Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 30
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
وَاِذْ : اور جب يَمْكُرُ بِكَ : خفیہ تدبیریں کرتے تھے آپ کے بارہ میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لِيُثْبِتُوْكَ : تمہیں قید کرلیں اَوْ يَقْتُلُوْكَ : یا قتل کردیں تمہیں اَوْ يُخْرِجُوْكَ : یا نکال دیں تمہیں وَيَمْكُرُوْنَ : اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے وَيَمْكُرُ اللّٰهُ : اور خفیہ تدبیریں کرتا ہے اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہترین الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنے والا
اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب کہ مخفی تدبیر کر رہے تھے آپ کے متعلق کافر لوگ تا کہ آپ کو قید کرلیں یا قتل کردیں یا آپ کو (ملک سے) باہر نکال دیں۔ اور وہ بھی مخفی تدبیر کرتے تھے اور اللہ بھی مخفی تدبیر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر مخفی تدبیر کرنے والا ہے
ربط ِ آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے فلاں کے پانچ اصول بیان فرمائے ہیں ، پانچواں اصول خوفِ خدا یعنی تقوی کا راستہ اختیار کرنا اور اسی کی ذات پر بھروسہ رکھنا ہے ، اگر اہل ایمان اس اصول پر کاربند رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہر چیز کو فیصلہ کن بنا دیگا اور یہ چیز ان کے باطن کے لحاظ سے نور بصیرت ہوگی ، ان کے دلوں میں احسان کی حالت راسخ ہوجائے گی ، حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا ہوگا اور خارجی دنیا میں ہر قسم کے شکوک و شبہات دفع ہوجائیں گے یہی تقوے کا نتیجہ ہے اور یہی مدار فلاح ہے ان کے لیے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہوگی جس کی بین مثال غزوہ بد ہے ، اس جنگ میں کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضروری اسباب پیدا فرمائے جن کا اشارہ گزشتہ آیا ت میں ہوچکا ہے ، اس مشکل موقع پر اہل ایمان نے بےمثال تقوی اور توکل پیش کیا تھا نہایت بےسروسامانی کی حالت میں بھی انہوں نے اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھا ، تقوی کے راستہ کو مضبوطی سے تھامے رکھا ، تو اللہ تعالیٰ نے فتح مبین سے سرفراز فرمایا۔ اسلام کے پورے کی نشونما کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بنی اور اہل ایمان کی جن جن ذرائع سے مدد فرمائی ان کا ذکر آرہا ہے ، چناچہ آج کے درس میں ہجرت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس میں مشرکین کی ہٹ دھرمی اور تعصب کا ذکر بھی ہے اور اہل ایمان کی کامیابی کا بھی۔ حضور ﷺ کے خلاف مشورہ : ارشاد ہوتا ہے وہ بات اپنے سامنے رکھو (آیت) ” واذیمکربک الذین کفروا “ جب کہ کافر لوگ آپ کے متعلق مخفی تدبیر کر رہے تھے عربی زبان میں مکر کا معنی مخفی تدبیر ہوتا ہے اگرچہ اس سے دائو پیچ ہی مراد ہوتا ہے تا ہم لفظی معنی تدبیر ہی ہے اردو میں مکر سے مراد دھوکہ اور فریب ہوتا ہے جس کا اطلاق عربی مکر پر نہیں ہوتا عربی کا مکر کا اطلاق انسانوں پر بھی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی چناچہ اکثر مقامات پر قرآن پاک میں آتا ہے (آیت) ” ومکروا ومکر اللہ “ انہوں نے بھی مخفی تدبیر کی اور اللہ نے بھی مخفی تدبیر کی (آیت) ” واللہ خیر المٰکرین “ اور اللہ تعالیٰ بہترین مخفی تدبیر کرنے والا ہے یہی مضمون اس آیت میں آگے بھی آرہا ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور ﷺ کی ہجرت کے پس منظر کی طرف اشارہ ہے کہ کفار مکہ نے آپ کے خلاف مختلف تجاویز پر مشورہ کیا اور پھر ایک فیصلہ پر اتفاق کرلیا۔ مکہ میں حضور ﷺ کے آبائو اجداد میں سے قصی ابن کلاب کا ایک مکان تھا ، جسے اہم مشوری کے لیے اسمبلی ہال کی حیثیت حاصل تھی۔ لہٰذا اسے دارالندوہ یعنی مشورے کا گھر کہا جاتا تھا جب اسلام کی روشنی پھیلنے لگی اور اکا دکا لوگ حلقہ بکوش اسلام ہونے لگے تو مکہ کے مشرکوں کو اپنی سیادت کی فکر لاحق ہوئی انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمان تعداد میں بڑتھتے رہے تو ایک دن ایسا آئے گا جب وہ مکہ کے قدیم باشندوں پر غالب آجائیں گے چناچہ وہ اسلام کے اس نرو وناز کی پودے کو ابتداء ہی میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار ہوگئے انہوں نے عام مسلمانوں خصوصا ضعفا پر بڑے مظالم ڈھائے بعض کو قتل بھی کیا ، مگر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے بالآخر کسی فیصلہ کے لیے بڑے برے کفار ومشرکین ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ اور ابو الاسود وغیرہ اسی دارالندوہ میں مشورہ کے لیے اکھٹے ہوئے تا کہ حضور ﷺ کی ذات کے متعلق کوئی آخری فیصلہ کرسکیں۔ قید کی تجویز : جب اس مسئلہ پر بحث شروع ہوئی تو ابوالبختری نے رائے دی کہ حضور کے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر انہیں کسی کوٹھڑی میں قید کردیا جائے نہ یہ باہر نکل سکیں گے اور نہ اسلام کی آبیاری ہوگی۔ امام سہلی اور دیگر سیرت نگار اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ جب یہ لوگ دارالندوہ میں جمع تھے تو ایک اجنبی شخص نے آکر دروازے پر دستک دی۔ پوچھنے پر اس نے اپنا تعارف شیخ نجدی کے طور پر کرایا اور کہا کہ میں بھی تمہارے مشورے میں شریک ہونا چاہتا ہوں ، شائد کوئی اچھی رائے پیش کرسکوں ، چناچہ اس نووارد کو بھی مشورے میں شامل کرلیا گیا یہ شخص دراصل ابلیس لعین تھا اور اسلام دشمنی میں اپنا رول ادا کرنا چاہتا تھا چناچہ جب ابو البختری نے حضور ﷺ کو قید کردینے کی تجویز پیش کی تو اس نے اور بعض دوسرے مشیروں نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ قید کی صورت میں آپ کے ساتھی آپ کو رہا کرانے کی کوشش کریں گے اور اس طرح یہ خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔ اس مقام پر اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب کافر لوگ آپ کے متعلق مخفی تدبیر کر رہے تھے (آیت) ” لیثبتوک “ تا کہ آپ کو قید میں ڈال دیں۔ جلا وطنی : جب مذکورہ تجویز پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو ابو الاسود نے مشورہ دیا کہ پیغمبر اسلام (علیہ السلام) کو جلا وطن کردینا چاہیے باہر جو مرضی کرتے پھریں ، کم از کم ہم تو روز روز کی سردردی سے محفوظ ہوجائیں گے۔ اس پر شیخ نجدی اور بعض دوسرے مشیروں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ زبان کے بڑے میٹھے ہیں ، یہ جہاں بھی جائیں گے لوگ ان کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب وہ طاقت جمع کر کے تم پر حملہ آور ہوجائیں ، لہٰذا بہتر ہے کہ ان کو اس قسم کا موقع ہی نہ دیا جائے جو ہمارے لیے کسی آئندہ زمانے میں بھی خطرے کا باعث ہو لہذا یہ تجویز بھی ناکام ہوگئی (آیت) ” اویخرجوک “ میں اسی تجویز کی طرف اشارہ ہے۔ قتل کا منصوبہ : اس کے بعد ابو جہل نے آپ کے قتل کا منصوبہ پیش کیا تجویز یہ تھی کہ ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان کا انتخاب کیا جائے جو اعلیٰ درجے کی تلوارون سے مسلح ہوں اور پھر ایک مقررہ وقت پر حضور ﷺ پر حملہ آور ہو کر آپ کا کام تمام کردیں اس کا ٰخیال تھا کہ چونکہ اس قتل میں تمام قبائل شامل ہوں گے اس لیے حضور ﷺ کے خاندان والے کسی ایک سے قصاص کا مطالبہ بھی نہیں کرسکیں گے ، البتہ ہم سب مل کر انہیں دیت ادا کردیں گے۔ ابلیس نے اس رائے کی حمایت کی ، چناچہ اس کام کے لیے تاریخ مقرر کردی گئی کہ فلاں رات کو فلاں فلاں نوجوان مسلح ہو کر آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیں گے اور جونہی آپ باہر نکلیں گے آپ کو ختم کر دیاجائیگا۔ (آیت) ” او یقتلوک کا یہی مطلب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر : اسی واقع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) ” ویمکرون “ ادھر کفار مخفی تدبیر کر رہے تھے اور ادھر (آیت) ” ویمکرو اللہ “ اللہ تعالیٰ مخفی تدبیر کر رہا تھا (آیت) ” واللہ خیر المکرین “ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بہت تدبیر کرنے والا ہے اس کے سامنے کسی دوسرے کی تدبیر نہیں چل سکتی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بھی یہی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ آپ کے دشمن بھی آپ کے خلاف مخفی تدبیر کر رہے تھے وہ آپ کو سولی پر لٹکانا چاہتے تھے مگر ادھر اللہ کی مخفی تدبیر بھی کام کر رہی تھی۔ وہاں بھی یہی الفاظ ہیں (آیت) ” ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر المکرین “۔ بہر حال کفار نے اپنی خفیہ تدبیر کے مطابق رات کو حضور ﷺ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس منصوبے سے بذریعہ وحی آگاہ کردیا اور آپ کو راتوں رات وہاں سے نکل جانے کا حکم دیدیا حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا اور فرمایا کہ صبح یہ امانتیں لوگوں تک پہنچا دینا کیونکہ میں تو جا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی حکم دیا کہ مٹی کی ایک مٹھی لے کر محاصرے پر موجود آدمیوں کے سروں پر پھینک دیں۔ آپ نے ایسا ہی کیا اور سورة یسٰین کی آیت (آیت) ” وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا فاغشینھم فھم لا یبصروان “ کی تلاوت کرتے ہوئے ان کے سامنے سے گزر گئے مگر انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے آگے پیچھے پردے ڈال دیے ، ان پر غنودگی طاری ہوگئی اور وہ آپ کو دیکھ ہی نہ سکے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت علی ؓ کو حضور ﷺ کے بستر پر پایا پوچھا آپ کے صاحب کدھر گئے حضرت علی ؓ نے کہا مجھے کیا پتہ ہے ، کافروں نے بڑی سختی سے پوچھنے کی کوشش کی مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ غارِ ثور میں قیام : حضور ﷺ اپنے گھر سے روانہ ہو کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے گھر پہنچے ان کو ساتھ لیا اور مکہ سے پندرہ کلو میٹر دور غارثور میں راتوں رات پہنچ گئے۔ صبح کے وقت جب کفار کو آپ کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے مختلف راستوں پر آدمی دوڑا دیئے تا کہ آپ کو روکا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت سے حضور ﷺ تین دن تک غارثور میں مقیم رہے اور پھر ایک غیر معروف راستے پر مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابن ہشام اور دیگر مورخین نے اس راستے کی بھی نشاندہی کی ہے جس پر حضور ﷺ نے مدینہ طیبہ کا سفر اختیار کیا یہ سب اللہ کی مخفی تدبیر تھی ، بدر کے مقام پر مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا منصوبہ بنایا تھا ، مگر اللہ نے وہاں بھی اپنی مخفی تدبیر کے ذریعے ان کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا اور انہیں شکست فاش سے دوچار کیا۔ آیات قرآنی کا انکار : آگے اللہ تعالیٰ نے کفار کی ایک اور خصلت کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” واذا تتلی علیھم ایتنا “ جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے تو تعصب اور عناد کی بناء پر کہتے ہیں۔ (آیت) ” قالوا قد سمعنا “ کہ ہم نے سن لیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں (آیت) ” لو نشاء لقلنا مثل ھذا “ اگر ہم چاہیں تو اس جیسا کلام ہم بھی پیش کرسکتے ہیں ۔ نضر بن حارث کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایران میں کافی عرصہ تک رہ چکا تھا اور وہاں کے رستم واسفند یار کے قصے خوب جانتا تھا۔ جب حضور ﷺ لوگوں کے سامنے پرانی قوموں سے متعلق قرآنی آۃ یات پیش کرتے تو نضر کہتا کہ محمد تمہیں عاد وثمود کے قصے سناتا ہے ، آئو میں تمہیں اس سے بہتر کہانیاں سناتا ہوں۔ چناچہ یہ شخص ایرانیوں کے پرانے قصے کہانیاں لوگوں کو سنایا کرتا تھا تا ہم مشرکین کی اکثریت ایسی تھی جو قرآن پاک کی کسی بھی آیت کی مثال لانے سے عاجز تھی ، لہٰذا وہ آیات الہٰی کو سننے کے بعد یوں کہ دیتے (آیت) ” ان ھذا الا اساطیر الاولین یہ تو بس پرانے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ اساطیر اسطورہ کی جمع ہے جو کہ یونانی زبان کا لفظ ہے اور عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس کا معنی کہانی Story ہوتا ہے۔ کفار کی بدعا : مشرکین اپنے عقائد باطلہ پر بڑے راسخ تھے ، اپنی خود ساختہ چند رسوم کو دین ابراہیمی سے تعبیر کرتے تھے اور اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے ، وہ الٹا مسلمانوں کو صابی کہتے تھے کہ انہوں نے آبائو اجداد کے دین کو خراب کردیا ہے ، اکثر انبیاء کے متعلق ان کی امتیں ایسا ہی گمان رکھتی تھیں ، حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ کو یہی کہا تھا (آیت) ” یشعیب اصلوٰتک تامرک ان نترک ما یعبد ابائونا “ (سورۃ ہود) اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے اس واقعہ کی طرف توجہ دلائی ہے جب وہ بدر کی طرف نکلے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بدعا کی تھی۔ (آیت) ” واذقالوا الھم “ جب انہوں نے کہا اے اللہ ! (آیت) ” ان کان ھذا ھو الحق من عندک “ اگر محمد کا دین تیرے نزدیک برحق ہے تو ہم تو اسے نہیں مانتے ، (آیت) ” فامطر علینا حجارۃ من السماء “ تو پھر ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے (آیت) ” اوئتنا بعذاب الیم “ یا ہمیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گویا کہ وہ لوگ اپنے عقیدے پر اتنے پکے تھے کہ خود اپنے لیے بدعا کر رہے تھے ، بعض دیگر انبیاء کی قوموں کا بھی یہی حال تھا فرعون اور ہامان نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو (آیت) ” ساحر کذاب “ کہا مشرکین نے حضور کا معجزہ دیکھ کر کہہ دیا (آیت) ” سحر مستمر “ کہ یہ چلتا ہوا جادو ہے۔ سزا کا خدائی قانون فرمایا کہ مشرک تو اپنی زبان سے سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا قانون محض کسی کے طلب کرنے پر عذاب بھیج دینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ دو وجوہات کی بنا پر عذاب کو ٹالتا رہتا ہے اور جب یہ وجوہات باقی نہیں رہتیں تو عذاب آجاتا ہے چناچہ فرمایا کہ عذاب سے بچے رہنے کی پہلی وجہ یہ ہے (آیت) ” وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم “ یعنی اے پیغمبر جب تک آپ ان کافروں کے درمیان موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان کو عذاب میں مبتلا نہیں کریگا۔ یہ نبی کی برکت ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں عذاب الٰہی نازل نہیں ہوتا۔ پہلی قوموں میں بھی ایسا ہی ہوا ہے ، جب نبی کو قوم سے الگ کیا گیا تو پھر ان پر عذاب آیا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولما جاء امرنا نجیناھودا والذین امنوا معہ “ (سورۃ ہود) جب حکم آگیا تو ہم نے ہود (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو بچا لیا اور نافرمانوں کو سخت عذاب میں مبتلا کردیا۔ حضور خاتم النبین ﷺ نے مکی زندگی میں بڑی تکالیف برداشت کیں مگر جب تک آپ وہاں مقیم رہے کفار پر کوئی عذاب نہیں آیا۔ پھر جب آپ وہاں سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ چلے گئے تو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں انہیں بدر کے مقام پر ایسی سزا دی جس مٰن ان کے ستر سرکردہ لیڈر مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے کہ میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خصوصیت عطا کی ہے کہ ان پر کوئی ایسا اجتماعی عذاب نہیں آئے گا جس میں پوری امت ہلاک ہوجائے ، تاہم جزوی طور پر چھوٹی موٹی سزائیں آسکتی ہیں۔ سابقہ انبیاء کی قوموں کو مجموعی عذاب میں بھی مبتلا کیا گیا۔ چناچہ قوم عاد کی تباہی کے متعلق آتا ہے کہ ان پر سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل تیز ہوا چلتی رہی اور وہ لوگ اس طرح ہلاک ہوئے پڑے تھے جیسے کھجور کے بڑے بڑے تنے ہوں فرمایا (آیت) ” فھل ترٰی لھم من باقیۃ “ (الحاقہ) ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا بلکہ پوری قوم تباہ ہوگئی۔ قوم ثمود کا ابورغال مسجد حرام میں ٹھہرا ہوا تھا ، جب اس قوم پر عذاب آیا ساری قوم اپنے مقام پر ہلاک ہوگئی اور یہ حرم میں ہو نیکی وجہ سے بچ گیا۔ پھر جب یہ حرم سے نکل کی طائف کی طرف جا رہا تھا تو اس پر بھی وہی عذاب آیا جو باقی قوم پر آیا تھا اور یہ شخص راستے میں ہی ہلاک ہوگیا۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ پہلی پوری کی پوری قوموں پر عذاب نازل ہوا مگر میری امت پر اللہ تعالیٰ اس طرح کا مجموعی عذاب نازل نہیں کرے گا۔ فرمایا نافرمان قوموں پر عذاب کے ٹلتے رہنے کی دوسری وجہ یہ ہے (آیت) ” وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون “ اللہ تعالیٰ اس وقت تک ان کو سزا نہیں دے گا جب تک وہ معافی مانگتے رہیں گے مشرک لوگ اپنے تمام تر شرک کے باوجود اپنی زبان سے غفرانک کہتے تھے یعنی اے اللہ ! ہمیں معاف فرما دے تو اللہ نے فرمایا کہ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے انہیں سزا نہیں دی جائیگی البتہ جب استغفار ترک کردیں گے تو سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ فرمایا (آیت) ” ومالھم الا یعذبھم اللہ “ اللہ تعالیٰ ان کو سزا کیوں نہ دے (آیت) ” وھم یصدون عن المسجد الحرام “ حالانکہ وہ مسجد حرام سے روکتے ہیں حضور ﷺ اور اہل ایمان کو حرم شریف میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں۔ اس کے بعد 6 ھ؁ میں جب حضور ﷺ کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے آئے تو مشرکین نے آپ کو راستے ہی میں روک دیا اور مسجد حرام میں عمرہ نہیں ادا کرنے دیا۔ اس کے متعلق فرمایا کہ جب ان کے عناد کا یہ عالم ہے کہ اللہ کے گھر میں اس کی عبادت سے روکتے ہیں تو پھر ان پر عذاب آنے میں کون سی چیز مانع ہو سکتی ہے ؟ تولیت مساجد کا قانون : فرمایا یہ مسجد حرام سے روکتے ہیں (آیت) ” وما کانوا اولیائہ “ حالانکہ یہ لوگ مسجد حرام کے حقیقی متولی نہیں ہیں۔ یہ تو مسلط ہیں جنہوں نے اللہ کے گھر پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے فرمایا (آیت) ” ان اولیائہ الا المتقون “ درحقیقت مسجد حرام کے متولی تو متقی لوگ ہیں جن میں حضور ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رض ، عمر فاروق رض ، اور ان کے دیگر ساتھی ہیں مسجد حرام کے متولی فاسق ، فاجر اور مشرک کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس آیت سے عام مساجد کی تولیت کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ کسی بھی عبادت خانے کا متولی ہو سکتا ہے جو متقی ہو۔ مگر آج اکثر مساجد میں فاسق لوگ مسلط ہیں۔ نہ تو وہ خود نماز ہوتے ہیں اور نہ ہی تولیت کے اہل۔ مساجد کی انجمنیں اکثر ایسے ہی ممبران پر مشتمل ہوتی ہیں ، ہر کوئی زبردستی متولی بننے کی کوشش کرتا ہے جس کا نتیجہ فتنہ فساد کی صورت میں ہی نکلتا ہے اور تولیت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ یہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں ، یہ لوگ تولیت ِ مسجد کا حق نہیں رکھتے بلکہ (آیت) ” ولکن اکثرھم لا یعلمون “ ان میں سے اکثر بےعلم اور ناسمجھ ہیں۔ یہ لوگ محض اولاد ابراہیم (علیہ السلام) کے استحقاق کی بناء پر مسجد حرام کے متولی بنے بیٹھے ہیں حالانکہ اس کے صحیح حقدار وہ ہیں جو اصل دین ِ ابراہیم پر قائم ہیں۔ احترام مساجد : آج کل اکثر لوگ مساجد کا احترام نہیں کرتے ، دنیا کی باتیں اور شوروغل ہوتا ہے ۔ گمشدگی کے اعلانات ہوتے ہیں۔ تجارتی بھائو بیان کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ حضور ﷺ نے فرمایا (1۔ قرطبی ص 282 ، ج 12) (فیاض) جو شخص گمشدگی کا اعلان کرتا ہے اس کے لیے بدعا کرو کہ خدا تمہاری چیز نہ لوٹائے ۔ اسی طرح جو تجارت کے لیے اعلان کرتا ہے ، اس کے لیے کہو کہ خدا تیری تجارت میں نفع نہ دے۔ چھوٹے بچوں کو مسجد میں آنے سے اسی لیے روکا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے مسجد کا احترام پامال ہوتا ہے پاگلوں کے متعلق بھی یہی حکم ہے مسجد میں حدود جاری کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے کیونکہ اس سے مسجدوں کا احترام باقی نہیں رہتا بہرحال مسجد حرام اور دیگر تمام مساجد کا احترام از حد ضروری ہے۔
Top