Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اگر یہ (مخالف لوگ) جھک جائیں صلح کی طرف ، تو آپ بھی جھک جائیں اس کے لیے ، اور بھروسہ کریں اللہ کی ذات پر بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
ربطِ آیات : گذشتہ درس میں فرضیت جہاد کے ضمن میں اہل ایمان کو حکم دیا جا چکا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں حسب استطاعت قوت فراہم کریں۔ اس سے مراد نہ صرف انفرادی قوت ہے بلکہ زمانے کی مناسبت سے جدید ترین اسلحہ ، ذرائع نقل وحمل اور بہترین ذرائع ابلاغ بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دشمن اسلام بھی اپنے باطل پروگرام کی تکمیل کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گا ، لہٰذا ایمان والوں کا بھی فرض ہے ، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کہ بہترین صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے دشمن کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہیں جنگ کے سارے اہم اصول بیان کرنے کے بعد اللہ نے آخر میں قوت جمع کرنے کا اصول بیان فرمایا سارے اہم اصول بیان کرنے کے بعد اللہ نے آخر میں قوت جمع کرنے کا اصول بیان فرمایا تھا اور اب آج کے درس میں قانونِ صلح کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ صلح پر آمادگی : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان جنحوا للسلم “ اگر یہ لوگ ( کافر ، مشرک ، یہودونصاری) صلح کے لیے مائل ہوجائیں تو اپنے پیغمبر (علیہ السلام) (آیت) ” فاجنح لھا “ آپ بھی اس کے لیے مائل ہوجائیں۔ جنگ کوئی مقصود بالذات تو نہیں ہے کہ محض شغل کے طور پر بلاوجہ جنگ جاری رکھی جائے بلکہ اس سے مراد تو یہ ہے کہ فتنہ و فساد کا قلع قمع کر کے دنیا میں امن وامان کی فضا قائم کی جائے ، کفر وشرک کی باطل رسومات کا ختمہ ہو کر اللہ وحدہ لاشریک کی توحید کا ڈنکا بجے ، مظلوم کی اعانت ہو اور ظالم پر حدود جاری ہوں۔ لہٰذا فرمایا کہ جب حالات کا تقاضا ہو اور دشمن صلح پر آمادہ ہو تو آپ بھی ان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں وہاں اگر وہ اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں اور جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آپ بھی آخری فتح تک بہترین وسائل کے ساتھ ان کے خلاف برسرپیکار رہیں۔ بہر حال صلح وجنگ دونوں قسم کے قوانین بڑے اہم ہیں جن پر عملدرآمد ہی کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے۔ جس طرح حصول مقصد کے لیے بعض اوقات جنگ ناگزیر ہوتی ہے اسی طرح خاص مصلحت کے تحت بعض اوقات صلح بھی مفید ہوتی ہے۔ 6 ھ؁ میں صلح حدیبیہ اس کی بہترین مثال ہے جب آپ چودہ سو صحابہ ؓ کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ معظمہ آئے تو کفارنے حدیبیہ کے مقام پر ہی روک دیا تھا۔ صحابہ کرام ؓ چونکہ جنگ کے ارادے سے نہیں آئے تھے ، اس لیے ان کے پاس نہ تو وافر افرادی قوت تھی اور نہ ہی سامان ضرب وحرب ، مگر حالات کا تقاضا یہ تھا کہ جس مقصد کے لیے آئے ہیں اسے ہر حالت میں پورا کیا جائے۔ فریقین کی گفت و شنید کے نتیجہ میں حضور ﷺ نے نہایت کمزور شرائط پر صلح کی پیش کش کو قبول فرمایا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اشاعت اسلام کی رفتار ناقابلِ یقین حدتک تیز ہوگئی اور اس واقع کے بعد نازل ہونے والی سورة فتح میں اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر کیا ہے اس معاہدے کے بعد لوگ اسلام میں اس کثرت سے داخل ہونے لگے جیسے کسی حصار کا پھاٹک کھول دیا گیا ہو۔ یہ اس صلح کا بین فائدہ ہوا۔ بعض حضرات فتح مبین سے فتح مکہ مراد لیتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ فتح مکہ تو اس واقعہ کے تقریبا ڈیڑھ سال بعد عمل میں آئی جب کہ سورة فتح صلح حدیبیہ کے معا بعد واپسی پر دوران سفر نازل ہوئی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے صلح وجنگ کے جن قوانین کو سورة انفال اور سورة توبہ میں اجمالا بیان فرمایا ہے ، ان کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ تمام محدثین کرام نے اپنی اپنی جامعات میں سیر کے نام سے باب باندھے ہیں جن میں اس موضوع پر احادیث کو جمع کیا ہے۔ ان قوانین کی سب سے زیادہ تفصیل امام محمد (رح) کی السیر الصغیر اور السیر الکبیر میں بیان کی گئی ہے یہ تین جلدوں میں قوانینِ صلح وجنگ پر یہ بہترین کتاب ہے ۔ توکل بر خدا : فرمایا اگر کفار ومشرکین صلح پر آمادہ ہوں تو آپ بھی صلح کے لیے تیار ہوجائیں اور اس کے ساتھ ساتھ (آیت) ” و توکل علیہ اللہ “ آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ بعض اوقات صلح ، جنگ سے زیادہ مفید ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ مشن کو زیادہ کامیابی ہوتی ہے۔ اس کی بہترین مثال صلح حدیبیہ ہے جس کے متعلق محدثین ومحققین فرماتے ہیں کہ صلح کا یہ معاہدہ امت کے لیے بہترین نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے معاہدات کے ذریعے اہل ایمان میں دین کا ذوق وشوق ، جذبہ ، تنظیم اور اجتماعیت پیدا ہوتی ہے ، قربانی کا مادہ جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں ایمان والوں کی فتح یقینی بنتی ہے۔ چناچہ سورة فتح میں صلح حدیبیہ اور اس میں حاصل ہونے والے فوائد کی تفصیلات بیان کردی گئیں۔ ا سی لیے فرمایا کہ جب مخالفین صلح پر آمادہ ہوں تو آپ بھی تیار ہوجائیں اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ (آیت) ” انہ ھو السمیع العلیم “ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے وہ مشرکین کے عزائم بد کو بھی جانتا ہے اور تمہارے خلوص سے بھی واقف ہے وہ ہر ایک کی طاقت اور کمزوری پر نگاہ رکھتا ہے لہٰذا ہر کام اسی کے بھروسے پر انجام دیں وہ اہل ایمان کو مایوس نہیں کریگا۔ مشرکین کی بدنیتی پر نصرت الہٰی : فرمایا (آیت) ” وان یریدوا ان یخدعوک “ اگر مشرکین آپ سے دھوکہ دہی کا ارادہ کریں۔ ان کا مائل بہ صلح ہونا نیک نیتی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ مزید تیاری کے لیے وقت حاصل کرنا مقصود ہو اور اس طرح صلح کے ذریعے آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو فرمایا (آیت) ” فان حسبک اللہ “ بیشک اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کفایت کرنے والا ہے آپ ان کی طرف سے چال بازی سے گھبرائیں نہیں بلکہ اللہ کے قانون کے مطابق مصلحت کے پیش نظر صلح کی پیش کش کو قبول کرلیں اور پھر اللہ پر مکمل بھروسہ رکھیں ، اللہ تعالیٰ آپ کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود ایسا انتظام فرما دے گا کہ مشرکین کا دھوکہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ فرمایا (آیت) ” ھو الذی ایدک بنصرہ “ وہ وہی ذات ہے جس نے آپ کی تائید کی اپنی مدد کے ساتھ (آیت) ” وبالمومنین “ اور مومنوں کی ( مختصر سی) جماعت کے ساتھ۔ بدر کے میدان میں اللہ نے خوب مدد فرمائی آپ کے ساتھ تھوڑی سی جماعت تھی مگر اللہ نے اہل ایمان کو کامیاب بنایا اور مشرک مغلوب ہوگئے جس سے کفر کا زور ٹوٹ گیا۔ مسلمانوں کے دل میں اطمینان اور سکون پیدا ہوا۔ اللہ کی نصرت کا یقین کامل ہوگیا اور پھر مسلمان اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے دین کا پیغام لے کر دنیا کے کونے کونے میں پہنچے ۔ اسی لیے فرمایا کہ جب آپ خلوص نیت سے اللہ کیک دین کے لیے نکلیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کو بےیارومددگار نہیں چھوڑے گا بلکہ نصرت کے ساتھ اور مومنین کی جماعت کے ساتھ آپ کی تائید کریگا۔ متاخرین کے لیے لائحہ عمل : مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ قوانین صلح کے سلسلے میں حضور ﷺ کے زمانہ مبارک اور بعد کے زمانہ میں فرق ہے نبی کو تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خصوصہ تائید حاصل ہوتی ہے ، اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عصمت کا گارنٹی ملتی ہے مگر آپ کے بعد عامۃ المسلمین کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ گردوپیش کا بغور جائزہ لینے کے بعد صلح کا معاہدہ کریں حضور ﷺ کے اپنے زمانے کی مثال ایک جنگ کے دروان ملتی ہے حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کے ساتھ جنگ کے دوران جب مسلمانوں نے ظہر کی نماز ادا کی تو مشرکین نے محسوس کیا کہ ایسی حالت میں ان پر یکبارگی حملہ کر کے ان پر غلبہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ چناچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا ، کہنے لگے (آیت) ” ستاتیھم صلوۃ احب الیھم من الاولاد “ آگے ایک ایسی نماز (عصر) آرہی ہے جو مسلمانوں کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہے ، لہٰذا اس موقع پر حملہ کر کے ان کو ختم کردیا جائے گا۔ چونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے بنی کے درمیان رابطہ بذریعہ وحی موجود تھا ، اس لیے اللہ کی طرف سے مشرکین کے اس منصوبے کی اطلاع پا کر حضور ﷺ نے نماز عصر کے لیے مجاہدین ی دوصفیں بنائیں۔ چونکہ دشمن اس وقت قبلہ رخ تھا اس لیے نماز میں کھڑے مشرکین سامنے نظر آرہے تھے۔ حضور ﷺ نے عصر کی نماز شروع کی۔ جب آپ رکوع گئے تو مجاہدین کی دونوں صفوں نے رکوع کیا ، البتہ جب سجدہ میں گئے تو اگلی صف والوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ جب کہ دوسری صف دشمن کے سامنے کھڑے رہے۔ پھر جب اگلی صف والے۔۔ سجدہ مکمل کر کے کھڑے ہوگئے تو پچھلی صف والوں نے الگ سجدہ مکمل کرلیا اور دوسری رکعت میں شامل ہوگئے۔ پھر دونوں صفوں کے مجاہدین نے صفیں بدل لیں۔ پہلی صف والے دوسری صف میں اور دوسری صف کھڑے رہے۔ پہلی رکعت کی طرح جب پہلی صف والے سجدے سے اٹھ کھڑے ہوئے تو دوسری صف والوں نے الگ سجدہ کرلیا۔ پھر دونوں جماعتوں نے بیک وقت تشہد پڑھا اور پھر حضور ﷺ کے ساتھ سب نے اکٹھا سلام پھیرا۔ یہ تو حضور ﷺ کے زمانہ کی بات تھی۔ اب متاخرین کے لیے دو چیزوں کا حکم ہے ایک تو یہ ہے کہ مسلمان اپنے گردوپیش کا بغور جائزہ لے کر صلح کے لیے ہاتھ بڑھائیں اور دوسری بات یہ کہ اجتماعی نظم وضبط کو قائم رکھیں مسلمان دشمن سے دھوکہ اسی وقت کھائیں گے جب ان کی اجتماعیت کمزور ہو جائیگی۔ دشمن بھی ایسے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ جب مسلمانوں کے اندر غدر پیدا ہو کر ان کی جمیعۃ کو کمزور کردیتے ہیں تو پھر دشمن کو بھی حملہ آور ہونے کا موقع مل جاتا ہے لہٰذا متاخرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ جماعت المسلمین میں اتفاق و اتحاد کی فضا کو قائم رکھیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں میں اسی چیز کا فقدان ہے حضور ﷺ کے زمانہ مبارک کے مسلمان تو صادق القول والفعل تھے اور بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے بھی ہر وقت تیار رہتے تھے مگر آج ملک غداروں سے پر ہے جو معمولی سے مفاد کے لیے ایمان جیسی دولت کو بھی قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ، ملکی اور ملکی نقصان تو ان کے نزدیک بہت معمولی چیز ہے یہی وجہ ہے کہ کمی نہیں مگر اندر کی منافقت نے ان کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے اسی لیے فرمایا کہ اب اگر دشمن کے ساتھ صلح کا معاہدہ مطلوب ہو تو گردوبیش کے حالات کا مطالعہ کرو ، نیز اپنی صفوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرو اور پھر کوئی فیصلہ کرو۔ الفت بین المسلمین : فرمایا ، ایک تو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اپنی نصرت کے ساتھ تائید فرمائی اور دوسرا انعام یہ دیا۔ (آیت) ” والف بین قلوبھم “ ان کے دلوں میں الفت ڈال دی۔ اسلام لانے سے قبل اوس اور خزرج کے قبائل ایک سو بیس سال تک خاندانی جنگ لڑتے رہے مگر جب اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے تو ان کی دشمنی دوستی میں بدل گئی اور یہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ عرب کے بعض دوسرے قبائل مثلا قریش اور کنانہ کی دیرینہ دشمنی تھی اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ برسرپیکار رہتے تھے مگر اسلام کی بدولت یہ بھی یک جان و قالب بن گئے۔ اسی چیز کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ ان کے دلوں میں الفت دی۔ فرمایا الفت بین المسلمین اتنی قمیتی متاع ہے کہ (آیت) ” لو انفقت ما فی الارض جمیعا “ اگر آپ روئے زمین کے تمام خزانے بھی خرچ کر ڈالتے (آیت) ” ما الفت بین قلوبھم “ تو ان کے دلوں میں محبت والفت جاگزیں نہ کرسکتے (آیت) ” ولکن اللہ الف بینھم “ بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے ان کے درمیان جذبہ الفت کو بیدار کای۔ جب وہ لوگ توحید میں راسخ ہوئے ، رسالت پر ایمان لائے تو پھر نبی کی برکت سے ساری جماعت ایک مشت بن گئی ہر شخص دوسرے کے نفع نقصان کو اپنا نفع نقصان سمجھنے لگا ، ان کی عداوت محبت میں بدل گئی ، اللہ نے ان کے درمیان اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کردی۔ اسی بات کو اللہ نے سورة آل عمران میں اسی طرح بیان فرمایا ہے (آیت) ” وکنتم علی شفاحفرۃ من النار فانقذکم منھا “ تم تو جہنم کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ایمان کی بدولت ت میں اس گڑھے سے بچا لیا۔ اساس اتحاد کلمہ توحید ہے : آج بھی اللہ تعالیٰ کا قانون وہی ہے۔ اہل ایمان کا اجتماع کلمہ توحید پر ہی ہو سکتا ہے اگر اس بنیاد پر قائم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ اتفاق و اتحاد پیدا کرے گا اور اگر یہی بنیاد کمزور ہوگئی تو پھر مسلمانوں کو بھی تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ، لاہور میں جمعیت علماء اسلام کی کانفرنس ہوئی جس میں بنگال سے آنے والے ایک عالم نے قسم اٹھا کر کہا تھا کہ مغربی پاکستان کے رہنے والو ! (تمہارے اور ہمارے درمیان کلمہ توحید کے علاوہ کوئی چیز مشترک نہیں ۔ ہماری بودوباش ، زبان ، رہن سہن ، کھانا پینا اور پہننا بالکل مختلف ہے۔ ہماری زبان اور بودوباش ہندوئوں کے ساتھ ملتی ہے۔ اگر تم نے کلمہ جیسی قدر مشترک کو چھوڑ دیا تو پھر تمہارے اور ہمارے درمیان اتحاد کی کونسی بات رہ جائے گی ؟ اور آخر وہی ہوا ، جب کلمے کی اساس کمزور ہوئی۔ ذاتی مفاد غالب آگیا ، مغربی پاکستانیوں کے ہاتھوں تیس لاکھ مشرقی پاکستانی مارے گئے اور اسلام کے نام پر بننے والا ملک دولخت ہوگیا۔ دین کا نظریہ تو یہ ہے کہ (آیت) ” انما المومنون اخوۃ “ (الجرات) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں خواہ کوئی مشرق میں رہتا ہے یا مغرب میں کالا ہے یا گورا ، کوئی زبان بولتا ہے ، کوئی لباس پہنتا ہے ، کوئی خوراک کھاتا ہے ، ہاں اگر کلمہ پڑھتا ہے تو بھائی ہے اللہ نے فرمایا کہ جب تم میں کلمہ توحید بطور قدر مشترک ہوگیا تو تمہارے درمیان الفت ڈال دی (آیت) ” انہ عزیز حکیم “ اللہ تعالیٰ کمال قدرت کا مالک ہے اور حکمت والا ہے ، اس کا ہر کام اس کی کمال قدرت کا نمونہ اور اس کی حکمت کا شاہکار ہوتا ہے۔ کفایت الہٰی : فرمایا (آیت) ” یایھا النبی حسبک اللہ “ اے نبی ! آپ کے لیے اللہ ہی کافی ہے (آیت) ” ومن اتبعک من المومنین “ اور ان لوگوں کے لیے بھی کافی ہے جو مومنوں میں سے آپ کے متبع ہوئے۔ اگر آپ خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے کافروں کے ساتھ صلح کریں گے تو ان کی بری نیت اور ارادے کے باوجود اللہ ان کو ناکام بنائے گا اور اہل ایمان کے لیے اللہ کفایت کرے گا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے بنی ! حقیقت میں آپ کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور ظاہری طور پر مسلمانوں کی یہ مختصر جماعت بھی آپ کے لیے کافی ہے جو جہاد کے لیے ہمیشہ مستعد رہتی ہے اگرچہ بعض مواقع مثلا احد ، خندق ، تبوک وغیرہ میں قدرے کمزوری بھی ظاہر ہوئی اور نقصان اٹھانا پڑا۔ مگر ی حدیبیہ ، فتح مکہ اور خیبر وغیرہ میں نمایاں کامیابی بھی ہوئی تو فرمایا آپ قانونِ الہٰی کے مطابق صلح کے لیے پیش رفت کریں اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرے گا۔
Top