Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ : اور اے آدم اسْكُنْ : رہو اَنْتَ : تو وَزَوْجُكَ : اور تیری بیوی الْجَنَّةَ : جنت فَكُلَا : تم دونوں کھاؤ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پس ہوجاؤ گے مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور (فرمایا اللہ تعالیٰ نے) اے آدم (علیہ السلام) ! رہو تم اور تمہاری بیوی جنت میں پس کھائو جہاں سے تم چاہو اور نہ قریب جانا اس درخت کے ، پش ہو جائو گے تم زیادتی کرنے والوں میں سے
ربط آیات ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے نزول اور اس کے اتباع کا حکم دیا جزائے عمل کے ضمن میں قرآن کریم کی مخالفت کرنے والوں کو برے انجام سے آگاہ کیا پھر انسان کی تمکین فی الارض اور اس کے لیے سامان معیشت کا ذکر کیا اس کے بعد انسان کی تخلیق اور اس کے اشرف ہونے کا بیان ہوا اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو مسجود ملائکہ بنایا اور دنیا میں اپنا نائب مقرر فرمایا پھر ابلیس کے تذکرے میں فرمایا کہ اس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی اور آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا پھر اس انکار کی توجیہہ یہ بیان کی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے آگ چونکہ مٹی کی نسبت ارفع ہے لہٰذا میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں اور ظاہر ہے کہ ایک اعلیٰ ہستی کم تر ہستی کے سامنے سجدہ نہیں کرسکتی شیطان کے اس تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے رامذہ درگاہ کردیا اس وقت شیطان نے اللہ کی بار گاہ میں کہا کہ تو نے میری گمراہی کا حکم تو لگا دیا اب مجھے وقت معلوم تک مہلت دیدے تاکہ میں تیرے بندوں کو آگے پیچھے ، دائیں اور بائیں سے آکر گمراہ کروں اور تیرے بندوں کی اکثریت ناشکر گزار ہوگی اس وقت تو شیطان نے یہ بات اندازے سے کی تھی مگر بعد میں یہ سچ ثابت ہوئی اللہ نے فرمایا یہاں سے نکل جائو ، جو شخص تمہارے پیچھے لگے گا میں تمہارے سمیت سب کو جہنم رسید کردوں گا۔ جنت میں سکونت تخلیق آدم اور اس کی برتری کے اظہار کے بعد اب آج کی آیات میں آدم (علیہ السلام) کے جنت میں رہائش اختیار کرنے کا بیان ہے اس دوران میں شیطان کی دشمنی ، حسد اور عداوت کے ساتھ ساتھ آدم (علیہ السلام) کی لغزش کا تذکرہ ہے اور پھر اس سے پیدا ہونے والے بعض واقعات کو ذکر کیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے ویادم اسکن انت وزوجک الجنۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے آدم (علیہ السلام) ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو ، تمہیں وہاں سونت اختیار کرنے کی اجازت ہے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا مسئلہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے اس کا اکثر حصہ سورة بقرہ میں چوتھے رکوع میں بیان ہوچکا ہے واز قال ربک للملکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ وہاں پر میاں بیوی کے جنت میں سکونت اختیار کرنے کا تذکرہ کیا گیا ہے آدم (علیہ السلام) اور آپ کی زوجہ کی تخلیق کا مسئلہ بھی اللہ نے سورة نساء کی ابتداء میں ذکر کیا ہے وخلق منھا زوجھا آپ ہی کے جسم سے اللہ نے آپ کا جو اڑ بھی نکالا تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت تامہ اور قدرت کاملہ کا مظہر تھا بہرحال اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جنت میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ بنیادی ضروریات رہاش کے لیے مکان انسان