Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 23
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
قَالَا
: ان دونوں نے کہا
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
ظَلَمْنَآ
: ہم نے ظلم کیا
اَنْفُسَنَا
: اپنے اوپر
وَاِنْ
: اور اگر
لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا
: نہ بخشا تونے ہمیں
وَتَرْحَمْنَا
: اور ہم پر رحم (نہ) کیا
لَنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوجائیں گے
مِنَ
: سے
الْخٰسِرِيْنَ
: خسارہ پانے والے
کہا ان دونوں (آدم اور حوا ) نے ، اے مہارے پروردگار ! ہم نے زیادتی کی ہے اپنی جانوں پر ، اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے
ربط آیات پہلے اللہ نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور جنت میں اقامت اختیار کرنے کا ذکر فرمایا یاٰدم اسکن انت وزوجک الجنۃ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو ، چلو پھر اور جہاں سے جی چاہے کھائو پیو مگر ایک درخت کے قریب نہ جانا ادھر جب شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اس کا حسد اور تکبر ظاہر ہوگیا تھا اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت لے کر چیلنج کردیا تھا کہ میں تیرے سدھے راستے میں بیٹھوں گا اور تیرے بندوں کو چاروں طرف سے گمراہ کروں گا اس وقت آدم (علیہ السلام) اور حوا جنت میں مقیم تھے اور جنت سے مراد وہی جنت الماویٰ ہے جو اللہ کے پاس ہے بعض لوگ مذکورہ جنت کو اس دنیا کے کسی باغ پر محمول کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے بلکہ یہ وہی جنت جہاں سے آدم (علیہ السلام) کو نکالا گیا اور اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو جس کا پھر وارث بنائے گا تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیاً (مریم) اس جنت کا وارث ہم اس شخص کو بنائیں گے جو کہ متقی ہوگا مطلب یہ ہے کہ جس مقام پر ابتداء آدم (علیہ السلام) کو رکھا گیا ہے وہ جنت الماویٰ ہی ہے۔ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق تو خلافت ارضی کے لیے ہوئی تھی وازقال ربک للملکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر انکشاف کیا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں اور اسے زمین پر ہی جانا تھا مگر عارضی طور پر اسے پہلے جنت میں رکھا گیا کیونکہ یہ اس کا ابدی ٹھکانا ہے اور پھر اس کی نعمتیں دکھا کر اس کی طرف رغبت دلانا بھی مقصود تھا کہ اگر نسل انسانی خلاف کا صحیح صحیح حق ادا کرے گی تو اس کا ابدی ٹھکانا یہ جنت ہوگی پھر اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بھی شامل تھ یکہ اسے زمین پر کس طریقے سے بھیجنا ہے اس سلسلہ میں شیطان کے وسوسے نے بھی اپنا کام کیا اس کی نوع انسانی سے عداوت بھی ظاہر ہوگئی اور آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارنے کا جواز بھی پیدا ہوگیا۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں رہنے کی اجازت دیتے وقت بتلا دیا تھا ان ھذا عدولک ولزوجک (طہٰ ) یہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقیٰ (طہٰ ) یہ کہیں تمہیں جنت سے نہ نکال دے پھر تم مشقت میں مبتلا ہوجائے گے اس دنیا کی زندگی میں کوئی شخص مشقت سے خالی نہیں مگر جنت میں کسی قسم کی نہ مشقت اور نہ پریشانی ہوگی نہ محنت کرکے روزی کمانے کی فکر ہوگی اور نہ کسی چیز کے مہیا کرنے کی تکلیف اٹھانا پڑے گی بلکہ ہر چیز بلامشقت حاصل ہوگی بایں ہمہ آدم (علیہ السلام) اس بات کو بھول گئے اور شیطان نے اپنا کام شروع کردیا چناچہ اس نے آدم (علیہ السلام) اور حوا کے دل