Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
یہ براءت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان لوگوں کی طرف جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا مشرکین میں سے
سورة توبہ مدنی ہے اور یہ ایک سو انتیس آیات اور اس میں سولہ رکوع ہیں سورۃ کے مختلف نام : اس سورة مبارکہ کا عام فہم نام سورة توبہ ہے وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بعض صحابہ ؓ سے غزوہ تبوک میں عدم شمولیت کی کوتاہی ہوگئی تھی۔ اس پر اللہ کے رسول نے ان کے ساتھ مقاطعہ کا حکم دیدیا ، بالآکر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی توبہ قبول فرمائی جس کا ذکر اس سورة میں موجود ہے ، لہٰذا اس سورة مبارکہ کو سورة توبہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس سورة کا دوسرا نام سورة برات ہے کیونکہ اس میں مشرکین اور کفار سے برات یعنی بیزاری کا اظہار کیا گیا ہے اور انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ چار ماہ کی مدت میں یا تو اسلام قبول کرلیں یا پھر ملک چھوڑ جائیں۔ اس سورة کو سورة فاضحہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مشرکوں اور کافروں کو رسوا کرنے والی سورة ہے اس کا حال بھبی سورة میں مذکور ہے یہ سورة منکلہ ہے یعنی یہ مکذبین اور منکرین کو سزا دینے والی سورة ہے۔ اسی کا نام سورة العذاب بھی ہے کہ اس میں کفار ومنافقین کی سزا کا ذکر ہے اس سورة کو مقشقہ بھی کہتے ہیں کہ یہ منافقوں کے نفاق کو کھولنے والی سورة ہے۔ سورۃ سے پہلے بسم اللہ : قرآن پاک کی کل ایک سو چودہ سورتوں میں سورة توبہ واحد سورة ہے جس کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ سے دریافت کیا کہ آپ جامع القرآن ہیں۔ آپ نے سورة انفال اور سورة توبہ کو آپس میں جوڑ دیا ہے اور درمیان میں بسم اللہ نہیں لکھی۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کے جواب میں حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ انہوں نے اس مقام پر حضور ﷺ کو بسم اللہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔ لہٰذا میں نے یہاں پر بسم اللہ نہیں لکھی۔ تلاوتِ قرآن پاک درمیان جب حضور ﷺ بسم اللہ تلاوت فرماتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ یہ دو سورتوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہے اور اب نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔ چونکہ آۃ پ نے اس موقع پر بسم اللہ نہیں پڑھی لہٰذا یہ کبھی امکان ہے کہ سورة انفال اور توبہ ایک ہی سورة ہو کیونکہ ان دونوں کے مضامین میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ اس سے امام ابوحنیفہ (رح) کا وہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جزو قرآن تو ہے مگر ہر سورة کا جزو نہیں۔ بعض ائمہ اسے ہر سورة کا جزو بھی مانتے ہیں اس ضمن میں حضرت علی ؓ سے بھی ایک بات منقول ہے جب ان سے دریافت کیا گیا کہ سورة توبہ سے پہلے بسم اللہ کیوں نہیں لکھی گئی تو فرمایا ، بسم اللہ تو امن کے لیے ہوتی ہے جب کہ اس سورة مبارکہ میں اعلان جنگ ہو رہا ہے اس لیے یہاں بسم اللہ نہیں لکھی۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ بسم اللہ نہ لکھنے کے بارے میں یہ حکمت کی بات ہے نہ کہ اس کی علت ۔ جمع قرآن : قرآن پاک کی موجودہ ترتیب وشکل حضرت عثمان ؓ کی جمع کردہ ہے آپ سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جمع قرآن کا فریضہ ادا کیا مگر اس ترتیب میں کچھ فرق تھا۔ اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی ترتیب بھی قدرے مختلف تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوے کیا جو کہ یمامہ کا رہنے والا تھا۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے اس کے خلاف جہاد کیا جس میں بارہ سو کے قریب حفاظ اور قاری حضرات شہید ہوگئے اس پر خطرہ لاحق ہوا کہ قرآن حکیم کہیں ضائع ہی نہ ہوجائے ، لہٰذا اس کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اگرچہ قرآن پاک کے مختلف حصے مختلف جگہوں پر تحریری صورت میں موجود تھے ، تا ہم وہ یکجا نہیں تھے ، اس لیے ان کو ایک جگہ اکٹھا کرنا مناسب سمجھا گیا۔ چناچہ قرآن پاک یکجا ہو کر ایک مصحف بن گیا۔ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں اختلافات بڑھ گئے حضرت حذیفہ ؓ نے محسوس کیا کہ لوگ قرآۃ ن کی تلاوت اور اس کی ترتیب میں بہت گڑبڑ کر رہے ہیں تو انہوں نے حضرت عثمان ؓ سے عرض کیا ” ادرک الامۃ “ حضرت امت کا علاج کرلیں پیشتر اس کے کہ یہ بھی اہل انجیل کی بن جائیں ان کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح اللہ کی کتاب انجیل کئی حصوں میں منقسم ہوگئی ہے اسی طرح قرآن پاک بھی کہیں مفترق حصوں میں نہ بٹ جائے لہٰذا اس کی حفاظت کا مناصب انتظام کرلیا جائے۔ چناچہ حضرت عثمان ؓ نے موجودہ ترتیب کے ساتھ قرآن پاک کو ایک جگہ جمع فرما دیا۔ پھر اس کے ساتھ نسخے تحریر کروائے اور ایک ایک نسخہ ہر صوبہ کی جامع مسجد میں رکھوا دیا اور حکم دیا کہ جس نے قرآن پاک نقل کرنا ہو۔ اس نسخہ سے نقل کرے اور اس کے خلاف کوئی نسخہ تیار نہ کیا جائے پھر آپ نے اس مصحف کے علاوہ باقی سارے نسخے تلف کروا دیے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگرچہ نزول قرآن کی ترتیب بالکل مختلف ہے تا ہم موجودہ نسخہ قرآن منشاء الہٰی اور لوح محفوظ کی ترتیب کے عین مطابق ہے۔ سورتوں کی ترتیب : حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے حضرت عثمان ؓ سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ سورة انفال چھوٹی سورة ہے جس کی آیات ایک سو سے بھی کم ہیں تو آپ نے اسے سبع طوال ( سات لمبی سورتوں ) کے درمیان کیسے لکھ دیا اور سورة توبہ جس کی آیات سو سے زیادہ ہیں اس کو آپ نے انفال کے بعد لائے ہیں ۔ حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ میں نے آیات اور سورتوں کی ترتیب حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق رکھی ہے جب قرآن پاک کی کوئی آیت نازل ہوتی تو حضور ﷺ فرماتے کہ اس کو فلاں جگہ فلاں آیت سے پہلے یا بعد میں لکھ لو چناچہ صحابہ کرام ؓ ایسا ہی کرتے۔ سورة انفال 2 ھ؁ میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی چناچہ اس سورة میں ان جنگ کا حال مذکور ہے۔ برخلاف اس کے سورة توبہ فتھ کے بعد مدنی زندگی کے آخری حصہ میں 9 ھ؁ میں نازل ہوئی اور اس میں غزوہ تبوک کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں کہ باقی سورتوں کی ترتیب کے متعلق تو ہم نے سن رکھا تھا کہ انہیں فلاں فلاں جگہ پر رکھ دو مگر سورة توبہ کے متعلق ہم نے حضور سے کچھ نہیں سنا تھا اور نہ ہی ہم نے از کود دریافت کیا تھا ، چونکہ اس سورة مبارکہ کا مضمون سورة انفال کے ساتھ ملتا تھا اور اس کی ابتداء میں ہم نے حضور ﷺ سے بسم اللہ بھی نہیں سنی تھی لہٰذا اس سورة کو سورة انفال کے ساتھ جوڑ دیا اور درمیان میں بسم اللہ بھی نہ لکھی۔ اس سے مفسرین اور محدثین کرام یہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ ترتیب قرآن کا معاملہ توقیفی ہے اس میں اجتہاد سے کام نہیں لیا گیا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق حضور ﷺ کی بتائی ہوئی ترتیب ہے جس طرح صحابی ؓ نے حضور ﷺ سے سنا ویسے ہی آیت کو اس کے مقام پر رکھ دیا۔ البتہ سورة توبہ کے معاملہ میں اجتہاد کو ضرور دخل حاصل ہے۔ یہ سورة حضور ﷺ کی زندگی کے آخری حصہ میں نازل ہوئی۔ چونکہ اس کا مضمون پہلی سورة انفال کے ساتھ ملتا جلتا ہے اس لیے یہ پہلی سورة کا تتمہ بھی ہے۔ البتہ پہلی سورة چھوتی ہے جب کہ دوسری بڑی۔ بہرحال حضرت عثمان ؓ نے اس سورة کے متعلق غور وفکر کرنے کے بعد اس کو یہاں رکھ دیا اور اس سے پہلے بسم اللہ بھی نہ لکھی۔ چناچہ اب قانون یہی ہے کہ جو شخص سورة انفال اور سورة توبہ کو تسلسل کے ساتھ پڑھے وہ ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھے البتہ اگر کوئی اسی سورة سے تلاوت کی ابتداء کرتا ہے تو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرے۔ کوائف اور موضوع : یہ سورة مدنی زندگی میں نازل ہوئی ، اس کی 129 آئتیں اور 16 رکوع ہیں۔ یہ سورة 2467 کلمات اور 000 ، 10 حروف پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلی سورة انفال اور اس سورة کا موضوع اسلام کا قانونِ صلح و جنگ ہے ان سورتوں میں بارہ تیرہ اہم اصول اور ان کے تابع احکام بیان کیے گئے ہیں جن پر مسلمانوں کو عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ اس سورة کی ابتدائی آیات میں کفار ومشرکین کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور آگے اس کی مزید تشریح ہے اس میں اسلام کے سیاسی نظام کا بھی ذکر ہے اور خاص طور پر مرکز اسلام کے بیرونی ممالک سے تعلقات کی نوعیت کا بیان ہے دوسرے لفظوں میں سورة ہذا اسلام کی فارن پالیسی کے خدوخال کو بھی واضح کرتی ہے اس میں جزیہ کا مسئلہ بھی بیان ہوا ہے۔ جہاد کے سلسلے میں اس سورة میں غزوہ حنین اور غزوہ احد کا ذکر ہے اور غزوہ تبوک سے متعلق قدرے تفصیلات موجود ہیں اس دوران منافقین نے اپنے منافقت کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جہاد سے گریز کیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں مسجد ضرار تعمیر کی جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے چناچہ اس سورة میں منافقین کو دی گئی رعایات کو ختم کیا گیا ہے اور ان کی رسوائی کا تذکرہ ہے۔ اعلان ِ بیزاری : سورۃ کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے (آیت) ” برآئۃ من اللہ ورسولہ شروع میں ھذہ کا لفظ محذوف ہے اور مکمل معنی یہ ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے (آیت) ” الی الذین عھدتم من المشرکین “ مشرکوں میں سے ان لوگوں کی طرف جن سے تم نے معاہدہ کر رکھا ہے آگے تفصیلات آ رہی ہیں کہ معاہدات کی خلاف ورزی کس طرح سے ہوتی رہی ، لہٰذا ان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا گیا اور ان کے متعلق حکم ہوا کہ ان کو کہ دو (آیت) ” فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر “ پس چل پھر لو زمین میں چار ماہ تک چونکہ کفار ومشرکین معاہدات کی باربار خلاف ورزی کرتے تھے اور ایسے معاہدات عملی طور پر بےمعنی ہو کر رہ گئے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو سوچ بچار کرنے کے لیے چار ماہ کی مہلت دے دو ۔ اس دوران یا تو وہ اسلام قبول کرکے قرآن کے پروگرام کو تسلیم کرلیں یا پھر اپے دین پر قائم رہتے ہوئے اسلام کی سیاسی برتری کو تسلیم کرلیں اور مسلمانوں کے ملک میں ذمی کے طور پر گزر اوقات کریں۔ اگر چار ماہ کے اندر اندر دونوں میں سے کوئی بات تسلیم نہیں کرتے تو پھر ان کے خلاف جنگ کی حالت قائم ہوجائے گی۔ اور مزید مہلت نہیں دی جائیگی۔ قرآن پاک میں چار ماہ کی مدت کا تذکرہ بعض دوسرے معاملات میں بھی ملتا ہے مثلا ایلاء کے مسئلہ میں فرمایا (آیت) ” للذین یولون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر “ ( البقرہ) جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھاتے ہیں۔ وہ چار ماہ تک انتظار کریں پھر اس لت میں تا تو کفارہ ادا کرکے رجوع ہو سکتا ہے یا پھر اس مدت کے بعد طلاق واقع ہوجائے گی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار ماہ کا عرصہ اس لیے مقرر کیا ہے تا کہ کوئی شخص اس دوران میں مناسب غور وفکر کے بعد کسی فیصلہ پر پہنچ سکے۔ یہاں بھی کفار ومشرکین اور منافقین کے لیے چار ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے آگے معاہدات کی بعض دوسری صورتیں بھی بیان ہور ہی ہیں۔ مثلا یہ کہ جن لوگوں کے ساتھ لمبی مدت کے معاہدات ہیں وہ اگر معاہدات کی پابندی کرتے ہیں خلاف ورزی نہیں کرتے تو ایسے معاہدات کو پورا کیا جائے گا۔ مگر جن لوگوں نے معاہدے کی پابندی نہ کی ، وہ شکست کھا گئے جس کی بہترین مثال فتح مکہ ہے یہودی قبائل بنی قینقاع ، بنی نضیر اور بنی قریظہ نے معاہدات کی خلاف ورزی کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ جلا وطن ہوئے ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا گیا اور جو زیادہ شر پسند تھے ان کے بالغ مردوں کو قتل کردیا گیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا۔ فرمایا چار ماہ تک چلوپھرو ، یہ تمہاے لیے سوچ وبچار کرنے کی مہلت ہے (آیت) ” واعلموا انکم غیر معجزی اللہ “ اور خوب اچھی طرح جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے ، وہ قادر مطلق ہے اس کے سامنے تمہارا کوئی دائو پیچ نہیں چل سکتا بلکہ (آیت) ” وان اللہ مخز ی الکفرین “ اللہ تعالیٰ یقینا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے جو لوگ معاند ہیں کفر پر اصرار کرتے ہیں ، زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ کفر وشرک کے پروگرام کو غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔ یہ مشرکین سے بیزاری کا اظہار ہوگیا۔ آگے آیت نمبر 15 تک مشرکین اور کفار کے خلاف واضح طور پر اعلانِ جنگ اور اس کی تشریح آ رہی ہے ،
Top