Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! مت خیانت کرو اللہ تعالیٰ سے اور رسول سے اور مت خیانت کرو اپنی امانتوں سے اور تم جانتے ہو
ربط آیات : یہ سورة اور اگلی سورة توبہ دونوں جہاد کے سلسلے سے تعلق رکھتی ہیں ان سورتوں میں اللہ نے دشمن کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کے اصول بیان فرمائے ہیں سب سے پہلا اصول ثابت قدمی تھا کہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوجائے تو پھر میدانِ جنگ سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو بلکہ ثابت قدم رہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کردیا کہ دشمن اگر تعداد میں دگنے بھی ہوں تو ان کے خوف سے بھاگنے کی اجازت نہیں ہے جو شخص پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا وہ اکبرالکبائر کا مرتکب ہو کر جہنم کا مستحق ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کا دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو اور اس سے روگردانی نہ کرو اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ یہ بےعقل اور ناسمجھ ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ فرمایا یہود اور منافقین کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے احکام سن لیے حالانکہ وہ نہیں سنتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تیسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب کہ وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلاتا ہے جس میں تمہارے لیے ابدی زندگی ہے تعمیل حکم میں سستی نہ کرو ، ورنہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے درمیان حائل ہوجائے تمہارے دل کی حالت کو بدل دے اور تم سے نیکی کی توفیق ہی سلب کرلی جائے اس کے علاوہ گزشتہ درس میں اللہ نے اپنے بعض احسانات بھی یاد دلائے اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے جنگ کا چوتھا اور پانچواں اصول بیان فرمایا ہے جس کا تعلق خیانت اور تقویٰ کے ساتھ ہے ۔ حقوق اللہ میں خیانت : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا “ اے ایمان والو (آیت) ” لاتخونوا اللہ والرسول “ اور مت خیانت کرو اللہ سے اور رسول سے (آیت) ” وتخونوا امنتکم “ اور مت خیانت کرو اپنی امانتوں میں اللہ تعالیٰ سے خیانت کرنے کا مفہوم بڑا وسیع ہے جنگ کی صورت میں جو مال غنیمت حاصل ہوتا ہے ، وہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے اور اس میں خیانت قطعا روا نہیں۔ مالِ غنیمت کا مفصل قانون تو آگے اسی سورة میں آرہا ہے تا ہم اجمالی طور پر سورة کی ابتدائی آیت میں بھی فرمایا گیا ہے (آیت) ” قل الانفال للہ والرسول “ یعنی مال غنیمت تو اللہ تعالیٰ کا حق ہے جو اس کے حکم کے مطابق اس کا نبی تقسیم کریگا۔ مالِ غنیمت میں خیانت سے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے شراک من النار وشراکان من النار اگر مال غنیمت میں ایک تسمی یا دو تسمے بھی بغیر اجازت کے اٹھائے گا تو جہنم کا باعث ہوگا ایک غلام کو کسی نے تیر مار کر ہلاک کردیا لوگوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں مبارکباد پیش کی کہ آپ کا غلام شہید ہوگیا ، آپ نے فرمایا خبردار ! اس شخص نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی جو جہنم کی آگ بن کر اس پر لپٹ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنی نوع انسان پر قائم ہونے والے تمام حقوق اور انسان نے اللہ تعالیٰ سے جو بھی عہدوپیمان کر رکھے ہیں اور اس کی الوہیت کا جو اقرار کیا ہے ، وہ سب امانت ہیں جو شخص ان میں سے کوئی ایک حق بھی ادا نہیں کریگا وہ خیانت کا مرتکب ہوگا ، اگر کوئی نماز ٹھیک طور پر ادا نہیں کرتا یا وضو اور غسل صحیح طریقے سے نہیں کرتا ، وہ خیانت کا مجرم ہوگا اسی طرح جو کوئی نبی کے احکام اور عہدوپیمان کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ بھی خیانت کا مجرم سمجھا جائیگا تمام معاملات بھی اسی ضمن میں آتے ہیں دھوکہ بازی ، مکاری اور خیانت جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔ حضرت ابو ابابہ ابن عبد المنذر ؓ کا واقعہ تفاسیر کی کتابوں میں مذکور ہے حضور ﷺ نے اللہ کے حکم سے بنو قریظہ پر چرھائی کی جو ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے متعلق جو فیصلہ سعد بن معاذ کریگا وہ تمہیں قبول کرنا ہوگا۔ ابو لبابہ کا یہودیوں کے ساتھ تجارتی لین دین تھا اور وہ ایک دوسرے کے دوست تھے یہودیوں نے حضرت ابو لبابہ ؓ سے مشورہ لیا کہ کیا انہیں حضرت سعد بن معاذ کا فیصلہ قبول کرلینا چاہیے۔ اس پر حضرت ابو لبابہ ؓ نے گلے کی طرف اشارہ کیا اگرچہ انہوں نے منہ سے کوئی بات نہیں کی تھی تا ہم اس کا مطلب یہ تھا کہ سعد کا فیصلہ تمہیں مروا دیگا لہٰذا اس معاملہ میں محتاط رہو یہ اشارہ تو کر بیٹھے مگر بعد میں انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے یہودیوں کے حق میں بات کر کے خیانت کا ارتکاب کیا ہے چناچہ انہوں نے سزا کے طور پر اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور قسم اٹھالی کہ جب تک اللہ کا رسول مجھے خود اپنے دست مبارک سے نہیں کھولے گا میں یہیں بندھا رہ کر جان دے دونگا اس دوران اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطی کی معافی طلب کرتے رہے حتی کی چھ دن گزر گے اور آپ پر بیہوشی کے دورے پڑنے لگے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو حضور ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے ابولبابہ کی رسیاں کاٹ کر آزاد کیا ، بہرحال فرمایا کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرو۔ حقوق العباد میں خیانت : (آیت) ” ولاتخونوا امٰنٰتکم “ میں بندوں کے حقوق میں خیانت کا تذکروہ ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” المستشار موتمن “ یعنی جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے ، لہٰذا کسی کو غلط مشورہ نہیں دینا چاہیے بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق صحیح صحیح مشورہ دینا چاہیے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی کو غلط مشورہ دے گا تو وہ اس کے حق میں خیانت کا مرتکب ہوگا۔ حقوق العباد کے سلسلے میں خیانت کی مثالیں عام طور پر دیکھنے میں آتی رہتی ہیں ، شراکت دار آپس میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں مختلف انجمنیں بنتی ہیں اور پھر ان کے حصہ داران یا کارکنان خیانت کے ذریعے مال کھاتے ہیں مسجدوں اور مدرسوں کے فنڈ میں خیانت ہوتی ہے یہ سب معاملات کی خیانت ہے اور قطعی حرام ہے۔ بعض لوگ اپنے فرائض میں کوتاہی کر کے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اگر آٹھ گھنٹے کام کرنے کا معاہدہ ہے تو پانچ گھنٹے کام کر کے تین گھنٹے چوری کرلیے ، ڈیوٹی میں کمی کرنا خیانت ہے اور ایسی کمائی حرام ہے ووٹ جیسی قیمتی امانت کسی غیر مستحق کے سپرد کردینا بھی خیانت میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( آیت) ” ان تودو الامنہ الی اھلھا “ (النسائ) یعنی اپنی امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہیں اگر کوئی شخص کسی عہدے پر متعین ہے اور وہ اپنے فرائض منصبی صحیح طور پر انجام نہیں دیتا تو وہ خیانت کا مجرم ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ منافق کی ایک نشانی یہ ہے کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے ، بہرحال اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا ، احکام کی خلاف ورزی کرنا ، مالی مفاد کی خاطر غلط مشورہ دینا سب خیانت میں داخل ہیں جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے ، فرمایا اللہ اور اس کے رسول اور آپس کے معاملات میں خیانت نہ کرو ( آیت) ” وانتم تعلمون “ اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ فلاح اسی میں ہے اگر کسی بھی معاملہ میں خیانت کے مرتکب ہو گے تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا ، دنیا میں ذلیل ہو جائو گے اور آخرت میں عذاب کے مستحق ٹھہرو گے۔ مال اور اولاد کا فتنہ : فرمایا ، یاد رکھو ! خیانت اکثر مال اور اولاک کی محبت کی وجہ سے کی جاتی ہے اکثر لوگ اولاد کی خاطر مال کے حصول میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں جو کہ بہت بری بات ہے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ( آیت) ” واعلموا انما اموالکم اولادکم فتنۃ “ تمہارے مال اور اولاد خدا تعالیٰ کی جانب سے فتنہ کا باعث ہیں۔ ان چیزوں کے ذریعے ہیں ان چیزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں آزمانا چاہتا ہے سورة تغابن میں ہ یے (آیت) ” ان من ازواجکم اولادکم عدوا لکم “ تمہارے بیوی بچے تمہارے دشمن ہیں ان کی محبت میں مبتلا ہو کر اگر خدا اور رسول سے خیانت کرو گے تو جہنم میں جائو گے بیوی بچوں کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے مگر اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت کرنے کی قطعا اجازت نہیں فرمایا اسی چند روزہ زندگی میں حقیر مال میں خیانت نہ کرو (آیت) ” وان اللہ عندہ اجر عظیم “ اجر عظیم تو اللہ کے پاس ہے اگر خدا تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھو گے مال واولاد کے معاملہ میں خیامت نہیں کرو گا بلکہ اللہ کی حدود کو قائم کروگے تو ا س کے ہاں بہت بڑا اجر پائو گے بہرحال یہ کامیابی کا چوتھا اصول ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ آپس کے معاملات میں خیانت کا ارتکاب کرو۔ تقوی کی برکات : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے صلح و جنگ یا زندگی کے دوسرے معاملات میں کامیابی کے لیے پانچواں اصول بیان فرمایا ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا “ اے ایمان والو ! (آیت) ” ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا “ اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہارے لیے فیصلہ کن بات بنا دیگا معرکہ بدر اس کی مثال ہے اس موقع پر اہل ایمان نے اللہ کی بارگاہ میں عاجزی ، اخلاص اور تقوی پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے فتح عظیم عطا فرمائی اور مسلمانوں کے حق میں ایسا فیصلہ کیا جو ہمیشہ کے لیے یاد گار بن گیا۔ اسی طرح جس میدان میں بھی تقوی اختیار کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں مشکلات سے نکالتا رہے گا اور تمہارے لیے کوئی اشتباہ نہیں رہنے دیگا۔ اور ہمیشہ تمہارے سامنے حق و باطل میں فیصلہ کن چیز رکھے گا تقوی سے عام فہم مراد خدا کا خوف ، کفر وشرک ، معاصی اور بدعات سے بچنا ، شریعت کا احترام کرنا ، حدود اللہ کا خیال رکھنا اور شبہات سے بچنا ہے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھنا تقوی کا اہم جزو ہے ، لہٰذا اگر ان باتوں پر عمل پیرا رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہمیشہ فیصلہ کن معاملہ کرے گا۔ فرمایا تقوی اختیار کرنے کا نتیجہ تمہارے حق میں یہ ہوگا (آیت) ” ویکفی عنکم سیاتکم “ اللہ تعالیٰ تمہاری برائیوں کو مٹا دیگا ، تمہاری غلطیوں اور کوتاہیوں سے در گزر فرمائے گا ، نیز (آیت) ” ویغفرلکم تمہارے گناہ بخش دے گا ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے تقوی کے نتیجے میں تین انعامات کا ذکر فرمایا ہے ، پہلا انعام یہ ہے کہ تمہارے حق میں فیصلہ کن بات کرے گا دوسرا تمہاری برائیاں مٹا دے گا ۔ اور تیسرا یہ کہ تمہارے گناہ بھی معاف کر دیگا کیونکہ (آیت) ” واللہ ذوالفضل العظیم “ اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے مگر اس کا فضل انہیں لوگوں کے شامل حال ہوگا جو صاحب ایمان اور صاحب تقویٰ ہو گے۔ کوئی فرد واحد ہو یا جماعت یا حکومت ، اگر تقوی کے اصول پر کار بند نہیں ہوں گے تو ہر معاملہ میں گڑبڑ ہی رہیگی ، کوئی فیصلہ کن بات سامنے نہیں آئیگی ، آج دنیا میں جھگڑے ، فساد ، بےاطمینانی ، معاشی بدحالی اور سیاسی ناپائیداری کا سبب یہی ہے کہ عام لوگ اور خود پردازانِ حکومت تقوی سے عاری ہوچکے ہیں اور مشکلات میں گرفتار ہیں۔
Top