ہیں جو غالباً دعائیہ الفاظ ہوں گے۔ ستاروں اور سیاروں کے پجاری بھی ہیں اور گائے اور بلی کو پوجنے والے بھی مل جاتے ہیں انسانی ذوق کی انتہا یہ ہے کہ بعض لوگ گوبر کو بھی پوجتے ہیں قبروں کو پوجنے والے تو خود مسلمانوں میں موجود ہیں کوئی نہ کوئی زندہ انسان کسی مردے کو پوجنے والا مل جاتا ہے مسلمانوں میں قبر پرستی ، پیر پرستی ، مشرکانہ تعظیم جیسی بیماریاں موجود ہیں شرک کا ردتمام آسمانی کتب خصوصاً قرآن پاک اور تمام انبیائے کرام نے واضح طور پر کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں چھوڑا سورة انعام میں تمام قسم کے شرک کی تردید ہوچکی ہے شرک نذرونیاز میں ہو یا تعظیم میں سب کی نفی ہوچکی ہے ظلمت کو الٰہ ماننے والوں کا رد بھی ہوچکا ہے جانور ذبح کرتے وقت جو شرک کیا جاتا تھا اللہ نے اس کی بھی تردید فرمائی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ خود کلمہ گو مسلمان شرک کی بہت سی قسموں میں ملوث ہیں مولانا الطاف حسین حالی (متوفی 1914) سرسید کے ہم عصر اور قومی شاعر ہوئے ہیں آپ بڑے صحیح العقیدہ مسلمان تھے آپ نے قاری عبدالرحمن اور شاہ الحق سے تعلیم حاصل کی آپ نے مسدس حالی میں مسلمانوں کے عروج وزوال کا خوب نقشہ کھینچا ہے انہوں نے آج کے مسلمانوں کی بدعقیدگی کا نقشہ بڑے عجیب پیرائے میں کھینچا ہے فرماتے ہیں ؎ کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں نہ ایمان میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے قبروں پر چادریں اور چڑھاوے چڑھانا ، ان پر سجدہ کرنا ، ان کو چومنا چاٹنا ان کی حد درجہ تعظیم کرنا ، فرشتوں اور جنات کی دہائی دینا ، پیر دستگیر کو غائبانہ پکارنا ، شیخ معین الدین چشتی اور زکریا ملتانی (رح) کو امداد کے لیے پکارنا ، سب شکریہ باتیں ہیں ان کے اختیار میں کوئی چیز نہیں نہ وہ پیدا کرسکتے ہیں اور نہ فریاد رسی کے قابل ہیں اور کیا مضر ہے مگر مسلمان ہی ہیں جو ان کو سب کچھ تسلیم کیے بیٹھے ہیں حتیٰ کہ بسوں پر ان کے نام کے نعرے لکھ رہے ہیں یا غوث اعظم یا پیر دستگیر ، یا علی مدد وغیرہ یہ سب شرک کی باتیں ہیں جن کا قرآن نے رد کیا ہے فرمایا جن کو تم شریک بناتے ہو ان میں تو الوہیت کی صفت ہی نہیں پائی جاتی۔ اللہ کے عاجز بندے آگے فرمایا ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکھ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تو تمہاری طرح بندے ہیں جس طرح تم پیدا کیے گئے ہو اسی طرح وہ بھی پیدا کیے گئے ہیں تم بھی خدا کے سانے عاجز ہو اور ہو بھی عاجز ہیں جس طرح تم ہر چیز کے محتاج ہو ، اسی طرح وہ بھی محتاج ہیں اللہ تعالیٰ نے صراحت فرما دی ہے یسئلہ من فی السموت والارض آسمان و زمین کی ہر چیز اپنی ہر ضرورت کے لیے اسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہے تمام مخلوق مانگنے والی ہے اور دینے والی واحد ذات خدا وندی ہے ، انسان اولاد ، دولت اور اقتدار مانگتے ہیں فرشتے اللہ کا قرب مانگتے ہیں اور اس کی رضا کے طالب ہوتے ہیں فرمایا جب ہر چیز اسی سے مانگتی ہے تو پھر تم ان کو شریک کیسے بناتے ہو جو خود عاجز اور محتاج ہیں پھر فرمایا فادعوھم