Mualim-ul-Irfan - Nooh : 22
وَ مَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًاۚ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے چال لی مَكْرًا : ایک چال كُبَّارًا : بہت بڑی
اور انہوں نے تدبیر کی بہت بڑی تدبیر۔
گزشتہ سے پیوستہ : گذشتہ درس میں نوح (علیہ السلام) کی قوم کی حالت کا بیان تھا جو انہوں نے اپنی دعا میں اپنے رب کے حضور پیش کی۔ اور نہایت دکھ کے ساتھ عرض کیا یعنی اے اللہ ! میری قوم نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کا اتباع کیا جن کے مال و اولاد نے انہیں سوائے نقصان کے کچھ اضافہ نہ کیا۔ یعنی مال واولاد کی کثرت نے انہیں خود بھی دین سے محروم رکھا اور دوسروں کو بھی محروم کیا۔ اس درس کی آیات میں سے پہلی آیت میں قوم نوح (علیہ السلام) کے ان دائو پیچوں کا تذکرہ ہے جو انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھٹلانے کے لیے آزمائے۔ دوسری آیت میں انکے پانچ معبودانِ باطلہ کا بیان ہے جن کی پرستش پر وہ جمے رہے اور تیسی آیت میں نوح (علیہ السلام) نے اس گمراہی کا حال بیان کیا ہے جس میں قوم کے لوگ خود بھی مبتلا رہے اور دوسروں کو بھی بھٹکاتے رہے۔ قوم نوح کے دائو پیچ : عرض کیا کہ میری قوم نے نہ صرف یہ کہ میری نافرمانی کی اور دولت مندوں کا اتباع کای ۔ بلکہ انہوں نے تدبیر کی ، بہت بڑی تدبیر یعنی میری دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انہوں نے بڑا دائو پیچ کھیلا ۔ کہ لوگ میری بات کو نہ مانیں مکر کا معنی مخفی تدبیر ہوتا ہے۔ اور کبار مبالغہ کا صیغہ ہے۔ عظام اور قراء کے وزن پر مثلا کبیر بڑے کو کہتے ہیں۔ کبار اوسط درجے کو اور زیادہ مبالغہ کرنا ہو تو کبار بولتے ہیں یعنی ادنیٰ درجہ ، اوسط درجہ اور اعلیٰ درجہ ۔ یہ کبار مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کا معنی ہوا بہت بڑا دائو۔ تو گویا اس قوم نے نبی کی مخالفت میں بہت سے دائو چلائے جن کی تفصیل شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) نے اس طرح بیان کی ہے۔ نبوت میں شہات پیدا کرنا : شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ پہلی تدبیر انہوں نے یہ کی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت کے متعلق شبہات پیدا کیے۔ کہ یہ نبی نہیں ہوسکتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح دوسرے انبیاء کی نبوت کے متعلق مشرکین نے شک و شبہات پیدا کئے ، قرآن پاک میں ان کی تفصیل موجود ہے ۔ خود حضور ﷺ کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا ۔ اور نوح (علیہ السلام) کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی۔ یہ تو ہمارا بھائی ہے۔ ہماری برادری کا آدمی ہے ، فلاں کا بیٹا ہے ، کھاتا پیتا ہے کاروبار کرتا ہے۔ اس کے بیوی بچے ہیں یہ کیسے رسول ہو سکتا ہے۔ یہ کھانا کھانے والا اور گلیوں بازاروں میں چلنے پھرنے والا کیسے رسول ہو سکتا ہے۔ گویا انہوں نے بشریت اور انسانیت کو رسالت کے خلاف سمجھا ۔ سورة قمر میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے متعلق بھی ایسا ہی آتا ہے۔ کیا ہم اپنے میں سے ایک انسان کا اتباع کریں۔ اگر ایسا کریں گے تو ہم پاگل ہوں گے جو ایسا کریں گے اسی طرح نوح (علیہ السلام) کے متعلق کہتے تھے۔ ہم تو تمہیں بیوقوف خیال کرتے ہیں جو تمام معبود ان کو چھڑا کر ایک خدا کی عبادت کی طرف بلاتا ہے حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواب میں کہا اے میر ی قوم ! میں بیوقوف نہیں ہوں بلکہ میں تو رب العل میں کیطرف سے بھیجا ہوا ہوں تاکہ اس کا پیغام تم پہنچائوں۔ تو گویا قوم نوح کی پہلی مکاری تھی کہ وہ آپ کی نبوت کے متعلق لوگوں میں شک و شبہات پیدا کرتے تھے۔ تاکہ لوگ آپ پر ایمان نہ لائیں۔ اللہ تعالیٰ کی الوہیت سے انکار : قوم نوح کا دوسرا دائو یہ تھا کہ وہ خدا کی وحدانیت اور بعض اوقات اس کے وجود کا ہی انکار کردیتے تھے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں فرعون کے متعلق موجود ہے کہ وہ کہتا تھا ۔ یہ رب العلمین کیا چیز ہے۔ کوئی رب نہیں وہ اس قدر مغرور تھا کہ کہتا تھا میں اپنے علاوہ تمہارا اور کوئی معبود نہیں جانتا تو اس طرح گویا حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی الوہیت کا انکار کرتے تھے کہ جب خد ا کی ذات کا انکار ہوجائے گا تو اس کو بھیجنے والے نبی کی خود بخود ہی تکذیب ہوگی۔ تو گویا کی یہ بھی ایک صورت تھی۔ مظہر خدا کا عقیدہ : شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جب نبوت میں شبہات پید اکر کے یا خدا کا انکار کر کے بھی ان کی چال کامیاب نہ ہوتی ، تو وہ ایک اور حربہ استعمال کرتے ۔ کہتے ہم مان لیتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور آپ اس کے رسول بھی ہیں مگر جن کی ہم پوجا ر کرتے ہیں ان کے اندر بھی خدا کا ہی وجود ہے تو ہمیں ان کی پوجا سے کیوں ہٹاتا ہے۔ یہ بھی تو مظہر خدا ہیں۔ اس پر اپگنڈا کی بنا پر جاہل لوگ سمجھتے تھے کہ یہ معبود ان بھی خد ا کے مقرب ہیں ان کی عبادت کرنے سے خدا راضی ہوگا۔ ان کے اندر خدا جلوہ گر ہے۔ یہ بھی انکی ایک چال تھی کہ لوگ نوح (علیہ السلام) کا کہنا نہ مانیں۔ مظہر خدا کا عقیدہ ہندوئوں کے اوتار والے عقیدے سے مشابہ ہے۔ یہ عقیدہ عیسائیوں ، پر ناے بابلیوں ، مشرکوں اور مصریوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ کہ خدا تعالیٰ کسی اور کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ بعض کلمہ گو مشرک بھی اس عقیدہ باطل میں مبتلا ہیں۔ جیسا کہتے ہیں ۔ وہی جو عرش پر تھا خدا ہو کر ، اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفیٰ ہوکر۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ک جلوہ گری سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ان میں الوہیت کی کوئی صفت آگئی ہے تو یہ تو باطل ہے۔ کیونکہ کسی مخلوق میں الوہیت کی کوئی بات نہیں آتی۔ الوہیت اور مخلوق متضاد چیزیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ معبود ان باطلہ اور خدا تعالیٰ میں وجود قدر مشترک ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا وجود واجب ہے یعنی اپنی ذات سے ہے۔ جب کہ ان کا وجود اللہ تعالیٰ کا پیدہ کردہ ہے۔ ایک واجب الوجود ہے اور دوسروں کا وجود ممکن ہے۔ اور ممکن الہٰ نہیں ہوسکتا ۔ ممکن ہونے میں بنی جبرئیل ، بزرگ اور ساری مخلوق برابر ہیں۔ تو ایک مخلوق دوسری مخلوق کا معبود نہیں بن سکتی ۔ جب کہ وہ سارے اپنے وجود میں خدا کی طرف محتاج ہیں۔ لہذا یہ اوتار یا مظہر خد ا کا عقیدہ سرے سے ہی باطل ہے۔ یہ عقیدہ سخت ظالمانہ اور بدترین شرک والا عقیدہ ہے۔ اپنے علم پر تکبر : نبوت کے انکار کی ایک وجہ ان کا وہ محد ود علم تھا جس پر غرور وتکبر کرتے تھے۔ قرآن پاک نے بعض بدبخت قوموں کا حال یوں بیان کیا کہ اللہ کے رسول جب واضح باتیں لے کر آئے تو بعض مشرکین اپنے علم پر اترانے لگی اور نبی کی تعلیم کا انکار کردیا۔ کہنے لگے ہمارے پاس علم موجود ہے ۔ تم ہمیں کیا سبق پڑھائو گے۔ ہم خوب جانتے ہیں۔ پر ناے رومی کہتے تھے کہ نبیوں کا وعظ و نصیحت عام لوگوں کے لیے ہوتا ہے ہم تو صاحب علم ہیں۔ حکمت و دانائی کے مالک ہیں ہمیں ایسی تعلیم کی کیا ضرورت ہے۔ اسی طرح یونانی حکماء کہتے تھے کہ ہم مہذب ، شائستہ ، اور ہدایت یافتہ ہیں۔ ہمیں نبیوں کے اتباع کی ضرورت نہیں ہے۔ اور دوسرے فلاسفر بھی کہتے رہے کہ ہم عیسیٰ (علیہ السلام) کا اتباع کیوں کریں۔ ہمارے پاس علم و حکمت کا خزانہ ہے نبی کا اتباع تو وہ کریں جو جاہل ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے۔ تو گویا اس طرح انہوں نے نبی کی پیروی سے انکار کیا۔ آج بھی اسی قسم کے لوگ موجود ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ یہ ملا لوگ قیانوسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس کیا ہے۔ ہمارے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی ہے ، فلسفہ و حکمت ہے ، علوم و فنون ہیں ، ہمارے لیے ا ن کی پرانی باتیں کیا معنی رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے ک دنیا کا جنتا بھی علم ہے وہ تجربات اور مشاورت پر مبنی ہے۔ یہ قطعی اور یقینی علم تو نہیں ہے۔ کیونکہ قطعی علم صرف نبی کے پاس ہوتا ہے۔ جو منجانب اللہ ہوتا ہے۔ باقی سارا ظن اور گمان ہے۔ سائنسی تجر بات یا مشاہدات کو علم نہیں کہہ سکتے ، نہ صنعت و حرفت ا س شمار میں آتا ہے۔ بلکہ حقیقی علم اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی کے پاس آتا ہے۔ اور اسی کا یہ انکار کرتے ہیں۔ نبی کی رسالت میں شکوک و شہبات پیدا کرتے ہیں تو گویا یہ ساری صورتیں مکرو مکراکبارا کے تحت آتی ہیں۔ معبود ان باطلہ پر اصرار : تمام انبیاء (علیہ السلام) کی طرح نوح (علیہ السلام) کی تعلیم کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ سارے معبودان باطلہ کو ترک کرکے صرف ایک خدا کی پوجا کرو۔ اس تبلیغ کے جواب میں حضرت نوح کی قوم کے سرکردہ لوگوں نے یعنی حضرت نوح کی باتوں میں آکر اپنے معبودوں کو نہ چھوڑ بیٹھنا۔ یہ شخص تم سے تمہارے معبود چھڑانا چاہتا ہے مگر تم ایسا نہ کرنا بلکہ خاص طور پر ود ، سواعم یغوث ، یعوق اور نسر کو نہ چھوڑنا۔ قوم نوح کے اور بھی معبود تھے۔ مگر یہ پانچ خاص معبود تھے جن کو نہ چھوڑنے کی تلقین کرتے تھے۔ حضور ﷺ کے متعلق بھی مشرکین نے کہا کیا تمام معبودان کو چھوڑ کر صرف ایک خد ا پر قناعت کرلیں۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ قوم ہر مقصد کے لیے الگ الگ معبود مقرر کر رکھے تھے۔ ان پانچ معبودان باطلہ کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں۔ ود : ود مودت سے ہے ، عربی میں مودت محبت کو کہتے ہیں۔ تو ود گویا محبت کا دیوتا تھا ، اسے مرد کی شکل میں بناتے تھے جو کہ بڑا قوی اور حسین و جمیل ہو ۔ مرد کو فطرتاَ عورت کی خواہش ہوتی ہے۔ اس سے مقاربت کرتا ہے تو نسل پیدا ہوتی ہے۔ تو یہ ود محبت کا دیوتا تھا۔ اس کی پرستش کرتے تھے۔ ہندو اس کو برماجی مہارج کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کائنات کو ایجاد کرنیوالا۔ سواع : سواع عربی زبان میں سکون و استقرار پر بولا جاتا ہے۔ اس کو حسن و جمال کی دیوی کہتے تھے۔ اور عورت کی شکل میں بناتے تھے۔ جس طرح عوت گھر کو چلاتی ہے ، امور خانہ داری سر انجام دیتی ہے اسی طرح یہ دیوی کائنا ت کو چلاتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا کی قیومت ، استقرار اور ثبات اسی کے دم سے ہے۔ یہ دنیا کے کاروبار کو چلاتی ہے۔ اور تھامتی ہے۔ ہندو اسے بش جی کہتے ہیں۔ یغوت : یغوث ، غوث کے مادے سے ہے جس کا معنی ہے۔ فریاد رس۔ اس کو گھوڑے کی شکل میں بناتے تھے۔ گھوڑا بڑا تیز رفتاجانور ہے۔ جہاں ضرورت ہو تیزی سے مدد کیلئے پہنچ جاتا ہے۔ غوث کا عقیدہ بھی ایسا ہے کہ جب مصیبت میں غائبانہ طور پر پکارو ، غوث صاحب فوراََ مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ انسانوں کی فریا درستی کرتے ہیں۔ اسی لیے قوم نوح کے لوگ یغوث کی پرستش کرتے تھے کہ وہ ان کی فریاد رسی کرتا تھا۔ یعوق : عق کے مادے سے ہیے جس کا معنی ہے حفاظت کرنے والا۔ تکلیف کو دور کرنے والا یہ شیر کی شکل میں بناتے تھے۔ یہ عقیدہ آج بھی موجود ہے۔ شیر خدا ، مشکل کشا کو آج بھی لوگ غائبانہ طور پر پکارتے ہیں دکن میں جگہ جگہ حضرت علی ؓ کے نام پر شیر بنائے ہوئے ہیں۔ تو یہ مشکل کشائی والا عقیدہ قوم نوح میں بھی تھا ، حالانکہ قرآن پاک میں صاف طور پر موجود ہے۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف کو کون دور کرسکتا ہے۔ تکلیف ہٹانے والا صرف اللہ ہے ، تم بیشک پکارتے رہو ، یہ بھی اسکی رضا پر منحصر ہے۔ اگر چاہے گا تو تکلیف کو رفع کر دتے گا ، وگرنہ پابند نہیں ہے۔ وہ اگر کسی کو تکلیف پہنچا نا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر خدا کسی قوم کو ذلیل کرنا چاہتا ہے ، مغلوب و محکوم کرنا چاہتا ہے۔ تو ساری دنیا مل کر بھی اس کے فیصلے کو ٹال نہیں سکتی۔ غوث کا عقیدہ اس زمانے میں بھی عام ہے۔ خواجہ بہائوالدین (رح) کے بارے میں غوث بہائو الدین کہتے ہیں ۔ غوث الاعظم حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی ہیں۔ یہ بھی غائبانہ امداد کرتے ہیں لوگوں کی فریاد رسی کرتے ہیں۔ ذرا غور کرو کہ قوم نوح اور ان لوگوں کے عقیدے میں کیا فرق ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) ولی اللہ تھے۔ ان کے ہاتھ پر سوا لاکھ آدمیوں نے توبہ کی۔ انہوں نے کفر شرک کی بیخ کنی کی۔ ان کے بارے میں یہ عقیدہ کہ وہ غائبانہ فرمادرسی کرتے ہیں کہاں کا انصاف ہے ؟ جس قدر توحید کی تبلیغ انہوں نے کی اس زمانے میں اور کسی بزرگ نے نہیں کی۔ اس کے اثرات آج تک موجود ہیں آپ ہفتے میں ایک دن جمعرات کو وعظ فریاد کرتے تھے۔ ان کے مواعظ حسنہ موجود ہیں ایک ایک حرف کو پڑھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے۔ ان کے مقالات میں توحید ہی توحید ہے۔ ان کی تصنیف فتوح الغیب پڑھ کر دیکھ کر ، شرک کی جتنی تردید انہوں نے کی ہے اس دور میں کسی بزرگ نے نہیں کی۔ آج ہی پیران پیر غوث میں انہیں فریاد رس بنایا گیا ہے ۔ بزرگوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔ عقیدت ہو کہ وہ بھی بندے تھے۔ خدا کی توحید کا درس دیتے تھے۔ لوگوں کو کفرو شرک سے ہٹاتے تھے۔ ان کی وجہ سے لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔ خواجہ بہائو الدین زکریا (رح) اپنے زمانے کے بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے اب ان کی قبر پر کتنا اونچا گنبدبنا ہوا ہے۔ قبر پر ہر منٹ میں پانچ آدمی سجدہ کرتے ہیں۔ کیا و ہ یہی کام کرتے تھے۔ العیاذ باللہ۔ انہوں نے تو مشرکانہ عقائد کو جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا۔ کیا ہو کہہ گئے تھے کہ میری قبر پر گنبد بنالیا ؟ یہ تو بعد میں بادشاہوں نے بناڈالے اور یہ اڈے قائم ہوگئے۔ کیا خواجہ معین الدین اجمیری (رح) کہہ گئے تھے کہ میرا گنبد بنانا ، قبر کو پختہ کرنا ، چپس لگانا ، اور جگہ جگہ لائٹ جلائی جارہی ہے۔ قبر پر پنکھے چلائے جا رہے ہیں۔ عقل کا تو بالکلہی دیوالیہ نکل گیا۔ قبر کے اوپر ہوا کے پنکھے لگانے کا کیا فائدہ ۔ عجیب عقیدہ ہے جو ملنگ مرگیا۔ اس کی قبر بنالی ، گنبد بنالیا۔ یہاں وہ دیوانہ بیچارہ مر گیا۔ مجذوب تھا پاگل تھا۔ ا ب اس کا گنبد بنالیا ہے۔ پوجا شروع ہوگئی ہے۔ حکومت ایسی خرافات کی سرپرستی کرتی ہے ، خود گنبد بناتی ہے۔ اور لوگوں کو خرافات کی ترغیب دیتی ہے۔ حالانکہ حکومت کا کام ان چیزوں کو مٹانا تھا۔ مگر ہو کیا رہا ہے۔ چادریں چڑھائو ، گلاب کے پانی سے قبروں کو غسل دو ، عرس جمائو ، قوالی کر ائو ، اسراف کرو۔ لوگ سجدے کرتے ہیں ، کرتے رہیں ، جہنم میں جائیں ، حکومت کو ٹیکس سے غرض ہے ان اڈوں کی آمدنی حکومت اپنی مدوں میں خرچ کرتی ہے۔ کچھ کلر ک کھا جاتے ہیں کچھ نوکر کھاتے ہیں۔ نسر : نسر گدھ کو کہتے ہیں ، گدھ کی عمر بڑی لمبی ہوتی ہے۔ یہ بڑا طاقتور پرندہ ہے۔ اس کی نگاہ بھی بڑی تیزی ہوتی ہے۔ تو یہ معبود گدھ کی شکل میں بناتے تھے۔ کہتے تھے یہ بڑی تیزی سے مدد کے لیے پہنچتا ہے۔ یہ عمرکا دیوتا ہے ۔ اس کی وجہ سے عمر لمبی ہوتی ہے۔ معبود کیسے بنے : مذکورہ پانچ قس کے معبود قونوح میں پائے جاتے تھے۔ حضر ت عروہ (رح) بن زبیر ؓ کی روایت میں ہے کہ یہ پانچوں آدم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ ود ان میں بڑا تھا۔ یہ سارے نیک اور صالح لوگ تھے ۔ جب یہ مر گئے اور کچھ زمانہ گزر گیا۔ تو شیطان نے لوگوں کو اس طرف راغب کیا اور انہوں نے ان کے مجسمے بنالیے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ دو ، سواع ، یغوث ، یعوق ، اور نسر پانچ بزرگوں کے نام ہیں۔ (یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) ، شیش (علیہ السلام) یا آدم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ جب آدم (علیہ السلام) قریب المرگ تھے تو یہ پانچوں بیٹے ان کے پاس موجود تھے) قوم نوح کے نیک آدمی تھے ، جب یہ مر گئے تو لوگوں کو بڑا افسوس ہوا ، کیونکہ ان کی نیکی کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت نصیب ہوتی تھی۔ شیطان نے ان کے دلوں میں رغبت ڈالی کہ ان کے مجسمے اور تصویریں بنا لو اور جہاں تم عبادت کرتے ہو انہیں وہاں رکھ لو تاکہ انہیں دیکھ کر تم عبادت کی طرف زیادہ راغب ہو سکو ، کہ یہ بزرگ ایسی عبادت کرتے تھے نوافل ادا کرتے تھے ، ورد کرتے تھے۔ کچھ وقت اور گزرا تو تو یہ بزرگ خود معبود بن گئے۔ شیطان نے سبق پڑھایا کہ ان کی پرستش ہونی چاہیے چناچہ ایسا ہی ہونے لگا۔ اس کے بعد طوفان نوح میں یہ سب عابد ومعبود ڈوب گئے۔ عربوں میں پھر سے شیطان نے ا ن کو تازہ کیا۔ لوگوں کو ان کی طرف رغبت دلائی ، چناچہ حضور ﷺ کے زمانے میں شیر اور گدھ اور دوسری صورتوں میں معبود موجود تھے۔ اور مختلف قبیلوں میں انکی پوجا ہوتی تھی۔ اسی طرح لات ایک نیک آدمی تھا۔ بخاری شریف میں ہے کہ حج کے زمانے میں لوگوں کو ستو پلایا کرتا تھا۔ اس کی موت کے کچھ عرصہ بعد اس کا مجسمہ بنایا گیا اور عبادت شروع ہوگئی۔ غزی ایک درخت تھا۔ اس کے نیچے کوئی بزرگ بیٹھا ہوگا۔ لہذا اس کی پوجا شروع ہوگئی۔ مناۃ بڑا سرکش تھا مثلل کے مقام پر اسکا عظیم مجمسہ رکھا ہوا تھا۔ لوگ مدینے سے ا س کے نام پر احرام باندھتے تھے۔ اور صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ لگاتے تھے۔ الغرض نوح (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں بیان کیا کہ میری قوم نے لوگوں کو بہکانے کے لیے بڑے دائو پیچ کھیلے۔ اور معبود ان باطلہ کی پرستش پر خود بھی مصر رہے اور دوسروں کو ترغیب دی کہ اپنے معبود ان خاص پر پانچ کو کسی حالت میں بھی ترک نہ کرنا۔ گمراہی کی طرف دعوت : اس کے بعدنوح (علیہ السلام) نے عرض کیا۔ کہ ان لوگوں کے کفر و شرک پر اصرار کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے بہتوں کو گمراہ کیا۔ اور خود بھی گمراہ ہوئے۔ بالکل اسی طرح جیسے مکہ والوں کے متعلق ہے کہ یعنی خود بھی دور ہٹتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایمان ، پیغمبر اور قرآن سے روکتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی عیسائی مشزیاں لالچ دے کر گمراہ کر رہی ہیں۔ ہسپتال بناتے ہیں سکول چلاتے ہیں۔ پیسے کا لالچ دیتے ہیں۔ دودھ اور کھلولنے بھیج کر گمراہی کیطرف بلاتے ہیں۔ اور جہاں ضرورت ہوتی ہے۔ دبائو ڈالکر بھی لوگوں کو عیسائی بنایا جاتا ہے۔ عیسائیوں نے اندلس میں کیا گیا۔ بعض کو ماردیا گیا۔ بعض بھاگ گئے اور بعض کو جبراََ عیسائی بنالیا گیا۔ چین کے صوبہ ختن میں مسلمانوں کی سات کروڑ کی آبادی تھی جہاں صرف ایک کروڑ مسلمان رہ گئے ہیں۔ یہ کیمنسٹوں کی کاروائی ہے۔ ماردیا۔ دبادیا۔ تقسیم کردیا یا کیمونسٹ بنالیا۔ بخار ا میں چالیس ہزارمسجدیں تھیں اور ملک میں چارسو سے زیاد ہ مدارس تھے م گر آج وہاں دوہزار مسجدیں بھی نہیں ہیں یہ ان بھی گمراہی کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ اعشیٰ شاعر کا واقعہ کتابوں میں ملتا ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ نے ملنا چاہتا تھا۔ مگر کفار نے اسے ایک سو اونٹ اناج کا دیا کہ وہ آپ کے پاس نہ جائے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ ضاجتہ العرب یعنی عربوں کا باجہ کہلاتا ہے۔ اگر اس نے حضور ﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھ دیا تو سارا عرب فریفتہ ہوجائے گا۔ لہذا سے لالچ دیکر حضور ﷺ کی خدمت میں جانے سے روکا ۔ اس کے متعلق مشہور ہے ۔ کہ ایک غریب آدمی کی پانچ سات جوان لڑکیاں تھیں مگر انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں تھا۔ اس شخص نے اعشیٰ کو اپنے ہاں دعوت دی اس کی خوب خاطر تواضع کی ۔ اونٹ ذبح کیا۔ کھانا کھلایا۔ شراب پلائی۔ اس نے موج میں آکر اس غریب آدمی کی مدح میں قصیدہ کہہ دیا۔ پھر کیا تھا آناََ فاناََ اس شخص کے چرچے ہونے لگے اور بڑے بڑے ، تیسوں کی طرف سے اس کی لڑکیوں کے لیے نکاح کے پیغام آنے لگے۔ تو اس طرح اسے گمراہ کیا گیا۔ اگرچہ سو اونٹ اناج اس کے کام نہ آیا و ہ راستے ہی میں اونٹ سے گر کر مر گیا۔ تاہم گمراہ ہوگیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے اللہ ! ان کو گمراہی کی سزا یہ دے کہ یعنی ان ظالموں کے لیے سوائے گمراہی کے کچھ زیادہ نہ کر۔ ان کو تباہی کیطرف بڑھا ۔ اگلی آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بددعا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ سے عرض کیا گیاہی کہ۔ یہ قوم کا گلاسڑا پھوڑا ہے۔ اس کاٹ کر تباہ و برباد کردے۔
Top