Mualim-ul-Irfan - An-Naba : 21
اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا۪ۙ
اِنَّ جَهَنَّمَ : بیشک جہنم كَانَتْ : ہے مِرْصَادًا : ایک گھات
بیشک دوزخ تا ک میں ہے
(دوزخ تاک میں ہے) اس کے بعد فرمایا ان جھنم کانت مرصادا بیشک دوزخ تاک میں ہے ۔ یعنی گنہگاروں ، نافرمانوں اور خدا کی تو حید اور قیامت کے منکر ین کے انتظار میں ہے کہ وہ کب اس کا شکار بنتے ہیں للطغین مابا وہی سرکش لوگ جہنوں نے اطاعت کی بجائے معصیت کا راستہ اختیار کیا ۔ ظلم اور زیادتی کرتے رہے ان کا ٹھکانا یقینا جہنم ہے جہنم اور اس کے فرشتے ایسے لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں ۔ فرمایا اس قسم کے بدکردار لوگ لٰبثین فیھا ٹھہریں گے اس دوزخ میں احقابا قرن ہا قرن تک ۔ احقاب حقیب کی جمع ہے بعض مفسرین کرام (ب 1 تفسیر ابن کثیرص 463 ج 2) فرماتے ہیں کہ ایک حقب اسی 80 سال کے برابر ہے۔ حضرت علی ؓ سے حقب کے متعلق دریافت کیا گیا ۔ تو انہوں نے فرمایا (ب 2 درمنثورص 307 ج 2) کہ حقب اسی سال کا ہوتا ہے ۔ ایک سال بارہ مہینہ کا اور ایک مہینہ تیس دن کا ۔ اور ایک دن موجود ہ دنیا کے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے قیامت کا ایک حقب اس دنیا کے دو کروڑ چھیاسی لاکھ سال کے برابر ہوگا ۔ اور منکرین کو قرنہاقرن تک وہاں رہنا ہوگا ۔ بعض مفسرین (ب 3 تفسیر ابن کثیر ص 464 ج 4 تفسیر مظہری ص 75 اد 176) فرماتے ہیں کہ احقاب سے مراددائمی رہنا ہے ۔ یعنی کفار ومشرکین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے۔ عرب اپنے محاورے میں حقب کا لفظ غیر محدود زمانے کے لیے بولتے ہیں ۔ کتاب الحماسۃ یاربۃ البیت قومی غید صاعندۃ اے گھر کی مالکہ اٹھ کھڑی ہو اس حال میں کہ تو عزت والی ہے صمی الیک رحال القوم والقربا ان مہمانوں کے کجاوے اور ہتھیار اپنے پاس رکھ لے وقلت لما غدوا اوصی قعیدتنا اور میں نے کہا جب انہوں نے صحیح کی (جانے کا وقت) اس حال میں کہ میں اپنے گھر والی کو نصیحت کر رہا تھا ۔ پھر جب صبح کو ان کے رخصت کا وقت آتا ہے کہتا ہے غدی بنیک فلم تلقیھم حقبا ان مہانوں کو کھاناکھلا جو بمنزلہ تیرے بیٹوں کے ہیں پس تو ان سے نہیں ملیگی مدت درارزتک یعنی ان اونٹوں پر سفر کرنے والے مسافر ہیں کوئی جان پہچان والے تو ہیں نہیں فلم تلقیھم حقبا اب ان سے تیری ملاقات احقاب کے بعد یعنی غیر محدود زمانے کے بعد ہی ہوسکتی ۔ تو گویا حقب کا لفظ غیر محدود زمانے پر بولا جاتا ہے ۔ لہذامفسرین فرماتے ہیں کہ جو لوگ اس دنیا سے ایمان کی دولت سے خالی گئے ہیں وہ ابدی طور پر جن ہم میں رہیں گے ۔ ان کی رہائی کی کوئی صورت نہیں ہوگی ۔ ( مومنین کا تزکیہ ) البتہ ایسے ایماندار جو دنیوی زندگی میں معصیت میں مبتلا ہوئے اور بغیر توبہ کے رخصت ہوگئے ۔ ان کو بھی سزاتو ملے گی مگر وہ تزکیہ کے لیے ہوگی ۔ ایسے لوگوں کو ان کے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے مختلف مدت کی سزا میں دی جائیں گی ۔ کوئی ایک گھڑی بھر دوزخ میں رہے گا ۔ کوئی ایک دن اور کوئی ہزاروں سال ۔ جس نوع کے جرائم انہوں کیے ہوں گے ۔ ان کے مطابق انہیں سزاملے گی۔ مگر آخر کار انہیں دوزخ سے رہائی حاصل ہوجائے گی وہ لوگ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں نہیں رہیں گے ۔ امام ترمذی فرماتے (ب 1 ترمذی ص 378) ہیں کہ اس بارے میں تمام صحابہ ؓ محد ثین کرام اور علماء کا اتفاق ہے کہ اہل تو حید ابدی طور پر جہنم میں نہیں رہیں گے بلکہ حسب حال سزا کاٹ کر جہنم سے آزاد ہوجائیں گے ۔ اس کی پوری تفصیل احادیث میں موجود ہے۔
Top