Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ( اے اہل ایمان) نہ ہو تم ان لوگوں کی طرح جو نکلے اپنے گھروں سے اکڑتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ اور وہ روکتے تھے اللہ کے راستے سے ۔ اور اللہ تعالیٰ احاطہ کرنے والا ہے جو کچھ وہ کام کرتے ہیں
ربط آیات : گزشتہ درس میں ان چھ باتوں کا ذکر ہوچکا ہے جو دشمن سے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہیں۔ وہاں پر فرمایا تھا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میدان جہاد میں اترو تو پھر ثابت قدم رہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تا کہ تمہیں فلاح نصیب ہو ۔ پھر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تلقین کی گئی کہ یہ ہر حالت میں ضروری ہے اس کے بعد فرمایا کہ اہل ایمان کو آپس میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ کمزور ہوجائیں گے اور ان کی ہوا اکھڑ جائیگی اور چھٹی بات یہ تھی کہ ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اب ساتویں بات کا ذکر ان آیات میں آرہا ہے۔ فرمایا اگر ان اصولوں پر عمل پیرا رہو گے تو دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکو گے اور تمہیں غلبہ حاصل ہوگا۔ حضور ﷺ کے صحابہ ؓ میں یہ تمام خواص پائے جاتے تھے۔ ان میں جراء ت وبہادری اور ثابت قدمی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا جذبہ بےمثال تھا وہ لوگ میدانِ جنگ میں اللہ کا کثرت سے ذکر کرتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر میدان میں کامیابی عطا فرماتا تھا۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ نے تھوڑے سے عرصہ میں نہ صرف بہت سے ملک فتح کیے بلکہ وہاں کے باشندوں کے دلوں کو بھی فتح کرلیا ابتدائے اسلام کے زمانہ میں کفار ساری دنیا پر چھائے ہوئے تھے ، مگر اللہ نے حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کی ایسی بےمثال نصرت فرمائی کہ رومی ، فارسی ، ترکی ، سسلی ، بربر ، مصری وغیرہ سب مغلوب ہو کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو دنیا کے کونے کونے میں راسخ کردیا۔ یہ مذکورہ اصولوں پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔ اکڑ اور ریا کی ممانعت : چھ باتوں کا ذکر گزشتہ درس میں ہوا تھا ، اب ساتوں بات یہ فرمائی کہ اے ایمان والو ! (آیت) ” ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارھم “ نہ ہو توم ان لوگوں کی طرح جو نکلے تھے اپنے گھروں سے (آیت) ” بطرا ورئآء الناس “ اکڑتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے ۔ فرمایا اے اہل ایمان ! تم میں غرور وتکبر اور ریاکاری کی بجائے اخلاص اور عاجزی پائی جانی چاہیے۔ یہ مشرکین مکہ کا ذکر ہو رہا ہے کہ جب وہ بدر کے لیے نکلے تھے تو نہایت غرور وتکبر کے ساتھ اپنی طاقت پر اتراتے ہوئے وہ لوگوں کو اپنی شان و شوکت دکھا رہے تھے کہ ہم جلدی ہی مٹھی بھر مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں گے اور دنیا پر اپنی طاقت کا سکہ جما دین گے ابو جہل کے لشکر کے ساتھ باجے بج رہے تھے گانے والی عورتیں ہمراہ تھیں ان کا پروگرام یہ تھا کہ ہم بدر کے چشمے پر پہنچ کر خوشی کی مجلسیں منعقد کریں گے ، شرابیں پئیں گے اونٹ ذبح کر کے کھائیں گے اور اس طرح داد عیش دیں گے اللہ نے فرمایا ، تم ان کی مشابہت اختیار نہ کرنا بلکہ عجزو انکساری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد کی درخواست کرنا اور جو بھی کام کرو خلوص نیت سے کرنا ، نہ اس میں اکڑ ہو اور نہ دکھاوا ہو ، یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں۔ کفار بڑی شان و شوکت کے ساتھ اور بڑے برے منصوبوں کے ساتھ میدان بدر میں پہنچے تھے مگر جب دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو نقشہ ہی بدل گیا اور کفار کی تمام حسرتیں ان کے دلوں میں ہی دم توڑ گئیں انہیں عیش ونشاط کی محفل جمانے کی بجائے موت کا پیالہ پینا پڑا اور خوشی کے گیت گانے کی بجائے توحہ اور ماتم کی مجلسیں برپا کرنا پڑی بڑے بڑے ائمۃ الکفر مارے گے مٹھی بھر مسلمان نہ صرف کفار پر غالب آئے بلکہ بہت سا مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔ اور جنگ بدر مسلمانوں کی کامیابی کا سنگ میل بن گیا۔ اللہ نے ایسی کامیابی عطا کی جو ہمیشہ کے لیے یاد رکھی جائے گی۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! کافروں کی طرح اکڑ اور ریا کاری کا اظہار نہ کرنا بلکہ خلوص اور عاجزی کو اختیار کرنا اسی میں تمہاری بہتری ہے حضور ﷺ نے اس موقع پر یہ دعا بھی سکھائی ” اللھم منزل الکتٰب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم “ اے کتاب کو اتارنے اور بادلوں کو چلانے والے اور کافروں کو شکست دینے والے ہمیں ان کے مقابلے میں فتح نصیب فرما کیونکہ ہم تیری کتاب کے پروگرام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں اور تیرے دین کو دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں بہر حال اللہ نے اہل ایمان کو فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ بن جانا جو غرور ونخوت کے ساتھ اور لوگوں کو دکھاوے کے لیے اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ اللہ کے راستے میں رکاوٹ : اللہ نے فرمایا ، تم ان لوگوں کی طرح بھی نہ ہونا (آیت) ” ویصدون عن سبیل اللہ “ جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں یعنی لوگوں کو اسلام میں داخل نہیں ہونے دیتے ابو جہل اور دیگر اکابر مشرکین کا یہی مشن تھا وہ چاہتے تھے کہ لوگ توحید کو نہ مانے اور خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت سیدست کش ہوجائیں اللہ کے راستے سے روکنے کا یہ مطلب ہے اللہ نے فرمایا (آیت) ” واللہ بما یعملون محیط “ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تکبر غرور اور اکڑ کو توڑ کر رکھ دیا اور وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے ناکامی اور تباہی ان کا مقدر بن گئی اور جو لوگ بچ گئے ان کی اکثریت آگے چل کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئی اور اس طرح کفر کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ فرمایا تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے پس ہیں ، وہی ہر چیز کو گھیرنے ولا ہے لہٰذا اللہ نے کفار کی تدبیر کو ناکام بنا کر انہیں مغلوب کردیا اگرچہ ظاہری حالات ان کے حق میں تھے۔ شیطان کی طرف سے حوصلہ افزائی : فرمایا اس بات کو دھیان میں لائو (آیت) ” واذ زین لھم الشیطٰن اعمالھم “ جب شیطان نے کفار کے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا بنی کنانہ جیسا وسیع قبیلہ قریش کے خلاف تھا اور قریش ہمیشہ اس قبیلے کی طرف سے خائف رہتے تھے۔ جنگ بدر کے موقع پر قریش کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ بنی کنانہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہمیں نقصان نہ پہنچائیں ان کے اس خدشہ کو دور کرنے کے لیے شیطان بنی کنانہ کے سردار سراقہ ابن مالک کی شکل میں ابو جہل کے پاس آیا اور اس کو حوصلہ دیا کہ وہ قریش کی مخالفت نہیں کریں گے لہٰذا وہ ان کی طرف سے بےفکر رہیں ، یہی نہیں بلکہ ان کی بوقت ضرورت مدد کا وعدہ بھی کیا ، ابو جہل اسے سراقہ سمجھ کر مطمئن ہوگیا کہ بنی کنانہ کی طرف سے خطرہ ٹل گیا ہے مگر عین جنگ کے وقت جب سراقہ کا ہاتھ ابو جہل کے ہاتھ میں تھا تو سراقہ یعنی شیطان نے پیچھے ہٹنا چاہا ابو جہل نے کہا اب کیا بات ہے کیوں بھاگتے ہو ؟ تو شیطان کہنے لگا کہ میں کچھ دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھتے اور مجھے اپنی جان کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں ہلاک ہی نہ کردیا جائوں دراصل شیطان حضرت جبرائیل اور میکائل کو مسلمانوں کی حمایت میں دیکھ رہا تھا لہٰذا اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی چناچہ وہ کفار کے دلوں میں وسوسہ اندازی چھوڑ کر میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹ گیا۔ شیطان کی چالبازی : غرضیکہ شیطان نے کفار کے اعمال کو ان کی نظروں میں مزین کر کے دکھایا (آیت) ” وقال لا غالب لکم الیوم من الناس “ آج کے دن تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا ، بلکہ تمہی غالب ہو گے (آیت) ” وانی جار لکم “ اور میں تمہارا حمایتی ہوں چونکہ وہ سراقہ کی شکل میں مشتکل ہو کر آیا تھا۔ اس لیے ابو جہل نے اسے اپنا حمایتی ہی سمجھا مگر (آیت) ” فلما تراء ت الفٗتٰن “ جب اس نے دونوں گروہوں کو آمنے سامنے دیکھا۔ جب دونوں لشکر جنگ کے لیے میدان میں اتر آئے (آیت) ” نکص علی عقبیہ “ تو شیطان الٹے پائوں پھر گیا (آیت) ” وقال انی بری منکم “ اور کہنے لگا میں تم سے بیزار ہوں کیونکہ (آیت) ” انی اری مالا ترون “ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ (آیت) ” انی اخاف اللہ “ میں اللہ سے ڈرتا ہوں مفسرین فرماتے ہیں کہ شیطان اللہ سے نہیں ڈر رہا تھا ، یہ اس کا جھوٹ محض ہے اگر اسے اللہ کا ڈر ہوتا تو وہ فورا تائب ہوجاتا مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسے قیامت تک مہلت ملی ہوئی ہے تا ہم اسے خوف یہ تھا کہ کہیں قیامت ہی برپا نہ ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائے ۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شیطان نے اپنے خوف کے متعلق جھوٹ بولا ہو ، کیونکہ جھوٹ بولنا اس کا کام ہے وہ ہمیشہ انسانوں کو دھوکا دیتا ہے سورة نساء میں موجود ہے (آیت) ” یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطٰن الا غرورا “ شیطان لوگوں کو وعدے دلاتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے اور شیطان جو کچھ وعدے دیتا ہے وہ دھوکہ ہی دھوکہ ہے ۔ سورة حشر میں ہے (آیت) ” کمثل الشیطٰن اذ قال للانسان اکفر “ جیسا کہ شیطان انسان کو کفر پر آمادہ کرتا ہے (آیت) ” فلما کفر “ پھر جب وہ کفر کرنے لگتا ہے (آیت) ” قال انی برء ی منک “ تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بیزار ہوں (آیت) ” انی اخاف اللہ رب العلمین “ مجھے تو اللہ تعالیٰ کا خوف آرہا ہے ۔ سورة ابراہیم میں اس طرح ہے کہ جب قیامت کے دن شیطان کے پیروکار اسے گھیر لیں گے تو وہ کہے گا (آیت) ” ان اللہ وعدکم وعد الحق “ کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ لیا تھا (آیت) ” ووعدتکم فاختلفتکم “ اور میں تمہیں جھوٹے وعدے دلاتا رہا ، میں تم پر غلبہ تو نہیں رکھتا تھا صرف برائی کی طرف دعوت دیتا تھا ، تم نے انبیاء کی دعوت کو قبول نہ کہا مگر میری دعوت کو مان کر کفر وشرک اور معصیت میں مبتلا ہوئے (آیت) ” فلا تلومونی ولومو انفسکم “ لہٰذا آج مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپکو ملامت کرو کہ تم نے خدا تعالیٰ کے سچے وعدے کو چھوڑ کر میرے جھوٹے وعدے پر اعتبار کیا ، لہٰذا اب خدا تعالیٰ کے عذاب کا مزا چکھو۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” واللہ شدید العقاب “ اللہ تعالیٰ سخت گرفت کرنے والا ہے اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا ، لہٰذا آج اپنے اعمال کی سزا بھگتنا ہوگی۔ افشائے راز : مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ شیطان سراقہ بن مالک کی شکل میں آکر کفار کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ اس نے درالندوہ میں حضور ﷺ کے قتل کے منصوبے کے وقت بھی ایسا ہی کیا تھا کہ کمزور تجویزوں کو رد کرتا رہا اور جب آپ کے قتل کا منصوبہ پیش ہوا تو اس سے اتفاق کر گیا ، اس موقع پر بھی اس نے شیخ نجدی کی صورت میں کفار کو دھوکا دیا تھا۔ اور جنگ بدر کے موقع پر سراقہ بن مالک کی صورت میں آکر پھر دھوکا دیا۔ اور ادھر حقیقت تھی کہ اصل سراقہ کو اس بات کا علم تک نہ تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب اس واقعہ کی مشہوری ہوئی اور بات سراقہ بن مالک تک پہنچی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں تو بدر کے میدان میں گیا ہی نہیں اور نہ میں نے ابو جہل سے کوئی بات کی اور نہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اس پر یہ بات واضح ہوئی کہ مقام بدر پر سراقہ نہیں بلکہ شیطان نے کفار کو دھوکا دیا تھا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان مشرکین کے ساتھ دھوکہ کر رہا تھا جس نے انہیں ہلاکت کے گڑھے میں اتار دیا اور انہیں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ اللہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو ! تم کافروں کی مشابہت اختیار نہ کرنا یعنی نہ تو غرور تکبر کی بات کرنا اور نہ ہی کوئی دکھاوے والی بات کرنا اگر ایسا کرو گے تو تم بھی شیطان کے دھوکے میں آجائو گے۔ شیطان کے یہی ہتھیار ہوتے ہیں جو وہ انسانوں پر آزمانتا ہے اور جو اس نے مشرکین مکہ پر بھی آزمائے ابتداء میں وہ جھوٹے وعدے کرتا ہے لوگوں کو دھوکے میں ڈالتا ہے اور بعد میں بیزاری کا اظہار کردیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ۔۔ ہو کر جہنم کے گڑھے میں جا گرتا ہے بہر حال اللہ نے ساتوں اصول یہ بیان فرمایا کہ جنگ کے دوران عاجزی اور انکساری اختیار کرول اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعائیں کرو اور دکھاوا نہ کرو۔ اگر ان باتوں پر عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ دشمن پر غلبہ عطا کریگا۔
Top