Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ
: نہیں ہے
لِلنَّبِيِّ
: نبی کے لیے
وَ
: اور
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
اَنْ
: کہ
يَّسْتَغْفِرُوْا
: وہ بخشش چاہیں
لِلْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکوں کے لیے
وَلَوْ
: خواہ
كَانُوْٓا
: وہ ہوں
اُولِيْ قُرْبٰى
: قرابت دار
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
مَا تَبَيَّنَ
: جب ظاہر ہوگیا
لَھُمْ
: ان پر
اَنَّھُمْ
: کہ وہ
اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ
: دوزخ والے
نہیں لائق نبی کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں کہ وہ بخشش طلب کریں شرک کرنے والوں کے لیے اگرچہ وہ ان کے قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں ، بعد اس کے کہ واضح ہوچکا ہے ان کے لی کہ بیشک وہ دوزخ والے ہیں
ربط آیات : گذشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ نے مجاہدین کا ذکر فرمایا تھا کہ وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں پھر یا تو دشمن کو قتل کرتے ہیں یا خود شہید ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں کے ساتھ وعدہ ہے کہ انہیں بہشت میں مراتب عالیہ نصیب ہوں گے۔ پھر اللہ نے اہل ایمان مجاہدین کے اوصاف بھی بیان فرمائے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی عبادت میں منہمک رہتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں اور علم و عبادت کے لیے سیاحت کرتے ہیں ، بےتعلق رہتے ہیں یا روزہ رکھتے ہیں۔ فرمایا وہ رکوع اور سجود کرتے رہتے ہیں یعنی انہیں نماز سے خاص شخف ہے وہ اہل ایمان نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی حفاظت کرتے ہیں ایسے مومنوں کے لیے یقینا بشارت ہے۔ مشرکین کے لیے استغفار کا مسئلہ : اب آج کی آیات میں حدود اللہ ہی سے متعلق ایک یہ مسئلہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ (آیت) ” ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی “ اللہ کے نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ لائق نہیں ہے کہ وہ شرک کرنے والوں کے لیے بخشش کی دعا مانگیں اگرچہ وہ ان کے قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں۔ گویا یہ چیز بھی اللہ کی مقر ر کردہ حدود میں شامل ہے کہ کسی مشرک کے لیے استغفار کرنا جائز نہیں۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے چچا عبدمناف جن کنیت ابو طالب تھی اور وہ حضرت علی کے والد تھے۔ جب ان کا آخری وقت آیا تو حضور ﷺ اپنے چچا کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں دعوت دی کہ تم اپنی زبان سے ” لا الہ الا اللہ “ کہ دو تا کہ قیامت کے دن میں تمہارے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس وقت ابو طالب کے پاس ابوجہل اور عبداللہ ابن امیہ جیسے اکابر مشرکین بھی موجود تھے۔ ابو جہل نے ابو طالب سے مخاطب ہو کر کہا ، کیا تو آخری وقت میں اپنے آبائو و اجداد کا دین چھوڑدے گا ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اس پر ابو طالب نے کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں تو اپنے باپ عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔ اگرچہ کسی ایک حدیث میں اس بات کی تصریح نہیں ہے ، تا ہم مختلف احادیث کو جمع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابو طالب کا انکار سن کر حضور ﷺ وہاں سے تشریف لے گئے۔ پھر تھوڑی دیر بعد حضرت علی ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ” ان عمک شیخ الضال قدمات “ یعنی آپ کے چچا بوڑھے گمراہ فوت ہوگئے ہیں۔ جب آپ (علیہ السلام) کو ابو طالب کی فوتگی کی خبر ملی تو حضرت علی ؓ سے فرمایا ، جائو جا کر اسے زمین میں داب دو ۔ کسی سے گفتگونہ کرنا اور دفن کرنے کے بعد میرے پاس آجانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضور ﷺ ابو طالب کے کفن دفن میں شریک نہیں ہوئے۔ پھر جب باپ کو دفن کرنے کے بعد حضرت علی ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاجر ہوئے تو آپ نے حضرت علی ؓ کے حق میں دعا فرمائی۔ ابو طالب چونکہ حضور نبی کریم کا پرورش کنندہ تھا ، اس نے آپ پر احسانات کیے تھے ، اس لیے آپ کو اس کے ایمان نہ لانے کا بڑا صدمہ ہوا ، تا ہم فرمایا کہ میں تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ جب تک کہ مجھے روک نہ دیا جائے مگر اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی (آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء “ (القصص) بیشک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہیں بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اس طرح گویا آپ (علیہ السلام) کو ابو طالب کے حق میں دعا کرنے سے روک دیا گیا ، لہٰذا آپ نے اس کے لیے دعائے مغفرت نہ فرمائی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھا دی ہے کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا مانگنا حرام ہے ، چاہیے باپ ہو یا بیٹا ، بھائی ہو یا کوئی دوسرا عزیز ہو۔ کافر اور مشرک جب تک دنیا میں موجود رہے اس کے لیے ہدایت کی دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایمان کی توفیق بخش کر اسے مغفرت کا اہل بنا دے مگر مرنے کے بعد ان کے لیے بخشش کی دعا مانگنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا ہے اور مشرکوں کے متعلق قطعی فیصلہ کردیا (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء “ (النسائ) اللہ تعالیٰ مشرک کو ہرگز نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس کو چاہیے معاف کر دے ۔ مغفرت کی دعا صرف ایمان والوں کے لیے روا ہے ، چناچہ ملت ابراہیمی کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ” الدعاء لاموات المومنین “ بخشش کی دعا مرنے والے مومنوں کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں کو معاف فرمائے اور ان کو جنت الفردوس اور اعلیٰ مرتبہ عطا فرمائے۔ اور دوسری مسلمہ بات یہ ہے کہ صدقہ خیرات کر کے مومن کو ایصالِ ثواب کرنے سے مرنے والے کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے تا ہم مشرک کے لیے دعائے مغفرت ہرگز جائز نہیں۔ مشرک کا معلوم ہونا یا تو وحی الٰہی سے ہوگا یا پھر مشرک وہ ہوگا۔ جوا علانیہ طور پر کفر وشرک کے کام کرتا ہو اور اسی پر اسے موت آئی ہو ، مرنے سے پہلے اس نے معافی بھی نہیں مانگی تو ظاہری قرینہ یہی ہے کہ ایسا شخص مشرت ہے ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی اور مومنوں کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی مشرک کے حق میں بخشش کی دعا کریں ، خواہ وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں (آیت) ” من بعد ما تبین لھم انھم اصحب الجحیم “ بعد اس کے کہ ان پر واضح ہوچکا ہو کہ یہ لوگ جہنم والے ہیں۔ مطلب یہ کہ جب قرائن سے واضح ہوجائے کہ فلاں شخص شرک کا ارتکاب کر رہا ہے اور وہ بغیر معافی مانگے مر جائے تو اس کے لیے بخشش کی دعا کرنا حرام ہوگا۔ با پ کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا : اس فیصلہ کہ کسی مشرک کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت نہیں ذہن فورا حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی طرف جاتا ہے کہ انہوں نے بھی تو اپنے مشرک باپ کے لیے بخشش کی دعا کی تھی بلکہ بعض روایا ت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس عمل کی بنا پر بعض مسلمان بھی اپنے مشرک قرابتداروں کے لیے دعائے مغفرت کرتے تھے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کو بتوں کی پرستش سے روکنے کی ہر چند کوشش کی ، اسے سمجھایا کہ تم ان بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو جو نہ سنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اس کے جواب میں باپ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دھکے دیکر گھر سے نکال دیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ، اچھا تم تو میری بات نہیں مانتے مگر (آیت) ” ساستغفر لک ربی انہ کان بی حفیا (مریم) میں تمہارے لیے اپنے پروردگار سے بخشش کی دعا کروں گا کیونکہ میرا پروردگار میرے ساتھ بڑا ہی مہربان ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے باپ کے حق میں دعا اسی وعدے کے مطابق تھی جس کو اللہ نے بیان فرمایا ہے (آیت) ” وما کان استغفار ابرھیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ “ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے باپ کے لیے دعا مغفرت ایک وعدے کی بناء پر تھی۔ (آیت) ” فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرا منہ “ مگر جب انہیں واضح ہوگیا کہ ان کا باپ دشمن خدا ہے تو آپ اس سے بیزار ہوگئے یا استغفار کرنے سے بری ہوئگے۔ پھر اس کے بعد باپ کے لیے دعا نہیں کی۔ بہر حال اگر منہ کا مرجع ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کی طرف ہو تو معنی ہوگا کہ آپ اپنے باپ سے بیزار ہوگئے ، اور اگر منہ کا مرجع استغفار کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ کے حق میں دعا کرنے سے رک گئے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کی تعریف بیان کی ہے کہ انہوں نے باپ کے حق میں دعا کرنے کا عہد اپنی نرم دلی اور رقیق القلبی کی بناء پر کیا تھا (آیت) ” ان ابراہیم لاواہ حلیم “ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل اوعر تحمل والے تھے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھا دی ہے کہ یہ بات حدود اللہ میں سے ہے کہ کسی مشرک کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں ہو خواہ وہ کسی کا باپ ہو ، بیٹا ، بھائی ہو یا کوئی دوسرا عزیز ہو۔ حضور کے والدین : حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کا حال تو معلوم ہے مگر آپ کے والدین کے متعلق روایات مختلف ہیں۔ امام سیوطی (رح) نے ایک مستقل رسالہ اس موضوع پر لکھا ہے اور بعض دوسرے اصحاب نے بھی کتابیں لکھی ہیں جن میں ثابت کیا گیا کہ آپ (علیہ السلام) کے والدین ایمان والے اور ناجی تھے۔ لیکن بعض دوسرے مفسرین اور محدثین نے بعض روایات سے ثابت کیا ہے کہ وہ شرک میں ملوث تھے جیسا کہ اس زمانے کے عام لوگ تھے۔ یہ دونوں کی متضاد باتیں پائی جاتی ہیں۔ تاہم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) کا فتوی یہ ہے ” السکوت اولیٰ “ یعنی اس معاملہ میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ شیخ الاسلام بھی اس مقام پر حاشیے میں لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے والدین کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے انہیں مومن اور ناجی ثابت کرنے کے لیے رسائل لکھے ہیں اور بعض شراح حدیث نے محدثانہ اور متکلمانہ مباحث کیے ہیں مگر احتیاط اور سلامت روی کا طریقہ یہی ہے کہ اس مسئلہ میں زبان بند رکھی جائے اور ایسے نازک مسئلہ میں غور کرنے سے اجتناب کیا جائے ، کیونکہ حقیقتِ حال تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی تمام مسائل کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے جب بھی کوئی حضور ﷺ کے والدین کے بارے میں کوئی سوال کرے تو خاموش رہنا بہتر ہے۔ کیونکہ ان کے متعلق کوئی بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہے۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضور کے والد نے چوبیس سال کی عمر میں وفات پائی اور آپ کی والدہ نے بھی کوئی زیادہ عمر نہیں پائی۔ یہ فترت کا زمانہ تھا ، لہذا ان کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ بہرحال علمائے دیوبند کا مسلک میں نے عرض کردیا بلکہ اس مسئلہ کا ذکر کرنا بھی تجاوز میں داخل ہے۔ اتمام حجت : آگے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بیان فرمائی ہے (آیت) ” وما کان اللہ لیضل قوما بعد اذ ھدٰھم “ اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا۔ (آیت) ” حتی یبین لھم ما یتقون “ جب تک کہ ان کو ان چیزوں سے آگاہ نہ کردے جن سے انہیں بچنا چاہیے۔ پھر جب وہ لوگ غلطی پر اصرار کرتے ہیں تو قوم گمراہ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کو گمراہ قرار دے دیتا ہے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ انا نبی اور شریعت بھیجے بغیر اور تمام باتوں کی وضاحت کیے بغیر ان پر گمراہی کی مہر لگا دے۔ فرمایا (آیت) ” ان اللہ بکل شیء علیم “ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور اس کا احسان ہے کہ وہ کفر ، شرک ، بدعت اور معاصی وغیرہ سب کو بیان کردیتا ہے تا کہ لوگ ان قبیح چیزوں سے بچ جائیں۔ پھر جب وہ جاننے کے باوجود ان سے باز نہیں آتے تو گمراہی میں جا پڑتے ہیں اور اللہ بھی ان کی گمراہی کی تصدیق کردیتا ہے۔ غرضیکہ اتمام حجت کیے بغیر اللہ تعالیٰ کسی قوم پر گمراہی کی چھاپ نہیں لگاتا۔ ہر ملک ملک خدا است : فرمایا یہ بھی سن لو ، (آیت) ” ان اللہ لو ملک السموٰت والارض “ بیشک آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے (آیت) ” یحییٰ ویمیت “ موت وحیات کا مالک بھی وہی ہے۔ اہل ایمان کا خدا کے منکرین سے جہاد کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں ہوتا ، نہ وہ اپنی ملوکیت قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ مسلمان تو اللہ کے دین کی سربلندی ، اس کے کلمہ کی سربلندی اور دنیا میں اس کے منشاء کو جاری کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی پیش کردیتا ہے۔ جب لوگ خالص اللہ کی رضا سے دست کش ہوجائیں گے تو پھر دنیا میں ملوکیت اور امپریلزم کا دور دورہ ہوگا ، شہنشاہیت قائم ہوگی ڈکٹیڑ شپ آئیگی ، دنیا عدل و انصاف سے محروم ہو جائیگی اور بالآخر اس کا نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ مسلمان ہمیشہ اللہ کے دین اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے یلے تگ ودو کرتا ہے۔ یاد رکھو ! آسمان و زمین کی بادشاہی صرف اللہ کی ہے۔ وہی ہر چیز کا حقیقی مالک ہے حتی کی موت وحیات بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے لہٰذا ہمیشہ اسی کی بات کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حمایت ونصرت خداوندی : فرمایا ، یادرکھو ! اگر خدا تعالیٰ کی نافرمانی کروگے ، اکڑ دکھائو گے ، کفر اور شرک کا راستہ پکڑو گے ، بدعات اور معاصی کو اپنائو گے ، خدا تعالٰٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرو گے ( آیت) ” وما لکم من دون اللہ من ولی ولا نصیر “ تو اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمائتی ہے اور نہ مددگار۔ جب اس حامی وناصر خدا تعالیٰ ہی کی نافرمانی کرنے لگو گے تو پھر تمہیں اس کے غضب سے کون بچا سکے گا۔ ہر مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی ، شفقت اور ملوفیت ہی تمہارے کام آسکتی ہے۔ اور وہ جبھی حاصل ہوگی جب تم صحیح راستے پر گامزن ہو جائو گے۔ اگر ادھر ادھر غلط راستے اختیار کرو گے ، قرآن پاک کے پروگرام کی بجائے باطل نظام کو اختیار کروگے ، کفر ، شرک ، بدعات اور معاصی کا ارتکاب کرو گے۔ قرآنی تعلیم کے خلاف عمل کرو گے تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی حمایت اور نصرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ خدا کی حمایت تو اس وقت حاسل ہوگی جب قرآن کے نظام کو رائج کرنے کی کوشش کرو گے ، یاد رکھو ! اللہ کے دین کی مخالفت کرو گے تو خدا کے ہاں سے تمہیں بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ تمہارا کوئی ولی ، سرپرست ، حمائتی یا دوست نہیں ہوگا۔
Top