Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بیشک سب جانداروں میں برے اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا ، پس وہ ایمان نہیں لائے
ربطِ آیات : اللہ تعالٰٰ نے جہاد سے متعلق سات اہم اصول بیان کردیے ہیں۔ منافقوں کا حال بھی بیان ہوا ہے کہ جب مسلمان بدر کی طرف روانہ ہوئے تو منافق کہنے لگے کہ مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ اللہ نے فرمایا یہ دھوکہ نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ ہے جو کوئی اللہ کی ذات پر بھروسہ کریگا تو اللہ تعالیٰ اسے غلبہ نصیب فرمائے گا پھر اللہ نے منافقوں اور مشرکوں کی عادت کو آلِ فرعون کی عادت سے تشبیہ دی جنہوں نے کفر پر اصرار کیا اور دین حق کی مخالفت کی ، وہ اپنے گناہوں کے بدلے میں پکڑے گئے اور اللہ نے انہیں ذلیل و خوار کیا ۔ جو لوگ اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں ، وہ ان کو چھوڑتا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو اس دنیا میں بھی سزاد یتا ہے اور آخرت کی سزا تو ان کے لیے بہر حال ہے اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مخالفین یہودیوں کا ذکر کیا ہے جو بار بار عہد کو توڑتے تھے ، مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے ، پھر اللہ نے انہیں سزا بھی خوب دی۔ میثاق مدینہ : جس زمانے میں حضور ﷺ نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت کی اس وقت مدینہ کے اردگرد یہودوں کی بستیاں تھیں ، یہ لوگ تجارت پیشہ اور زراعت پیشہ تھے۔ ان کے بڑے بڑے باغ تھے صاحب علم سمجھے جاتے تھے ، سودی کاروبار بھی کرتے تھے اور اس طرح انہیں اس علاقے میں علمی اور معاشی برتری حاصل تھی۔ ان کے بڑے قبیلے بنی قینقاع بنی نضیر اور بنی قریظہ تھے۔ مدینے پہنچ کر حضور ﷺ نے اردگرد کا جائزہ لیا تو اس سر زمین میں اسلام کے پودے کی پرورش کے لیے حالات کو قدرے سازگار پایا۔ تا ہم آپ نے مدینہ اور اس کے اطراف کے تمام قبائل سے ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ میں سارے یہودی اور دیگر قبائل بھی شامل تھے۔ معاہدہ یہ تھا کہ تمام قبائل اور خاندان اپنے دین اور مذہب پر قائم رہیں گے اور کسی کو دین تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جائیگا۔ اگر کوئی طاقت باہر سے مدینہ پر حملہ آور ہوگی تو معاہدے میں شریک تمام لوگ مدینہ کا مشترکہ دفاع کریں گے اس معاہدہ پر مدینے کے مشہور یہودی کعب بن اشرف ، بنی قینقاع ، بنی نظیر اور بنی قریظہ نے بھی دستخط کیے۔ تاج ہم یہودی عام طور پر عہد کی خلاف ورزی کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے مشرکین مکہ کو ہتھیار فراہم کیے۔ جب پوچھا گیا تو عذر لنگ یہ پیش کیا کہ ان کو معاہدہ یاد ہی نہیں تھا۔ یہ لوگ مکہ والوں کے ساتھ بھی ساز باز رکھتے تھے۔ اور دوسرے قبائل کو آپس میں لڑانے کی منصوبہ بندی بھی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں ان کا معمول بن چکا تھا۔ اللہ نے ان کا حال بیان فرما کر ان کو سخت سزا دینے کا حکم دیا ہے۔ بدترین جاندار : اللہ تعالیٰ نے شرپسند یہودیوں کی مثال بدترین جانداروں کے ساتھ دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان شرا الدواب عند اللہ الذین کفروا “ زمین پر چلنے والوں میں بدترین جاندار وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے۔ دواب ، دابہ کی جمع ہے جس کا معنی زمین پر چلنے پھرنے والا جاندار ہوتا ہے۔ زمین پر لاکھوں جاندار ہیں جس میں انسانوں کے علاوہ درندے کیرے مکوڑے ہیں جن کی مختلف قسمیں اور مختلف صورتیں ہیں۔ ہر ایک کی الگ الگ بولی ، رنگ اور سامان حیات ہے ، انسان بھی انہی میں سے ایک جاندار ہے مگر ان سب جانداروں میں سے بدترین جاندار وہ انسان ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کرتا ہے ، نبی کی مخالفت پر کمر بستہ ہے۔ توحید کو مٹا کر کفر کے پروگرام کو غالب کرنا چاہتا ہے ایسے لوگ اللہ کی بدترین مخلوق ہیں۔ سورة بینہ میں ایسے لوگوں کو (آیت) ” شرالبریۃ “ یعنی مخلوق کا بدترین حصہ کہا گیا ہے اور اہل ایمان کو (آیت) ” خیر البریہ “ یعنی مخلوق خدا کا بہترین حصہ قرار دیا گیا ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) نے تفسیر عزیزی میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ کافر لوگ عام جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے بھی کیوں بدترین فرماتے ہیں کہ دنیا کا ہر جاندار اپنے مقصد حیات کو پورا کرتا ہے ۔ اپنے مالک کو پہچانتا اور اس کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اپنے مالک اور مربی کی خواہش کو اپنی خواہش پر مقدم رکھتا ہے حتی کہ بیل ، گھوڑے ، گدھے اور بھینس بھی اپنے مالک کی بات ستنے ہیں اور اس کی خدمت بجا لاتے ہیں مگر یہ کافر اور مشرک انسان ہیں جو اپنے مالک کے حکم کے مقابلے میں اپنی خواہش کو مقدم رکھتے ہیں ، لہٰذا یہ لوگ پوری مخلوق میں سے بدترین حصہ ہیں۔ سورة اعراف میں ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ہے (آیت) ” کالانعام بل ھم اضل (رح) “ کہ وہ جانوروں کی مانند ہیںٰ بلکہ ان سے بھی بدترین ہیں ، جانور تو اپنا مقصد ِ حیات پورا کرتے ہیں مگر یہ اتنا بھی نہیں کرتے ، لہٰذا یہ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ان میں کافر ، مشرک اور یہودی سب آجاتے ہیں۔ تاہم اس مقام پر یہودیوں کی خاص طور پر مذمت بیان کی گئی ہے فرمایا (آیت) ” فھم لا یومنون “ یہی لوگ ہیں جو ایمان سے خالی ہیں۔ عہد شکن لوگ : فرمایا یہ وہ لوگ ہیں (آیت) ” الذین عٰھدت منھم “ کہ آپ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے (آیت) ” ثم ینفقون عھدھم فی کل مرۃ “ پھر وہ ہر بار اپنے معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں ، اس پر پورا نہیں اترتے (آیت) ” وھم لاینفقون “ اور وہ ذرا بھی خوف نہیں کھاتے ، معاہدہ کی پابندی تو بہرحال ضروری ہے سورة بنی اسرائیل میں ہے (آیت) ” وافوا بالعھد ان العھد کان مسئولا “ اپنے عہد کو پورا کرو کیونکہ عہد و پیمان کے متعلق باز پورس ہوگی۔ عہد کی خلاف ورزی کرنا اور غداری کرنا منافقوں کی علامت ہے جماعتی اور حکومتی نظام کو درست رکھنے کے لیے معاہدہ کی پابندی ضروری ہے اسلام میں اس کا بڑا مرتبہ ہے جو مسلمان ہے وہ تو عہد کو پورا کرے گا۔ البتہ غیر اقوام کا حال مختلف ہے ، پہلی جنگ عظیم میں First Great war میں چار کروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ ترکوں اور جرمنوں کے خلاف انگریزوں نے یہ بڑی زبردست جنگ لڑی ، اس جنگ میں جب انگریزوں کے وزیر جنگ war minister لائڈ جارج سے کہا گیا کہ آپ نے معاہدہ کیا تھا ، اب اس کو پورا کیوں نہیں کرتے ، تو کہنے لگا عہدوپیمان پورا کرنے کے لیے نہیں کیے جاتے۔ یہ تو محض وقت گزاری کے لیے ہوتے ہیں۔ انگریزوں جیسی قوم کا نظریہ حیات یہ ہے۔ اسلام میں اس کو غداری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اگر کوئی معاہدہ فریق اپنے معاہدہ کو برقرار نہیں رکھنا چاہتا تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دوسرے فریق کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ یہ معاہدہ قائم نہیں رہ سکتا تا کہ دوسرا فریق اپنا مناسب انتظام کرے۔ خود معاہدے پر عمل نہ کرنا اور دوسرے کو دھوکہ میں رکھنا نہایت ہی ناپسندیدہ فعل ہے جو عہد کیا ہے اس کو بہرحال پورا کرنا چاہیے یا علی الاعلان توڑ دینا چاہیے۔ عہد شکنی کی سزا : آگے عہد شکن لوگوں کی سزا کے متعلق فرمایا (آیت) ” فاما تثفقتنھم فی الحرب “ پس اگر آپ قابو پالیں ان پر دوران جنگ (آیت) ” فشردبھم من خلفھم “ تو ان پر ایسی کاری ضرب لگائیں کہ ان کے پیچھے آنے والوں کو بھی بگا دیں۔ اگر لڑائی میں حصہ لینے والوں کو شکست فاش دے دی جائے تو ان کی حمایت میں آنے والوں کے حوصلہ ویسے ہی پست ہوجاتے ہیں اور وہ شکست خوردہ لشکر کی امداد پر آمادہ نہیں ہوتے اسی لیے فرمایا کہ عہد شکنی کرنے والے غداروں کو ایسی عبرتناک سزا دیں کہ ان کی کمک کے طور پر آنے والے بھی تتر بتر ہوجائیں تشرید کا معنی بکھر جانا یا تتربتر ہوجانا ہے فرمایا ان کو ایسی مار ماریں (آیت) ” لعلھم یذکرون “ تا کہ وہ نصیحت پکڑیں اور جان جائئیں کہ انہیں باطل کی حمایت نہیں کرنی چاہیے ، چناچہ یہودیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے اور حجت بازی کرتے تھے۔ چناچہ یہودیوں کے دو قبیلے جلا وطن کردیے گئے۔ ان کی زمینوں اور دیگر جائداد پر قبضہ کرلیا گیا۔ بنی قینقاع اور بنی نظیر کے ساتھ تو یہ سلوک ہوا تیسرا بڑا قبیلہ بنی قریظہ زیادہ خبیث تھا اس نے غزوہ احزاب میں بھی سازش کی تھی اور جنگ احد میں بھی وہ مشرکین کے ساتھ مل گئے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت ترین سزا دینے کا حکم دیا۔ چناچہ ان کے بالغ بردوں کو قتل کردیا گیا۔ عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنا لیا گیا۔ معاہدہ شکن اور خوف خدا سے عاری لوگ ایسی ہی عبرت ناک سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ معاہدے کی منسوخی : فرمایا کہ معاہدہ ہوجانے کے بعد اگر کوئی فریق اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس معاہدے کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ (آیت) ” واما تخافن من قوم خیانۃ “ اگر آپ کو کسی معاہد قوم کی طرف سے معاہدے میں خیانت کا ڈر ہو (آیت) ” فانبذ الیھم علی سوائ “ پس پھینک دیں ان کی طرف برابر سرابر ، یعنی معاہدے کی منسوخی کا اعلان کردیں اور پھر ان کے خلاف جو کارروائی مناسب سمجھیں کر گزریں۔ ظاہر ہے کہ جب تک کوئی معاہدہ کا رآمد ہو اس کی خلاف ورزی کرنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں اور پوری دیانتدارنہ کوشش کے باوجود جب معاہدہ کی پاسداری نہ کی جارہی ہو تو پھر اس کو توڑدینا ہی بہتر ہے تا کہ فریقین اپنی اپنی صوابدید کے مطابق آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کرسکیں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جب معاہدہ کرلو تو اس کو نبھائو (آیت) ” ولا تغدروا “ اور غداری نہ کرو اور اگر نہیں نبھا سکتے تو اس کو منسوخ کردو۔ امیر معاویہ ؓ نے رومیوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا ابھی معاہدہ ختم ہونے میں چند دن باقی تھے کہ آپ نے فوجوں کو سرحد کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ ان کے خیال کے مطابق اپنی سرحدوں کے اندر رہ کر فوجی نقل وحمل کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اس پر حضور ﷺ کے صحابہ عمر و ابن عیینہ ؓ کو اس کارروائی کا پتہ چلا تو وہ سواری کو دوڑاتے ہوئے امیر معاویہ ؓ کے پاس پہنچے اور نعرہ مارتے ہوئے کہا ” وفاء ولا غدر “ یعنی عہد کی وفا ہونی چاہیے اور خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے ، انہوں نے حضور ﷺ کی حدیث پیش کی کہ اگر کسی قوم کے ساتھ معاہدہ کیا ہے تو اس کے اختتام تک تک اس کی وفاکرو اور زیادتی نہ کرو۔ فوجوں کی نقل و حرکت روک دو جب معاہدے کی تاریخ گزر جائے تو پھر جو چاہے کرو یہ احتیاط کی بات تھی جو مسلمانوں کا شعار ہے ورنہ اپنی سرحدوں پر فوجوں کو منتقل کرنا معاہدے کی خلاف ورزی نہ تھا۔ بہرحال فرمایا کہ اگر معاہدے میں خیانت کا خطرہ ہو تو معاہدے کو توڑ دو کیونکہ (آیت) ” ان اللہ لا یحب الخائنین “ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں یعنی معاہدہ شکن لوگوں کو پسند نہیں کرتا ترمذی شریف کی روایت میں بھی آتا ہے ” لا تخن من خانک “ جو تیرے ساتھ خیانت کرتا ہے تو اس کے ساتھ بھی خیانت نہ کرو۔ تم مومن ہو ، اپنے اصول پر قائم رہو ، عہد و پیمان کی پابندی کرو اور غدار نہ بنو۔
Top