Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اللہ درگزر کرے آپ سے ، آپ نے کیوں رخصت دی ان کو یہاں تک کہ واضح ہوجاتے آپ کے لیے وہ لوگ جو سچ کہنے والے ہیں اور جان لیتے آپ جھوٹوں کو
ربط آیات : یہ غزوہ تبوک ہی کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی ترغیب دی اور پھر اہل ایمان کو خبردار کیا کہ وہ اس معامالہ میں سستی نہ دکھائیں بلکہ ہر حالت میں جہاد میں شریک ہوں۔ پھر جہاد کی حکمت بھی بیان فرمائی کہ اس سے مقصود اللہ کے کلمے کی بلندی ہے ایمان والوں کو اسی وجہ سے عزت نصیب ہوتی ہے۔ اگر ایمان والے آگے نہیں بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ دین کا کام کسی اور جماعت سے لے لیگا اور یہ چیز پیچھے رہ جانے والوں کے لیے تذلیل کا باعث ہوگی۔ پھر اللہ نے منافقین کا حال بیان کیا کہ جہاں انہیں کوئی مفاد نظر آتا ہے وہاں حضور ﷺ کے ساتھ چل نکلتے ہیں اور جہاں کوئی مشقت طلب کام ہوتا ہے وہاں جانے سے گریز کرتے ہیں غزوہ تبوک کا سفر چونکہ بہت لمبا تھا ، گرمی کا موسم اور قحط سالی کا زمانہ تھا اس لیے منافقیھن نے اس سفر سے حتی الامکان گریز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے ا اور یہ سلسلہ سورة کے آخر تک چلا گیا ہے۔ رخصت میں جلدی : گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ منافقین نے کئی حیلے بہانے بنائے کہنے لگے اگر سامان قریب ہوتا اور سفر درمیانہ ہوتا تو ہم ضرور جہاد میں شامل ہوتے بعض نے کئی قسم کی مجبوریاں ظاہر کیں اور غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے معذرت کرلی۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کے عذر قبول کرتے ہوئے ان سے درگزر فرمایا۔ اگرچہ آپ نے یہ کوئی غلط کام نہیں کیا تھا مگر یہ پسندیدہ بھی نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی لطیف پیرائے میں حضور ﷺ کو تنبیہ فرمائی ہے۔ (آیت) ” عفا اللہ عنک “ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے (آیت) ” لم اذنت لھم “ آپ نے ان کو کیوں رخصت دی کہ انہیں عدم شمولیت کا بہار مل گیا۔ آپ ان کو رخصت نہ دیتے (آیت) ” حتی یتبین لک الذین صدقوا “ یہاں تک کہ ظاہر ہوجائے آپ کے لیے وہ لوگ جنہوں نے سچ کہا (آیت) ” و تعلم الکذبین “ اور آپ جھوٹوں کو بھی جان جاتے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ کو منافقین کو رخصت دینے میں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ ذرا خاموش رہتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو سچے اور جھوٹے کی پہچان کرادیتا۔ منافقین تو کسی حالت میں بھی جہاد میں شریک ہونے پر آمادہ نہیں تھے ، مگر آپ کی طرف سے اجازت ان کی عدم شرکت کا معقول بہانہ بن گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزائم اور باطنی کیفیات کو جانتا ہے ، یہ لوگ کسی حیلے کی تلاش میں تھے جو انہیں میسر آگیا اور انہوں نے اپنے آپ کو کسی حد تک الزام سے بری کرلیا۔ مومنین کا شیوہ : فرمایا یہ تو منافقوں کی حالت ہے کہ حیلے بہانے سے جہاد سے گریز کرتے ہیں مگر مومنوں کا حال یہ ہے۔ (آیت) ” لا یستاذنک الذین یومنون باللہ والیوم الاخر “ کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے ہرگز رخصت طلب نہیں کرتے جن لوگوں کے دلوں میں نور ایمان راسخ ہوچکا ہے وہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ اللہ کا رسول تو سفر کی صعوبتیں برداشت کرے اور وہ پیچھے بیٹھے رہیں۔ فرمایا وہ نہیں رخصت طلب کرتے (آیت) ” ان یجاھدوا باموالھم وانفسھم “ اس بات سے کہ وہ جہاد کریں اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان اپنے مالوں اور جانوں کی قربانی کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ سورة کے آخر میں آرہا ہے (آیت) ” ولا یرغبوا بانفسھم عن نفسہ “ وہ لوگ اپنی جان کو نبی کی جان پر ترجیح نہیں دیتے۔ جب اللہ کا رسول خود مشقت برداشت کر رہا ہے تو مومن کیسے سکون پکڑ سکتے ہیں ؟ فرمایا (آیت) ” واللہ علیم بالمتقین “ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کن لوگوں کے دل میں خوفِ خدا ہے اور کن کے دلوں میں کفر ، شرک اور نفاق بھرا ہوا ہے۔ غزوہ تبوک کے جو حالات تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہایت ہی کٹھن حالات میں سخت تکالیف کو برداشت کر کے حضور ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے۔ پھر جو لوگ کسی وجہ سے قافلے سے پیچھے رہ گئے وہ بھی نہایت ہی نامساعد حالات میں مجاہدین سے جا ملے۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ کا اونٹ دورانِ سفر چللنے سے معذور ہوگیا۔ انہوں نے اونٹ کو وہیں چھوڑا اور سامان سفر اپنی گردن پر اٹھا کر چل دیے۔ منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے قافلے سے جا ملے جب حضور ﷺ نے ان کو دور سے آتا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ ابو ذر ؓ دنیا میں بھی یگانہ ہے اور یہ آخرت میں بھی یگانہ ہوگا۔ ابو خثیمہ ؓ صحابی نے رات بھر مزدوری کی اور ایک صاع کھجوریں لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کردیں اور عرض کیا کہ میری طرف سے جہاد کے لیے مقبول فرما لیں۔ منافقین نے فورا طعن کیا کہ یہ شخص لہو لگا کر شہیدوں میں نام لکھوانا چاہتا ہے۔ بھلا اتنے بڑے معرکے کے لیے ایک صاع کجھوروں کی کیا حیثیت ہے۔ بھلا اتنے بڑے معرکے کے لیے ایک صاع کھجوروں کی کیا حیثیت ہے ؟ ادھر عبدالرحمن بن عوف ہیں جنہوں نے اس جنگ کے لیے چار ہز اور درہم یا دنیار حضور کی خدمت میں پیش کیے منافقوں نے یہاں بھی اپنی خباثت کا اظہار کیا۔ کہنے لگے کہ اتنی بڑی رقم دکھلاوے کے لیے دے رہا ہے۔ اسی ابو خثیمہ ؓ کے متعلق آتا ہے کہ وہ بھی قافلے سے پیچھے رہ گیا اور پھر اکیلا ہی پیچھے پیچھے چل پڑا۔ جب قافلے کے قریب پہنچا تو حضور ﷺ نے دور سے گردوغبار اٹھتا ہوا دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں القا کردیا کہ یہ ابو خثیمہ ؓ ہے۔ چناچہ جب وہ قافلے میں پہنچ گیا تو مجاہدین نے دیکھا کہ وہ واقعی ابو خثیمہ ؓ ہی تھا۔ آگے تین دوسرے آدمیوں کا ذکر بھی آرہا ہے جو اگرچہ پکے سچے مسلمان تھے مگر کسی طرح غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو سکے۔ انہوں نے کوئی جھوٹا حیلہ بنانے کی بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور پھر ان پر بڑی سخت آزمائش آئی ۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ مومنوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور اس معاملہ میں اللہ کے رسول سے رخصت طلب نہیں کرتے انہیں اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف پہنچے اسے بخوشی برداشت کرتے ہیں۔ منافقین کا طرز عمل : اس کے برخلاف منافقین کا طرز عمل یہ ہے (آیت) ” انما یستاذنک الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر “ کہ آپ سے رخصت وہ لوگ مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ان کا ایمان لانا محض زبانی کلامی ہوتا ہے۔ (آیت) ” وارتابت قلوبھم “ اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ (آیت) ” فھم فی ریبھم یترددون “ اور وہ اسی شک میں ہی بھٹک رہیے ہیں۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی بات پر یقین ہیں نہیں آتا اور وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے اسی تردد کے متعلق سورة نساء میں آتا ہے (آیت) ” لا الی ھولاء ولا الی ھولائ “ نہ وہ ادھر کے ہوتے ہیں اور نہ ادھر کے بلکہ درمیان میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ جہاد سے گریز کے لیے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اور پھر اللہ کے رسول سے رخصت طلب کرتے ہیں۔ فرمایا یہ تو جہاد میں شرکت کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے (آیت) ” ولو ارادوا الخروج “ اگر یہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے (آیت) ” لا عدوا لہ عدۃ “ تو سامان تیار کرلیتے۔ مقصد یہ ہے کہ حضور ﷺ نے روانگی سے کئی ماہ پہلے تیاری کا حکم دے دیا تھا۔ اگر یہ لوگ صدق دل سے جہاد میں حصہ لینا چاہتے تو سفر کی تیاری کرتے ، سواری کا انتظام کرتے ، ہتھیار لیتے ، خوراک کا بندوبست کرتے ، مگر یہ تو جانا ہی نہیں چاہتے تھے اور جھوٹے حیلے بہانوں کی تلاش میں تھے۔ مشیت الہٰی : فرمایا ادھر مشیت الٰہی یہ تھی (آیت) ” ولکن کرہ اللہ انبعاثھم “ کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اٹھنے یعنی سفر پر روانگی کو ناپسند کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے باطنی عزائم سے بخوبی واقف تھا کہ یہ لوگ دل سے تو جانا نہیں چاہتے (آیت) ” فثبطھم “ پس اللہ نے ان کو کسل مند بنا دیا ان پر سستی طاری کردی کہ وہ جہاد میں شریک ہونے کی ہمت ہی نہ پاتے تھے۔ اللہ نے ان کو کم بہت بنا دیا اور فرمایا (آیت) ” وقیل اقعدوا مع القٰعدین “ کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔ تم جیسے بزدل آدمیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ پیچھے رہ جانے والے کمزور ، ضعیف ، معذور ، نابینا ، عورتیں اور بچے تھے ، تو فرمایا تم بھی ان کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہو۔ تمہارا جنگ میں جانا سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ کیونکہ (آیت) ” لو خرجوا فیکم “ اگر یہ لوگ آپ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے (آیت) ” مازادوکم الا خبالا “ تو نہ زیادہ کرتے تمہارے لیے مگر خرابی مقصد یہ کہ اگر یہ بادل نخواستہ آپ کے ساتھ چل بھی پڑتے تو آپ کے لیے مشکلات میں اضافہ کا باعث بنتے لہٰذا ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔ منافقین کی لگائی بجھائی : اور اس کے ساتھ ساتھ (آیت) ” ولا اوضعوا خللکم “ دوڑاتے تمہارے درمیان گھوڑے اور اونٹ۔ ایضاع گھوڑے اور اونٹ کو تیز دوڑانے کو کہتے ہیں مگر محاورہ کے طور پر اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ ادھر کی باتیں ادھر اور ادھر کی ادھر کی جائیں جس سے فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو۔ یہ لفظ غیبت اور چغل خوری پر بھی محمول کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ جہاد کے لیے چلے جاتے تو ایک تو خرابی میں اضافہ کرتے اور دوسرے ایک دوسرے کے ساتھ لگائی بجھائی کی باتیں کر کے دشمن ، کینہ اور نفرت پیدا کرتے اور اس طرح لشکر اسلام کو فائدے کی بجائے نقصان کا احتمال ہوتا ۔ امرئوالقیس زمانہ جاہلیت کا بڑا مشہور شاعر ہوا ہے اس نے اپنے ایک عمدہ شعر میں ایضاع کا لفظ استعمال کیا ہے کہتا ہے ارانا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام وباشراب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم بڑی تیزی سے امر غیب کی طرف جا رہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ صبح شام کھانے پینے کے ساتھ بہلایا جا رہا ہے شاعر نے بڑی پتے کی بات کی ہے کہ ہم نامعلوم منزل کی طرف تیزی کے ساتھ سفر کر رہے ہیں مگر معلوم نہیں کہ آگے ہمارے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ ہم اس غائبانہ منزل کی فکر کی بجائے خوردونوش میں ہی محو ہیں بہرحال یہاں ایضاع کو تیز دوڑنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور یہاں پر اوضعو کا لغوی معنی تو تیز دوڑنا ہی ہے۔ اگر منافق لوگ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے درمیان گھوڑے اور اونٹ تیزی سے دوڑاتے یعنی غیبت اور چغل خوری کے زریعے تمہارے درمیان لگائی بجھائی کرتے اور اس طرح اختلافات پیدا کر کے تمہارے لیے نقصان کا باعث بنتے لہٰذا ان کا نہ جانا ہی بہتر ہے۔ منافقین کی فتنہ پردازی : منافقین کی ایک خصلت یہ بھی بیان فرمائی (آیت) ” یبغونکم الفتنۃ “ کہ یہ تمہارے لیے فتنہ تلاش کرتے ہیں فتنہ و فساد برپا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ فرمایا اور ادھر تمہاری حالت یہ ہے (آیت) ” وفیکم سمعون لھم “ تمہارے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی باتوں کو سنتے ہیں یعنی ان کی لگائی بجھائی سے متاثر ہوجاتے ہیں ظاہر ہے کہ اگر سچے مومن مناقین کی چال میں آجائیں گے تو اس سے فتنہ ہی برپا ہوگا۔ فرمایا (آیت) ” واللہ علیم بالظلمین “ خدا تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس کی نیت خراب ہے اور کون اہل ایمان میں فساد کا موجب بن سکتا ہے۔ فرمایا (آیت) ” لقدابتغوا الفتنۃ من قبل “ ان منافقین نے پہلے بھی فتنہ تلاش کیا۔ جب سے حضور ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے ، یہ لوگ ہمیشہ سازشوں میں مصروف رہے اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے رہے۔ کبھی یہودیوں کے ساتھ مل کر اہل ایمان کے خلاف سازش کی اور کبھی مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے خلاف مدد دی غرضیکہ یہ لوگ ہر موقع پر مسلمانوں کے خلاف مصروف عمل رہے۔ اب بھی اگر یہ جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوتے تو کوئی نہ کوئی فتنہ ہی کھڑا کرتے ، لہٰذا اچھا ہوا کہ یہ آپ کے ساتھ رفیق ِ سفر نہیں ہوئے۔ فرمایا ان کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے (آیت) ” وقلبوا لک الامور “ انہوں نے پہلے بھی آپ کے سامنے معاملات کو الٹا کر کے ہی پیش کیا منافقین نے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جب مسلمانوں کے معاملات کو الٹ پلٹ کر کے پیش نہ کیا ہو۔ کبھی سازش کی ، کبھی غلط پراپیگنڈا کیا اور کبھی افواہ سازی کے ذریعے مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ نے ان کی ایک نہیں چلنے دی اور یہ ہمیشہ ناکام ونامراد ہی ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا غزوہ تبوک کے لیے ان کا نہ جانا ہی مسلمانوں کے حق میں بہتر تھا۔ دین حق کا غلبہ : فرمایا منافقین اپنی ہر سازش میں ناکام ہوئے (آیت) ” حتی جآء الحق “ یہاں تک کہ حق آگیا۔ یہودی اور منافق سب ذلیل و خوار ہوئے اور اسلام کے بول بالا ہوگیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بارے میں آتا ہے کہ ہجرت کے بعد ابتدائی دور میں وہ شخص ہر موقع محل پر مسلمانوں کی بدگوئی کرتا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتا پھر جب بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی تو کہنے لگا معلوم ہوتا ہے کہ اب معاملہ آہی گیا ہے اور اب اسلام کے آگے بند نہیں بندھا جاسکتا۔ چناچہ اس نے ظاہری طور پر کلمہ بھر پڑھ لیا مگر دل میں کفر ہی رہا۔ فرمایا منافقین سازشیں ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حق آگیا ” وظہرامر اللہ “ اور اللہ کا حکم غالب آگیا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ دین حق کو غالب بنا کر چھوڑے گا ، لہٰذا وہ وقت آگیا اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کردیا۔ (آیت) ” وھم کرھون “ اور یہ لوگ اس غلبے کو ناپسند کرتے والے ہیں۔ منافقین تو نہیں چاہتے تھے کہ دین حق تمام ادیان پر غالب آجائے مگر مشیت ایزدی یہی تھی ، لہٰذا اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور منافقین بےنیل مرام ہو کر رہ گئے۔ منافقین کی مذمت بیان ہو رہی ہے اور سلسلہ آگے دور تک چلا جائے گا۔ بعض منافقین کا شخصی طور پر بھی ذکر ہوگا اور بحیثیت مجموعی بھی ان کی خباثتوں کو واضح کیا جائے گا۔ درمیان میں اس سلسلہ سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر مسائل بھی آئیں گے۔
Top