Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
(اے پیغمبر) آپ کہہ دیں ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا ، اگر وہ باز آجائیں تو معاف کردیا جائے گا جو پہلے ہوچکا ہے اور اگر وہ پلٹ کر کریں گے ( وہی بات) پس تحقیق گزر چکا ہے دستور پہلے لوگوں کا
ربطِ آیات : گزشتہ درس میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اسلام کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اللہ نے فرمایا کہ ان کا خرچ کیا ہوا یہی مال ان کے لیے حسرت کا باعث بن جائے گا۔ یہ لوگ دنیا میں بھی اسلام کے ہاتھوں مغلوب ہوں گے اور آخرت میں ان کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ خبیث کو طیب سے الگ کر دے گا اور پھر ہر ایک کو اپنے اپنے مرکز اور ٹھکانے تک پہنچا دے گا خبیث انسان ہو یا مال ہو یا ان کے عقائد سب کو ایک ڈھیر بنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ معافی کی گنجائش : اسی سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا ہے (آیت) ” قل للذین کفروا “ آپ ان کافروں سے کہہ دیں (آیت) ” ان ینتھوا اگر یہ کفر اور شرک سے باز آجائیں دین کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور فتنہ و فساد کو ترک کردیں (آیت) ” یغفرلھم ما قد سلف تو ان کی سابقہ غلطیاں معاف کردی جائیں گی۔ یہ لوگ پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ اگرچہ عداوت اور سرکشی کا سلوک کرتے رہے ہیں تا ہم اللہ تعالیٰ ایمان لانے کی بدولت ان کے سابقہ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ حضور ﷺ کا بھی فرمان ہے ” الاسلام یھدم ما کان قبلہ “ سچے دل سے ایمان لانا سابقہ غلطیوں کو مٹا دیتا ہے اسی لیے فرمایا کہ اگر یہ کفار ومشرکین اب بھ باز آجائیں اسلام کی مخالفت ترک کر کے اسے قبول کرلیں تو ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ سرشکی کا وبال : فرمایا (آیت) ” وان یعودا “ اگر یہ لوگ پلٹ کر اسی طرح لوگوں کو اسلام کے راستے سے روکیں گے ، جنگ وجدال کا بازار گرم کریں گے ، فساد فی الارض کے مرتکب ہوں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” فقد مضت سنت الاولین “ کہ پہلے لوگوں کا دستور گزر چکا ہے۔ یعنی اس سے قبل بھی جن لوگوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور ان کے ساتھ عداوت رکھی وہ بالآخر ذلیل و خوار ہوئے ، اسی طرح یہ لوگ بھی اگر اپنی حرکات پر مصر رہے تو اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے بلکہ کسی نہ کسی سزا میں ضرور مبتلا ہو کر رہیں گے۔ یہی سنت اللہ اور یہی ایام اللہ ہے۔ اللہ نے نافرمان لوگوں کا قرآن پاک میں بار بار تذکرہ کر کے خبردار کیا ہے کہ جو کوئی ان کے راستے پر چلے گا ، خدائی دستور کے مطابق اس سے ویسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ فسا کی بیخ کنی : آپ کو یاد ہوگا کہ جہاد کا پانچواں اصول یہ بیان کیا گیا تھا کہ اگر تم تقویٰ کی راہ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے فیسلہ کن بات ظاہر کر دے گا ، تمہیں غلبہ نصیب ہوگا اور تمہارے تمام شکوک و شبہات رفع ہوجائیں گے اسی اصول کی جزیات کے طور پر ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ “ کفار ومشرکین سے لڑتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقہ نہ رہے۔ فتنہ سے متعلق پیچھے تیسرے رکوع میں بھی گزر چکا ہے (آیت) ” واعلموا انما اموالکم واولادکم فتنۃ “ یعنی یاد رکھو ، تمارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں۔ فتنہ کا لغوی معنی سونے کو کٹھالی میں ڈال کر پگھلانا ہے تا کہ اس کی میل کچیل صاف ہوجائے اور یہ چیز آزمائش کا باعث ہوتی ہے ، چناچہ انسان کا مال اور اس کی اولاد اس کے لیے آزمائش کا باعث ہوتے ہیں۔ انسان ان دو چیزوں کی وجہ سے کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ اولاد کی خاطر دھوکہ ، فریب اور چوری کا ارتکاب کرتا ہے اور مشتبہ اور حرام مال کے حصول سے بھی اجتناب نہیں کرتا۔ مال اس لحاظ سے آزمائش ہے کہ اسی کی وجہ سے انسان میں غرور وتکبر اور سرکشی آتی ہے ۔ البتہ الہ ایمان کے لیے حضور ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے ” ونعم صاحب المسلم ھو لمن اعطی منہ المسکین والیتیم وابن السبیل “ مال مسلمان کے لیے اچھا صاحب ہے مگر اس کے لیے جو یتیم اور مسکین اور مسافر کا حق ادا کرتا ہے چونکہ اکثر لوگ مستحقین کا حق ادا نہیں کرتے لہٰذا وہ مال کے فتنہ میں مبتلا رہتے ہیں۔ فتنہ سے مراد شرک ہے : حضرت امام حسن بصری (رح) جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ آپ 22 ھ؁ میں پیدا ہوئے اور 110 ھ؁ میں وفات پائی۔ آپ غلام اور لونڈی زادے تھے آپ نے ام المومنین ام سلمہ ؓ کا دودھ پیا۔ آپ بڑے عالم ، زاہد اور متقی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو برا اعزاز بخشا ، حضرت انس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب تمہارے درمیان حسن بصری موجود ہوں تو کسی دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے ، انہی سے تمام مسائل دریافت کیا کرو۔ بزرگوں کے تمام سلاسل چشتیہ ، قادریہ وغیرہ کی انتہا حضرت حسن بصری پر ہوتی ہے اور یہ سلسلہ حضرت علی اور حضور ﷺ تک پہنچتا ہے۔ بہرحال حضرت حسن بصری (رح) اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اس مقام پر فتنہ سے مراد شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اس طرح ہے کہ کفار ومشرکین سے جنگ جاری رکھو (آیت) ” حتی لا تکون فتنہ “ حتی کی شرک کا غلبہ باقی نہ رہے۔ جزیہ کا مسئلہ : یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کفار ومشرکین سے جزیہ قبول کر کے انہیں اسلامی حکومت کی پناہ میں رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ عرب کے کفار و مشرکین سے جزیہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ یا تو ایمان قبول کرلیں یا وہ اسلام کا مرکز یعنی عرب کا خطہ چھوڑ جائیں۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر انہیں ختم کردیا جائے گا۔ کیونکہ مرکز دین میں دو دین اکٹھے نہیں چل سکتے۔ البتہ عجم کے غیر مسلموں سے جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے حضور ﷺ نے بطور وصیت ارشاد فرمایا کہ میں یہود ونصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکال دوں گا۔ پھر آپ نے اپنی عمر کے آخری حصے میں فرمایا ” اخرجوا الیھود من جزیرہ العرب “ یعنی یہودیوں کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کیا جائے حضرت عمر ؓ نے اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے خیبر کے یہودیوں کو نکال دیا جو تیما اور فلسطین وغیرہ میں جا کر آباد ہوگئے اور اس طرح عرب کا خطہ ان سے پاک ہوگیا۔ بہرحال شرک کفر سے بھی بڑا فتنہ ہے کیونکہ (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “ ( سورة لقمان) شرک سب سے برا ظلم ہے اور کافروں کے متعلق (آیت) ” والکفرون ھم الظلمون “ کفر کرنے والے ہی ظالم ہیں۔ کفر کا معنی اللہ کے دین اور شریعت کا انکار کرنا اور شرک سے مراد اللہ کی ذات ، صفات یا عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرنا ہے فرمایا یہ سب سے بڑا فتنہ ہے ، لہٰذا جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ یہ باقی نہ رہے۔ فتنہ سے مراد بدامنی ہے : بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس مقام پر فتنہ سے مراد فساد ، سرکشی ، بغاوت اور بدامنی ہے۔ لہٰذا جب تک دینا میں امن وامان قائم نہ ہوجائے اس وقت تک کفار ومشرکین سے برسرپیکار رہو اسلام کے راستے میں رکاوٹ بھی جھگڑا ، فساد اور بدامنی کا پیش خیمہ ہے ، لہٰذا آیت کریمہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس وقت تک جہاد کرتے رہو جب تک تبلیغ دین کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ موجو دہو۔ جب دین کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں ، اسلام کی تبلیغ کا راستہ روکنے والا کوئی باقی نہ رہے تو اس وقت جہاد کو موقوف کرنے کی اجازت ہے امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اخلال بالشرائع یعنی اللہ کے دین اور شریعت میں خلل ڈالنے کا نام فساد فی الارض ہے اگر کسی جگہ اللہ کے دین کی عملداری نہ ہو تو وہاں پر ایسے قانون کے نفاذ کے لیے جہاد ضروری ہوجاتا ہے جہاد ہی ایسا عمل ہے جو چوری ، ڈاکہ ، زنا ، قتل ، ناحق اور فتنہ و فساد کا قلع قمع کریگا ، لہٰذا جہاد ایک ضروری عمل ہے ، اگر قانون الہٰی کی خلاف ورزی اندرونِ ملک سے ہوتی ہے تو اسے تعزیر کے ذریعے درست کیا جائیگا۔ اور اگر قانونِ الٰہی کی مزاحمت بیرونِ ملک سے ہوت و پھر ایسی طاقتوں کے خلاف جہادِ فرض ہوتا ہے مقصد بہرحال یہی ہے کہ دنیا سے فتنہ فساد ، کفر شرک ، بغاوت وسرکشی کا دوردورہ ختم ہو کر اللہ کی زمین امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔ دین کی سربلندی : فرمایا جہاد کی ایک غرض تو یہ ہے کہ زمین پر فتنہ باقی نہ رہے اور دوسری یہ کہ (آیت) ” ویکون الدین کلہ للہ “ اور اطاعت سب کی سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ جب کسی قوم سوسائٹی یا ملک میں اللہ کے دین کے علاوہ کوئی دوسرا قانون نافذ ہوگا۔ تو یہ غیر اللہ کی اطاعت ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت نہیں ہوگی۔ اس وقت پاکستان میں انگریز کا قانون رائج ہے تو یہ انگریز کی اطاعت ہے اور اگر مارشل لاء کا ضابطہ ہے تو یہ بھی غیر اللہ کی اطاعت کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس وقت ہوگی جب مکمل طور پر اللہ کے دین کی حکمرانی ہوگی اور ملک میں شریعت مطہرہ کو بالادستی اور سربلندی حاصل ہوگی۔ جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک جہاد کا حکم باقی ہے۔ سورۃ انفال اور توبہ میں صلح وجنگ سے متعلق کل تیراہ اصول اور کچھ ضمنی باتیں بیان کی گئی ہیں اور ان تمام کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے ۔ آگے بتایا جائیگا کہ جہاد سے مراد ملک گیری نہیں ، نہ محض لونڈیاں اور مال و دولت حاصل کرنا ہے اور نہ کسی قوم کا محض خاتمہ مطلوب ہے بلکہ جہاد کا اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ کا دین سربلند و غالب ہو اور اللہ کی بات ہی اونچی ہو۔ اس کے مقابلے میں شیطان اور غیر اللہ کی بات پست ہوجائے۔ اس لحاظ سے جہاد ایک عبادت بھی ہے اور جملہ پانچ عبادات نماز ، روزہ ، زکوۃ ، حج اور جہاد میں ایک ہے آگے مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ بھی آئے گا مگر یہ بھی ضمنی بات ہے اصل چیز یہی ہے کہ اللہ کا دین سربلند ہوجائے اور اطاعت ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ جب تک اہل اسلام جہاد پر عمل پیرا رہیں گے ، ان کو دنیا میں عزت وقار حاصل رہیگا ، جب جہاد کو ترک کردیں گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے۔ اچھی تعلیم وتربیت : تاریخ شاہد ہے کہ جب سے مسلمانوں پر تنزل کی فضا چھائی ہے ان کا دین رہا نہ اخلاق ، ان کی تربیت ہی ختم ہوگئی ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے بچے کو مختلف مواقع پر انعامات دیتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ادب کی ایک بات سکھلا دے یہ اس کے لیے ایک صاع اناج صدقہ کرنے سے بہتر ہے ، صدقہ کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے کیونکہ اس سے محتاجوں کی حاجت پوری ہوتی ہے۔ لیکن ادب کی ایک بات اس سے بھی بہتر ہے ۔ شرح السنۃ میں یہ حدیث موجود ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ والدین سے پوچھے گا کہ تم نے اپنی اولاد کی کیسی تربیت کی۔ اور اولاد سے پوچھے گا کہ تم نے اپنے والدین کی کہاں تک اطاعت کی۔ لہٰذا چھوٹی عمر یعنی چودہ سال تک بچے کی تربیت والدین پر لازم ہے ۔ پھر جب وہ بالغ ہوجائے اور سوسائٹی کا ممبر بن جائے تو خود ذمہ دار ہوجاتا ہے ، والدین کے علاوہ جماعت اور سوسائٹی پر بھی لازم ہے کہ وہ لوگوں کی اچھی تربیت کا انتظام کرے ۔ یہ ذمہ داری حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے کہ نظام تعلیم ایسا ہو کہ جس میں بچے کی تعلیم وتربیت اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ مگر یہاں تو زریعہ تعلیم ہی انگریزی ہے جو کہ شیطانی طریقہ ہے اور سکولوں اور کالجوں میں یہی رائج ہے اس سے اچھے معاشرے کی تشکیل کی کیا توقع کی جا ست کی ہے اس نظام تعلیم کے ذریعے تو نظام حکومت چلانے والے بیوروکریٹ ہی پیدا ہو گے حالانکہ اسلامی طرز حکومت کے لیے اسلامی طرز تعلیم وتربیت کی ضرورت ہے جس کو اپنانے کے لیے ہر حکومت گریزاں رہی ہے ہمارے سامنے اولیاء اللہ کی مثالیں موجود ہیں جن کی تربیت اچھے لوگوں نے اچھے طریقے سے کی لہٰذا وہ خود اخلاق کی بلندیوں تک پہنچے اور دوسروں کے لیے لائحہ عمل چھوڑ گئے بہرحال فرمایا کہ کفر وشرک سے لڑتے رہو یہاں تک کہ اطاعت پوری کی پوری اللہ تعالیٰ کے لیے ہوجائے۔ کارساز و مددگار : فرمایا (آیت) ” فان انتھوا اگر کافر ومشرک لوگ کفر وشرک سے باز آجائیں (آیت) ” فان اللہ بما یعلمون بصیر تو ان کے ہر کام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں وہ جانتا ہے کہ کسی شخص میں کتنا خلوص اور کتنا نفاق ہے اور کفر وشرک سے باز آگیا ہے یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ اس کے اندرونی اور بیرونی حالات سے واقف ہے۔ فرمایا (آیت) ” وان تولوا “ اگر وہ اللہ کی بات سے روگردانی کریں گے (آیت) ” فاعلموا ان اللہ اموالکم “ تو جان لو کہ تمہارا کارساز اور آقا اللہ ہی ہے فرمایا خدا تعالیٰ کوئی معمولی کارساز نہیں بلکہ (آیت) ” نعم المولی “ وہ بہترین کارساز ہے (آیت) ” ونعم النصیر “ اور بہترین مدد گا رہے۔ اگر تم دین کی مدد کے لیے آگے بڑھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کریگا یہ اس کا وعدہ ہے کہ اگر تم اللہ کے رسول کی تائید ، اقامت دین اور کفر وشرک کی بیخ کنی کے لیے کمر بستہ ہو جائو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور تمہارے شامل حال ہوگی۔
Top