Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ
: آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے
الْاَنْفَالِ
: غنیمت
قُلِ
: کہ دیں
الْاَنْفَالُ
: غنیمت
لِلّٰهِ
: اللہ کیلئے
وَالرَّسُوْلِ
: اور رسول
فَاتَّقُوا
: پس ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاَصْلِحُوْا
: اور درست کرو
ذَاتَ
: اپنے تئیں
بَيْنِكُمْ
: آپس میں
وَاَطِيْعُوا
: اور اطاعت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗٓ
: اور اس کا رسول
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
سوال کرتے ہیں آپ سے غنیمت کے بارے میں آپ کہہ دیجئے کہ غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں۔ پس ڈرو اللہ تعالیٰ سے اور درست کرو اپنے درمیان کے معاملات کو۔ اور فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو اس کے رسول کی اگر تم ایمان رکھتے ہو
کوائف سورة : اس سورة کا نام سورة الانفال ہے۔ جو کہ پہلی ہی آیت سے ماخوذ ہے انفال ، نفل کی جمع ہے اور اس کا معنی زائد چیز کا ہوتا ہے ۔ یہ سورة ہجرت کے بعد 2 ھ میں نازل ہوئی جب کہ غزوہ بدر واقع ہوا تھا ، اس سورة کی پچھتر آیات اور دس رکوع ہیں۔ یہ سورة 1631 الفاظ اور 6294 حروف پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے سورة اعراف اور سورة انعام مکی سورتیں تھیں البتہ سورة مائدہ ، نسائ ، آل عمران اور بقرہ مدنی تھیں ، اسی طرحی یہ سورة مبارکہ بھی مدنی ہے۔ اس کے بعد آنے والی سورة توبہ بھی مدنی ہے اور ان دونوں سورتوں کا مضمون آپس میں ملتا جلتا ہے ۔ سورة انفال ہجرت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب کہ سورة توبہ آخری حصہ میں 9 ھ میں کے بعد نازل ہوئی ، سورة انفال میں غزوہ بدر کے واقعات کا ذکر ہے جب کہ سورة توبہ غزوہ تبوک کے واقعات پر مشتمل ہے ، تا ہم یہ دونوں صورتیں جہاد اور اس کے قوانین سے متعلق ہیں۔ سابقہ سورتوں کے مضامین : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ابتدائی سورة بقرہ میں زیادہ تر روئے سخن یہود کی طرف تھا۔ چناچہ (آیت) یبی اسرائیل سے شروع ہو کر ڈیڑھ پارے تک یہودیوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اصلاحِ یہود کے پروگرام کے تحت یہودیوں کو ایمان لانے کی ترغیب دی ہے جیسا کہ پانچویں رکوع میں فرمایا (آیت) وامنوا بما انزلت مصدقا لما معکم ، اے بنی اسرائیل ! میری نازل کردہ اس چیز (قرآن) پر ایمان لے آو جو اس بات (تورات) کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس کے بعد سورة آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کو موضوع سخن بنایا ہے ، چناچہ ابتدائے سورة سے لے کر آیت نمبر 83 تک عیسائیت کا رد فرمایا ہے اور ان کی اصلاح کا پروگرام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ اگر عیسائی شرک کو چھوڑ کر ایمان قبول کرلیں تو ان کی اصلاح ہو جائیگی اور وہ فلاح کے حق دار بن جائیں گے ، پھر سورة نساء اور مائدہ دونوں میں خاص طور پر عرب کے لوگوں کو دعوت ایمان دی گئی ہے۔ ان سورتوں میں عربوں کی خرابیوں کا ذکر کر کے ان کی اصلاح کا پروگرام پیش کیا گیا ہے۔ عقیدے اور عمل دونوں قسم کی خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور پھر کھانے پینے میں حلال و حرام اور معاشرتی طور پر نکاح طلاق کے متعلق صحیح راستے کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ نے ابتدائی میں مجوسیوں کا ذکر فرمایا ہے مجوسیوں کا پایہ تخت ایران تھا اور نزول قرآن کے زمانہ میں یہ لوگ تقریبا آدھی دنیا پر چھائے ہوئے تھے ، آگ کے یہ پجاری دو معبودوں کو مانتے ہیں ان کے نزدیک یزدان اور اہرمن دو علیحدہ علیحدۃ معبود ہیں ، جن میں سے ایک خیر کا اور دوسرا شر کا ، یا ایک نور کا اور دوسرا ظلمت کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس باطل عقیدہ کا رد فرمایا ہے اور ان کی راہ راست کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ اس کے بعد سورة اعراف میں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کیا ہے اور سب کے سامنے قرآن پاک کی دعوت پیش کی ہے۔ اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع کر کے انبیاء (علیہم السلام) کی پوری تاریخ بیان فرمائی ہے ، مختلف انبیاء کی دعوت اور ان کی اقوام کے ردِ عمل کا ذکر کیا ہے اور پھر آخر میں حضور خاتم النبین ﷺ کی زبان سے صاف کہلوا دیا ہے ” (آیت) یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا “ ائے بنی نوع انسان ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ آپ کی دعوت صرف یہودونصاری یا مجوسی اقوام کے لیے نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے اور انہیں دین حق کو قبول کرلینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ عالمگیر دعوت : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس دعوت عام میں سے سعادت مند روحیں تو ابتداء میں ہی ایمان قبول کرلیتی ہیں۔ اچھے اور سعادت مند لوگ دعوت کو سنتے ہیں۔ اس کو سمجھتے ہیں اور پھر اسے آسانی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں اکثر ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی اکثریت شیطان کے پھندے میں گرفتار ہوتی ہے ، اور وہ دعوت ایمان قبول نہیں کرتی اور اپنے دین پر اڑی رہتی ہے ، پھر آگے اس کی دو صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ غلط کار لوگ اپنے راستے پر حسب معمول چلتے رہیں اور اہل حق سے کسی قسم کا تعرض نہ کریں۔ اور اس طرح اہل ایمان کو بھی اپنے راستے پر چلنے دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اہل باطل نہ صرف اپنے غلط پروگرام پر قائم رہیں بلکہ رائے اہل ِ حق پر غالب آنے کی کوشش بھی کریں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اہل ایمان کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرا دیں بلکہ اسے مٹانے کے لیے اپنے تمام قویٰ بروئے کار لائیں۔ ان حالات میں اہل حق پر کیا فرض عائد ہوتا ہے ؟ کیا وہ باطل کی قوت سے ڈر کر بھاگ جائیں گے اور کفر کا راستہ چھوڑ دیں کہ وہ جو چاہیں کرتے رہیں ؟ دوسری صورت یہ ہے کہ راہ فرار اختیار نہ کریں بلکہ خاموش ہوجائیں اور گاندھی کی (اہنسا) یا سیتہ گرہ والا فلسفہ اختیار کرلیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن سے مار کھاتے رہیں اور اس کی زیادتیوں کا جواب تک نہ دیں حتی کہ وہ خود ہی تھک ہار کر بیٹھ جائے۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ جو لوگ باطل پروگرام کو غالب کرنا چاہتے ہیں اور ایمان کی دعوت کو روکنا چاہتے ہیں ، ان کا سرِ عام مقابلہ کیا جائے اور دین کی دعوت کو غالب کیا جائے یہی تیسری صورت صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کو بیان فرمایا ہے۔ اس کے اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں اور انہیں اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی کا نام جہاد ہے اور اسی کی اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ہے۔ جہاد کی اہمیت : اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسلام کی دعوت پوری دنیا میں پہنچ چکی ہے۔ مگر لوگوں کی غالب اکثریت اپنے باطل پروگرام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں بلکہ الٹا اسلام کو مٹانے پر کمر بستہ ہے ایسے حالات میں جہاد باللسان سے آگے برھ کر جہاد بالسیف ضروری ہوجاتا ہے مکی زندگی میں مسلمانوں کی کمزور حالت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا (آیت) ” کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ ( النسائ) اپنے ہاتھوں کو روک رکھو اور نماد ادا کرو ، اس وقت تک ابھی جماعت قائم نہیں ہوسکی تھی۔ مقابلے کی طاقت نہیں تھی بلکہ بڑی تکالیف کا دور تھا لہذا حکم ہوا کہ ابھی تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلے تنظیم پیدا کرو ، جماعت بندی کرو ، اس کے بعد جہاد بالسیف کی اجازت ہوگی۔ اور پھر آخر وہ وقت بھی آگیا کہ مدینے میں جا کر مسلمان نے قوت جمع کرلی تو اللہ کا حکم آگیا۔ (آیت) ” اذن للذین یقٰتلون بانھم ظلموا “ (الحج) جن لوگوں پر ظلم کیا گیا ، انہیں اجازت دے دی گئی کہ وہ تلوار کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کریں (آیت) ” وان اللہ علی نصرھم لقدیر “ (الحج) فرمایا اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اسی طرح اس سورة مبارکہ اور اگلی سورة توبہ دونوں کا موضوع جہاد ہے ، اللہ نے اعلان فرما دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دشمنانِ دین کا مقابلہ تیر ، تلوار اور نیزے کے ساتھ کیا جائے اور دین حق کے خلاف ان کی تمام سازشیں ناکام بنا کر ان کی امیدیں خاک میں ملا دی جائیں۔ جہاد کی ضرورت : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ جہاد میں اقدام اور دفاع دونوں فرض ہیں ، ضرورت کے وقت تمام جوانوں ، بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جہاد میں حصہ لیں۔ کفار پھورے کی مانند ہیں ، اگر ان کا آپریشن نہ کیا گیا تو یہ پوری انسانی سوسائٹی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ، لہٰذا ان کا قلع قمع ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے (آیت) ” وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ “ (الانفال) خدا کی راہ میں ان سے لڑتے رہو ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ اس فتنہ سے مراد کفر اور شرک کا غلبہ اور فساد فی الارض ہے مقصد یہ ہے کہ دین اسلام کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہ کی جائے اور اسلام کو پوری دنیا میں پوری طرح غالب کردیا جائے ، چناچہ ابتدائے اسلام سے لیل کر واقعہ صفین تک اسلام کو پچاس سال تک مکمل غلبہ حاصل رہا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے باہمی اختلاف کی وجہ سے دین اسلام کی گاڑی رک گئی ، عالمی حرکت کمزوری ہوگئی۔ صفین تک مسلمان پیش قدمی ہی کرتے رہے۔ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہ تھی جو ان سے ٹکر لے سکتی ، لہٰذا اسلامی نظام مکمل طور پر قائم ہوگیا تھا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشا تھا۔ مگر بعد میں مسلمان اپنے عروج کو قائم نہ رکھ سکے۔ اور روبہ تنزل ہونے لگے۔ جہاد کی غائت : اہل اسلام کا نظریہ جہاد کفار سے بالکل مختلف ہے ، ان کا مقصد فساد فی الارض ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ اغیار کی املاک پر قبضہ کرتے ہیں اور لوگوں کو ناحق قتل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا۔ ان کے پیش نظر ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کس طرح (آیت) ” کلمۃ اللہ ھی العلیا “ (التوبۃ) یعنی اللہ کی بات بلند ہوجائے۔ خدا کے دین کو غلبہ حاصل ہوجائے دنیا میں امن کا دور دورہ ہو اور دعوت ایمانیہ عام ہوجائے اس راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے ذروۃ الاسلام الجہاد یعنی اسلام کی کوہان یا بلندی جہاد میں مضمر ہے ، جہاد کرنے سے فساد مٹتا ہے اور دنیا میں امن قائم ہوتا ہے۔ جب تک فتنہ کی سرکوبی نہ کی جائے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا ، مگر آج کی دنیا میں بالکل الٹ ہو رہا ہے۔ فتنہ و فساد برپا کرنے والے لوگوں کی عزت افزائی کی جاتی ہے تا کہ ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ خود فساد کی تائید کے مترادف ہے۔ اس کے نتیجہ یہی نکلے گا کہ فسادی لوگ پھلتے پھولتے رہیں گے اور کمزور پستے رہیں گے۔ قانون صلح وجنگ : جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے۔ سورة انفال اور توبہ کا موضوع جہاد ہے۔ اور ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کا قانونِ صلح وجنگ بیان فرمایا ہے گزشتہ سورة اعراف میں ذکر تھا (آیت) ” ان ولی اللہ الذین نزل الکتب “ یعنی میرا کار ساز تو وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے کتاب نزل فرمائی ۔ گویا ہمارا پروگرام تو اس کتاب میں ہے اور ہمارا مرنا جینا اسی کے لیے ہے۔ اس راستے میں چلنے والوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” وھو یتولی الصلحین “ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کی کارسازی فرماتا ہے جو لوگ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے پروگرام پر عمل کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کا حامی وناصر ہوتا ہے ، چناچہ صالحین کی پہلی کارسازی تو یہ فرمائی کہ انہیں قرآن جیسی عظیم کتاب عطا فرما کر ان کی ہدایت کا سامان مہیا کیا ، پھر جہاد باللسان یعنی زبانی تبلیغ کی توفیق عطا فرمائی جو کہ دین کا نبی ادی اصول ہے۔ اس کیب عد جب جماعت تیار ہوگئی تو حضور ﷺ نے فرمایا قاتلوا الکفار والمشرکین بالسنتکم واموالک وانفسکم یعنی کافروں اور مشرکوں کے ساتھ اپنی زبانوں ، مال اور جانوں کے ذریعے جہاد کرو کسی کے شکوک و شبہات کو رفع کرنا زبان کا جہاد ہے یہ جہاد تو پہلے گزشتہ سورة میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ نے حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا کہ اے دنیا جہان کے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں یہ دعوت عام ہے اگر مان لو تو ٹھیک ہے ورنہ تمہارے ساتھ میدان جنگ میں مقابلہ کیا جائے گا۔ تو گویا گزشتہ سورة میں جہاد باللسان کا ذکر تھا تو اس سورة میں جہاد بالسیف کا قانون بیان کیا گیا ہے یہ پہلی سورة کے ساتھ ربط بھی ہوگیا۔ جماعتی نظم وضبط : سورۃ انفال کی اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جماعتی نظم وضبط اور اس کی اصلاح کا قانون بیان فرمایا ہے ظاہر ہے کہ کسی جماعت کے لیے اندرونی نظم وضبط نہایت ضروری ہے اسکے بغیر جماعت کود انتشار کا شکار ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی اہل نہیں ہوگی جس جماعت کے اپنے اندر اختلافات موجود ہوں وہ دوسروں کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتی ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جماعتی نظم پر زور دیا ہے سب سے پہلے فکر کی اصلاح کی ضرورت ہے چناچہ اس آیت کریمہ میں فکر کی پاکیزگی ، اتفاق و اتحاد اور نظم وضبط کا قانون بیان فرمایا ہے اور پھر اگلی آیت میں جماعت المسلمین کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا ہے انہی صفات کی حامل جماعت آگے چل کر جہاد بالسیف کا فریضہ انجام دے گی۔ مال غنیمت : جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے جہاد کا اصل مقصد تو غلبہ دین ہے جب دین کو غلبہ حاصل ہوگیا تو مقصد پورا ہوگیا۔ تا ہم اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ ساتھ کچھ زائد چیزیں بھی حاصل ہوتی ہیں ، یعنی جب دشمن مغلوب ہوجاتا ہے تو اس کا مال بھی ہاتھ آتا ہے ، جسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ سابقہ امتوں میں فاتح قوم کے لیے یہ مال حلال نہیں تھا لہذا اس قسم کا سارا مال اکٹھا کر کے ایک جگہ پر رک دیا جاتا تھا۔ آسمان سے آۃ گ نازل ہوتی جو اسے جلا کر خاک کردیتی۔ تاہم اس آخری امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کو حلال قرار دیدیا ہے چناچہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ مال غنیمت پہلی امتوں میں لم تحل لاحد من قبل کسی کے لیے حلال نہیں تھا۔ اللہ نے صرف آخری امت کے لیے حلال کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں کے لوگ جسمانی طاقت میں بڑھے ہوئے تھے ، محنت مشقت کرسکتے تھے ، لہذا ان کے لیے مال غنیمت جائز نہیں تھا مگر اس امت کے کمزور لوگوں کو اللہ نے یہ رعائء بخشی ہے کہ وہ اس مال کو استعمال کرسکتے ہیں ، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جو مال دشمن کے ساتھ جنگ کر کے حاصل کیا جائے وہ مال غنیمت کہلاتا ہے اور جو مال کسی معاہدہ صلح کے تحت حاصل ہوجائے اسے فے کہتے ہیں ، مالِ غنیمت کا حکم تو سورة انفال میں آرہا ہے کہ یہ مال کن مدات پر خرچ ہو سکتا ہے۔ البتہ مال فے کا حکم سورة حشر میں بیان ہوا ہے اس قسم کا مال جس میں باغ بھی تھے۔ بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ساتھ معاہدہ صلح کے تحت مسلمانوں کو حاصل ہوا تھا۔ بعض اوقات اس قسم کے معاہدات کے تحت مسلمانوں کو بھی مال خرچ کرنا پڑتا تھا۔ بہرحال اس سورة مبارکہ میں انفال سے بات شروع کی گئی ہے۔ شان نزول : اس آیت کا تعلق واقعہ غزوہ بدر کے ساتھ ہے۔ صحیح روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد ابن ابی وقاص ر نے ایک دشمن کے ساتھ مقابلہ مٰں اسے قتل کردیا اور اس کی تلوار پر بھی قبضہ کرلیا۔ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں نے ایک بڑے جری کافر کو مارا ہے اور اس کی تلوار بھی چھین لی ہے ، مہربانی کر کے یہ تلوار مجھے ہی عنایت کردی جائے ، جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا ، بھائی یہ مال غنیمت کی چیز ہے اور اسے دینے کا اختیار نہ مجھے ہے نہ تمہیں۔ اس کا حق نہ میرے لیے ہے اور نہ تیرے لیے۔ اس پر حضرت سعد ؓ افسردہ خاطر ہوگئے اور خیال کیا کہ شاید یہ تلوار کسی ایسے شخص کے حصے میں آجائے جو کارکردگی میں میرے برابر نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ میرے لیے باعث افسوس ہوگا چناچہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر وضاحت فرمادی کہ مال غنیمت پر کس کا حق ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہوئی کہ نوجوان مجاہدین اور معمر غازیان میں کچھ اختلاف رائے پیدا ہوگیا ، نوجوان مجاہد مال غنیمت اپنا حق سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے بہادری کے زیادہ جوہر دکھائے تھے۔ دوسری طرف معمر مگر تجربہ کار غازیان تھے جو نوجوانوں کی پشت پر تھے اور انہیں حرب وضرب کے گر بتلاتے تھے ، وہ مال غنیمت کے لیے اپنا حق جتلاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مال غنیمت کے حقیقی مالک : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “ اے پیغمبر آپ سے مال غنیمت کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ (آیت) ” قل الانفال للہ والرسول “ آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت بنیادی طور پر نہ کسی بوڑھے کا حق ہے نہ جوان کا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے اگر اللہ تعالیٰ کی تجلی نازل نہ ہوتی تو مسلمانوں کو کیونکر غلبہ حاصل ہو سکتا تھا ؟ آگے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طریقے سے مسلمانوں کی مدد کی تو انہیں فتح حاصل ہوئی ، لہٰذا اس مال کا مالک یقینا اللہ تعالیٰ ہے اور پھر اس کے بعد اس کا رسول ہے جو حکم الہٰی کے تحت اس مال کو تقسیم کریگا۔ دوسرے معنوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس مال کے مالک افراد نہیں بلکہ اس کی مالک اسلامی حکومت ہے اور یہ پورا مال state property ریاست کا مال ہے جس پر بذات خود کوئی مسلمان قبضہ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو آپس میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی منشاء پر چھوڑ دینا چاہیے یاد رہے کہ یہاں پر حکومت سے مراد موجودہ زمانے کی حکومت نہیں ہے جو اپنی مرضی سے انعام واکرام کی بارش ناچنے گانے والوں پر کرنے لگے اور اشاعتِ دین کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرے بلکہ یہاں پر اسلامی حکومت سے مراد وہ خلافت ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کی صورت میں قائم کی فرمایا یہی اسلامی حکومت مال غنیمت کے متعلق فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ صلح جوئی : فرمایا اس معاملہ میں عام مسلمانوں کا فرض یہ ہے (آیت) ” فاتقو اللہ “ کہ اللہ سے ڈر جائو اور کوئی ایسی ویسی بات نہ کرو کیونکہ مال غنیمت پر تمہارا ذاتی طور پر کوئی حق نہیں ہے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیار کی رو سے وہ تلوار حضرت سعد ؓ ہی کو عطا فرما دی اور ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اب اللہ نے تقسیم غنیمت کا قانون نازل فرما دیا ہے حقیقی مالک وہی ہے ، رسول اس کا نائب ہے ، لہٰذا اس نے اب یہ تلوار تمہیں ہی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمہارے ذمے یہ ہے (آیت) ” واصلحوا ذات بینکم “ آپس کے درمیان حالات کی اصلاح کرو تا کہ کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا آپس میں تنازعہ ہوگا تو دشمن کو دخیل ہونے کا موقع ملے گا۔ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے افراد ، جماعتیں اور ملک تباہ ہوجاتے ہیں ، لہٰذا آپس میں تنازعہ کو صلح جوئی کے ذریعے طے کرلیا کرو۔ دیکھو ! عراق ایران جنگ میں دونوں متحارب فریق مسلمان ہیں ، ان کے درمیان جھگرے کی وجہ سے کتنی جانیں تلف ہو رہی ہیں اور دو مسلمان ریاستوں کا کتنا زبردست نقصا ہو رہا ہے مگر حالات کی درستی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی پچاس سے زیادہ مسلمانوں کی اجتماعی زلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو قوم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح نہیں کر اسکتی وہ سورة انفال ، اعراف اور توبہ میں مذکور برے برے امور کیسے انجام دی سکتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی باہمی عداوت کا نتیجہ ہے کہ غیر مسلم اقوام اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں انہوں نے دونوں ملکوں کو اسلحے کی منڈی بنا رکھا ہے جہاں ان کا اصلح دھڑا دھڑ فروخت ہو رہا ہے ، اور مسلمان افرادی اور مالح لحاظ سے کمزور ہو رہے ہیں ۔ اسی لیے اللہ نے یہاں پر فرمایا ہے کہ آپس میں صلح جوئی قائم کرو۔ سورة حجرات میں بھی فرمایا کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں الجھ پڑیں (آیت) ” فاصلحوا بینھما “ تو ان کی آپس میں صلح کرادو اور ان میں جو جماعت آمادہ بر بغاوت ہو اس پر دبائو ڈال کر صلح پر آمادہ کرو کہ مسلمانوں ی بربادی کی بنیادی وجہ ان کی آپس کی لڑائی بھڑائی ہے۔ اسلامی نظام حکومت : آگے فرمایا (آیت) ” واطیعو اللہ ورسولہ “ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اگر مسلمان اس اصول کو اپنا لیتے تو دنیا میں ذلیل وخو اور نہ ہوتے مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں میں سے کوئی امریکہ کا غلام ہے اور کوئی روس کا حامی ہے ، کوئی سرمایہ داری کی لعنت میں گرفتار ہے اور کوئی اشتراکیت پر چل رہا ہے ، کہیں ملوکیت ہے اور کہیں ڈکٹیئڑشپ ہمارے ملک بھی یہی حال ہے اوپر مارشل لاء کی حکومت ہے اور نیچے مجلس سوریٰ قائم کر رکھی ہے بھلا ایسی شوریٰ کا کیا فائدہ جو مارشل لاء کے ماتحت ہو صحیح اسلامی شوری تو بااختیار ہوتی ہے اللہ کا ارشاد ہے (آیت) ” وامرھم شوری بینھم “ (الشوری) مسلمانوں کے تمام کام تو باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور شوریٰ کے رکن اہل اور صائب الرائے لوگ ہوتے ہیں اور خلیفہ ان کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے بلکہ خود نبی بھی شوریٰ کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ کا اپنے نبی کو حکم ہے (آیت) ” وشاورھم فی الامر “ (آل عمران) اور معاملات میں ان سے مشورہ کریں (آیت) ” فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ پھر جب کوئی فیصلہ کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کر کے اس پر عمل درآمد کردیں مقصد یہ ہے کہ شوریٰ کا مشورہ واجب ہے۔ اور اگر شوری کو کوئی اختیار ہی نہ ہو تو وہ کیا مشورہ دیگی اور اس پر کیا عمل درآمد ہوگا۔ اختیار تو سارا مارشل لاء کے ہاتھ میں ہے۔ محض اسلام کا نام استعمال کرنے کا کیا فائدہ ؟ اب تین قوانین یک وقت چل رہے ہیں۔ ایک مارشل لاء کا ضابطہ ہے ، دوسرا انگریزی قانون ہے اور تیسری شرعی عدالتیں ہیں۔ مگر انگریزی قانون اسلامی فیصلے کو منسوخ کردیتا ہے کیا فائدہ ہوا ؟ اگر اللہ اور رسول کی اطاعت اختیار کی جاتی تو ملک میں ایک ہی اسلامی قانون نافذ ہوتا جو صدر ضیاء پر بھی اسی طرح لاگو ہوتا جیسا ایک عام آدمی پر۔ ملٹری اور پولیس بھی اسی قانون کے ماتحت ہوتی مگر ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمیں کسی معاملے میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے جب تک اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں ہوگی معاملات درست نہیں ہو سکتے۔ فرمایا اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو۔ (آیت) ” ان کنتم مئومنین “ اگر تم ایمان والے ہو۔ اگر ایمان کا دعوی رکھتے ہو تو پھر اپنی خواہشات کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی مرضیات پر چلنا ہوگا ۔ ایسے کام کرنے ہوں گے جن سے اللہ راضی ہو اور جو اس کے رسول کو پسند ہوں اللہ تعالیٰ نے یہ مرکزی نکتہ بیان کردیا ہے اس کے بعد جماعت کی خصوصیات بیان کی جائیں گی کہ فلاح پانے والی جماعت کن اوصاف کی حامل ہونی چاہیے ، اگلی آیت میں اللہ نے مومنوں کی پانچ صفات بیان فرمائی ہیں۔
Top