انہیں پکار کر دیکھ لو اگر وہ تمہاری پکار سنتے ہیں فلیسجیبو الکم ان کنتم صدقین پس چاہیے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہو مگر وہ تمہاری حاجت روائی اور مشکل کشائی کیسے کریں گے جب کہ نہ تو وہ قادر مطلق ہیں نہ علیم کل اور نہ واجب الوجود ، حقیقت یہ ہے کہ انتم الفقراء ، الی اللہ واللہ ھو الغنی الحمید (فاطر) تم سب اللہ کے محتاج ہو غنی تو صرف وہی ہے اس کے علاوہ کون ہے جو تمہاری غائبانہ مدد کرے گا تم نے تو خواہ مخواہ بت اور وثن بنا رکھے ہیں جن کے نام کی نذریں مانتے ہو ان کے سامنے دودھ ، مٹھائی اور کھانارکھتے ہو ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہو ان کے ساتھ عابدانہ تصورات رکھتے ہو جس طرح کوئی بت پڑا ہوتا ہے اسی طرف رخ کرلیتے ہو یہ تو نہایت ہی بےوقوفی کی بات ہے۔ فرمایا ذرا غور تو کرو کہ جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو الھم ارجل یمشون بھا کیا ان کے پائوں ہیں جن کے ساتھ وہ چلتے ہیں ام لھم ایدھ یبطشون بھا کیا ن کے ہاتھ ہیں جن کے ساتھ وہ پکڑتے ہیں ام لھم اعین یبصرون بھا کیا ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے ہیں ام لھم اذان یسمعون بھا کیا ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے ہیں ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں ، پھر وہ تمہاری پکار سن کر تمہاری مدد کیسے کرسکتے ہیں سورة حج میں ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کو پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اور مکھی کوئی چیز ان سے چھین لے تو وہ اسے چھڑانے پر بھی قادر نہیں چیہ جائیکہ تمہاری فریاد رسی کریں۔ فرمایا صعف الطالب والمطلوب طالب اور مطلوب دونوں بودے ہیں کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا اللہ نے انسان کو بہترین مخلوق بنایا تھا اسے عقل و شعور سے نوازا تھا مگر ای کی حماقت کی انتہا ہے کہ خود ساختہ بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ یہ ہماری بات سنتے ہیں اور حاجت براری کرتے ہیں فرمایا اگر یہ بات ہے قل ادعوا شرکاء کم پھر اپنے شریکوں کو پکار کر دیکھ لو ثم کیدون پھر جو کچھ تم میرے خلاف کرنا چاہتے ہو کر گزرو فلا تنظرون پس مجھے مہلت بھی نہ دو ۔ حضرت ہود اور صالح (علیہما السلام) کو بھی مشرکین نے یہی کہا تھا ان نقول الا اعتراک بعض الھتنا بسوئٍ ہمارے معبودوں نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے تم باز نہیں آتے اور بہکی بہکی باتیں کرتے ہو اللہ نے فرمایا کہ ایسی باتوں کا یہی جواب ہے کہ اپنے تما معبودوں کو اکٹھا کرلو اور پھر جو تدبیر میرے خلاف کرنا چاہتے ہو کرلو میں کسی سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا ؎ اگر ہر دو جہائم خصم گروند نہ ترسم چوں نگاہ بائم تو باشی اگر اللہ تعالیٰ نگہبان ہے تو دونوں جہان کی مخالفت بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے مجھے یقین ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا تمہارے معبود محض بےاختیار ہیں اگلی آیات میں شرک کی مزید باتوں کی تردید ہورہی ہے۔
Top