میں وسوسہ ڈال کر انہیں ممنوعہ پھل کھانے پر آمادہ کرلیا وہ پھلدار درخت انجیر ، گندم یا انگور تھا اس کی تشریح موجود نہیں تاہم بعض نے اسے علم و خبر سے آگاہی کے پھل سے موسوم کیا ہے کہ بائیبل میں اسی کا ذکر ہے اور بعض مفسرین نے اسے مباثرت کا پھل بھی کہا ہے اولاد انسان کا پھل ہوتا ہے اور اس کا ذریعہ زوجین کی مباثرت ہوتا ہے لہٰذا اس پھل کو مباثرت پر بھی محمول کیا گیا ہے بہرحال جو بھی پھل تھا وہ آدم اور حوا (علیہما السلام) نے چکھ لیا کھالیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کا جنت کا لباس اتر گیا اور وہ دونوں برہنہ ہوگئے حیا چونکہ انسانی فطرت میں داخل ہے اس بےبرہنگی کی وجہ سے میاں بیوی سخت پریشان ہوئے اور ستر پوشی کے لیے انہوں نے درختوں کے پتے ٹانکنے شروع کردیے اور ان سے اپنے ستر کو ڈھانپا ادھر اللہ نے آواز دی کہ اے آدم اور حوا کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب جانے سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں آگاہ نہیں کردیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اس کے فریب میں نہ آجانا اس واقعہ کے متعلق سورة طہٰ میں آتا ہے فنسی ولم نجدلہ عزماً آدم (علیہ السلام) بھول گئے اور ہم نے ان کا ارادہ کمزور پایا تو ممانعت والی بات ان کے ذہن میں نہ رہی اور یا وہ یہ سمجھے کہ حکم امتناعی واجبی حکم نہیں ہے بلکہ محض اباحت کی بات ہے اگر یہ پھل کھا بھی لیں گے تو کوئی ایسی گرفت نہیں ہوگی ادھر شیطان نے بھی بہکانے کی قسم اٹھا رکھی تھی آدم (علیہ السلام) کا عزم کمزور پایا تو اس کا دائو چل گیا۔ انبیاء کی لغزش مفسرین کرام اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کی یہ اجتہادی غلطی گناہ میں شمار ہوتی ہے یا لغزش میں بعض فرماتے ہیں کہ یہ صغیرہ گناہ ہے اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ گناہ نہیں بلکہ معمولی لغزش ہے قرآن و حدیث میں انبیاء عہلیم السلام سے جو بھی لغزشیں مذکور ہیں وہ زلات کہلاتی ہیں اور یہ ایسی چیز ہے جو صغیرہ گناہ سے بھی کم درجہ ہوتی ہے ظاہر ہے گناہ کا کام وہ ہوتا ہے جو ارادے اور مشیت سے کیا جائے اور انبیاء عہلیم السلام کو عصمت کی گارنٹی حاصل ہوتی ہے لہٰذا وہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرسکتے البتہ بلا ارادہ چھوٹی موٹی خطا کا سرزدہ ہوجانا ممکن ہے اس کی مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ملتی ہے قبطی آدمی بنی اسرائیل پر زیادتی کررہا تھا آپ نے قبطی کو ایک مکا رسید کیا جس سے وہ ہلاک ہوگیا مکہ کی ضرب شدید تھی یا آدمی کمزور تھا جو برداشت نہ کرسکا ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ارادہ قتل کا نہیں تھا اس لیے وہ بھی گناہ میں شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو مظلوم کی امداد تھی تاہم موسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سخت پشیمانی ہوئی قیامت والے دن جب تمام لوگ سفارش کے لیے کہیں گے تو آپ جواب دیں گے کہ میرے ہاتھ سے ایک آدمی مارا گیا تھا حالانکہ لم اومر بقتلھا مھجے اس کے متعلق کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا لہٰذا میں اللہ کے حضور سفارش کے لیے حاضر نہیں ہوسکتا الغرض اہل سنت والجماعت اس امر پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کو صغیرہ یا کبیرہ ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے البتہ ان سے لغزش سرزد ہوسکتی ہے۔ چونکہ انبیائے کرام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا انتظام ہوتا ہے اس لیے ان کی معمولی لغزش بھی قابل گرفت ہوتی ہے مولانا شاہ اشر فعلی تھانوی (رح) اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جس قدر کسی کو اللہ کا قرب حاصل ہو اسی قدر وہ لغزش پر قابل مواخذہ بھی ہوتا ہے کوئی دوسرا آدمی کوئی بڑے کام کا ارتکاب بھی کر بیٹھے تو اتنا قابل گرفت نہیں ہوتا جتنا ایک قریبی آدمی ہوتا ہے انبیائے کرام چونکہ مقربین الٰہی ہوتے ہیں اس لیے انہیں معمولی لغزش پر بھی سخت تنبیہ ہوجاتی ہے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ موجود ہے ایک نابینا صحابی سے ذرا سی بےاعتنائی برتی تو اللہ تعالیٰ کی آیات نازل ہوگئیں عبس وتولیٰ ، ان جاء ہ الاعمیٰ (سورۃ عبس) اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت یونس (علیہ السلام) وغیرہم پر بھی ابتلا آئی مولانا رومی (رح) نے بھی اس بات کو اپنے انداز میں بیان کیا ہے ؎ بود آدم دیدہ نور قدیم موئے در دیدہ بود کوہ عظیم آدم (علیہ السلام) تو نور قدیم کی آنکھ تھے ان کی آنکھ میں بال بھی پہاڑ بن گیا حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ کامل الایمان مومن وہ ہوتے ہیں جو معمولی غلطی اور صغیرہ گناہ کو بھی بڑا گناہ خیال کرکے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں گرفت نہ ہوجائے اس کے برخلاف منافق کی حالت یہ ہے کہ وہ بڑے سے بڑے گناہ کو بھی ایسا ہی سمجھتا ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھ جائے تو آدمی آسانی سے اڑا دیتا ہے آدم (علیہ السلام) چونکہ شان رفیع کے مالک تھے اس لیے اس غلطی پر فوراً پریشان ہوگئے اور یہی مٹی کی خاصیت ہے کہ اس میں عاجزی ، انکساری ، تواضع ، فروتنی ، حلم اور برد باری پائی جاتی ہے چناچہ اس غلطی پر حضرت آدم (علیہ السلام) فوراً اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ معافی کی درخواست تفسیری روایات میں آتا ہے کہ جنت سے نکلنے کے بعد آدم (علیہ السلام) تین سو سال تک اپنی لغزش پر روتے رہے اور اس کے بعد جیسا کہ سورة بقرہ میں آتا ہے ” فتلقیٰ آدم من ربہ کلمت فتاب علیہ “ آدم (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے جن کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بدعا ہوئے یہ وہی کلمات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر بیان فرمایا ہے قالا ربنا ان دونوں نے کہا ، اے ہمارے پروردگار ! یہاں پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے ذریعے ہی درخواست کی یہ وہی صفت ہے جس میں کسی بھی شخص کی بتدریج تربیت کا مفہوم پایا جاتا ہے اور عام طور پر دعائوں میں لفظ ربنا سے ہی اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا جاتا ہے جیسے ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار ، اسی طرح آدم اور حوا (علیہا السلام) نے عرض کیا کہ اے ہمارے پروردگار ظلمنا انفسنا ہم نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے اپنی غلطی کا فوراً اقرار کرلیا شیطان کی طرح کوئی حجت بازی نہیں کی بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کیا وان لم تغفرلنا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا وترحمنا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا لنکونن من الخسرین تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے تیری رحمت کے سوا ہمارا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا ہم تیری مہربانی کے محتاج اور تیری رحمت کے طلب گار ہیں انسان کی شان و بلندی عاجزی اور انکساری میں ہی ہے لہٰذا ایمان والے کا شیوہ یہی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھے اور غرور وتکبر کے قریب تک نہ جائے چناچہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا نے یہی طرز عمل اختیار کیا دوسری جگہ موجود ہے فتاب علیہ (بقرہ) اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا اب اس لغزش پر گرفت نہیں ہوگی تاہم وہ فتشقیٰ کے مصداق اس دنیا میں آکر مشقت کی زندگی میں پڑگئے آپ ایک ہزار برس تک زمین میں موجود رہے اور مشقت کی زندگی گزاری بہرحال اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ اور بعض دیگر سورتوں میں بھی وضاحت فرما دی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو اسی وقت بتا دیا تھا کہ اگر جنت میں دوبارہ آنے کی خواہش ہے تو پھر ایمان اور تقویٰ کا سامان ساتھ لانا ہوگا۔ باہمی دشمنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا قال اھبطوا زمین پر اتر جائو اور وہاں پر تمہیں تین چیزیں پیش آئیں گی پہلی بات یہ ہوگی بعضکم لبعض عدو بعض تمہارے بعض کے دشمن ہوں گے ان ” بعض “ سے آدم (علیہ السلام) اور شیطان بھی مراد ہوسکتے ہیں اور اس کا مطلب عام انسان بھی آپس میں ہو سکتے ہیں شیطان تو ابتداء سے ہی انسان کا حریف ہے اسے الی یوم الوقت المعلوم (الحجر) مہلت مل چکی ہے لہٰذا وہ انسان کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تاہم انسانوں کی آپس میں دشمنی او عداوت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس عداوت کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں ہی سے ہوگئی تھی سورة مائدہ میں تفصیل موجود ہے کہ شادی کے مسئلہ پر ایک بیٹا دوسرے کا دشمن ہوگیا اور آخر اسے قتل ہی کردیا یہ دشمنی قیامت تک انسانوں میں قائم رہے گی کبھی دو خاندانوں میں عداوت ہوتی ہے تو کبھی دو برادریوں میں کبھی دو قومیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوتی ہیں تو کبھی دو سلطنتوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے اور بیٹا باپ سے عناد رکھتا ہے اسی لیے فرمایا بعض تمہارے بعض کے دشمن ہوں گے اور اس دشمنی میں شیطان کا ہاتھ بھی ہے اور خود انسانوں کی اپنی کوتاہی بھی شامل ہے البتہ کامیاب وہی ہوگا جو ان کمزوریوں اور کوتاہیوں سے بچ کر نکل جائے گا۔ زمین بطور قرار گاہ اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ فرمائی ولکم فی الارض مستقر و متاع الیٰ حین تمہارے لیے زمین میں ٹھکاتا ہے اور ایک وقت تک نفع اٹھانے کا سامان ہے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر بھیجنے سے پہلے بتا دیا تھا کہ نوع انسانی کا مستقر اور دارالعمل زمین ہی ہے اسی لیے حص جصین کی روایت میں آتا ہے کہ مردے کو دفن کرتے وقت یہ کلمات پڑھو بسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ ، منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً آخری۔ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر اسی میں لوٹائیں گے اور پھر اسی سے دوسری مرتبہ اٹھائیں گے یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بات بیان فرمائی ہے کہ تمہاری قرار گاہ زمین کو بنایا گیا ہے جہاں تم ایک خاص وقت تک مستفید ہوگے نیز زمین کے علاوہ اور کوئی جگہ تمہارے رہنے کے لیے نہیں ہوگی اگر ہوگی تو محض عارضی ، وگرنہ تمہارا اصل ٹھکانا زمین ہی ہے آدمی بعض اوقات چند گھنٹوں کیلئے فضا میں پرواز کرتا ہے اور زمین سے اس کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے مگر یہ عارضی علیحدگی ہوتی ہے بالآخر اسے زمین پر ہی واپس آنا ہوتا ہے اور اگر خدانخواستہ فضا میں کوئی حادثہ پیش آجائے انسان ہلاک ہوجائے اور اس کے اعضا منتشر ہوجائیں تب بھی اس کے بچے کھچے اجزا زمین پر ہی آتے ہیں ایسی چیزوں کی نوعیت عارضی ہوتی ہے ایسے شاذ واقعات کو عام قانون پر محمول نہیں کیا جاسکتا لہٰذا انسان کا اصل ٹھکانا زمین ہی ہے۔ موجودہ سائنسی دو میں لوگ لمبے عرصہ تک فضا میں پرواز کرتے رہتے ہیں بلکہ زمین سے قریب ترین سیارے چاند پر انسان پہنچ چکا ہے مگر یہ سب کچھ عارضی مدت کے لیے ہے اور جو شخص خلائی پرواز پر جاتا ہے وہ بالآخر زمین پر ہی واپس آتا ہے وہاں اس کی مستقل رہائش کا کوئی بندوبست نہیں ہوسکتا سائنسدانوں کے بیان کے مطابق چاند پر جانے کے لیے جس خلائی لباس کی ضرورت ہے وہ چار لاکھ روپے میں تیار ہوتا ہے کیونکہ چاند کے بعض حصوں میں اس قدر گرمی ہے کہ عام لباس میں انسان وہاں ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا فوراً جل کر کوئلہ بن جائے اسی طرح چاند کے بعض حصوں میں سردی انسان کے لیے ناقابل برداشت ہے پھر یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ چاند پر ایک پونڈ انسانی خوراک پہنچانے کے لیے تیس ہزار پونڈ خرچ آئے گا ظاہر ہے کہ ان حالات میں زمین سے باہر چاند پر بھی مستقل رہائش ناممکن ہے چہ جائیکہ باقی سیاروں مریخ وغیرہ کی بات کی جائے جو زمین سے کروڑوں میل دور ہیں اور جن کی سائنس دان ابھی تک محض تصویر کشی ہی کر پائے ہیں مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ خرق عادات کے طور پر کسی کا زمین سے باہر ہونا اس آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ تو عام انسان کی بات ہے کہ زمین کے علاوہ اس کا کہیں ٹھکانا نہیں بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اس وقت دوسرے آسمان پر اقامت پذیر ہیں اور جیسا کہ معراج کے واقعہ میں آتا ہے حضور ﷺ کی ان سے ملاقات بھی ہوئی مگر یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحت کے تحت ہوا ہے اور پھر بالآخر ایک مدت کے بعد انہیں بھی زمین پر واپس آنا ہے یہیں فوت ہوں گے اور اسی مٹی میں دفن ہوں گے۔ زندگی موت اور بعثت تیسری بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی قال فھا تحیون تم اسی زمین میں زندہ رہو گے یہی مشقت اور عملی زندگی ہے اسی زندگی میں ا پنا اصل مقام جنت حاصل کرنے کی سعی کرنا ہوگی وفیھا تموتون اپنی زندگی کی مدت پوری کرنے کے بعد اسی زمین میں تمہاری موت واقع ہوگی اور اسی میں دفن ہوگے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ” ثم اماتہ فاقبرہ (سورۃ عبس) پھر اس کو موت دی اور قبر میں دفن کرایا انسان کے لیے عام قانون یہی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں ہابیل اور قابیل سے لے کر آج تک زمین میں ہی دفن ہوتے آرہے ہیں اگر کوئی شخص سمندر کی لہروں کی نذر ہوگیا ، جلا دیا گیا یا کسی درندے کے پیٹ میں چلا گیا پھر اس کے اجزا بالآخر زمین ہی کا حصہ بنتے ہیں اور جیسا کہ پہلے عرض کیا اس قسم کے واقعات بہت قلیل ہوتے ہیں اس لیے عام کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور انسان کا تعلق کسی نہ کسی طرح زمین سے قائم رہتا ہے۔ فرمایا تم اسی زمین میں زندہ رہو گے اسی میں مرو گے ومنھا تخرجون اور پھر اسی زمین سے دوبارہ نکالے جائو گے جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو تمام مردے اٹھ کھڑ ہوں گے اور میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے اس کے بعد محاسبے کا عمل شروع ہوگا یہ زمین ختم ہوجائے گی ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ (ابراہیم) پھر اس کی جگہ نئی زمین لائی جائے گی پل صراط کی منزل اور محاسبے کے دوسرے معاملات اس نئی زمین پر طے ہوں گے اور پھر وہاں سے ابدی ٹھکانے جنت الماویٰ تک پہنچیں گے جہاں سے آدم (علیہ السلام) کو نکالا گیا تھا۔
Top