کی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتا ہے اقوام متحدہ سمیت رہائش کا مسئلہ دنیا کے ہر ملک کے لیے پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے جس کے لیے بڑے بڑے منصوبے تیار ہوتے ہیں مگر پوری دنیا میں اس مسئلہ پر قابو نہیں پایا جاسکا اولین انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کی رہائش اور دیگر ضروریات کا مسئلہ درپیش ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کی رہائش کا بندوبست کیا اور فرمایا کہ تم اور تمہاری زوجہ جنت میں رہو سورة طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے لیے چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے کہ تم جنت میں رہو ، وہاں تمہارے لیے یہ آسائشیں ہوں گی ان لک الا تجوع فھا ولا تعریٰ ، وانک لاتظموفیھا ولا تضحیٰ “ کہ وہاں تمہیں نہ بھوک کا فکر ہوگا اور نہ تم ننگے رہو گے نہ پاس ستائے گی اور نہ دھوپ ، گویا دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی بنیادی ضروریات خوراک ، لباس ، پانی اور مکان کا انتظام کردیا اس زمانے میں اقوام متحدہ کے منشور کے تحت انسان کی بنیادی ضروریات کا بڑا چرچا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی ان کا ذکر کرکے ان چیزوں کو انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل کرلیا ……………… اب ان چاروں چیزوں کے علاوہ بنیادی ضروریات میں تعلیم اور صحت کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ دراصل بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کی ذمہ داری بہت حد تک صاحبان اقتدار پر عائد ہوتی ہے جب تک دولت کی تقسیم صحیح طریقے سے نہیں ہوگی یہ مسئلہ یانیمل رہے گا قدیم زمانے سے دنیا میں ملوکیت کا دور دورہ رہا ہے یہ ڈکٹیٹر شپ مسلط رہی ہے جس کی وجہ سے وسائل کی تقسیم صحیح نہیں ہوسکی بعض لوگ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کے پاس ضرورت سے زیادہ وسائل ہوتے ہیں مگر لوگوں کی اکثریت مصائب کا شکار رہتی ہے لوگ آرام طلبی اور غلیظ امور میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں لہو و لعب ان کا دل پسند مشغلہ ہے لہٰذا جن کے پاس وسائل ہیں وہ اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے جس کی وجہ سے مختلف طبقات کی تفادت کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ چار بنیادی باتیں تمام ادیان میں ہمیشہ اٹل رہی ہیں یہ اصول طہارت ، اخبات (عاجزی) سماحت (خیس باتوں سے اجتناب) اور عدل ہیں یہ اصول ہماری شریعت میں بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں عدل سے مراد یہ ہے ات کل دی حق حقہ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو اور بنیادی حقوق میں اللہ نے یہ چار چیزیں بیان فرمائی ہیں خوراک ، لباس ، پانی اور رہائش کے لیے جگہ جہاں وہ آرام کرسکے اور گرمی اور سردی سے بچائو کرسکے اس طرح تعلیم بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کے ذریعے انسان اپنی عقلی ضروریات کو پورا کرسکے پھر بنیادی تعلیم میں دینی تعلیم سب سے مقدم ہے اتنی تعلیم ہ مردوزن کے لیے لازمی ہے جس سے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچان سکے طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم (ومسلمۃ) کا یہی معنی ہے اکثر انسانیت تعلیم سے بھی محروم ہے اتنی تعلیم تو جبری ہونی چاہیے جس سے انسان اپنے حقوق و فرائض کی پہچان کرسکے۔ بے علم نتواں خدا را شناخت علم کے بغیر تو انسان خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا نہ اپنے حقوق کو پہچان سکتا ہے اور نہ بنی نوع انسان کے حقوق کی پاسداری کرسکتا ہے بہرحال یہ بنیادی چیزیں ہر انسان کو نصیب ہونی چاہیے غذا انسان کو لازماً حاصل ہونی چاہیے کسی کو اچھی کسی کو کم تر ، تاہم کوئی بھی اس سے محروم نہیں ہونا چاہتا اسی طرح مکان ، لباس اور صحت بھی انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ شجر ممنوعہ فرمایا ، اے آدم (علیہ السلام) ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو فکلا من حیث شعتما اور کھائو جہاں سے چاہو اور جو چیز چاہو لیکن ولاتقربا ھذہ الشجرۃ اور اس درخت کے قریب نہ جانا اگر ایسا کرو گے اس درخت کا پھل کھائو گے فتکونا من الظلمین تو ہو جائو گے نقصان اٹانے والوں میں سے ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش تھی کہ اس درخت کا پھل نہ کھانا ، باقی جہاں سے جی چاہے کھائو اور جتنا چاہو استعمال کرو۔ جس درخت سے منع کیا گیا وہ کونسا درخت تھا اس کی تصریح قرآن پاک یا حدیث میں نہیں ہے البتہ تورات میں مختلف قسم کی روایات ملتی ہیں اس کو انجیر کا درخت بھی کہا گیا ہے بعض نے گندم کا پودا اور بعض نے انگور کہا ہے بعض فرماتے ہیں کہ بائیبل کی روایت کے مطابق اس درخت سے مراد خیروشر کی پہچان کا درخت ہے بہرحال کوئی بھی درخت تھا جس کے قریب جانے سے منع فرمایا گیا اور فرمایا اگر قریب جائو گے تو ظلم کرنے والے ہوجائے گے۔ شیطان وسوسہ فرمایا فوسوس لھما الشیطن پس وسوسہ ڈالا ان دونوں کے لیے شیطان نے ، عربی زبان میں وسوسہ باریک اور مخفی آواز کو کہا جاتا ہے زیور کی معمولی سی جھنکار کو بھی وسوسہ کہتے ہیں تو شیطان نے آدم (علیہ السلام) اور حوا کے دل میں وسوسہ ڈالا شیطان کو بہشت سے نکلنے کا حکم ہوچکا تھا مگر وہ ابھی نکلا نہیں تھا لہٰذا وہ وسولہ ڈالنے میں کامیاب ہوگیا وسوسہ ایک نفسیاتی عمل ہے جس کے لیے قریب آنا ضروری ہے اور اعضائے مستورہ نظر نہیں آتے تھے مگر جب یہ حصے کھل گئے تو آپ سخت پریشان ہوگئے۔ امتناع شجر کی وجوہات شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کو بہانے کے لیے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا اور وقال مانھکما ربکما عن ھذہ الشجرۃ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس درخت سے اس لیے منع کیا ہے الا ان تکونا ملکین کہ تم دونوں فرشتے نہ بن جائو اوتکونا من الخلدین یا پھر جنت میں ہمیشہ رہنے والے نہ بن جائو شیطان نے ان کو یقین دلایا کہ اللہ نے تمہارے مفاد کے خلاف تمہیں اس درخت سے روک دیا ہے ملک فرشتہ ہوتا ہے اور ملک بادشاہ کو کہتے ہیں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں قراتیں درست ہیں اور مطلب یہ ہے کہ ممنوعہ پھل کھانے سے یا تو تم فرشتے بن جائوں گے یا تمہیں یہاں کی دائمی بادشاہی مل جائے گی یہ فہوم سورة طہٰ میں بھی ملتا ہے وہاں اس طرح آتا ہے کہ شیطان نے وسوسہ ڈالا اور ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لایبلی ٰ ، بھلا میں تم کو ایسا درخت بتلائوں جو ہمیشہ کی زندگی اور کبھی نہ زائل ہونے والی بادشاہت دے گویا یہ لالچ دیا یہ دور سے بھی ڈالا جاسکتا ہے اگر آدم (علیہ السلام) جنت میں ہوں اور شیطان وہاں سے نکل کر دور کھڑا دیکھ رہا ہو تو پھر بھی وہ وسوسہ اندازی ہوسکتی تھی شیطان نے دور کھڑا ہو کر ایسی حرکات کیں جنہیں دیکھ کر آدم (علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا یا دور سے اس کی آواز سن کر کوئی خیال پیدا ہوگیا بہرحال شیطان وسوسہ اندازی میں کامیاب ہوگیا اور اس کا مقصد یہ تھا لیبدی لھما ماوری عنھما من سوا اتھما تاکہ ظاہر کردے ان دونوں کے لیے وہ چیز جو چھپائی گئی ہے ان دونوں