Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور نہیں ہیں ان (مشرکینِ مکہ) کی نمازیں بیت اللہ شریف کے پاس مگر سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا ( فرمایا اللہ تعالیٰ نے) پس چھکو سزا اس کے بدلے جو کچھ تم کفر کرتے تھے
ربط آیات : گزشتہ درس میں حضور ﷺ کے واقعہ ہجرت کی طرف اشارہ تھا جب کہ کفار مکہ آپ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی مخفی تدبیر کا ناکام بنا دیا ، اور حضور ﷺ کی حفاظت کے لیے ایسی مخفی تدبیر بنائی کہ آپ ان کی آنکھوں میں مٹی ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے۔ گزشتہ درس ہی میں اللہ نے مشرکین کے تعصب اور عناد کا ذکر بھی فرمایا اور یہ بھی کہ یہ لوگ فوری سزا کے مستحق ہیں مگر ان کی سزا دو وجہ سے رکی ہوئی ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ کا پیغمبر ان کے درمیان موجود ہے ، اور جب تک کسی بھی قوم کا پیغمبر ان میں موجود ہوتا ہے ، وہ قوم سزا سے بچی رہتی ہے اور پھر جب پیغمبر علیحدہ ہوجاتا ہے تو قوم سزا میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اللہ نے مشرکین سے سزا کے ٹلے رہنے کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ جب تک وہ معافی مانگتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل نہیں کریگا۔ معافی کا قانون یہ ہے کہ انسان اپنی زبان کے ساتھ استغفار کرتا رہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگر کافر بھی ایسا کریں گے تو ان کو بھی فوری سزا نہیں ملتی۔ اللہ نے مزید فرمایا کہ مشرکین مکہ خانہ کعبہ کے بزور متولی بنے ہوئے ہیں حالانکہ حقیقت میں بیت اللہ کے متولی وہ ہونے چاہیں جو متقی اور پرہیزگار ہوں ۔ مشرکین مکہ تو کفر اور شرک میں مبتلا ہیں ، لہٰذا وہ بیت اللہ شریف کے متولی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اتقا کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کفر ، شرک اور بدعقیدگی سے محفوظ رہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ کبیرہ معاصی سے بچے اور تیسرا درجہ اتقاء کا یہ ہے ، کہ انسان مکروہ ، مشکوک اور مشتبہات سے بھی بچتا رہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا (آیت) ” ان اولیائہ الا المتقون خانہ کعبہ کے متولی تو وہ ہو سکتے ہیں جو متقی ہوں۔ عام مساجد کا بھی یہی حکم ہے۔ ان کے متولین بھی متقی لوگ ہونے چاہیں مگر آجکل اکثر مساجد کے منتظمین فاسق ، فاجر ، بےنماز اور شرائع الہیہ سے بےنیاز لوگ ہی ملتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ اب لوگوں میں جذبہ خدمت کی بجائے ذاتی مفاد پیش نظر ہے۔ مشرکین کی عبادت : اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی عبادت کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” وما کان صلاتھم عند البیت الا مکاء وتصدیہ “ نہیں ہے ان کی نماز بیت اللہ شریف کے پاس مگر سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے عبادت کے کئی خود ساختہ طریقے ایجاد کر رکھے تھے جو بذات خود آداب مسجد کے خلاف تھے۔ مثلا ان کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی کہ جن کپڑوں میں ہم گناہ کرتے ہیں ان کپڑوں کے ساتھ ہم بیت اللہ جیسے پاک مقام کا طواف کیسے کرسکتے ہیں ؟ چناچہ جن لوگوں کو قریش مکہ اپنے کپرے عاریۃ دے دیتے تھے ، وہ ان کپڑوں کے ساتھ طواف کرلیتے تھے اور باقی حاجیوں کی غالب اکثریت اپنے کپڑوں میں طواف کرنے کی بجاے بالکل برہنہ طواف کرنے کو ترجیع دیتی تھی ، چناچہ مرد دن کے وقت بیت اللہ کا طواف کرتے اور عورتیں رات کے وقت وہ بدبخت اس شنیع فعل کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کہتے تھے کہ ہم اس کے حکم سے ایسا کرتے ہیں حالانکہ گزشتہ سورة اعراف میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گزر چکا ہے (آیت) ” ان اللہ لا یامر بالفحشآئ “ یعنی اللہ تعالیٰ تو اس بےحیائی کا حکم نہیں دیتا ایسے عمل کو اللہ تعالیٰ یا شریعت کی طرف منسوب کرنا تو بہت بڑی زیادتی کی بات ہے۔ آداب مساجد : مفسرین کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب خود حضور ﷺ یا آپ کا کوئی صحابی بیت اللہ شریف کے پاس نماز کے لیے کھڑا ہوتا تو مشرک لوگ دخل اندازی کے لیے سیٹیاں بجانا شروع کردیتے تھے جو کہ نہایت ہی بےادبی اور گستاخی کی بات تھی مسجدوں کے اداب کے متعلق سورة نور میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ “ اللہ تعالیٰ نے تو مساجد کو بلند رکھنے اور ان میں اس کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے مگر یہ لوگ وہاں سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو وہاں پر عبادت سے روک سکیں جب بیت اللہ شریف کی عمارت حضرات ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچی تو اللہ نے اپنے دونوں انبیاء سے وعدہ لیا (آیت) ” ان طھرا بیتی للطائفین والعکفین والرکع السجود “ ( البقرہ) کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں گے۔ اس حکم میں ظاہری طہارت بھی آتی ہے کہ اللہ کا گھر ظاہری نجاست سے بالکل پاک صاف ہو اور باطنی طہارت بھی کہ وہاں پر کفر ، شرک ، بےادبی اور گستاخی کو کوئی بات نہ ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے گھر میں بھی جو جگہ نماز کے لیے متعین کی جائے وہ بھی مسجد کا حکم رکھتی ہے اور اس کو بھی پاک صاف رکھنا ضروری ہے۔ صحاح ستہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک شخص نے مسجد کے صحن میں پیشاب کردیا ، حضور ﷺ کے صحابہ اسے مارنے کے لیے دوڑے مگر آپ نے اس پر زیادتی کرنے سے منع فرمایا پھر اس شخص کو اپنے پاس بلا کر بات سمجھائی کہ اللہ کے گھر اس لیے نہیں ہوتے کہ یہاں گندگی پھینکی جائے ، یہ مقام تو اللہ کی عبادت ، نماز اور ذکر کے لیے ہوتے ہیں ، آپ نے بڑی نرمی سے سمجھایا ، پھر مسجد کو صاف کرایا غرضیکہ مسجد میں تالیاں بجانا ، سیٹیاں مارنا ، لڑائی جھگڑا کرنا ، سامان بیچنا اور گمشدگی کا اعلان کرنا بھی خلاف ادب ہے حتی کہ مسجد میں ہتھیار برہنہ کرنے اور حدود جاری کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ مسجد کا ادب اور خاص طور پر بیت اللہ شریف کا ادب ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ سیٹیاں اور تالیاں : اللہ نے فرمایا کہ مشرکین کی نماز یہ ہے کہ بیت اللہ کے نزدیک سیٹیاں اور تالیاں بجائی جائیں حضرت سعد ابن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ تصدیہ سے مراد وہ آواز ہے جو ہاتھ مارنے سے پیدا ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تالیاں بجانے سے منع فرمایا ہے اور صد کا معنی روکنا بھی ہوتا ہے۔ 6 ھ؁ میں مشرکین مکہ نے عمرہ کے لیے آنے والے مسلمانوں کو مکہ سے باہر ہی روک دیا تھا اور شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ اسی طرح مکاد کا معنی منہ میں انگلی ڈال کر آواز نکالنا یا بنی بنائی سیٹی بجانا ہے مکاء اس پرندے کو بھی کہتے ہیں جو سیٹی کی سی آواز نکالتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین نے اسباب تو ایسے جمع کر رکھے ہیں کہ یہ فوری سزا کے مستحق ہیں مگر دو وجوہات سے ان پر عذاب رکا ہوا ہے جب تک حضور ﷺ مکہ میں موجود رہے اور جب تک مشرکین استغفار کرتے رہے ان کی سزا رکی رہی پھر جب حضور ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے مقام پر ان پر عذاب نازل فرمایا۔ اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے انہیں ذلیل و خوار کیا۔ کفار کے ستر سرکردہ آدمی قتل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے جنہیں فدیہ لے کر چھوڑا گیا اللہ نے فرمایا (آیت) ” فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون “ اب سزا کا مزا چکھو جو کہ تمہارے کفر کا بدلہ ہے۔ اللہ کے راستے میں رکاوٹ : جب کفار مکہ کو بدر کے میدان میں شکست فاش ہوئی تو ان میں غیظ وغضب کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ ابو سفیان پچاس ہزار دینار مالیت کا سامان تجارت لے کر آیا تھا مشرکوں نے کہا کہ اس قافلے کی حفاظت کے نام پر ہم پر وبال آیا ہے لہٰذا انہوں نے عہد کیا کہ یہ سارا مال مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری میں صرف کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی وہ اسلام کو مغلوب کرنے کے لیے مال خرچ کرتے رہتے تھے ، اسی ضمن میں یہاں فرمایا ہے (آیت) ” ان الذین کفروا ینفقون اموالھم لیصدوا عن سبیل اللہ “ یعنی کافر لوگ اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے اپنے مال خرچ کرتے رہتے ہیں ان کے پیش نظر غریبوں کی ہمدردی یارفاہِ عامہ کا کوئی کام نہیں ہوتا بلکہ یہ لوگ اس لیے کثیر مال خرچ کرتے ہیں تا کہ اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکین اور یہ آگے نہ بڑھ سکے۔ چناچہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے کہ عرب کا ایک بہت بڑا شاعر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا تھا مگر کفار اسے محض اس لیے آپ کے پاس جانے سے روکتے تھے کہ اگر اس نے اسلام کے مشن سے متاثر ہو کر کوئی قصیدہ کہ دیا تو سارا عرب اسلام کی طرف مائل ہوجائے گا چناچہ مشرکوں نے سو اونٹ اناج کے عوض شاعر کو حضور ﷺ کے پاس جانے سے روک دیا۔ یہود کا بھی یہی حال ہے۔ نصاری آج کروڑون روپے اسلام دشمنی پر خرچ کر رہے ہیں تا کہ دین کا راستہ روکا جاسکے۔ کہیں تعلیم کے نام پر روپیہ صرف ہو رہا ہے ، کہیں ہسپتال قائم کردیے ہیں اور کہیں کثیر تعداد لڑیچرپڑھے لکھے لوگوں تک مفت پہنچایا جا رہا ہے ، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسلام کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے غیر مسلم افراد ، پارٹیاں اور حکومتیں بےدریغ روپیہ خرچ کر رہی ہیںٰ بڑے بڑے تبلیغی مراکز قائم ہیں جہاں سے افریقہ جیسے پس ماندہ ممالک میں تبلیغی مشن بھیجے جاتے ہیں اس کے برخلاف مسلمانوں میں یہ جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے پہلے زمانہ میں ہر مسلمان اپنے اندر جذبہ ایمان رکھتا تھا اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی سعی کرتا تھا ، انڈونیشیا ، جاوا اور سماٹرا وغیرہ میں اسلام مسلمان تاجروں کی بدولت پھیلا۔ وہ تجارت کے ساتھ ساتھ تبلیغ کا کام بھی کرتے تھے۔ مگر اب یہ ذمہ داری حکومتوں پر ڈال دی گئی ہے اور ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے حکومتوں کا حل تو یہ ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں ارتداد کو بھی نہیں روک سکیں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو اس وقت یہاں کتنے عیسائی تھے اور اب اس تعداد میں کتنے گنا اضافہ ہوچکا ہے کسی نے آج تک اس طرف توجہ نہیں دی۔ کسی نے ارتداد کو روکنے کی کوشش نہیں کی ، یہ تبلیغ دین کا کام کیا کریں گے میں نے عرض کیا کہ کافر لوگ لوگوں کو اسلام سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ چناچہ شکیب ارسلان نے اپنی کتاب حاضر العالم الاسلامی میں لکھا ہے کہ یورپ کی عیسائی مشنریوں نے اسلام کے خلاف چھ لاکھ کتابیں شائع کر کے تقسیم کی ہیں تا کہ کسی طرح قرآن پاک کا پروگرام آگے نہ بڑھنے پائے۔ اور حضور ﷺ کی ذات مبارکہ لوگوں کے سامنے مشتبہ حالت میں آئے۔ ذرا غور فرمائیں کہ مسلمان حکومتیں اور عوام اس ضمن میں کتنی کوشش کر رہے ہیں اور کتنا مال صرف کر رہے ہیں ؟ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی کاوش ایک دو فیصدی سے زیادہ نہیں ہے حالانکہ دین کی تعلیم اور تبلیغ اتنی عام ہونی چاہیے جس سے قرآنی پروگرام دنیا کے چپہ چپہ میں متعارف ہوجائے۔ اسلام کا تبلیغی مشن : تیسری صدی کے حالات کے مطابق جو جنگی قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آتے تھے انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ چاہیں تو مسلمانوں کی حفاظت اور امداد کے ساتھ رہیں اور چاہیں تو واپس چلے جائیں چناچہ جب لوگ مسلمانوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے تو اہل ایمان کو بڑی خوشی ہوتی تھی برخلاف اس کے جو لو گ اپنے دین پر پلٹ جانا چاہتے ان پر مسلمانوں کو برا دکھ ہوتا تھا مگر آج حالت یہ ہوچکی ہے کہ جب کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجاتا ہے تو کسی مسلمان کے کان پر جون تک نہیں رینگتی ارتداد کے اسباب کا جائزہ لینا اور پھر اس کا سد باب کرنا تمام مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے مگر حکومتیں یہ ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں مسلمانوں میں بیماروں کے علاج اور محتاجوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ ختم ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ بیماری اور غربت سے تنگ آگ لوگ عیسائیت اختیار کرلیتے ہیں مسلمانوں کے پاس وسائل موجود ہیں مگر یہ انہیں بروئے کار نہیں لاتے۔ تبلیغ دین کے لیے مسلمانوں کی مساعی ایک دو فیصدی سے زیادہ نہیں ہے تبلیغی جماعتیں اپنے طور پر حت المقدور تبلیغ کا کام کر رہی ہیں ، حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی (رح) نے میوات جیسے پس ماندہ علاقے میں پچیس سال تک تبلیغ دین کا کام کیا اور اس جذبہ کو دنیا میں پھیلانے کی سعی کی ۔ آپ انتہائی درجے کے خدا پرست انسان اور بڑا بلند جذبہ رکھتے والے تھے۔ ان کی کوششوں اور دعائوں کا نتیجہ ہے کہ تبلیغی مشن کامیابی کی منازل طے کر رہا ہے ان کے فرزند ارجمند مولانا محمد یوسف صاحب نے بھی اس کام کے لیے زندگی وقت کردی۔ ان بزرگوں کی محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ یہ مشن مفید کام انجام دے رہا ہے ، ورنہ حکومتی سطح پر یہ کام نہ ہونے کے برابر ہے عام لوگ جو تبلیغی مشن پر روانہ ہوتے ہیں انہیں دوسرون کی نسبت اپنی اصلاح کی زیادہ فکر کرنی چاہیے اسلام میں ذاتی اصلاح اور پھر اصلاحِ عالم دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ اسلام کے پرچم تلے جمع ہو کر جہنم کی آگ سے بچ جائیں یہ اسلام کا عالمی پروگرام ہے۔ کفار کی حتمی ناکامی : بہر حال اللہ تعالیٰ نے کفار کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے اپنے مال خرچ کرتے ہیں (آیت) ” فسینفقونھا “ پھر وہ خرچ کریں گے (آیت) ” ثم تکون علیھم حسرۃ “ پھر وہ ان کے لیے حسرت کا باعث ہوگا اور بالآخر وہ حق کے مقابلے میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اس دنیا میں چند روزہ مہلت مل جائے اور یہاں انہیں جلدی سزا نہ ملے مگر اللہ کی مصلحت یہی ہے کہ (آیت) ” ثم یغلبون “ آخر کار وہ مغلوب ہو کر رہیں گے۔ فرمایا (آیت) ” والذین کفروا “ جن لوگوں نے کفر کیا (آیت) ” الی جھنم یحشرون “ وہ سب جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے جہاں انہیں اپنے کیے کا کا بھگتان کرنا ہوگا۔ پاک وناپاک میں امتیاز : فرمایا یہ سب کچھ اس لیے ہوگا (آیت) ” لیمیز اللہ الخبیث من الظیب “ تا کہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے ممتاز کردے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دودھ اور پانی کا پانی کر دیگا۔ سب کے اچھے اور برے اعمال سامنے آجائیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے پاک لوگوں کو ان کے مرکز خطیرۃ القدس میں اور ناپاک لوگوں کو ان کے مرکز جہنم میں پہنچائے گا۔ نیک اعمال کے اثرات جنت میں ظاہر ہوں گے اور برے اعمال کے نتائج کا ظہور جہنم میں ہوگا۔ اسی لیے فرمایا تا کہ اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے ممتاز کر دے اور ساتھ یہ بھی ہوگا ۔ (آیت) ” ویجعل الخبیث بعضہ علی بعض “ اور اللہ تعالیٰ ڈال دے گا بعض خبائث کو بعض پر یعنی انسانوں کے تمام برے اعمال کو ایک دوسرے پر ڈال دے گا (آیت) ” فیرکمہ جمعیا “ پھر ان سب کو ڈھیر بنا دے گا ، اکٹھا کر دیگا۔ (آیت) ” فیجلہ فی جھنم “ اور کردیگا ان کو جہنم میں ، مطلب یہ ہے کہ آخر کار وہ وقت بھی آجائے گا جب اللہ تعالیٰ تمام کفار ان کے معبودانِ باطلہ ، ان کے اعمال سیئہ اور ان کے اموال کو جہنم رسید کر دیگا۔ فرمایا (آیت) ” اولئک ھم الخسرون “ حقیقت میں نقصان اٹھانے والے یہی لوگ ہیں یہ خود کفر کے پروگرام پر چل رہے ہیں اور اسی کو دنیا میں رائج کرنا چاہتے ہیں یہ چاہتیں ہیں کہ اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں تا کہ یہ آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کامیابی کا پانچواں اصول تھا کہ ” اے ایمان والو ! اگر تقوی کی راہ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے فیصلہ کن بات رکھے گا ، اس کی بعض ذیلی باتیں بھی آج کے درس میں بیان ہوگئی ہیں۔ جب مسلمان ان مسلمہ اصولوں پر قائم تھے تو انہیں دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوئی جس کی اولین مثال میدان بدر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لیے اسباب پیدا فرما دیے اور کفار و مشرکین ذلیل و خوار ہوئے۔
Top