Mualim-ul-Irfan - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
وہ لوگ (قوم نوح) اپنی کوتاہیوں کے سبب غرق کئے گئے۔ پھر آگ میں داخل کیے گئے۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا۔
گذشتہ سے پیوستہ : گذشتہ درس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کے دوران ان دائوپیچوں کا ذکر تھا جو آپ کی قوم نے آپ کی دعوت کے خلاف آزمائے۔ نبوت میں شبہات پیدا کئے لوگوں کو تلقین کی کہ اپنے معبودوں کو مت چھوڑنا۔ خاص طور پر دو ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر سے وابستگی پر آمادہ رکھا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کی بات نہ ماننا بلکہ اپنے معبودوں پر جمے رہنا۔ سابقہ درس میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ قوم نوح کے معبود ان باطلہ کی پرستش نبی (علیہ السلام) کے زمانے کے مشرکین بھی کرتے تھے اور انہوں نے بھی انہیں ناموں سے مجسمے بنا رکھے تھے۔ یہ تصور ہندوستان میں بھی برہما ، بش دشنو ، اندر دیوتا اور ہنو مان کے نام سے پایا جاتا ہے۔ جس طرح نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں ان پانچ معبودوں سے مختلف اغراض وابستہ کی ہوئی تھیں۔ اسی طرح حضور ﷺ کے زمانہ مبارک اور پھر ہندوئوں کے تصورات میں بھی یہ چیزیں ملتی ہیں۔ انسان کے اندرونی معبود : شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ قوم نوح (علیہ السلام) کے پانچ معبودان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ تو انسان کے خارجی معبود ہیں۔ جن کے مشرک پرستش کرتے ہیں۔ مگر ہر شخص کے اندر بھی یہ پانچوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ جب تک آدمی ان کے پھندے سے آزاد نہ ہو ، اس کی عبادت صحیح نہیں ہوتی ان اندرونی معبودان کی تفصیل شاہ صاحب (رح) اس طرح بیان فرماتے ہیں۔ ود : جس طرح خارجی دنیا میں مشرکین نے ود کو محبت کا دیوتا بنا رکھا ہے۔ اسی طرح اندرونی طور پر انسان کا اپنا جسم ود ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ کہ ہر انسان اپنے جسم کے بنائو سنگھار میں مصروف نظر آتا ہے۔ حجاب طبع بھی یہی ہے کہ انسان اپنے جسم کی پرورش ، زیب وزینت ، تروتازگی میں لگا ہوا ہے۔ اور ساری عمر لگا رہتا ہے حتیٰ کہ ہوجاتا ہے۔ تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انسان کا جسم اس کا ود ہے جسکی پر ستش ساری عمر کرتا رہتا ہے۔ سواع : انسان کا نفس اندرونی طور پر اس کے لیے سواع ہے جس کی رضا انسان کو ہر حالت میں مطلوب ہوتی ہے۔ انسان تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کو اپنے نفس کے مقابلے میں ٹھکراتا رہتا ہے۔ اور اپنے نفس کی بات مانتا ہے۔ اس کی پوجا کرتا ہے۔ ایسے بہت سے کم لوگ ہوں گے جن کو اس بات کا احساس ہو کہ نفس کو اس حدتک راضی رکھنا چاہیے۔ جس حد تک خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا پہلو نہ نکلے۔ شریعت کا ابطال نہ آئے اور اطاعت میں فرق نہ آئے۔ اگر خدا کی اطاعت اور اس کی رضا کو نفس پر قربان کر رہا ہے ۔ تو یہی انسان کا سواع ہے جسکی وہ پرستش کر رہا ہے۔ یغوث : شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یغوث انسان کا خاندان ہے جس میں باپ ، بیٹا ، بھائی اور دیگر افراد شامل ہیں۔ انسان کو راضی رکھنے کی فکر میں رہتا ہے۔ تا کہ یہ بھی بوقت ضرورت اس سے تعاون کریں۔ خاندان کے یغوث کو خوش کرنے کے لیے ہر قسم کی رسومات ادا کرتا ہے۔ سمجھتا ہے کہ اگر برادری بگڑ گئی تو میرا تمام معاملہ خراب ہوجائے گا۔ لہذا ن کو ہر حالت میں خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو رضا اور شریعت کے قانون کو بھی ترک کردیتا ہے لہذا یہ خاندان ہی اس کا یغوث ہے۔ ساری عمر اسی کو خوش کرنے میں لگا رہتا ہے۔ یعوق : انسان کا مال اس کے لیے بمنزلہ یعوق کے ہے ۔ انسان مال کی محبت میں کم و بیش بڑا شدید ہے۔ مال کے متعلق انسان سمجھتا ہے کہ یہ اسکی تفلیف کو دور کریگا یہ اس کے لیے عوق ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ آتا ہے۔ یعنی سمجھتا ہے کہ مال اس کو قائم رکھیگا۔ اس لیے انسان مال جمع کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ یہ مال کی محبت کا نتیجہ ہے کہ اس کے فرائض بھی ادا نہیں کرتا۔ نہ زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ نہ صدقہ خیرات کرتا ہے۔ بلکہ اسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے۔ کہ مشکل وقت میں کام آئے گا۔ لہذا یہ انسان کے لیے عوق ہے۔ نسر : شیطان انسان کے لیے نسر ہے ، جو اسے ہر وقت بہکاتا رہتا ہے۔ یہ حرص اور غصے کے بازوں کے ساتھ انسان پر حملہ آور ہوتا ہے اور ایسے ایسے وسوسے ڈالتا ہے جس سے انسان کا عقیدہ خراب ہوجائے۔ جیسا کہ پہلے شرک کرنے والوں کا حال بیان ہوا۔ شیطان کے بہکاوے میں آنا گویا نسر کی پرستش کرنا ہے۔ الغرض یہ اندرونی پانچ معبود ان باطلہ ہیں جن سے ہر آدمی کو واسطہ پڑتا ہے۔ اور جو اس کے لیے رکاوت کا باعث بنتے ہیں۔ قوم نوح کی غرقابی کا سبب : جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ پچھلی آیات میں حضر ت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنی قوم کی شکایرت کی تھی کہ انہوں نے اپنے نبی کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اب اگلی آیت میں اس قوم کی زیادتی کی سزا کا ذکر ہے۔ یعنی وہ لوگ اپنی کوتاہیوں کے سبب غرق کے گئے۔ اور پھر ان کی غرقابی کے لیے پانی عذاب الہٰی کی صور ت میں آیا ۔ آسمان کی طرف سے بھی پانی کو چھوڑ دیا گیا۔ یعنی چالیس دن تک مسلسل موسلادھار بارش ہوتی رہی اور زمین سے بھی پانی کے چسمے جاری ہوگئے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ پانی کی اس قدر بہتات ہوئی کہ اونچے سے اونچے پہاڑ سے بھی اس کی سطح تیس فٹ تک بلند ہوگئی۔ اور اس طرح وہ قوم اپنے گناہوں کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچی۔ تمام منکرین غرق ہوگئے : جیسا کہ اگلی آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا آئے گی کہ اے مولاکریم ! زمین پر ایک بھی کافر کو باتی نہ چھوڑ۔ تو یہاں کا مطلب یہی ہیے۔ کہ اس قوم کے تمام کے تمام کفار غرق ہوگئے۔ اور ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا۔ صرف ستر آدمی بچے تھے جو ایمان لائے اور کشتی میں سوار ہوگئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا بھی اس عذاب سے نہ بچ سکا حالانکہ و ہ کہتا تھا یعنی پہاڑ پر چڑھ کر پانی کے عذاب سے بچ جائوں گا۔ مگر وہ بھی غرق ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ابن ابی حاتم (رح) کی روایت ہے جسے ابن کثیر (رح) نے بھی بیان کیا ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ قوم نوح میں سے اگر خدا تعالیٰ کسی پر رحم کرتا تو یقینا اس بچے پر کرتا ۔ جسے اس کی ماں لے کر پہاڑ پر چڑھ گئی تھی۔ جب پانی اس عورت کے کندھے تک پہنچا تو اس نے بچے کو سرپراٹھالیا۔ اور جب پانی سر تک پہنچ گیا تو اسے بچے کو اور اوپر بازوئوں پر اٹھا لیا کہ کسی طرح وہ بچ جائے مگر پھر بھی وہ نہ بچ سکا اور اپنی ماں کے ساتھ ہی ڈوب گیا۔ تو اس طرح گویا تمام کفار غرق ہوگئے اور ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔ آگ کی سزا : تو فرمایا کہ یہ لوگ دنیا میں تو پانی میں غرق ہوئے اور موت کے بعدعالم برزخ میں پہنچے تو آگ میں داخل کئے گئے۔ مفسرین نے اس سے یہ اخذ کیا ہے۔ کہ پانی کی سزا تو انہیں دنیا میں ملی ۔ مگر آگ کی سزا برزخ میں مل رہی ہے۔ اور یہ سزا بھی برحق ہے۔ اگرچہ یہ مکمل سزا نہیں ہے کیونکہ مکمل سزا تو قیامت کو ملے گی تاہم برزخ میں بھی اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملتا ہے۔ آل فرعون کے متعلق بھی ایسے ہی الفاظ آتے ہیں کہ انہیں صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ مرنے والا چاہے کسی شکل میں مرے ، قبر اور برزخ کا عذاب اس سے ٹل نہیں سکتا۔ اس کے جسم اور روح کا کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ضرور ہوتا ہے۔ جسے تکلیف یا راحت محسوس ہوتی ہے۔ ہاں البتہ عالم برزخ میں وقت کا احساس نہیں ہوتا ، جب حشر میں اٹھیں گے تو کہیں گے۔ ہمیں ہماری قبروں سے کس نے نکال لیا۔ الغرض قوم کے لوگ ادھر پانی میں ڈبوئے گئے۔ ادھر آگ میں داخل کئے گئے۔ مگر انہوں نے اللہ کے سوا کسی کو مددگار نہ پایا۔ نہ ود صاحب آئے نہ سواع نے مدد کی نہ یغوث نے فریاد رسی کی نہ یقوق کسی کام آیا اور نہ نسر سے کچھ بن پڑا۔ خدا کے سوا کئی بھی مافوق الاسباب مدد گار نہ آیا۔ آج بھی صورت تحال یہی ہے کہ کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ لوگ خواہ مخواہ وہم میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور شرک میں ڈوبے رہتے ہیں۔ طرح طرح سے اپنا عقیدہ گندہ کرتے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) کی بد دعا : سورۃ کے آخری حصے میں حضرت نوح کی تین دعائوں کا ذکر ہے۔ پہلی بد دعا کی نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار ! زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ رہنے دے۔ دوران سے ہوسکتا ہے۔ یہ دونوں معنے لگتے ہں۔ یعنی کسی چلنے پھرنے والے یا کسی گھر میں رہنے والے کو زندہ نہ چھوڑ ۔ یہ قہر الہی کا ظہور ہے۔ یہ غضب اللہ ہے یعنی اللہ کے لیے ناراضگی پیدا ہوگئی ہے۔ اور سزا شروع ہوچکی ہے۔ حضرت نوح نے مزید عرض کیا۔ اگر تو ان کو زندہ چھوڑ یگا تو میرے بندوں کو گمراہ کریں گے۔ اور یہ نہیں جنیں گے ۔ مگر ڈہٹھ ، کافر یعنی ان کی اولادیں بھی ایسی ہی ہوں گی۔ سورة ہود میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو بتلایا گیا تھا کہ یعنی تیری قوم میں سے جو ایمان لاچکے ، بس وہی ایماندار رہیں گے۔ ان کے علاوہ اور کوئی نہیں لائیں گے۔ لہذا حضرت نوح نے ان کی تباہی و بربادی کی بددعا ہی کی۔ شاہ ولی اللہ (رح) کی زبان میں یہ گلا سڑا عضو ہے اس کو کاٹ دینا ہی ضروری ہے ۔ ورنہ یہ ایک عضو رفاسد باقی جسم کو بھی فاسد کر دے گا۔ ان لوگوں کا اعدام اوفق من الوجود ہے ۔ ان کا خاتمہ ان کے زندہ ہنے سے زیادہ قرین مصلحت ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعائے مغفرت : نوح (علیہ السلام) نے دوسری دعا یہ کی کہ اے پروردگار مجھے اور میرے والدین کو بخش دے کہ وہ بھی نیک اور صالح تھے۔ لوگوں کو شرک سے منع کرتے تھے۔ نوح (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی اپنے منصب کے مطابق تھی۔ پیغمبر سے صغیرہ یا کبیر گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ البتہ بعض اوقات چھوٹی موٹی لغزشین ہوجاتی ہے۔ جن سے وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ وہ مقربین بارگاہ الہٰی ہوتے ہیں انہیں معمولی الغزش پر بھی بڑی بےچینی لاحق ہوجاتی ہے۔ اسی لیے عرض کیا کہ اے اللہ ! میری اور میرے والدین کی مغفرت فرما دے۔ نیز فرمایا کہ اس کی بھی بخشش فرمادے۔ جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہو۔ گھر میں آنے والے کے لیے مومن ہونا شرط ہے۔ کیونکہ کافروں کے لیے تو تباہی و بربادی کی بدعا ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ فرمایا یعنی گھر میں آنے والوں کے علاوہ عام مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بھی ان کے ایمان کی بدولت معاف فرمادے یہ عام دعا ہے جو اللہ کے اس نیک بندے نے مانگی ، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کا مصداق بنائے۔ ہر مسلمان کے لیے بھی یہی حکم ہے ۔ کہ اپنی دعا میں عام مومنیں اور مومنات کو یاد کیا کرے۔ ان کی بخشش کی دعا کیا کرے ۔ یعنی یوں کہے ۔ ظالموں کے لیے تباہی کی بددعا : دعا کا تیسرا حصہ نوح (علیہ السلام) نے یہ عرض کیا یعنی ظالموں کے لیے تباہی کے سوا کچھ زیادہ نہ کر ۔ یہ بھی جوش اور غضب الہٰی ہے۔ یہ ظالم ہر حالت میں کفر و شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ظالم جب تک ظلم پر قائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔ اسے ہدایت نہیں دے گا۔ سب سے بڑے ظالم تو کافر ہیں۔ جیسا فرمایا اسی طرح مشرکوں کے متعلق فرمایا : شرک سے بڑا ظالم کون سا ہوسکتا ہے۔ جو لوگ کفرو شرک کے ظالم پر ڈٹے ہوئے ہیں ان کے لیے سوائے تباہی کے اور کچھ اضافہ نہ کر۔ الغرض حضر ت نوح (علیہ السلام) نے اپنی دعا کے تیسرے حصے میں ظالموں کی مکمل تباہی کی درخواست کی ۔ آپ کی دعا منظور پر ہوئی اور پوری قوم ما سوائے ستر مومنیں کے غرق ہوگئی۔
Top