Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور اس مت پھرو اس سے اور تم سنتے ہو
ربط آیات : اس سے پہلے اہل ایمان سے اس طرح خطاب تھا کہ جب تم جنگ میں کافروں سے ٹکر لو تو پشت نہ پھیرو بلکہ ثابت قدم رہنے کی کوشش کرو۔ اگرچہ دشمن کی تعداد تم سے دگنی ہی کیوں نہ ہو۔ ان حالات میں استقلال اور ثبات سے کام لو ، ہر کام من جانب اللہ ہوتا ہے فتح ونصرت اس کے ہاتھ میں ہے تمہارا کام صرف یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہو۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کا یہ پہلا اصول بیان فرمایا ہے اس کے بعد بھی جہاد کے سلسلے میں بڑے بڑے اصول بیان ہو رہے ہیں جن کی پابندی اہل ایمان پا لازم ہے اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر ان اصولوں پر کاربند رہو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اور مہربانی شامل رہیگی اور تمہیں عزت حاصل ہوگی۔ ثابت قدمی ہی کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عام اصول کے برخلاف صرف دو صورتوں میں میدان جنگ سے بھاگنے کی اجازت ہے پہلی صورت یہ ہے کہ کوئی دائو پیچ کے طور پر جنگ میں پینترا بدلنے کی خاطر پیچھے ہٹ آئے یا دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے گروہ کے ساتھ شامل ہونے کے لیے پلٹ آئے تا کہ اپنی جماعت کے ساتھ مل کر نئی حکمت عملی کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہو سکے۔ ان دوصورتوں کے علاوہ جو کوئی میدانِ جنگ میں پیٹھ دکھا کر بھاگے گا وہ سخت گناہگار ہوگا ، بلکہ ایسا شخص اکبر الکبائر کا مرتکب ہوگا اس کے علاوہ غزوہ بدر کے سلسلے میں اللہ نے بعض ضمنی باتیں بھی بیان فرمائی ہیں اور پھر کافروں کی طرف بھی روئے سخن کیا ہے فرمایا تم فتح چاہتے تھے تو لو فتح تو ہوگئی مسلمانوں نے تمہیں میدانِ بدر میں شکست فاش دی ہے تمہارے ستر سرکردہ ساتھی مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لیے گئے۔ اگر تم اب بھی اسلام دشمنی سے باز آجائو ، کفر اور شرک سے توبہ کرلو تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے اور اگر تم اس کے بعد بھی جنگ پر آمادہ رہے تو یاد رکھو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا سلوک ہی ہوتا رہے گا جیسا جنگ بدر میں تمہارے ساتھ ہوا۔ اللہ اور رسول کی اطاعت : اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے جنگ کا دوسرا اصول بیان فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے ( آیت) یایھا الذین امنوا اے ایمان والو ! اگر تم صلح وجنگ کے سلسلے میں کامیابی کے طلبگار ہو تو اس کے لیے اصول یہ ہے ( آیت) اطیعو اللہ ورسولہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو۔ ان کے علاوہ مخلوق میں سے کسی اور کی فرمانبرداری مت کرو کیونکہ ہر شخص کی خواہش الگ الگ ہوتی ہے مگر اہل ایمان کے سامنے صرف ایک بلند مقصد ہے کہ ہر حالت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو اور ہمیشہ یہی اصول مدنظر رہنا چاہیے۔ فرمایا ( آیت) ولا تولوا عنہ اس اصول سے روگردانی نہ کرو۔ ( آیت) وانتم تسمعون اور تم سنتے ہو تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ ہدایت اسی اصول میں ہے اور اسی کے ذریعے نجات حاصل ہو سکتی ہے دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھی اسی اصول کو بروئے کار لانا پڑے گا یاد رہے کہ اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے رسول چونکہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہے اور تبلیغ رسالت کا فریضہ اللہ نے اس کے ذمے لگایا ہے لہٰذا اس کی اطاعت بھی مطلق فرض ہے کیونکہ وہ اللہ کا منشاء پورا کرتا ہے اور باقی لوگوں کے لیے اطاعت الہی کا نمونہ ہوتا ہے فرمایا تم سنتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے تو پھر تم اس سے روگردانی مت کرو۔ سماعت سے معذوری : فرمایا ( آیت) ولا تکونوا کالذین قالوا سمعنا ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا ( آیت) وھم لا یسمعون حالانکہ وہ نہیں سنتے اس میں اہل کتاب یہود ونصاری کا رد آگیا ، وہ بھی کہتے تھے سمعنا یعنی ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے تھے منافق لوگ بھی زبان سے کہتے تھے کہ ہم نے سن لیا اور تسلیم کرلیا مگر حقیقت میں نہ سنتے ہیں اور نہ مانتے ہیں اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی مثال سورة جمعہ میں بیان فرمائی ہے ( آیت) مثل الذین حملوا التورٰۃثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا فرمایا یہودوں نے ذوق وشوق کے ساتھ کتاب کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر جب انہیں تورات عطا کی گئی تو وہ اپنی بےعملی کی وجہ سے کتاب کا حق ادا نہ کرسکے۔ اللہ نے فرمایا ان لوگوں کی مثال اس گدھے کی ہے جس پر کتابوں کا گٹھا لاد دیا گیا ہو۔ جس طرح گدھا کتابوں کا بوجھ اٹھانے کے باوجود ان سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ اس طرح حاملین تورات اس کتاب سے اعراض کی وجہ سے اس سے بےبہرے ہیں گویا ان کا تورات کا پڑھنا اور سننا نہ سننے کے برابر ہے تو اللہ نے یہاں پر اہل ایمان کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم اہل کتاب یہود اور منافقین کی طرح نہ بن جانا جو اللہ کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں معاملہ صلح کا ہو یا جنگ کا ، موقع خوشی کا ہو یا غمی کا مسئلہ سیاسی ہو یا معاشی ہر حالت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت مقدم رہنی چاہیے کیونکہ فلاح کا دارومدار اسی پر ہے بدترین جانور : اس کے بعد اللہ کی بات کو صحیح معنوں میں نہ سننے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے یعنی وہ لوگ جو اللہ کے احکام کو سننے کے باوجوداپنے عقیدہ کو درست کرتے ہیں اور نہ ان احکام پر عمل کرتے ہیں بلکہ اپنی بات پر ہی اڑے رہتے ہیں فرمایا ( آیت) ان شرالدوآب عند اللہ الصم البکم الذین لا یعقلون زمین پر چلنے والے بدترین جانور وہ ہیں جو بہرے اور گونگے ہیں اور عقل سے کام نہیں لیتے۔ دواب ، دابہ کی جمع ہے جو زمین پر چلنے والے ہر چھوٹے بڑے جانور پر بولا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسا قیمتی جوہر عطا کیا ہے جو عام جانداروں کو حاصل نہیں اسی عقل کی وجہ سے انسان قانون کا پانند یعنی مکلف بنتا ہے عقل ہی انسان کو قابل مواخذہ بناتی ہے ورنہ کوئی پاگل شخص مکلف نہیں ہے تو فرمایا کہ صاحب عقل ہو کر جو انسان عقل سے صحیح کام نہیں لیتے وہ اللہ کے نزیک مویشیوں ، درندوں ، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ کیڑے مکورے عقل سے معذوری کی بنا پر غیر مکلف ہیں مگر انسان عقل رکھتے ہوئے بھی اس سے مستفید نہیں ہوتا اور اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا لہٰذا وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ انسان کی قدروقیمت اطاعت وفرمانبرداری کے ساتھ ہی ہے فکر اور عقیدے کی درستگی ہی انسان کے شایان ِ شان ہے اگر کسی شخص کی فکر اخلاق اور عمل درست نہیں ہے تو ایسا شخص اللہ کے ہاں کچھ قدروقیمت نہیں رکھتا۔ ایسی ہی حالت کے متعلق سورة التین میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( آیت) ثم رددنٰہ اسفل سٰفلین پھر ہم نے ایسے شخص کو نیچے سے بھی نیچے گرا دیا جب اسنے ایمان کی دولت کو قبول نہ کیا نیکی کا راستہ اختیار نہ کا ، خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ پھیرلیا تو وہ کیرے مکوڑوں کتے بلی سانپ اور بچھو سے بھی ذلیل ہوگیا انسان ایمان اور نیکی کی وجہ سے مرتبہ عروج تک پہنچتا ہے اگر اس میں یہ چیز مفقود ہے تو پھر زمین پرچلنے پھرنے والے جانور اس سے بہتر ہیں ایسے لوگوں کے متعلق سورة اعراف میں فرمایا ہے ( آیت) اولئک کالانعام بل ھم اضل کہ وہ مویشیوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے مویشی تو پھر بھی اپنا مقصد حیات پورا کرتے ہیں اور اپنے مالک کی اطاعت بجا لاتے ہیں مگر حضرت انسان اپنے مقصد حیات سے اعراض کرتے ہوئے اپنے مالک کی فرمانبرداری کو اپنے آپ پر لازم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا سورة بینہ میں ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ( آیت) اولئک ھم شر البریہ ایسے لوگ انسانوں کا بدترین حصہ ہیں فرمایا اس قسم کے اللہ کے نافرمان لوگ لا یعقلون کچھ عقل نہیں رکھتے یعنی اللہ کی عظیم نعمت عقل سے کام ہی نہیں لیتے۔ قرآن پاک سے اعراض : حاملین ِ قرآن پر بھی یہی بات صادق آتی ہے جو لوگ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اسے سمجھ کر اس پر عمل بھی کریں جو لوگ اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین جاندار وہ لوگ ہیں جو بہرے کہ حق بات کو سنتے ہی نہیں اور گونگے ہیں کہ حق بات کہتے ہی نہیں دنیا کی اول فول تمام لغویات برے غور سے سنتے ہیں مگر حق کو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے خدا کا کلام اور اس کا قانون سننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ا سی طرح ہر قسم کی لغویات تو بولتے رہتے ہیں مگر حق کی حمایت میں ان کی زبان سے ایک لفظ ادا نہیں ہوتا جب بولیں گے الٹا ہی بولیں گے یہاں پر بہرے کا ذکر پہلے کیا ہے اور گونگے کا بعد میں وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کا سننا ، بولنے سے زیادہ ضروری ہے جب تک کوئی انسان کوئی چیز سنے گا نہیں وہ بول نہیں سکے گا۔ انسانی علم کا زیادہ تر حصہ سماعت پر موقوف ہے اس لیے سمع کی زیادہ اہمیت کہ وجہ سے اسے بولنے پر مقدم رکھا گیا ہے سورة بقرہ میں فرمایا ( آیت) صم بکم عمی وہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں اور اندھے بھی ہیں اس سے مراد ظاہری آنکھیں نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے محروم ہونا ہے ایسے لوگ حق و باطل کی بصیرت سے عاری ہوتے ہیں یہ لو نہ تو حق بات کو سنتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں نہ نیکی کی طرف لوٹتے ہیں نہ دل کی آنکھوں سے اسے چانچتے ہیں اور نہ حق کی حمایت میں بولتے ہیں اس لیے فرمایا کہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں تاہم اس مقام پر صرف بہرے اور گونگے ہونے کا ذکر ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔ فرمایا ( آیت) ولو علم اللہ فیھم خیرا اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں بہتری کی کوئی چیز دیکھتا ( آیت) لاسمعھم تو ان کو حق بات ضرور سنوا دیتا اور اس پر عقل وفہم کے ذریعے غور کرتے اور اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوجاتے مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایسے لوگ اس صلاحیت سے ہی محروم ہیں لہٰذا ان کو سننے کی توفیق ہیں نہیں دیتا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ” کل مولود یولد علی فطرۃ الاسلام “ یعنی ہر نومولود فطرتِ اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے مگر بعد میں اس کا ماحوا اسے بگار دیتا ہے اور وہ حق کی بجائے باطل کو قبول کرلیتا ہے سورة روم میں بھی موجود ہے ( آیت) ” فاقم وجھک للدین حنیفا “ اس دین حنیف پر جم جائو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقرر کردیا ( آیت) ” فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا “ خدا تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس فطرت سے مراد خدا تعالیٰ کی توحید ہے یہی خدا کا دین ہے اور اسی توحید کو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں داخل کیا ہے اگر کسی شخص کو پیدا ہوتے ہی اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے ۔ اور مشرکین اس کے دل میں مشرکانہ خیالات نہ ڈالیں تو کبھی شرک نہیں کرے گا کیونکہ وہ فطرتِ الٰہی یعنی توحید پر پیدا ہوا ہے۔ فرمایا گیا اللہ ان میں بہتری کو کوئی چیز جانتا تو انہیں ضرور سنوا دیتا مگر وہ صلاحیت سے عاری ہیں۔ ( آیت) ولو اسمعھم اور اگر انہیں اسی حالت میں سنواتا لتولوا تو وہ منہ پھیر جاتے ( آیت) وھم معرضون اور وہ اعراض کرنے والے ہوتے وہ حق بات کا بالکل انکار کردیتے لہٰذا ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ ان کو سنوارنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
Top