Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر توڑ دیں یہ لوگ اپنی قسموں کو اپنے عہد کرنے کے بعد اور طعن کریں تمہارے دین میں ، بس لرو تم کفر کے سرداروں کے ساتھ ، بیشک نہیں ان کی قسمیں ، تا کہ یہ باز آجائیں
ربطِ آیات : اس سورة کی ابتداء میں کفر اور شرک کرنے والوں سے بیزاری کا اعلان کیا گیا پھر اعلان جنگ کے لیے چار ماہ کی مہلت کا ذکر ہوا ، البتہ عہدوپیمان کی وفا اور اہل ایمان کے خلاف کسی کی مدد نہ کرنے والوں کے ساتھ معاہد کے کی مدت کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا۔ پھر فرمایا کہ جب مقررہ مدت گزر جائے ، تو کفار ومشرکین جہاں بھی ملیں ان کو گھیرو قتل کرو اور کی گھات میں بیٹھو یہاں تک کہ ہو تائب ہو کر نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں فرمایا اگر وہ ایسا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور کوئی تعرض نہ کرو پھر فرمایا کہ یہ لوگ عہد و پیمان کے برے کچے ہیں ، اس لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ان کے معاہدات کا کچھ اعتبار نہیں۔ البتہ جو لوگ ان میں سے تمہارے ساتھ مستقیم رہیں ، تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو۔ مگر مشرکین کا عام طور پر حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر قابو پالیں تو نہ قرابتداری کا لحاظ کریں اور نہ عہد و پیمان کا ان کی بات محض زبانی کلامی ہوگی ، ان کے دل اللہ کی وحدانیت کا انکار ہی کریں گے انہوں نے مادی مفاد کی خاطر آیات الہٰی کو پس پشت ڈال دیا ہے یہ تعدی کرنے والے لوگ ہیں اور اگر یہ تائب ہو کر نما ز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تمہارے دین بھائی بن جائیں گے اب ان کے ساتھ مخالفت کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ آئمۃ الکفر سے جنگ : فرمایا (آیت) ” وان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم “ اور اگر انہوں نے اپنے عہدوپیمان کو توڑا عہد کرنے کے بعد ، مشرکین مکہ نے بھی حدیبیہ کے مقام پر ایک پختہ عہد کیا تھا مگر اس کو توڑ دیا جس کی وجہ سے انہیں ذلت اٹھانی پڑی اور وہ مغلوب ہوگئے۔ مدینے کے قبائل بنو قینقاع ، بنو قریظہ اور بنو نظیر نے بھی اہل ایمان کے ساتھ معاہدات کیے تھے مگر انہیں توڑ کر سخت سزا کے مستحق ٹھہرے۔ تو اللہ نے فرمایا اگر پختہ عہد کرنے کے بعد اسے توڑ دیں (آیت) ” وطعنوا فی دینکم “ اور تمہارے دین میں طعن کریں یعنی اسلام پر نکتہ چینی کریں۔ ا س پر اعتراض کریں جیسا کہ اکثر مشرکین اور اہل کتاب کرتے تھے۔ فرمایا ، ایسی صورت میں (آیت) ” فقاتلوا ائمۃ الکفر “ کفار کے لیڈروں ، پیشوائوں اور ان کے سرداروں کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ (آیت) ” انھم لا ایمان لھم “ بیشک ان کی قسموں اور عہدوپیمان کا کچھ اعتبار نہیں۔ یہ بڑے غلط قسم کے لوگ ہیںٰ ان کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ ورنہ یہ اپنی قبیح حرکات سے باز نہیں آئیں گے ۔ تو فرمایا ان ناقضین عہد اور دین میں طعنہ ساز لوگوں کے بڑے بڑے چودھریوں کے ساتھ جنگ کرو (آیت) ” لعلھم ینتھون “ تا کہ یہ باز آجائیں ان کے خلاف کاروائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ مکمل طور پر ختم کیا جاسکے۔ اسلام کے خلاف محاذ آرائی : مشرکین مکہ کی اسلام کے خلاف فتنہ پردازی شروع سے لے کر آج تک جاری ہے عیسائی ، یہودی اور ہندو دین اسلام پر نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خاص طور پر یہودوں کی سازشوں کے متعلق تو تاریخ بھری پڑی ہے۔ عیسائیوں نے اسلام ، پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کے خلاف بیشمار لڑیچر شائع کیا ہے ۔ دین پر طعن کرنے کے لیے ہزاروں اور لاکھوں کتابیں اور رسالے طبع کیے ہیں۔ ہنود کا حال بھی یہی ہے پشاور کے لیکھ رام نے پیغمبر اور قرآن پر اعتراضات میں کئی کتابیں لکھیں۔ دیانند سرسوتی نہایت متعصب ہندو تھا ، اس نے اپنی کتاب کے چودھویں باب میں قرآن پاک پر اعتراضات کیے تھے۔ مختلف سورتوں کی مختلف آیات پر ایسے بیہودہ اعتراجات کیے تھے جن سے معترض کی خباثت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے بھی دین اسلام کے خلاف کافی زہر افشانی کی ہے جن کی حیثیت محض اعتراض برائے اعتراض سے زیادہ کچھ نہیں۔ مدینہ پہنچ کر مسلمانوں نے یہود ونصاریٰ کو بہت سی رعایات دی تھیں مگر ان لوگوں نے ان احسانات کی کوئی قدر نہ کی بلکہ ہمیشہ تعصب کا ثبوت دیا۔ جب بھی موقع ملا انہوں نے اسلام کے خلاف زہر ہی اگلا۔ کبھی وحی الہٰی پر اعتراض کرتے ، کبھی جہاد کو اپنی طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے اور کبھی پیغمبر اسلام کی تعدد ازواج کو تختہ مشق بناتے حالانکہ دین میں طعن کرنا بہت بری بات ہے۔ اگر کسی بات کی سمجھ نہیں آئی تو اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ اسلام کے تمام اصول فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہیں۔ اگر ضرورت ہو تو اہل ایمان سے وضاحت طلب کرو ، ان کی عقلوں میں خرابی تو ہو سکتی ہے مگر اللہ کے نازل کردہ احکام غلط نہیں ہوسکتے۔ فرمایا یہ لوگ جان بوجھ کر دین کو مطعون کرتے ہیں لہٰذا جب تک ان کے بڑے بڑے پیشوائوں کے خلاف جہاد نہیں ہوگا۔ یہ لوگ بری حرکات سے باز نہیں آئیں گے۔ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب تک اسلام دشمن طاقتوں کی کمان کے ساتھ کمان ، رائفل کے ساتھ رائفل اور بم کے ساتھ بم نہیں ٹکرائے گا ، یہ لوگ باز نہیں آئیں گے۔ اقتنع کل بدیارہ وامتنع جار عن ھضم جارہ اگر ان لوگوں کے خلاف مناسب کاروائی ہوگئی تو یہ اپنی سرحد پر ہی رک جائیں گے پھر کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ سورة آل عمران میں بھی گزر چکا ہے (آیت) ” ولتسمعن من الذین اوتوالکتب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذی کثیرا “ اے ایمان والو ! تمہیں اہل کتاب اور مشرکوں کی طرف سے بڑی تکلیف وہ باتیں سننا پڑیں گی۔ اس کا علاج یہ ہے کہ صبر اور تقوی سے کام لینا اور ان جیسے باتیں زبان سے نہ نکلنا۔ البتہ ایسے ظالموں کے خلاف جہاد کرنا لازمی ہے ، اس کے بغیر یہ اپنی غلط حرکات سے باز نہیں آئیں گے۔ جہاد کی وجوہات : اگلی آیت میں اللہ نے جہاد کی وجوہات بیان فرمائی ہیں کہ جہاد کیوں نہ کیا جائے۔ چناچہ اہل ایمان کو خطاب ہے (آیت) ” الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانھم “ تم ان لوگوں کے خلاف کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنی قسموں یعنی عہدوپیمان کو توڑا ہے معاہدہ کی خلاف ورزی کرنا لڑائی کا مستقل سبب ہے تو مشرکین کے ساتھ جہاد کی پہلی وجہ بدعہدی بیان فرمائی ۔ اور دوسری وجہ یہ بیان کی (آیت) ” وھموا باخراج الرسول “ انہوں نے نبی کو اس کے وطن سے نکالنے کا قصد کیا۔ اور یہی چیز حضور ﷺ کے ہجرت مدینہ کا سبب بنی کفار نے منصوبہ بنایا کہ حضور ﷺ کو قید کردیا جائے یا ملک بدر کردیا جائے یا پھر قتل کردیا جائے۔ اور بالآخر ارادہ قتل پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اس کے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے بنی کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑی۔ اسی چیز کے متعلق فرمایا کہ ان لوگوں نے حضور ﷺ کو مکہ سے نکالنے کا ارادہ کیا ، حالانکہ آپ مکہ چھوڑنے پر از کود راضی نہیں تھے بلکہ آپ کو بادل نخواسہ بیت اللہ شریف اور ۔۔ وحی الہٰی شہر کو چھوڑنا پڑا۔ یہ وہی مرکز ہدایت ہے جس کے متعلق سورة ال عمران میں موجود ہے (آیت) ” مبرکا وھدی للعلمین “ یہ بابرکت شہر بھی ہے اور دنیا بھی کے لیے مبنع رشد وہدایت بھی۔ بہرحال فرمایا کہ انہوں نے نبی کی خواہش کے خلاف اسے مکہ مکرمہ سے نکالا۔ اور تیسری وجہ یہ تھی (آیت) ” وھم بدء وکم اول مرۃ “ اور جنگ کی ابتداء بھی انہوں نے کی ہے مسلمان تو لڑائی کے ارادے سے نہیں نکلے تھے بلکہ خود کفار اسلحہ سے لیس لشکر لے کر میدان بدر میں پہنچے اور پھر مسلمانوں کو بھی چار وناچار ان کا مقابلہ کرنا پڑا ، وگرنہ مسلمانوں کے پاس نہ سامان جنگ تھا اور نہ ہی وافر افرادی قوت تو گویا جنگ میں پہل کفار کی طرف سے ہوئی۔ یہاں پر جنگ کی تین وجوہات عہد شکنی ، اخراج رسول اور جنگ میں پہل بیان کی گئی ہیں اور لڑائی لڑنے کے لیے تو ان میں سے کوئی ایک وجہ بھی کافی تھی ، یہاں تین جمع ہوگئیں ، تو فرمایا ان کے خلاف کیوں نہ فیصلہ کن جنگ کی جائے۔ اے اہل ایمان ! تم ان کی سرکوبی کے لیے کیوں آگے نہیں بڑھتے ؟ فرمایا (آیت) ” اتخشونھم “ کیا تم ان کافروں سے خوف کھاتے ہو ؟ فا اللہ احق ان تخشوہ “ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا زیادہ حق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ (آیت) ” ان کنتم مومنین “ اگر تم ایمان والے ہو تمام اختیارات اللہ کے پاس ہیں وہی قادرمطلق ہے ، لہٰذا خوف بھی اسی کا ہونا چاہیے۔ کفار ومشرکین سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ مشرکین کی سزا یابی : فرمایا (آیت) ” قاتلوھم “ لڑو ان سے (آیت) ” یعذبھم اللہ بایدیکم “ انہیں اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے سزا دے گا۔ بدر کے میدان میں کافروں نے ابتداء کی تو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ہاتھوں ان کو شکست فاش دی۔ ان کے ستر سرکردہ کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنے۔ سابقہ امتوں میں سزا کے بعض دوسرے طریقے بھی تھے مثلا طوفان ، زلزہ ، تیز آندھی ، چیخ وغیرہ مگر اس آخری امت میں اللہ نے ایمان والوں کے ہاتھوں مکذبین کو سزا دی۔ فرمایا ایک تو انہیں تمہارے ہاتھوں سے سزا ملے گی اور دوسرا یہ کہ (آیت) ” ویخزھم “ اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل ورسوا کرئے گا۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ (آیت) ” وینصرکم علیھم “ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا۔ چناچہ میدان بدر میں اللہ نے واضح طور پر مسلمانوں کی مدد فرمائی ہے۔ دوسرے مقام پر آتا ہے (آیت) ” وانتم الاعلون ان کنتم مومنین “ اگر تم پکے سچے مومن ہو تو کفار پر تم ہی غالب آئو گے۔ اللہ کی مدد تمہارے شامل حال ہوگی۔ قادسیہ کی جنگ کے دوران ایک موقع ایسا آیا جب مسلمانوں میں کمزوری کے آثار پیدا ہوگئے اور لشکر اسلامی کو شکست کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ سپہ سالار حضرت سعد ؓ نے مجاہدین کو جمع کر کے تاریخی خطاب کیا جو تاریخ کے اوراق میں آج بھی محفوط ہے۔ آپ نے فرمایا ، اے اہل ایمان ! ہمیں فلاں مورچے پر شکست کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یقینا تم میں کوئی کامی پیدا ہوگئی ہے تمہاری نیت میں فرق آگیا ہے یا کہیں بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے ، ہو سکتا ہے کہ تم میں کہیں خود غرضی آگئی ہو ، میں ت میں نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی تمام خامیوں کو دور کر کے جذبہ جہاد کے ساتھ دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ مجاہدین سنبھل گئے۔ ان میں نیا جوش و خروش پیدا ہوگیا۔ مسلسل تین دن رات جنگ جاری رہی اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فتح عطا کی۔ کفار ومشرکین کو مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دینے کے کتنے ہی واقعات تاریخ میں بکھرے پڑے ہیں۔ دلوں کی شفا : فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے دشمن کو سز دیگا۔ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور انہیں رسوا کرے گا۔ فرمایا اللہ کا چوتھا انعام یہ ہوگا (آیت) ” ویشف صدور قوم مومنین “ اہل ایمان کے دلوں کو شفا بخشے گا۔ جن مسلمانوں نے مشرکین کے ہاتھوں زبردست تکالیف برداشت کی ہیں اور ان کے دل دکھے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا۔ انہیں تمام سابقہ تکالیف بھول جائیں گی (آیت) ” ویذھب غیظ قلوبھم “ اور ان کے دلوں کے غصے کی جلن کو دور فرما دیگا۔ مسلمان مطمئن ہوجائیں گے اور ادھر مشرکین اور کفار کے متعلق یہ ہے (آیت) ” ویتوب اللہ علی من یشائ “ کہ ان میں سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا توبہ قبول کرلے گا۔ جس میں صلاحیت اور استعداد ہوگی اسے اسلام کی آغوش میں دے دیگا۔ چناچہ بالآخر ابو سفیان ؓ اور عکرمہ ؓ جیسے مخالفین کی توبہ قبول ہوئی۔ عمر و ابن العاص ؓ جیسے آدمی جو حضور ﷺ کو ختم کرنے کے منصوبے بنایا کرتے تھے ، خود رحمت کے سایہ میں پہنچ گئے۔ تو فرمایا کہ جس کی چاہا اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرما لی (آیت) ” واللہ علیم حکیم “ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔ وہ ہر ایک کی نیت ، ارادے ، عزم ، محنت ، اور کاوش کو جانتا ہے ، وہ علیم کل ہے اور حکمت والا بھی ہے اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس میں ضرور کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ ہماری ناقص عقلیں اس حکمت تک رسائی حاصل نہ کرسکیں مگر اللہ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
Top