سے ان کی شرم گاہوں میں سے یعنی وسوسہ اندازی کا اثر یہ ہوا کہ آدم (علیہ السلام) اور حوا کے ستر کھل گئے جو چیز ان کی نظروں سے پوشیدہ رکھی گئی تھی وہ ظاہر ہوگئی سوات کے کئی معنی آتے ہیں جسے عام ، برائی اور جسم کے مستورہ حصے ، اس مقام پر جسم کے مستورہ حصے مراد ہیں حدیث شریف میں یہ لفظ اس طرح استعمال ہوا ہے لاتنظر الی سواۃ اخیک اپنے بھائی کے ستر کی طرف مت دیکھو بلکہ بعض روایا ت میں ستر دیکھنے والے کو ملعون کہا گیا ہے اگر انسان کے مستورہ حصے کھل جائیں تو نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے پہلے آدم (علیہ السلام) اور حوا نورانی لباس میں ملبوس تھے شیطان نے وسوسہ اندازی کی اور ساتھ قسم بھی اٹھائی وقا سمھما انی لکما من النصحین کہ میں تمہارا بڑا خیر خواہ ہوں تمہارے فائدے کی بات بتا رہا ہوں لہٰذا اس ممنوعہ پھل کو کھالو بہرحال جب شیطان نے اللہ کے نام کی قسم کھائی تو آدم (علیہ السلام) کے جھانسے میں آگئے۔ آخر اس کا نتیجہ یہ ہوا فدلھما بغرور شیطان نے ان دونوں کو یہ دھوکہ دے کر نیچے اتروادیا دل دلالت سے ہے اور یہ رہنمائی کے معنوں میں آتا ہے اگر بفتح دال ہو تو اس کا معنی جرات دلانا ہے اور اگر دلا ہو تو معنی نیچے اتارنا ہے اس مقام پر یہی معنی عبارت کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اب نیچے اتارنے کی بھی کئی صورتیں ہیں نیچے اتارنا فکر کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کہ شیطان نے ان کی فکر اتنی کمزور کردی کہ وہ اللہ کے حکم پر قائم نہ رہ سکے نیچے اتارنا مرتبے کے لحاظ سے بھی ہوسکتا ہے کہ زوجین کو جس اعلیٰ منصب پر فائز کیا گیا تھا اس نے نیچے اتارنے کا ذریعہ بن گیا اور جنت سے نیچے اتارنے کا مطلب تو بہر حال ہے غرضیکہ شیطان وسوسہ اندازی کے ذریعہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کو نیچے اتارنے کا سبب بنا۔ آدم (علیہ السلام) کی لغزش ممنوعہ شجر کی قربت حضرت آدم (علیہ السلام) کی محض لغزش تھی اسے گناہ نہیں کہا جاسکتا آپ کو اجتہا میں غلطی لگی تھی نسی آدم ایک بات تو یہ تھی کہ آدم (علیہ السلام) بھول گئے اللہ تعالیٰ کا امتناع والا فرمان بھول گئے اور دوسری بات کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو سمجھنے میں غلطی کی کسی چیز سے امتناع بعض اوقات فرض ہوتا ہے اور بعض اوقات استجابی ، مثلاً قرآن پاک کا حکم ہے ” اقیمواصلوٰۃ “ تو نماز فرض ہے یہ فرضی حکم ہے اس کی تعمیل لازمی ہے اور بعض احکام ضروری نہیں ہوتے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ” واذا حللتم فاصطاً دوا “ (المائدۃ) جب احرام کھول دو تو شکار کرو ظاہر ہے کہ احرام کے بعد شکار نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ سنت موکدہ بلکہ محض مباح ہے کہ احرام کھل جانے کے بعد تمہیں شکار کرنے کی اجازت ہے اب اگر کوئی شخص احرام کھولنے کے بعد شکار نہیں کرتا تو اس پر کوئی جرم نہیں ہوگا اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھی شاید امتناع شجر کو محض استجابی حکم سمجھا اور اس کی تعمیل ضروری نہ سمجھی اور پھل کھالیا بہرحال اس لغزش کی یہ دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ زوکین کی ستر پوشی غرضیکہ شیطان نے آدم (علیہ السلام) اور حوا کو دھوکہ دیا فلما ذاقا الشجرۃ پھر جب دونوں نے اس درخت کو چکھا بدت لھما سوا تھما ان دونوں کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں مستورہ حصے ایک دوسرے کو نظر آنے لگے اس حالت میں وہ سخت پریشان ہوئے اور فوراً ستر پوشی کی کوشش کی وطفقاً اور ان دونوں نے شروع کیا یخصفن علیھما من ورق الجنۃ ٹانکنے لگے اپنے جسموں پر جنت کے پتے پتوں کو جوڑ کر اپنے اعضائے مستورہ کو چھپانے لگے لباس تو وہاں کوئی تھا نہیں جو پہن لیتے لہٰذا انہوں نے پتے جوڑ کر آگے پیچھے ستر پوشی کی گویا ستر پوشی انسان کی فطرت میں داخل ہے جب برہنہ ہوگئے تو آدم (علیہ السلام) اور حوا دونوں کو سب سے پہلے ستر پوشی کی فکر ہوئی کہ حیا داری کا یہی تقاضا تھا آج بھی افریقہ میں بعض وحشی قبائل ایسے ہیں جو لباس سے بےنیاز ہیں مگر ستر پوشی وہ بھی کرتے ہیں اور گھاس پھونس اکٹھا کرکے اعضائے مستورہ کو ڈھانپنا ضروری سمجھتے ہیں برہنگی تو شیطان کی تعلیم سے ہوئی تھی لہٰذا یہ شیطانی فعل ہے مگر بعض حلقوں میں یہ چیز آج بھی فیشن میں داخل ہے نیم عریانی حالت میں ناچ گانا یا ایسے باریک کپڑے پہننا جو ستر پوشی کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوں بالکل غیر فطری بات ہے بلکہ 1930 ء کے لگ بھگ جرمنی میں برہنہ لوگوں کی ایک انجمن قائم ہوئی تھی اس کے تمام ممبران مرد اور عورتیں اپنے ایون فطریہ میں برہنگی اختیار کرتے تھے وہاں پر ستر پوشی انجمن کے قواعد کے خلاف تھی تاہم قرآن پاک سے واضح ہوتا ہے کہ ستر پوشی ایک فطری تقاضا ہے جو ہر انسان میں پایا جاتا ہے اسکے باوجود اگر کوئی بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہ کے تو وہ اسکے لیے خود ذمہ دار اور قابل مواخذہ ہے ستر پوشی حیاداری ہی کا دوسرا نام ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے الحیاء من الایمان یعنی حیا داری ایمان کا ایک حصہ ہے نیز فرمایا لایمان لمن لاحیاء لہ جس کی حیا نہیں کا ایمان نہیں۔ شیطان کی دشمنی جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حوا کو اس پریشان میں دیکھا تو فرمایا ونادھما ربھما ان دونوں کو ان کے پروردگار نے پکارا اور کہا الم انھکما عن لکما الشجرۃ کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب جانے سے منع نہیں کیا تھا ؟ واقل لکما اور کیا میں نے تم دونوں سے نہیں کہا تھا ان الشیطن لکما عدو مبین کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے محتاط رہنا مگر تم پھر بھی اس کے بہکاوے میں آگئے۔ سورۃ طہٰ میں موجود ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ و آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کردیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا یادم ان ھذا عدولک ولزوجک قلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقیٰ اے آدم شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا کھلا دشمن ہے یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے لہٰذا اس سے خبردار رہنا مگر اس تنبیہ کے باوجود آدم (علیہ السلام) اور حوا شیطان کے بہکاوے میں آگئے جس وجہ سے انہیں جنت سے محروم ہونا پڑا۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اس کے باوجود تم نے یہ غلطی کیوں کی اب اس کے بعد اگلی آیات میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کا بیان ہوگا شیطان کا جواب متکبرانہ تھا انا خیر منہ کہ میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا مگر اب آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کا جواب عجزہ انکاری کا مظہر ہوگا یہیں سے انسان کی اجتماعی اور احتیاج کی زندگی شروع ہوگی سب سے پہلے لباس کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کیونکہ برہنگی کو تنہائی میں بھی پسند نہیں کیا گیا اب جو آدم (علیہ السلام) اور حوا کا جواب آرہا ہے اسمیں بھی زندگی کے بہت سے حقائق سمجھائے گئے ہیں۔
Top