Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور نہ خیال کریں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ وہ سبقت کر جائیں گے ( بھاگ جائیں گے) بیشک وہ نہیں عاجز کرسکتے
کفار کی خام خیالی : گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بیان ہوا تھا کہ سازشی یہودیوں کو ایسی عبرتناک سزا دو کہ ان کے پیچھے آنے والوں کو بھی اس سے عبرت ہو۔ مسلمانوں کو یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ وہ عہد و پیمان کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اس سے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خدشہ پید ہو سکتا تھا کہ ہماری اس سادہ لوحی سے کافر لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ ہمیں دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ دیانتداری اور اصول کی پابندی مسلمانوں کا شعار ہے اور اسی پر مدار فلاح ہے اور اگر کافرلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل ایمان کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے اللہ نے خبردار کیا (آیت) ” ولا یحسبن الذین کفروا سبقوا “ اور نہ گمان کریں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ وہ سبقت کر جائیں گے یعنی وہ مسلمانوں کو اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے کمزور کر کے کہیں بھاگ جائیں گے۔ فرمایا وہ ایسا گمان نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کمال قدرت کا مالک ہے وہ کافروں کی کوئی تدبیر نہیں چلنے دیگا۔ اور وہ مغلبو ہو کر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال ہے لہٰذا (آیت) ” انھم لا یعجزون “ کفار اہل ایمان کو عاجز نہیں کرسکتے کہ انہیں دھوکہ دیکر کہیں بھاگ جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کر گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ مکمل جنگی تیاری : فرمایا اصول کی پانبدی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان اپنی جگہ تیاری نہ کریں بلکہ ان آیات میں تیاری کا اہم اصول بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واعدوا لھم ما استطعتم “ اور تیاری کرو ان (دشمنوں ) کے مقابلے میں جس قدر ہو سکے (آیت) ” من قوۃ “ طاقت سے مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تم محض ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھے رہو بلکہ دشمن کے خلاف مکمل جنگی تیاری کرو۔ اسلحہ جمع کرو ۔ چھاونیاں قائم کرو۔ مجاہدین کی تربیت کا انتظام کرو۔ اور ہر وقت مستعد رہو۔ قوت کا لفظ بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ حضور ﷺ نے منبر پر چڑھ کر فرمایا ” الا ان القوۃ رمی “ خبردار ! طاقت تیر میں ہے اس زمانے میں تیر کا ہتھیار بڑا کارگر تھا۔ جو دشمن کو دور سے ہی نشانہ بنا سکتا تھا لہٰذا حضور ﷺ نے اس کی بڑی اہمیت بیان فرمائی۔ چناچہ حضور ﷺ نے خود بھی تیر کمان رکھا۔ تلوار اور نیزہ بھی استعمال کیا۔ آپ نے جنگی مقاصد کے لیے اونٹ ، گھوڑے ، خچر بھی استعمال کئے۔ آپ نے تیر اندازی کی ترغیب دی فرمایا خود بھی سیکھو اور دوسروں کو سکھائو۔ اور پھر اس کی مشق بھی جاری رکھو تا کہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ امام ابوبکر جصاص نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ والد پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تعلیم دے یعنی کتاب اللہ کی تعلیم ، تیراکی اور تیر اندازی ، شاہ اسماعیل شہید (رح) شدید گرمی میں بھی مشق کے لیے برہنہ پا چلتے تھے اور دریائے جمنا میں تیراکی کی مشق کیا کرتے تھے تا کہ ضرورت کے وقت اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ان میں احیائے اسلام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ان کی تحریک خود مسلمانوں کی غداری کی وجہ سے عملا ناکام ہوگئی مگر اس کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں گے۔ انہوں نے جہاد میں عملی حصہ لے کر بتا دیا کہ جذبہ اور اطاعت ایسی ہوتی ہے اور دشمن سے مقابلہ اس طرح کیا جاتا ہے اگلی سورة میں بڑے بڑے مضامین آرہے ہیں فرمایا ہے (آیت) ” فقاتلوا ائمۃ الکفر “ کفار کے بڑے بڑے سرداروں اور لیڈروں سے لڑو۔ ان کو تہ تیغ کرو۔ جب تک پوری قوت کے اتھ ان کے ساتھ نہیں ٹکرائو گے یہ اپنی سازشوں سے باز نہیں آئیں گے۔ فرمایا اس کام کے لیے اپنے اندر قوت پیدا کرو۔ سائنسدان پیدا کرو اور سامانِ ضرب وحرب اکٹھا کرو تا کہ تم اپنا دفاع کرسکو اور کفار ومشرکین کو کیفر کردار تک پہنچا سکو۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ حدیث میں جو تیر اندازی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد محض تیر اندازی نہیں بلکہ وقت کے جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال ہے۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں تیر اندازی ہی جنگ کے لیے بہترین ہتھیار سمجھا جاتا تھا ، مگر آج اس سے ہر قسم کی بندوق ، توپ ، ٹینک اور بکتر بند گاریاں ، فضا سے فضا اور زمین سے فضا میں مار کرنیوالے میزائل جنگی کشتیاں اور تباہ کن بحری جہاز ، ہوائی جہاز ، راکٹ اور آبدوزیں ہیں۔ مقصد تو یہ ہے کہ دشمن کا صفایا کیا جائے اور ہر وہ ہتھیار استعمال کیا جائے جو ضروری ہو ، ظاہر ہے کہ جب دشمن کے پاس جدید قسم کے ہتھیار موجود ہوں گے تو مسلمان صرف تیر اور تلوار پر ہی تکیہ لگا کر نہیں بیٹھ سکتے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ دشمن کے مقابلے کے لیے اگر ناخن بھی کام دے سکتا تو بیشک ناخنوں کو بڑھا لو ، حالانکہ عام حالات میں ناخن کاٹنے کا حکم ہے تو مقصد یہ کہ دشمن کے خلاف تیاری کے لیے تمام آلات حرب اور تمام وسائل بروئے کار لانا لازمی ہے (آیت) ” من قوۃ “ میں یہ سب شامل ہے۔ مالی جہاد کی ضرورت : مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ مالی جہاد ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ، دشمن کے مقابلے کے لیے وسیع مالی ذرائع کی ضرورت یہ توپ کے ایک چھوٹے سے گولے کے لیے تین ہزار روپے کی ضرورت ہے جب کہ بڑا گولہ سات ہزار روپے میں بنتا ہے ایک ٹینک لاکھوں روپے میں بنتا ہے اور بمباری کرنے والا ہوئی جہاز تو کروڑوں میں آتا ہے۔ جنگی تیاری کے لیے بڑے وسیع سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو مسلمان فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ دیگر عبارات کی طرح جہاد بھی ایک عبادت ہے اور ظاہر ہے کی عبادت ہر مرد وزن پر فرض ہوتی ہے اور کوئی بھی اس سے مثتنیٰ نہیں ہوتا۔ جہاد ہر عاقل ، بالغ اور صحت مند مسلمان پر بلا معاوضہ فرض ہے۔ جہاد عام حالات میں فرض کفایہ ہوتا ہے یعنی مسلمانوں کی جماعت میں سے کچھ آدمی اس میں شریک ہوجائیں تو فرض ادا ہوجاتا ہے لہٰذا عام حالات میں مجاہدین کی ایک جماعت ہمیشہ مستعد رہتی ہے البتہ جب نفیر عام کا وقت آتا ہے تو جہاد فرضِ عین ہوجاتا ہے۔۔ جب قوم کو ضرورت ہو تو پھر کوئی فرد واحد بھی پیچھے نہیں رہ سکتا صرف نابینا ، لنگڑا بیمار اور بہت بوڑھا عملی جہاد سے متثنیٰ ہیں ان کے لیے بھی شرط ہے (آیت) ” اذا نصحوا للہ والرسول “ جب کہ وہ اللہ اور رسول کے حق میں خیر خواہ ہوں۔ کوئی غلط پروپیگنڈا نہ کریں۔ بلکہ اپنی مجلسوں میں اچھی بات کریں جس سے دوسرے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہو اور اسلام کو تقویت پہنچے۔ مسلمانوں کی غفلت : امام ابوبکر جصاص (رح) چوتھی صدی کے مفسر قرآن ہیں۔ آپ نے اپنی تفسیر میں مسلمانوں کی کمزوری کا کئی مقامات پر ذکر کیا ہے اور اس زمانے میں دیکھ رہے تھے کہ مسلمان عیاشی میں پڑگئے ہیں اور ملکی سرحدین کمزور ہورہی ہیں ، یہ تو اس زمانے کی بات ہے جو مسلمان اس واقت پھسلنا شروع ہوئے تھے ، وہ آج کہاں تک پہنچ چکے ہیں اور مسلسل ضعف کی طرف جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ کا کلام برحق ہے نبی کا فر مان سچ ہے دین سچا ہے ، اس کے اصول درست ہیں مگر کمی ہے تو صرف عمل کی آج مسلمان دنیا بھر میں اپنی بےعملی کی وجہ سے ذلت کا شکار ہیں عمل کرنے کے لیے جان اور مال کو خرچ کرنا پڑتا ہے ، بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے مگر آج مسلمان عیش و آرام میں پڑئے ہوئے ہیں کھیل تماشے میں مصروف ہیں۔ مسلمان بھی اہل یورپ کے پیچھے لگ کر اپنے مشن کو بھول چکے ہیں۔ تبلیغ دین ، تصنیف و تالیف اور جہاد فرض ہے نئی پود کی تربیت انہی چیزوں سے ہوتی ہے اگر تعلیم وتربیت ہی ختم ہوجائے تو فرائض کی ادائیگی کیسے ہو سکے گی۔ لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں اپنی اپنی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے خیر خواہی کا ثبوت مہیا کرے۔ یہ جہالت کا نتیجہ ہے کہ آج کسی کو نکاح طلاق کی مبادیات سے بھی واقفیت نہیں اور پھر افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے عام دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر طلاق کی نوبت آجائے تو ایسی تحریر کریں گے جس سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں۔ حلال و حرام کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا جاتا ہے یہ سب باتیں ایک عام مسلمان کے سیکھنے کی ہیں مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ وسائل سے استفادہ : دنیائے اسلام اس وقت قدرتی وسائل سے مالا مال ہے صرف اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے اقتصادی لحاظ سے دنیا میں تیل کو بہت اہمیت حاصل ہے امن کی حالت میں بھی اس کے بغیر گزارہ نہیں مگر جنگ کی حالت میں تو تیل ایک موثر ہتھیار ہے مسلمانوں کے پاس یہ چیز وافر مقدار میں موجود ہے دیگر مع دنیات کی بھی کمی نہیں مگر اس کے باوجود ان کو دنیا میں عزت ووقار حاصل نہیں وجہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ کے عطا کردہ وسائل سے استفادہ نہیں حاصل کر پاتے۔ ان میں صلاحیت موجود ہے مگر محنت اور قربانی کا جذبہ مفقود ہے عرب ممالک پچاس ساٹھ سال سے تیل پیدا کر رہیں مگر اس کے لیے ماہرین ابھی تک امریکہ اور جرمنی سے آتے ہیں۔ آج تک اپنے انجینئر پیدا نہیں کرسکے ، کہیں نقص پڑجائے تو اسے درست نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے بھی ماہرین درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ خود تعلیم حاصل کریں۔ تجربات کریں اور کم از کم اپنے کام میں تو خود کفیل ہوجائیں اور بیرونی ماہرین کو ادا کی جانے والی بڑی بڑی رق میں بچا سکیں یہ پستی کی نشانی ہے آرام طلب ہوگئے ہیں اور محنت سے جی چراتے ہیں حالانکہ محنت اور جذبے کے بغیر کوئی چیز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ جس قدر ہو سکے اپنے اندر قوت پیدا کرو ، وسائل کو بروئے کا ر لائو ، اسلحہ تیار کرو۔ مجاہدین کی بہترین تربیت کرو تا کہ تم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکو۔ مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور میں خوب محنت کی۔ ان میں قربانی کا جذبہ اور غلبہ دین کی تڑپ تھی۔ جس کے اثرات سات سو سال تک دنیا میں موجود رہے اور اسلام کی عالمگیر حیثیت دنیا میں قائم رہی ، تمام دنیا پر اہل اسلام کی سیاست چلتی تھی مگر جب انحطاط شروع ہوا تو تمام وسائل موجود ہونے کے باوجود مسلمان دنیا میں تیسرے درجے کے باشندے بن گئے ہیں دنیا میں ان کی کوئی قدرومنزلت نہیں۔ اس زمانے میں بھی اہل ایمان میں بڑے بڑے قابل دماغ ہیں با صلاحت نوجوان موجود ہیں مگر حکومت اور قومی اداروں کی طرف سے حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ لائق نوجوان کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں مگر ان سے استفادہ حاصل نہیں کیا جا رہا ، یہی بدقسمتی ہے۔ مسلمانوں کے جنگی معرکے : فرمایا دشمن کے مقابلہ میں حسب اسطاعت تیاری کرو قوت کے ساتھ (آیت) ” ومن رباط الخیل “ اور باندھے ہوئے گھوڑوں کے ساتھ ، یہاں پر اللہ نے جنگی مقصد کے لیے گھوڑوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے گھوڑا بڑا بابرکت جانور ہے اور اس کی یہ برکت قیامت تک موجود ررہیگی۔ اگرچہ آجکل گھوڑوں کی جگہ چیپوں اور ٹینکوں نے لے لی مگر پھر بھی دنیا میں ایسے ایسے پہاڑی مقامات ہیں جہاں گھوڑے اور خچر ہی کام دے سکتے ہیں۔ فرمایا جنگی تیاری کا مقصد یہ ہے (آیت) ” ترھبون بہ عدو اللہ وعدوکم “ کہ اس کے ذریعے تم اللہ اور اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کرسکو۔ جنگی تیاری جاری رکھو گے تو دشمن کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جراء ت نہیں ہوگی اور اگر تم آرام طلب بن گئے ، جہاد کے لیے سامان کرنا چھوڑ دیا تو دشمن مسلط ہوجائے گا اور پھر تم غلام بن جائو گے اسی لیے فرمایا کہ اپنی تیاری جاری رکھو تا کہ دشمن تم سے ڈرتا رہے (آیت) ” واخرین من دونھم “ اور ان کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں کو بھی خوف زدہ کرسکو یعنی قریش مکہ اور مشرکین عرب وغیرہ (آیت) ” لا تعلمونھم “ کہ جن کو تم نہیں جانتے (آیت) ” اللہ یعلمھم “ بلکہ اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔ مولانا سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ ان سے رومی اور ایرانی لوگ مراد ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں مسلمان ان سے غافل ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اللہ نے یاد دلایا کہ تمہارے دشمن صرف عرب کے لوگ ہیں نہیں بلکہ تمہیں دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ لہٰذا اس کے لیے ابھی سے تیاری شروع کر دو ۔ سورة قتال میں بھی ذکر ہے کہ آج جو لوگ پیچھے ہٹ رہے ہیں کل ان کو بڑی بڑی جنگوں کے لیے دعوت دی جائیگی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی اعانت ونصرت سے مسلمانوں نے بڑی بڑی جنگیں لڑیں اور ان میں فتح حاصل کی۔ اس وقت مسلمانوں میں کمال درجے کی اطاعت اور جذبہ پایاجاتا تھا۔ مصر کی فتح کے حالات پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے قادسیہ کے معرکے میں مسلمانوں نے کتنی عظیم قربانیاں پیش کیں۔ ایرانی جنگیں کیسے لڑیں۔ صوبہ خراساں اور پھر بربرتک مسلمان بڑھتے چلے گئے یہ سب جذبہ ایمان اور جنگی تیاری کی وجہ سے تھا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ اب یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ جہاد ذریعہ حیات ہے : حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ عام صدقہ و خیرات کا اجر دس گنا ہے جب کہ جہاد کے لیے خرچ کیے گئے پیشے کے اجر کے ابتداء سات سو گنا سے شروع ہوتی ہے اور پھر بغیر تحدید کے بڑھتی چلی جاتی ہے ایک شخص نے جہاد کے لیے ایک اونٹنی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے فرمایا ، تمہیں قیامت کے دن سات سو اونٹنیاں بمعہ پالان ملیں گی یعنی پورے سازوسامان کے ساتھ لدی ہوئی ہوں گی۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے ” ذروۃ سنامہ الجھاد “ یعنی اسلام کے کوہان کی بلندی جہاد ہے ۔ جہاد کرو گے تو عزت حاصل ہوگی ، دشمن مغلوب ہوگا۔ بدمعاشی کا قلع قمع ہوگا اور دنیا امن وامان کا گہوراہ بن جائیگی۔ حدود قائم ہونگی اور اسلام کو سربلندی حاصل ہوگی۔ اگر جہاد کو ترک کر دو گے تو پستی کی گہرائیوں میں گر جائو گے۔ اگر حدود اللہ نافذ نہیں کروگے تو دشمن ریشہ دوانیاں کریں گے پھر تم کہیں غلام بن جائو گے اور کہیں مغلوب ہو جائو گے حضور ﷺ کا فرمان ہے جو قوم جہاد ترک کردیتی ہے وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتی ہے اس کو عزت نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ کر نہیں آئو گے ، عزت ووقار حاصل نہیں ہوگا فرمایا ” حتی ترجعوا الی دینکم “ یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آئو اگلی سورة میں اس ضمن میں بہت سی باتیں آئیں گی۔ مالی جہاد کا اخیر : فرمایا (آیت) ” وما تنفقوا من شیء فی سبیل اللہ “ تم اللہ کے راستے میں یعنی جہاد کی مد میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے (آیت) ” یوف الیکم “ تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جہاد کے لیے ایک کا بدلہ سات سو گنا سے شروع ہوتا ہے تم اتنے عظیم اجر کے مستحق ہو جائو گے۔ (آیت) ” وانتم لا تظلمون “ اور تم پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جائیگی۔ تمہارا کوئی عمل اور کوئی نیکی رائیگاں نہیں جائیگی ہر چیز اللہ کے ریکارڈ میں موجود ہے اور وقت آنے پر اس کی قدردانی ہوگی اور اس کا پورا پورا اجر دیا جائے گا کسی کی نیکی ضائع کر کے اس پر زیادتی نہیں کی جائیگی۔
Top