Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 200
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِمَّا : اور اگر يَنْزَغَنَّكَ : تجھے ابھارے مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان نَزْغٌ : کوئی چھیڑ فَاسْتَعِذْ : تو پناہ میں آجا بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر ! بھارے تجھ کو شیطان کی طرف سے چھیڑ چھاڑ ، پس آپ اللہ کے ساتھ پناہ مانگیں ، بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
ربط آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے شرک کرنے والوں کا رد کیا اور پھر اسی سلسلے میں مکارم اخلاق کی تعلیم دی ظاہر ہے کہ جب مشرکین کے کمزور دلائل کو رد کیا جائے گا تو وہ لاجواب ہو کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئیں گے اور بےہودہ باتیں کرنے لگیں گے جاہلوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب وہ دلائل کا سامنا کرنے سے عاجز آجاتے ہیں تو دنگا فساد اور گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں ایسی حرکات کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو فرمایا خذالعفو کہ آپ درگزر کرنے اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں البتہ وامربالمعروف نیکی کی تلقین کرتے رہیں اور توحید کے دلائل دیتے رہیں گویا اللہ تعالیٰ نے مکارم اخلاق کی تعلیم دی حدیث شریف میں حضور ﷺ کے مکارم اخلاق کے سلسلے میں آتا ہے کہ لایجزی السیۃ بالسیۃ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ آپ معاف کردیتے تھے اور درگزر فرماتے تھے پہلی کتابوں میں بھی حضور ﷺ کی تعریف میں آیا ہے کہ آپ بازاروں میں شوروشر کرنے والے نہیں ہیں اور نہ آپ فحش باتیں کرنے والے ہیں دوسری روایت میں آتا ہے کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا خواہ کتنی بھی بڑی تکلیف پہنچی البتہ اگر کوئی شخص دین اور شریعت کے خلاف کرتا یا کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتا تو آپ مظلوم کا حق ضرور دلاتے آپ نے شریعت کی حدود کو توڑنے والے کو بھی معاف نہیں کیا مگر یہ آپ کے مکارم اخلاق کی انتہا تھی کہ عمر بھر کسی سے اپنی ذات کا بدلہ نہیں لیا۔ شیطان کے شر سے پناہ حضور ﷺ کے مکارم اخلاق کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو شیطانی چھیڑ چھاڑ کا اعلان بھی بتلایا ارشاد ہوتا ہے واما ینزغنک من الشیطن نزغ اور اگر ابھارے تھے شیطان کی طرف سے کوئی چھیڑ چھاڑ یعنی اگر شیطان برائی کے لیے آپ کے دل میں وسوسہ اندازی کرے تو اس کا علاج یہ ہے کہ فاستعذ باللہ کہ آپ اللہ کے ساتھ پناہ مانگیں وہ آپ کی حفاظت کرے گا کیونکہ انہ سیمع علیم وہ سننے والا اور جاننے والا ہے وہ تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور تمہاری ہر ضرورت سے واقف ہے لہٰذا شیطان کی وسوسہ اندازی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا چاہیے مسند احمد کی روایت میں آتا ہے ان للشیطن لمۃ بابن آدم یعنی ابن آدم کے ساتھ شیطان کی ضرور چھپڑ چھاڑ ہوتی ہے وہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے جب کوئی شخص نیکی کے راستے پر جانا چاہتا ہے تو شیطان اس کے راستے میں آکر بیٹھ جاتا ہے اور اس کے دل میں برے خیال ڈال کر اسے راستے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے حضور ﷺ نے عام لوگوں کو بھی شیطان کے برے عزائم سے آگاہ فرما دیا حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ شیطان کی وسوسہ اندازی شر پر مشتمل ہوتی ہے ایعاد بالشرو تکذیب بالحق یہ حق کی تکذیب اور برائی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے فرمایا وان للملک لمۃ اللہ کے فرشتے بھی انسان کے دل میں خیالات ڈالتے ہیں جو کہ نیکی اور سچائی پر مبنی ہوتے ہیں حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جب کوئی شخص اپنی طبیعت میں برائی محسوس کرے تو اس وقت اسے اللہ کی پناہ میں آنا چاہیے اور برے خیالات کو شیطان کی چھیڑخانی سمجھنا چاہیے اور اگر انسان کے دل میں اچھے خیالات وارد ہوں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اچھی باتیں اللہ کے فرشتے دل میں ڈالتے ہیں۔ بہرحال فرمایا کہ اگر شیطان کی طرف سے کوئی ابھار ہو تو اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہیے حضور ﷺ نے استعاذہ کے لیے کئی ایک کلمات کی تعلیم دی ہے جیسے اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم لاحول ولا قوۃ الاباللہ ، وقل رب اعوذ بک من ھمزات الشیطین ، واعوذ بک رب ان یحضرون (المومنون) اللے اللہ ! میں شیطانوں کے وسوسے اور ان کی حاضری سے پناہ مانگتا ہوں۔ ذکر الٰہی بطور قلعہ حضور ﷺ سے شیطانی وساوس کے متعلق خطاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے عام اہل ایمان کو بھی شیطان کے وسوسے سے بچنے کی ترکیب بیان فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے ان الذین اتقوا اذا مسھم طٓف من الشیطن بیشک وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے خوف سے ڈرتے ہیں جب کہ پہنچتا ہے انہیں خیال شیطان کی طرف سے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے تقویٰ کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے۔ ” تقویٰ محافظت برحدود شرع است “ یعنی شریعت کی حدود کی حفاظت کرنا تقویٰ ہے کفر ، شرک ، نفاق ، بدعقیدگی اور برائی سے بچنا تقویٰ کی تعریف میں آتا ہے اس دنیا میں سنبھل کر چلنا کہ کہیں دامن برائی کے کانٹوں میں نہ الجھ جائے یہی تقویٰ ہے طائف کا لفظی معنی چکر مارنے والا ہے اور مراد خیال اور وسوسہ ہے خواب کے دوران جو خیالات آتے ہیں ان کو بھی طائف کہتے ہیں تو فرمایا کہ بیشک وہ لوگ کہ جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پہنچتا ہے تذکرو تو یاد کرتے ہیں یعنی ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں اور خبردار ہوجاتے ہیں فاذا ھم مبصرون پس وہ اچانک صاحب بصیرت یعنی سمجھ دار ہوجاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ دل میں خوف خدا رکھنے والے لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ جب ان کے خیالات پر شیطان کا حملہ ہوتا ہے تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کے لیے اس کے ذکر میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اس طرح وہ شیطان سے بچنے کے لیے ذکر کے قلعہ میں قلعہ بند ہوجاتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ سوتے وقت جب انسان کے جسم کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں تو شیطان اس کی ناک پر آکر بیٹھ جاتا ہے اور وہاں سے آدمی کے قلب میں پھونکیں مارتا ہے پھر سونے والا اگر رات کو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ہے تو خنس الشیطن شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس کی وسولہ اندازی موثر نہیں ہوتی اور اگر سونے والے شخص نے سونے سے پہلے اللہ کا ذکر نہیں کیا یعنی نماز بھی ادا نہیں کی وہ سوتا رہا حتیٰ کہ فجر طلوع ہوگئی پھر سورج نکل آتا ہے اور سونے والا سویا رہتا ہے تو پھر شیطان اس کے کان میں پیشاب کرکے چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں کیونکہ میں نے اس شخص کو رات بھر خدا تعالیٰ کے ذکر سے غافل رکھا بہرحال فرمایا کہ شیطان کی وسوسہ اندازی کا علاج اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ شیطان کے بھائی فرمایا واخوانھم یمدونھم فی الغی شیاطین کے بھائی لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے رہتے ہیں شیطان کے بھائی ہمیشہ گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں یہاں پر اخ کا لفظ آیا ہے جس سے نسبی بھائی مراد ہوتا ہے تاہم تمام لوگ چونکہ ایک ہی سلسلہ انسانی سے منسلک ہیں اس لیے سارے ایک دوسرے کے بھائی ہیں بعض لوگ دینی طور پر ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں جیسے سورة حجرات میں آتا ہے انما المومنون اخوۃ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو گویا جس طرح مومن نیکی اور ایمان میں اکھٹے ہو کر بھائی بھائی بن جاتے ہیں اسی طرح گمراہ لوگ گمراہی میں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں اور پھر وہ سارے شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں کیونکہ سب سے بڑا گمراہ وہی ہے فضول خرچی کرنے والوں کو بھی شیطان کا بھائی کہا گیا ہے ان المبذرین کانو اخوان الشیطین (بنی اسرائیل) کیونکہ اسراف شیطانی فعل ہے چناچہ ایسے لوگوں کو شیطان گمراہی کی طرف کھینچتے رہتے ہیں ثم لا یقصرون پھر وہ اس معاملہ میں کوتاہی بھی نہیں کرتے بلکہ برائی سے روکنے میں ہمیشہ ہمیشہ پیش رہتے ہیں اور گمراہی کی طرف لانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے سورة زخرف میں بھی آتا ہے کہ جو شخص اللہ کے ذکر سے اعراض کرتا ہے نقیض لہ شیطناً فھولہ قرین ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور پھر وہ عمر بھر اسے گمراہی میں مبتلا رکھتا ہے حتیٰ کہ موت کے وقت کف افسوس ملتا ہوا شیطان سے کہتا ہے یلیت بنی وبینک بعد المشرقین فبئس القرین (الزخرف) کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا میں نے تیری بات کیوں مانی ، تو بہت برا ساتھی ہے مگر اس وقت کا افسوس کرنا کسی کام نہ آئے گا غرضیکہ شیطان انسان کو ہمیشہ گمراہی کی طرف لگائے رکھتے ہیں۔ انقطاع وحی پر اعتراض اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ایک اعتراض کا ذکر کیا ہے جو وہ انقطاع وحی کے موقع پر کرتے تھے ارشاد ہوتا ہے واذا لھم تیاتھم بایۃ جب آپ نہ لائیں ان کے پاس کوئی نشان قالو لولا اجتبیھ تھا تو کہتے ہیں کیوں نہیں چھانٹ کر لایا تو اس کو یہاں پر مفسرین نے آیت کے دونوں معنی بیان کیے ہیں یعنی قرآنی آیت اور معجزہ اگر قرآن کی آیت مراد لی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب کئی کئی روز یا کئی کئی ماہ تک وحی کا سلسلہ منقطع ہوجاتا تھا تو مشرکین بےہودہ اعتراضات کرتے تھے بعض ظالم کہتے تھے ترکک الشیطن یعنی شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے (العیاذباللہ) اب وہ تجھے کچھ نہیں سکھاتا اور بعض یہ بھی کہتے تھے کہ اگر تیرے پاس وحی آنا بند ہوگیا ہے تو تو اپنی طرف سے قرآن بنا کر سنا دیا کر ، کافر کہتے تھے اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز نہیں اتاری تو خود ہی سنا کرلے آئیں خ اس قسم کا طعن کرتے تھے اور اگر آیت سے معجزہ مراد لیا جائے تو بھی درست ہے کیونکہ مشرکین حضور ﷺ سے اپنی مرضی کے معجزات طلب کرتے تھے اور پھر اسے نہ پاکر طرح طرح کے بےہودہ اعتراضات کرتے تھے اور کہتے کہ آپ مطلوبہ نشانی کیوں نہیں پیش کرتے بعض اوقات اللہ تعالیٰ مشرکوں کی طرف سے طلب کردہ معجزہ ظاہر فرما دیتے تھے جیسے ثق القمر والا معجزہ مشہور ہے یا اللہ نے صالح (علیہ السلام) کے لیے اونٹنی کا معجزہ ظاہر فرما دیا مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے نزدیک معجزے کا ظاہر کرنا مناسب نہیں ہوتا تھا لہٰذا کفار کی فرمائش پوری نہیں ہوتی تھی سورة بنی اسرائیل میں مذکور ہے کہ مشرکین حضور ﷺ سے کہتے تھے کہ آپ کے لیے کھجور اور انگور کا باغ ہوگا جس میں چشمے بہتے ہوں یا ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے یا خدا تعالیٰ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آ ، یا تمہارے لیے سونے کا گھر ہونا چاہیے یا ہمارے سامنے آسمان سے کتاب نازل کردے تو پھر ہم ایمان لائیں گے تو فرمایا جب آپ ان کے پاس کوئی نشانی نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ آپ چن کر کیوں نہیں لے آتے۔ اتباع وحی کا عزم اللہ تعالیٰ نے مذکورہ اعتراض کا جواب اس طرح دیا قل انما اتبع ما یوحی الی من ربی اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ میں تو اتباع کرتا ہوں اس چیز کا جو میری طرف وحی کی جاتی ہے میرے پروردگار کی طرف سے آپ کی مطولبہ نشانیاں پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جب چاہے کوئی نشانی ظاہر فرما دے اس معاملہ میں اللہ کا قانون یہ ہے وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ (المومن) اللہ کے کسی رسول کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی یا معجزہ ظاہر کردے نشانی کا ظاہر کرنا تو اللہ کا فعل ہوتا ہے جو وہ اپنے نبی کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے اسی طرح کرامت بھی کسی ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی بلکہ جب اللہ کی مصلحت میں اس کا ظاہر ہونا ضروری ہوتا ہے تو اللہ ایسا کردیتا ہے لوگ ولی کا ذاتی فعل سمجھ کر شرک میں مبتلا ہوتے ہیں حالانکہ یہ ان کا ذاتی فعل نہیں ہوتا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر اللہ نے احیائے موتی کا معجزہ ظاہر کیا تو عیسائی اسے عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذاتی فعل سمجھ کر ہی مبتلائے شرک ہوئے بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا کہ آپ کہہ دیں کہ میں تو وحی الٰہی کا اتباع کرتا ہوں آپ کی فرمائشیں پوری کرنا میرا کام نہیں ہے۔ بصیرت کی باتیں فرمایا ھذا بصائر من ربکم یہ قرآن پاک جس کی آیات لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے یہ تو تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کی باتیں ہیں بصارت آنکھوں کی روشنی کو کہتے ہیں اور بصیرت سے دل کی روشنی مراد ہے تو فرمایا اس قرآن پاک کے مطالعہ سے دل میں نور ایمان اور نور توحید پیدا ہوتا ہے نبی کی رسالت معاد اور تمام حقائق دینیہ سمجھ میں آتے ہیں اور انسان کا دل منور ہوجاتا ہے تمام شکوک و شبہات ختم ہوجاتے ہیں اور انسان صراط مستقیم پر گامزن ہوجاتا ہے سورة یوسف میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہی میرا راستہ ہے جس کی طرف میں تم کو دعوت دیتا ہوں ” علیٰ بصیرۃ انا ومن اتبعنی “ میں بھی بصیرت پر ہوں اور میرے متبعین بھی ، صحیح معنوں میں صاحب بصیرت وہی ہوگا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا متبع ہوگا اور جسے تمام حقائق دینیہ پر پختہ یقین ہوگا ترود تو جہالت ، نفاق اور معاصی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جب کہ قرآن پاک دل میں نور ایمان پیدا کرتا ہے اور یہ اہل ایمان کے لیے بصیرت ہے۔ ہدایت اور روشنی فرمایا قرآن پاک بصیرت کے علاوہ وھدی ورحمۃ ہدایت اور رحمت بھی ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر تین چیزیں بیان کی گئی ہیں یعنی بصیرت ، ہدایت اور رحمت اور ان کا مصداق بھی تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں فرماتے ہیں کہ جو لوگ توحید ، رسالت یا معاد کو مشاہدے کی طرح دیکھتے ہیں یعنی وہ تمام دلائل قدرت کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے اور ان کا ایمان پختہ ہوجاتا ہے تو ان لوگوں کیلیے یہ قرآن پاک بصیرت ہے اس کے بعد ایسے لوگ جو ان سے کم درجے کے ہوتے ہیں اور جو کسی چیز کو عقلی یا نفلی دلائل کے ساتھ سمجھتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں…………………………… ایسے لوگ صفت ہدایت کے مصداق ہدایت یافتہ کہلاتے ہیں فرمایا تیسرے درجے میں عام اہل ایمان کی طرف رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر ان پر ڈال دیتا ہے۔ بصیرت تو بلند تر درجے کی بات ہے قرآن پاک میں ہدایت کے ساتھ بینات کا ذکر بھی کیا گیا ہے سورة بقرہ میں یہودیوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ لوگ جو چھپاتے ہیں جو ہم نے نازل کیا ” من البینت والھدیٰ “ بینات اور ہدایت سے مفسرین فرماتے ہیں کہ بینات واضح باتوں کو کہتے ہیں جو ہر آدمی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے البتہ ہدیٰ کے لیے استاذ کی ضرورت ہوتی ہے جب معلم کوئی مسئلہ سمجھاتا ہے تو پھر سمجھ میں آتا ہے غرضیکہ فرمایا یہ قرآن پاک بصیرت ، ہدایت اور رحمت ہے بصیرت کے ذریعے اعلیٰ درجے کی روشنی اور ہدایت نصیب ہوتی ہے اور پھر جو آدمی ہدایت اختیار کرلیتا ہے وہ رحمت الٰہی کا مستحق بھی ہوجاتا ہے تو جو شخص قرآن پر ایمان لایا اس کے حقائق کو سمجھا اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دنیا میں بھی سرخرو ہوگا برزخ میں بھی کامیاب ہوگا اور پھر آخرت میں دائمی فلاح پا جائے گا اس لیے فرمایا کہ یہ بصیرت ہدایت اور رحمت ہے لقوم یومنون ان لوگوں کے لیے جو ایمان دار ہیں اور جو ایمان نہیں لائے یعنی کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کے لیے یہ قرآن اندھا پن اور تاریکی کا باعث ہے۔
Top