Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کس حَرَّمَ : حرام کیا زِيْنَةَ اللّٰهِ : اللہ کی زینت الَّتِيْٓ : جو کہ اَخْرَجَ : اس نے نکالی لِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتِ : اور پاک مِنَ : سے الرِّزْقِ : رزق قُلْ : فرمادیں هِىَ : یہ لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي الْحَيٰوةِ : زندگی میں الدُّنْيَا : دنیا خَالِصَةً : خالص طور پر يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن كَذٰلِكَ : اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : گروہ کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
اے پیغمبر ! کہہ دیجیے ، کس نے حرام قرار دیا ہے اللہ کی زینت کو جو اس نے نکالی ہے اپنے بندوں کے لئے اور پاکیزہ چیزیں رزق سے۔ آپ کہ دیجیے یہ چیزیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں اور یہ خالص ہوں گی ان کے لئے قیامت کے دن ، اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں آیتیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت زینت اختیار کرنے کا حکم دیا تھا اس ضمن میں ستر پوشی کو اولیت حاصل ہے سترپوشی انسان کے لیے ہر وقت ضروری ہے مگر نماز کے لیے تو اس کا خاص طور پ اہتمام ہونا چاہیے اس کے برخلاف برہنہ طواف کرنے والوں کی مذمت بیان کی گئی اور واضح کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ بات شیطان نے مشرکین کے ذہنوں میں ڈال رکھی ہے کہ جس لباس میں ہم روزمرہ کے کام انجام دیتے ہیں اور گناہوں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں وہ لباس اللہ کے پاک گھر کے طواف کے لیے مناسب نہیں چناچہ اس کے لیے وہ مکہ کے پیرزادوں سے عاریتاً حاصل کرتے تھے یا پھر برہنہ طواف کو ترجیح دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے اسے بےحیائی قرار دے کر اس سے منع فرمایا اور پردہ پوشی کا حکم دیا یہ مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ جسم پردہ میں شامل ہے اور اس کا ڈھانپنا فرض عین ہے البتہ عورت کے لیے اس کا سارا جسم پردہ ہے سوائے ہاتھوں اور چہرے کے عورت کے لیے ہر وقت باپردہ رہنا ضروری ہے اور نماز کے لیے اس کا خاص اہتمام ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ نے بےحیائی کے کاموں سے منع فرمایا اور کھانے پینے کی اجازت دی اور اسراف سے روکا۔ حلت و حرمت کی بنیاد اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور واضح کردیا ہے کہ حلال یا حرام وہ چیز نہیں جو تمہارے ذہن کی اختراع ہو بلکہ کسی چیز پر حلت و حرمت کا حکم لگانا اللہ تعالیٰ کی ذات کا کا م ہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین کے کچھ بگڑے ہوئے لوگ تو ترک دنیا اختیار کرلیتے تھے کچھ عبادت بھی کرتے تھے مگر مشرک ہی ہوتے تھے وہ متخنث کہلاتے تھے احبار اور رہبان قسم کے یہ لوگ اپنی مرضی سے بعض حلال اور جائز چیزوں کو بھی ناجائز قرار دے دیتے تھے وہ نہ تو اچھے لباس کو جائز قرار دیتے تھے اور نہ اچھی خوراک کو بلکہ انہوں نے یہ چیزیں ازخود اپنے آپ پر حرام کررکھی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا ہے اور اچھے لباس اور اچھی خوراک کو حسب توفیق جائز قرار دیا ہے جب تک کہ ان میں حرام کی ملاوٹ نہ ہو ، چناچہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے البسوا ماشئتم جو لباس تمہارا جی چاہے پہنو جس میں تکبر اور اسراف نہ ہو ، حرام لباس کی بھی اجازت نہیں ، نفیس اور قیمتی لباس بھی اگر حلال ذرائع سے میسر ہو تو پہن سکتا ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے ایک جوڑا خریدا تھا جس کی قیمت ستائیس اونٹیاں تھی اسی طرح یہ بھی آتا ہے کہ دومتہ الخبدل کے حاکم اکیدر نے آپ کی خدمت میں ایک جوڑا بھیجا تھا جس قیمت 35 اونٹ کے برابر تھی آپ نے یہ لباس بھی زیب تن فرمایا تاہم عام طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت مبارک تھی کہ سادہ لباس پہنتے تھے آپ نے عمدہ لباس پہننے کے لیے کبھی تکلف نہیں فرمایا۔ تکبر کی تعریف حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ جب آپ نے تکبر کی مذمت بیان فرمائی تو لوگوں نے دریافت کیا حضور ! ان یکون لہ توباً حسانا ونعلہ حسناً ومرکبہ حسناً یعنی اگر کسی شخص کا لباس اچھا ہو جوتا اچھا ہو اور سواری اچھی ہو تو یہ کیا تکبر کی علامت ہے ؟ فرمایا نہیں بلکہ یہ تو جمال کی نشانی ہے اللہ جمیل ویحء الجمال اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے اور وہ جمال کو پسند کرتا ہے ولکن الکبر غمط الناس وبطرالحق بلکہ تکبر یہ ہے کہ لوگوں کو حقیر سمجھا جائے اور حق بات کو ٹھکرا دیا جائے کس یدوسرے کو مال میں کمی کی وجہ سے حقیر جانے یا خاندانی کمتری خیال کرے یہ تکبر کی نشانی ہے اسی طرح کوئی شخص اپنے آپ کو علم میں اعلیٰ اور دوسرے کو حقیر سمجھے تو یہ بھی تکبر ہے کوئی شخص اچھے مکان اور اچھی سواری کی وجہ سے تکبر کرے اور دوسرے کو حقیر جانے تو وہ بھی اسی صف میں شامل ہوگا اور تکبر ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قطعی حرام قرار دیا ہے۔ مباح اور ناجائز زینت چونکہ متخنثین نے اچھے لباس اور اچھی خوراک کو ازخود حرام قرار دے رکھا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ کس نے حرام قرار دیا ہے اللہ کی زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے زینت کی اولین چیز انسان کا لباس ہوتا ہے نہانا دھونا ، میل کچیل صاف کرنا ، دھلا ہوا ستھرا لباس پہننا ، خوشبو لگانا ، تیل استعمال کرنا ، سرمہ لگانا ، عورتوں کو مہندی لگانا یہ سب زینت کی چیزیں ہیں اور بالکل جائز ہیں ان کو حرام قرار دینے والا کون ہے ؟ یہ تو پسندیدہ چیزیں ہیں البتہ اگر تکلیف اٹھا کر اپنی وسعت سے زیادہ زیب وزینت کا اہتمام کیا جائے تو وہ درست نہیں اسی طرح عورتیں اپنے بال لمبے ظاہر کرنے کے لیے دوسری عورتوں کے بال استعمال کریں تو یہ ممنوع امر ہے دانت صاف کرنے کے لیے مسواک یا کوئی دوسری چیز استعمال کرنا درست ہے مگر غیر موزوں قدرتی دانتوں کو ربگڑوا کر درست کرنا یا ان کی جگہ خوبصورت دانت لگوانا یا دانتوں پر سونے چاندی کا خول چڑھانا بناوٹی زینت میں شمار ہوتا ہے اور قبیح فعل ہے عام حالات میں اگر دانت ضائع ہوجائیں تو ان کی جگہ نئے دانت لگوائے جاسکتے ہیں مگر محض رینت کی خاطر دانتوں کے درمیان فاصلہ قائم کرنا ، گھنے ابرئوں کو کشادہ کرنا جسم کے کسی حصے پر داغ کے ذریعے پھول بوٹے بنوانا درست نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے جائز طریقے سے زیب وزینت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ پاکیزہ رزق اللہ نے فرمایا واطیبت من الرزق روزی میں سے پاکیزہ چیزیں کس نے حرام قرار دی ہیں ؟ حلال ، لذیذ ، عمدہ اور ستھرا کھانا ہو تو اس کو کون حرام کہے گا اللہ تعالیٰ نے تو ایسی روزی کو حلال قرار دیا ہے مگر اس میں بھی تکلف نہیں کرنا چاہیے اپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھانا چاہیے البتہ حرام اور مشتبہ چیز کو کھانے کی اجازت نہیں مگر راہب لوگوں نے تو جائز روزی کو حرام کررکھا ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں البتہ بعض آدمی مصلحت کی خاطر اچھے لباس اور اچھے کھانے سے پرہیز کرتے ہیں وہ جائز ہے مثلاً حضرت عمر فاروق ؓ عمدہ لباس محض اس لیے نہیں پہنتے تھے کہ ان کی دیکھا دیکھی ان کے عمال اسے فیشن کے طور پر نہ اختیار کرلیں آپ پیوند زدہ کپڑے پہنتے تھے معمولی کھانا کھاتے تھے تاکہ لوگ ان کی پیروی کریں اور تکلیف میں نہ پڑیں اگر آپ کے کسی حاکم نے اعلیٰ لباس پہنا تو آپ نے ڈانٹ پلائی کہ تمہیں دیکھ کر باقی لوگ بھی ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر یہ تکلیف کا باعث ہوگا ملوکیت میں یہی تو لعنت ہوتی ہے کہ ان کے پیش نظر عیاشی ہوتی ہے اور پھر عام لوگ بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں کیونکہ مشہور مقولہ ہے الناس علیٰ دین ملوکھم یعنی لوگ اپنے ملوک کے طریقے پر ہی چلتے ہیں۔ بعض بزرگان دین کے پیش نظر بھی یہی مصلحت رہی کہ کہیں لوگ تعیش میں نہ پڑجائیں لہٰذا انہوں نے سادہ خوراک اور معمولی لباس استعمال کیا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمدہ ضروریات زندگی ناجائز ہیں بہت سے متقدین خوش پوشی کی مثال بھی پیش کرتے ہیں امام حسین ؓ نے شہادت کے وقت پشم کا لباس پہنا ہوا تھا امام حنیفہ (رح) نے چار سو درہم کی چادر اوڑھی ، امام محمد (رح) بھی اچھا اور عمدہ لباس پہنتے تھے امام ابوالحسن شاذلی (رح) اور مولانا شاہ شرفعلی تھانوی (رح) بھی خوش پوشی کا نمونہ تھے یہ زینت ہے اور اللہ نے اسے حلال قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صاحب استطاعت آدمی اگر محض اللہ کی رضا کی خاطر معمولی لباس پر اکتفا کرتا ہے تو وہ شخص بلند مرتبت ہے اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ اجر دے گا بعض لوگ دوسروں کو اچھا لباس پہنا کر خوش ہوتے ہیں وہ بھی عنداللہ ماجور ہوں گے امام ابوحنیفہ (رح) کپڑے کے صنعتکار اور بہت بڑے تاجر تھے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی وسعت عطا کی تھی آپ خود بھی اچھا پہنتے تھے اور اسلام کے راستے میں بھی دل کھول کر خرچ کرتے تھے غریب غربا ، علما اور طلبا کی خدمت کو باعث سعادت سمجھتے تھے امام حسین ؓ کے فرزند امام زین العابدین ؓ اعلیٰ کپڑا پہنتے اور کچھ دیر استعمال کے بعد کسی غریب کو دے دیتے ایک دفعہ آپ نے بڑا قیمتی کمبل خریدا اور پھر صدقہ کردیا بہرحال جائز زینت اختیار کرنا روا ہے اور اسی طرح پاکیزہ اور حلال روزی کھانے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے۔ ان انعامات کے مستحقین اچھی زینت اور پاکیزہ کھانے ک استحاق کے متعلق فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں ھی للذین امنو فی الحیوۃ الدینا یہ نعمتیں دنیا کی زندگی میں اہل ایمان کے لیے ہیں وہ انہیں استعمال کرسکتے ہیں خالصۃ یوم القیمۃ اور قیامت والے دن خاص طور پر ایمان والوں کے لیے ہوں گی مقصد یہ ہے کہ اچھا لباس اور اچھی خوراک دنیا میں تو اہل ایمان کے علاوہ کافر ، مشرک ، دہریے ، ملحد اور منکرین خدا کو بھی میسر ہیں انہیں بھی استعمال کرنے کی اجازت ہے مگر قیامت کو یہ چیزیں اہل ایمان کے لیے خاص ہوں گی وہاں منکرین ان سے استفادہ نہیں کرسکیں گے بلکہ وہ تو عذاب میں مبتلا ہوں گے بعض فرماتے ہیں کہ اس حصہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو یہ نعمتیں بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی بھی ہیں تو دائمی نہیں ہوتیں ان ک چھن جانے کا ہر لمحہ امکان ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو انسان کی اپنی موت تو ہر وقت سر پر سوار رہتی ہے جونہی موت کا بگل بچ گیا سب کچھ ختم ہوگیا لہٰذا دنیا میں یہ نعمتیں بالکل عارضی ہیں اس کے برخلاف آخرت کی نعمتیں دائمی ہوں گی اور بغیر کسی مشقت کے حاصل ہوں گی ان کے چھن جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ فرمایا کذلک نفصل الایت لقوم یعلمون اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں آئتیں یعنی احکام ان لوگوں کے لیے جو علم اور سمجھ رکھتے ہیں صاحب عقل لوگ سمجھ جائیں گے کہ مشرکوں کا طریقہ غلط ہے اللہ کی حلال کردہ اشیا حلال اور قابل استعمال ہیں تاہم اس نے ساتھ یہ پابندی لگا رکھی ہے کہ اس کی نعمتوں کو استعمال کرکے ان کا شکریہ بھی ادا کرو۔ حرام اشیاء آگے اللہ تعالیٰ نے بعض حرام چیزوں کی تفصیل بیان فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں انما حرم ربی الفواحش بیشک حرام قرار دیا ہے میرے رب نے بےحیائی کو اور اس میں زنا ، لواطت ، عریانی ، نیم عریانی ، گالی گلوچ ، بخل ، بداخلاقی ، فحش گانے اور ناول وغیرہ سب شامل ہیں ان چیزوں سے انسان کا اخلاق برباد ہوتا ہے فرمایا ہر فحش بات حرام ہے ماظھرمنھا وما بطن خواہ وہ ظاہر ہو یا پوشیدہ ہو انگریز کے قانون میں تو برائی وہ ہے جسے سرعام کیا جائے اور اندرون خانہ انجام دی گئی برائی پر کوئی مواخذہ نہیں ہوتا مگر اسلام میں ہر ظاہر اور پوشیدہ برائی بہرحال برائی اور قابل مواخذہ ہے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ فحاشی کے علاوہ والا ثم گناہ کی ہر بات بھی حرام ہے چوری ، جوا ، شراب نوشی ترک فرائض وغیرہ سب گناہ میں شامل اور حرام ہیں فرمایا والبغی بغیرالحق اور ناحق سرکشی بھی حرام ہے کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنا کسی کا ناحق مال کھانا ، کسی کا حق غصب کرنا ، تہمت لگانا ، یہ سب اسی مد میں آتے ہیں لہٰذا یہ بھی حرام ہیں اللہ نے فرمایا وان تشرکوا باللہ مالم ینزل بہ سلطناً اور یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرائو جن کے بارے میں اس نے کوئی دلیل نازل نہیں کی شرک بھی قطعی حرام اور اکبر الکبائر میں شامل ہے مشرکین بہت سی باتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف ناحق منسوب کرتے تھے جیسا کہ گزشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ وہ برہنہ طواف کو اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے یا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے وہ بعض جانوروں کو ازخود حرام قرار دے کر اس کی نسبت اللہ کی طرف کردیتے تھے کہ اللہ نے ایسا ہی حکم دیا ہے فرمایا وان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون یہ بھی حرام ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر وہ بات کہو جو تم نہیں جانتے مثلاً خدا کے لیے بیوی اور اولاد کا ثابت کرنا یا ایسی چیزوں کی حلت و حرمت اللہ کی طرف منسوب کرنا جو فی الحقیقت اس نے نہ کی ہو بعض رسومات باطلہ کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں حالانکہ اللہ نے ان کا حکم نہیں دیا ہوتا سب چیزیں حرام ہیں۔ گناہوں کے اثرات مفسرین کر امفرماتے ہیں کہ مختلف گناہوں کے اثرات اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں مثلاً زنا کی وجہ سے نسب میں خرابی پیدا ہوتی ہے اسی لیے زنا کو فحش قرار دیا گیا ہے شراب نوشی سے انسان کی عقل خراب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے گالیاں بکتا ہے اور قتل و غارت کا مرتکب ہوجاتا ہے شراب جیسی قبیح چیز کے متعلق کہا گیا ہے الخمر جماع الاثم شراب تمام گناہوں کی جامع ہے عربی میں شراب کو مجسم گناہ بھی کہا جاتا ہے جیسے ؎ شربت الاثم حتی ضل عقلی کذک الاثم یھذب بالعقول میں نے شراب نوشی کی حتیٰ کہ میری عقل جاتی رہی یہ شراب عقل کو اسی طرح گم کردیتی ہے شراب کے علاوہ بھنگ ، چرس ، ہیروئن وغیرہ تمام نشہ آور چیزیں ہیں جو دماغ میں فتور پیدا کرتی ہیں۔ سرکشی جیسے قبیح گناہ کی وجہ سے انسان کی عزت و آبرو خراب ہوجاتی ہے جب کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتا ہے کسی کا مال چھینتا ہے کسی کو قتل کرتا ہے گالی نکالتا ہے تو یہ چیزیں اسے بےآبرو کرکے رکھ دیتی ہیں شرک کا ارتکاب کرنے سے انسان کی روح ناپاک ہوجاتی ہے انما المشرکون نجس بیشک شرک کرنے والے ناپاک ہیں وہ اگرچہ بظاہر صاف ستھرے ہوں مگر ان کی روحیں ناپاک ہوتی ہیں اسی طرح غیر اللہ کی نیاز کھانے والوں کا باطن پلید ہوجاتا ہے یہ مختلف قسم کے گناہ ہیں اور حرام ہیں ان سے بچنا چاہیے البتہ اچھا لباس پہنو ، پاک کھانا کھائو ، خدا تعالیٰ کی عبادت کرو اس کا شکریہ ادا کرو۔ مقررہ وقت فرمایا ولکل امۃ اجل ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس طرح ایک فرد اپنی زندگی کے ایام پورے کرکے رخصت ہوجاتا ہے اسی طرح ہر قوم اور گروہ بھی اپنے وقت پر ختم ہوجاتا ہے فرد کی نسبت قوموں کی عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں بعض قومیں دنیا میں ہزاروں سال تک بڑی دھوم دھام سے برسر عروج رہتی ہیں پھر جب ان میں اسباب حیات کمزور پڑجاتے ہیں تو وہ مغلوب ہوجاتی ہیں یا دنیا سے بالکل مٹ جاتی ہیں مسلمان دنیا میں صدیوں تک چھائے رہے مگر اب الخطاط پذیر ہیں ان میں وہ اخلاق باقی نہیں رہا جس سے قومیں زندہ رہتی ہیں اب ان کی حالت مردہ قوم کی سی ہے دنیا میں کہیں بھی وقار حاصل نہیں دنیا میں اس وق مسلمانوں کی پچاس ریاستیں ہیں مگر فرداً فرداً سب دوسروں کی دست نگر ہیں اس انحطاط کے باوجود مسلمانوں میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا شعور موجود ہے مگر اس کے لیے جس محنت وسعی کی ضروت ہوے وہ منقود ہے اگر مسلمان اجتماعی طور پر کوشش کریں تو نشاۃ ثانیہ میں عزت و وقار حاصل کرسکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں قوموں کے عروج وزوال کا خوب حال بیان کیا ہے قوموں کی خوبیاں اور خامیاں بھی بیان کی ہیں اور زوال کے اسباب کی نشاندہی بھی کی ہے آپس کی فرقہ بندی ، لڑائی بھڑائی ، جہالت وغیرہ ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے قومیں اپنا مقام کھو بیٹھی ہیں اور جب ایک دفعہ گر جاتی ہیں تو پھر صدیوں تک اٹھنا محال ہوجاتا ہے۔ فرمایا ہر امت کے ایک وعدے کا وقت ہے فاذا جاء اجلھم پھر جب ان کے وعدے کا وقت آجاتا ہے لایستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون تو نہ پیچھے ہٹتے ہیں اور نہ آگے ہوتے ہیں بلکہ عین وقت پر ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے مقصد یہ کہ جب کسی قوم کی اجتماعی زندگی کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو پھر اسے مزید مہلت نہیں دی جاتی اور وہ ختم ہوجاتی ہے وقت سے پہلے واقع ہونے کی بات بابطع کی گئی ہے اصل بات یہی ہے کہ تاخیر نہیں ہوتی یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی دکاندار سے چیز کا بھائو پوچھ کر کہا جاتا ہے کہ کچھ کمی بیشی کرو اس سے مراد کمی ہی ہوتا ، بشی تو کبھی بھی مراد نہیں ہوتی اسی طرح یہاں بھی فرمایا گیا ہے کہ وقت مقررہ سے آگے پیچھے نہیں ہوتا یعنی مقررہ وقت میں تاخیر نہیں کی جاتی بلکہ عین وقت پر کام ہوجاتا ہے۔ حلال و حرام کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوموں کے وقت مقررہ کا ذکر اس لیے فرمایا ہے تاکہ مذکورہ حلت و حرمت کے قوانین کی پاسداری کرو تمہارے لیے یہی نجات کا راستہ ہے اور اگر اس پر کاربند نہ رہ سکے تو پھر تمہارا مقررہ وقت تو لازماً آئے گا جس پر مہلت ختم ہوجائے گی اور تمہیں پکڑ لیا جائے گا۔
Top