Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم بوجھل ہوئے جاتے ہو زمین کی طرف۔ کیا تم راضی ہوچکے ہو دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر ۔ پس نہیں ہے نفع دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلے میں مگر بہت تھوڑا
سابقہ مضامین کا خلاصہ : سورۃ ہذا کی ابتدا مشرکین سے برات اور ان کے خلاف اعلان جنگ سے ہوئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مانعات جہاد کا ذکر کیا۔ کفر اور شرک کرنے والوں کی خرابیاں بیان فرمائیں جن کی وجہ سے ان کے خلاف جنگ ضروری ہوجاتی ہے۔ پھر ان کے ساتھ دوستانہ کرنے کی ممانعت فرمائی۔ اللہ نے اہل ایمان کو مستعد رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا خود بھی امتحان لے گا اور مجاہدین اور کمزوروں کو ممتاز کریگا۔ پھر اللہ نے ایمان والوں کو مختلف طریقوں سے دی جانے والی امداد کا ذکر کیا۔ مشرکین کو بیت اللہ شریف کے قریب آنے سے منع فرما دیا۔ اور حکم دیا کہ وہ اس سال کے بعد حج کے لیے نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ بھی جہاد کرنے کا حکم دیا اور اس کی دو وجوہات بیان فرمائی کہ وہ اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ، نیز یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ اشیاء کو حرام نہیں سمجھتے اور نہ ہی دین حق کو قبول کرتے ہیں۔ فرمایا ایسے لوگوں کے خلاف جہاد ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کرنے لگیں ، ایسی صورت میں ان ۔۔ حاصل ہو جائیگی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے عقائد باطلہ کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ شرک کی بدترین قسموں میں مبتلا ہیں۔ یہودیوں نے عزیز (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بنا یا اور عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں ابنیت کا عقیدہ اختیار کیا۔ یہ لوگ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرنے تھے ، لہٰذا اللہ نے ان کی طرف سے مسلمانوں کو خبردار کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے عمومی غلبہ کا ذکر فرمایا۔ اس نے اپنے نبی (علیہ السلام) کو اس لیے مبعوث فرمایا تا کہ وہ اسلام کے سچے دین کو دیگر تمام ادیان پر غالب کر دے۔ پھر اہل کتاب کے خاص گروہ یعنی ان کے علماء اور درویشوں کا ذکر کیا کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں مال کو جمع کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے فرمایا کسی چیز کو حلال یا حرام کرنا اللہ تعالٰٰ کی صفت ہے ، مگر اہل کتاب نے یہ اختیار اپنے علماء اور درویشوں کو سونپ رکھا ہے ، ان کے خلاف جہاد کرنے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ فرمایا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کو اسی طرح تبدیل کردیتے ہیں جس طرح مشرکین ، حرمت والے مہینوں میں تبدیلی کردیتے تھے۔ اللہ نے سال بھر میں چار مہینے رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم کو حرمت والے مہینے قرار دیا ہے جن کے دوران لڑائی بھڑائی کو منع فرمایا ہے ، مگر مشرکوں کا حال یہ ہے جب وہ کسی حرمت والے مہینے میں جنگ کرنا چاہتے تو اس مہینے کو کسی دوسرے مہینے سے تبدیل کردیتے اور اپنی خواہش پوری کرلیتے۔ فرمایا کہ بھی کفر کی بات ہے اور تحلیل وتحریم کا اختیار غیر اللہ کو سونپ دینا بھی کفر ہے۔ بہرحال آج کی آیات سورة کے ابتدائی مضمون کے ساتھ مربوط ہیں آج کی آیات جنگ ہی کے ضمن میں غزوہ تبوک سے متعلق تمہیدی آیات ہیں ، آگے اس واقعہ کی تفصیل بیان ہوگی۔ غزوہ تبوک کا پس منظر : 8 ھ؁ میں فتح مکہ کے بعد شوال میں غزوہ حنین پیش آیا اس کے بعد مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا اور پھر جب حضور ﷺ وہاں سے لوٹے تو 9 ھ؁ میں غزوہ تبوک کے لیے اعلان فرمادیا۔ اس جنگ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ رومیوں کے بادشاہ ہر قل کے خوشامدیوں نے یہ مشہور کردیا کہ عرب کا مدعی نبوت فوت ہوچکا ہے۔ ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے ، ملک میں قحط سالی کا دور دورہ ہے لہٰذا سر زمین عرب پر حملہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے اس زمانے میں مصر ، شام ، فلسطین ، حمص اور ایشائے کو چک کے اطراف میں رومیوں کا تسلط تھا۔ اور وہ سر زمین عرب پر بھی اپنا تسلط جمانا چاہتے تھے۔ یہ وہی ہرقل ہے جس کی طرف حضور ﷺ نے اسلام کا دعوت نامہ بھی بھیجا تھا مگر یہ اس کی بدبختی تھی کہ اپنی بادشاہت کے تحفظ کی خاطر اس نے ایمان قبول نہ کیا۔ طائف سے واپسی کے وقت مدینہ شریف کے جو حالات تھے ان کا پتہ مسلم شریف کی روایت سے چلتا ہے حضرت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ہم پر کچھ دہشت طاری تھی کیونکہ رومیوں کی طرف سے جنگی تیاریوں کی مسلسل خبریں آ رہی تھیں۔ چناچہ ہر قل نے کباد نامی ایک شخص کی کمان میں چالیس ہزار کا ایک لشکر عرب پر حملہ کرنے کے لیے دے دیا۔ شام کے علاقے میں عربوں کے بعض قبائل مثلا لحم ، عاملہ ، عنان ، اور جذام وغیرہ آباد تھے جنہوں نے عیسائیت قبول کر رکھی تھی اور وہ رومیوں کے ماتحت تھے۔ ان میں غسان کے بادشاہ بڑے مشہور تھے شاہ ہرقل نے ان قبائل سے بھی امداد حاصل کی اور جنگی تیاریاں پورے زور شور سے کرنے لگا۔ چناچہ پیشتر اس کے کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرتا ، حضور ﷺ نے طائف سے واپسی پر فورا اعلان کردیا کہ دشمن کے ساتھ اس کی سرحد پر جاکر جنگ لڑی جائے گی۔ جنگ کے لیے تیاری : غزوہ تبوک سے پہلے جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ، حضور ﷺ کسی خاص مقام کی طرف کوچ کرنے کا صراحت کے ساتھ اعلان نہیں فرماتے تھے بلکہ صرف اس قدر بتاتے تھے کہ جہاد کے لیے جانا ہے ، تبوک کا معرکہ پہلا واقعہ ہے جب آپ (علیہ السلام) نے روانگی سے کئی ماہ پیشتر ہی تیاری کا حکم دے کر منزل مقصود کی وضاحت بھی فرما دی۔ آپ نے اطراف کے قبائل کی طرف بھی آدمی بھیج کر جنگ کی تیاری کا پیغام بھیجا جس کے جواب میں جنگ کی تیاری زور شور سے شروع ہوگئی۔ چونکہ قحط سالی کا زمانہ تھا ، لوگوں کی مالی حالت کمزور تھی اس لیے مجاہدین کے لیے مطلوبہ سواریاں بھی میسر نہیں آ رہی تھیں۔ روایت میں آتا ہے کہ چھ چھ یا دس دس آدمیوں کی حصے میں ایک ایک سواری آئی تھی۔ سامان جنگ اور خوردونوش کی بھی قلت تھی ، تا ہم نبی (علیہ السلام) نے اس جہاد کے لیے پختہ ارادہ فرما لیا۔ چونکہ اس جہاد پر روانگی کے ایام مسلمانوں پر تنگی کے دن تھے ، اس لیے اس غزوہ کو جیس ذات العسرۃ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے یعنی تنگی والا جہاد۔ اس جہاد کے لیے حضور ﷺ نے تیس ہزار مجاہدین کا لشکر تیار کیا۔ بعض مورخین نے چالیس ہزار اور اکسٹھ ہزار کا ذکر بھی کیا ہے تا ہم اس لشکر کی تعداد تیس ہزار سے کم نہ تھی۔ منافقین کا کردار : اس واقعہ میں منافقین کی کمزوری اور ان کی رسوائی کا بیان بھی آیا ہے اس لیے اس غزورہ کا ایک نام غزوہ فاضحہ بھی ہے۔ چناچہ یہاں سے لے کر واقعہ کے آخر تک منافقین کا حال بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔ یہ لوگ حیلے بہانے سے جنگ سے گریز کرنے کے کوشش کرتے رہے آپ (علیہ السلام) نے ان سے تعرض نہیں کیا مگر تمام مخلص مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جنگ میں ضرور شریک ہوں۔ اس جنگ میں پیچھے رہنے والوں میں صرف معذور آدمی تھے یا وہ تین توانا آدمی بھی تھے جو بلا عذر پیچھے رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان اشخاص پر بڑی سختی آئی جس کا ذکر اسی سورة میں موجود ہے پھر ان لوگوں کی توبہ بری مشکل کے ساتھ قبول ہوئی۔ اس سورة کا نام توبہ اسی مناسبت کے ساتھ ہے۔ بہرحال اس موقع پر جو لوگ کمزوری دکھا رہے تھے یا تنگی کی وجہ سے گھبراتے تھے اللہ نے ان کو تنبیہ فرمائی ہے۔ کہ اگر تم اپنے نبی کے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کا کوئی دوسرا ذریعہ پیدا فرما دیگا۔ اور تمہارا حشر بہت برا ہوگا۔ آگے اللہ نے منافقین کی صریح طور پر ملامت کی ہے اور ان کی فضیحت (ذلت) کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی دل شکستگیـ: الغرض ! غزوہ تبوک کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے تمہید اس طرح اٹھائی ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا ما لکم اذا قعل لکم انفروا فی سبیل اللہ “ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کوچ کرو۔ (آیت) ” اثاقلتم الی الارض “ تو تم زمین کی طرف بوجھل ہوئے جاتے ہو۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا غزوہ تبوک کے اعلان کے وقت حالت یہ تھی کہ مسلمان قحط سالی کا شکا ر تھے ، لمبا سفر درپیش تھا ، وسائل کی کمی تھی ، کھجور کی فصل بھی پک چکی تھی جس کی برداشت مطلوب تھی مگر مسلمانوں کے لیے روانگی کا اعلان ہوچکا تھا۔ دوسری طرف ایک بڑی ، مستقل اور منظم سلطنت کے ساتھ ٹکر تھی جس کی وجہ سے بعض ذہنوں میں شکستگی کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی کہ اے اہل ایمان ! ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے بد دل نہ ہوجائے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کے لیے نکل کھڑے ہو۔ فتح مکہ کے بعد ہجرت تو منسوخ ہوگئی تھی کیونکہ خود مکہ معظمہ دارالاسلام بن چکا تھا۔ البتہ جہاد کے لیے ہمہ وقت مستعد رہنے کی ضرورت تھی۔ اس ضمن میں حضور ﷺ کا عام حکم تھا۔ ” اذا استطلبوا فانفروا “ یعنی جب بھی تم سے جہاد کا مطالبہ کیا جائے فورا چل پڑا اور کوئی پس وپیش نہ کرو۔ یہاں پر فرمایا کہ جہاد کے نام پر تم زمین کی طرف بوجھل ہوئے جاتے ہو جیسے کوئی شخص زیادہ بوجھ پڑجانے کی وجہ سے نیچے جھک رہا ہو۔ اس قسم کی مثال سورة اعراف میں بھی جو جود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو صاحب کرامت بنایا تھا ، مگر وہ مادی مفاد ، شہوانی تصورات اور تعیش کی طرف جھک گیا۔ (آیت) ” ولٰکنہ اخلد الی الارض “ مگر وہ زمین کی طرف جھک گیا۔ گویا اس شخص نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں آنے کے لیے حقیر مفاد کو قبول کرلیا۔ اسی طرح یہاں بھی فرمایا ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم آرام طلبی ، خوشحالی اور تعیش کی خاطر جہاد کی مشقت سے منہ موڑ رہے ہو اور دنیا کا حقیر فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو۔ دنیا طلبی یا آخرت طلبی : فرمایا (آیت) ” ارضیتم بالحیوٰۃ الدنیا من الاخرۃ “ کیا تم راضی ہوچکے ہو دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر ؟ ادھر دنیا کا چند روزہ حقیر سامان ہے اور ادھر آخرت کی دائمی اور پر بہار زندگی ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ ایک مومن اور مسلمان کے نزدیک اولیت آخرت کی زندگی کو حاصل ہے۔ جب کہ اس دنیا کے تمام تر مفادات درجہ دوائم میں آتے ہیں۔ جہاد کے ذریعے دنیاوی مفاد بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن اصل مقصود آخرت کی کامیابی ہوتی ہے۔ مومن دنیا میں جو کام بھی کرتا ہے اس کی اصل غایت یہی ہونی چاہیے کہ کسی طرح دائمی سنور جائے۔ نماز کی مثال بھی ایسی ہی ہے اگرچہ اس کے ذریعے اس دنیا میں بھی پابندی وقت ، تنظیم ، ڈسپلن ، اجتماعیت اور انسانی ہمدردی جیسے مفاد حاصل ہوتے ہیں مگر اصل مطلوب اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی فلاح ہوتی ہے۔ فرمایا اگر تم دنیا کی زندگی پسند کرتے ہو (آیت) ” فما متاع الحیوٰۃ الدنیا فی الاخرۃ الا قلیل “ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں بالکل تھوڑا ہے۔ کوئی شخص سو سال کی عمر بھی پا لے اور دنیا کا کتنا بھی سازوسامان جمع کرے ، اس کی حیثیت بہرحال عارضی ہے۔ زندگی بھی فانی ہے اور مال بھی ختم ہوجانے والا ہے حضور ﷺ کا فرمان (1۔ ترمذی۔ ص 338) (فیاض) ہے ” اعمار امتی مابین سبعین وستین وقل مایجوز ذلٰک “ یعنی میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہیں اور بہت کم لوگ ہیں جو اس سے آگے جاتے ہیں۔ تو فرمایا تم اتنی حقیر زندگی کو آخرت کی دائمی زندگی پر ترجیح دیتے ہو۔ یادرکھو ! اس زندگی کو کوئی حیثیت نہیں۔ ترک جہاد پر غلامی : اللہ نے فرمایا کہ یہ ت میں تنبیہ کی جا رہی ہے (آیت) ” الا تنفروا “ اگر تم اللہ کی راہ میں کوچ نہیں کرو گے ، جہاد کے لیے نکلو گے تو اس کا تنیجہ یہ ہوگا (آیت) ” یعذبکم عذابا الیما “ اللہ تعالٰٰ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کریگا۔ مفسرین کرام کے بیان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو قوم جہاد کو ترک کردیتی ہے ، وہ ذلت ورسوائی کا شکار ہوجاتی ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی اپنے خطبے میں یہی فرمایا ، ترک جہاد کے نتیجے میں ایک سزا غلامی کی صورت میں آتی ہے اور غلامی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی سزا نیں ۔ انگریز کی دو سو سالہ غلامی سے ہم بھی گزرے ہیں۔ آج بھی کئی ممالک کافروں کی غلامی میں ہیں ، کتنے ہی چینی ، روسی اور قبرصی مسلمان ہیں ، جو غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے دین سے اغماض برتنے ، قرآن پاک پس پشت ڈالنے اور جہاد سے منہ موڑنے کا ۔ جب بھی اس قسم کی غفلت آئے گی ، اس کا نتیجہ غلامی ہوگا۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر غلامی بڑی نعمت ہے ، انسان بےضمیر ہو کر رہ جاتے ۔ غلام کو کوئی غربت حاصل نہیں ہوتی ، نہ اس کی اپنی رائے ہوتی ہے اور نہ مشیت۔ اسے تو ہر وقت اپنے آقا کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں نے انگریز کی غلامی کی ہے انیں کیسے کسیے ذلیل کام کرنا پڑے۔ انہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں پر گولیاں چلائیں ، خانہ کعبہ ، پر چڑھائی کردی اور وہاں پر لوگوں کو ذبھ کیا۔ سات سو ترکوں کو مسجد حرام میں شہید کیا گیا۔ عراق اور مصر پر مسلمانوں سے حملہ کرایا گیا۔ انگریز کے غلام معمولی تنخواہ ، عہدہ یا خطاب کی خاطر ضمیر کے خالف گھٹیا ترین کا م کرنے پر مجبور ہوتے تھے ، کبھی مسلمانوں کے تصور میں بھی آسکتا تھے کہ وہ اس درجہ تک بھی گر جائیں تے ، تاتاریوں کے غلبے کے بعد دنیا بھر کے مسلمان پریشان ہوگئے کہ اب ان کی اجتماعیت کیسے قائم رہ سکیگی۔ ہماری نمازیں اور جمعے کیسے ادا ہوں گے ، چونکہ یہ مسلمانوں کے لیے تنزل کا پہلا واقعہ تھا۔ اس لیے وہ سخت پریشان ہوئے تھے مگر اس کے بعد مسلمان مسلسل انحطاط میں جا رہے ہیں اور اب ان میں احساس محرومی بھی باقی نہیں رہا۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اگر جہاد کو چھوڑ دی گے تو اللہ جس قسم کی سزا چاہیگا۔ دیگا ، اور اس میں غلامی کی سزا بھی شامل ہے۔ قوم کی تبدیلی : فرمایا کہ اللہ تمہیں سزا دیگا (آیت) ” ویستبدل قوما غیرکم “ اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو بدل دیگا۔ اگر تم دین کی خدمت سے منہ موڑو گے تو اللہ تعالیٰ یہ کام دوسرے لوگوں سے لے لیگا۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کہا کرتے تھے ، کیا ہوا جو پنجاب کے سیدوں نے دین کی خدمت نہ کی۔ اللہ نے ان کی بجائے یہاں کے سکھوں کو کھڑا کردیا “۔ دیکھ لیں مولان عبید اللہ سندھی (رح) اور مولانا احمد علی لاہوری (رح) کون لوگ تھے ان کا تعلق سکھ خاندانوں کے ساتھ تھا۔ اللہ نے ان سے وہ کام لیا جو دنیا میں کروڑوں سید نہ کرسکے ، تو فرمایا اگر تم نے اپنے مشن کو ترک کردیا تو اللہ تعالیٰ یہ کام دوسرے لوگوں سے لے لیگا اور تمہارے حصے میں ذلت کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ جب عربوں میں کمزوری آئی تو اللہ نے ان کی جگہ ترکوں کو کھڑا کردیا۔ یہ ترک بڑی مدت تک ایمان سے محروم رہے مگر حضور ﷺ نے فرمایا ” اترکوا الترک کما ترکو کم “ جب تک ترک خود تمہیں نہ چھیڑیں ان کو کچھ نہ کہنا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ اللہ نے دین کی خدمت کے لیے ترکوں کو منتخب کیا۔ جب عرب ملوکیت ، شہنشاہیت اور عیاشی میں پڑ کر کمزور ہوگئے تو اللہ نے ان کی بجائے ترکوں کو خدمت دین کی توفیق مرحمت فرمائی۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ایک دن میں چار لاکھ ترکوں نے اسلام قبول کیا۔ جو لوگ کبھی دین کے بدترین دشمن تھے ، وہی لوگ اس کے داعئی بن گئے۔ ترکوں کا عروج وزوال ترکوں نے اسلام کی بر خدمت کی ہے۔ چار سو سال تک یورپی انگریزوں کا مقابلہ کرتے رہے اور اسلام کے جھنڈے کو سربلند رکھا۔ ان میں بعض کمزوریاں بھی تھیں ، اس کے باوجود انہوں نے عیسائی طاقتوں کا خوب مقابلہ کیا ، یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے ترکوں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد انہیں بہت ذلیل کیا۔ بلکہ انہیں تہس نہس کر کے رکھ دیا بہرحال فرمایا کہ اگر تم اسلام کی خدمت میں کمزوری دکھائو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئیگا۔ چناچہ یرموک وغیرہ کی جنگوں میں یمنی لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوئے اور انہوں نے دین کی خاطر بڑی بڑی خدمات کثیر تعداد میں شریک ہوئے اور انہوں نے دین کی خاطر بڑی بڑی خدمات انجام دیں۔ جب بھی ضرورت پڑتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے دین کا کام دوسروں سے لے لیتا ہے۔ وہ تمہاری کمزوریوں کی وجہ سے تمہین منظر سے ہٹا دے گا (آیت) ” ولا تضروہ شیئا “ اور تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔ فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” واللہ علی کل شیء قدیر “ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے ولا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے ابھی اور بھی تنبیہات چل رہی ہیں تا کہ مسلمانوں میں کمزوری نہ واقع ہوجائے چونکہ تبوک کا سفر بڑا لمبا سفر تھا ، راستے کی مشکلات پیش نظر تھیں ، سامان کی قلت تھی ، ایسے حالات میں مسلمانوں کی دل شکستگی قدرتی امر تھا ، اس لیے اللہ نے خبردار کردیا کہ کمزوری نہ دکھانا ، اس سے اللہ کا تو کچھ نہیں بگڑے گا۔ بلکہ تمہیں ہی الٹا نقصان ہوگا۔ پہلے دور کے مسلمانوں نے بری بےجگری کے ساتھ یہ منازل طے کی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیب فرمائی جب حضور ﷺ تبوک میں خیمہ زن ہوئے تو رومیوں پر دہشت طاری ہوگئی شاہ ہرقل کانپ اٹھا کہ جو لوگ ایک ہزار میل کا کٹھن سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا یہ مسلمانوں کے غیر متزلزل ایمان کا نتیجہ تھا کہ رومیوں پر رعب طاری ہوگیا۔ بہرحال اللہ نے یہاں پر فرمایا ہے کہ کمزوری نہ دکھانا ورنہ ذلیل ہو جائو گے اور اپنی حیثیت کو گم کر دو گے ایسی صورت میں ہم دوسرے لوگوں کو تمہاری جگہ کھڑا کر کے ان سے کام لے لیں گے۔
Top