Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا
: معاف کرے
اللّٰهُ
: اللہ
عَنْكَ
: تمہیں
لِمَ
: کیوں
اَذِنْتَ
: تم نے اجازت دی
لَهُمْ
: انہیں
حَتّٰي
: یہاں تک کہ
يَتَبَيَّنَ
: ظاہر ہوجائے
لَكَ
: آپ پر
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
صَدَقُوْا
: سچے
وَتَعْلَمَ
: اور آپ جان لیتے
الْكٰذِبِيْنَ
: جھوٹے
اللہ درگزر کرے آپ سے ، آپ نے کیوں رخصت دی ان کو یہاں تک کہ واضح ہوجاتے آپ کے لیے وہ لوگ جو سچ کہنے والے ہیں اور جان لیتے آپ جھوٹوں کو
ربط آیات : یہ غزوہ تبوک ہی کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی ترغیب دی اور پھر اہل ایمان کو خبردار کیا کہ وہ اس معامالہ میں سستی نہ دکھائیں بلکہ ہر حالت میں جہاد میں شریک ہوں۔ پھر جہاد کی حکمت بھی بیان فرمائی کہ اس سے مقصود اللہ کے کلمے کی بلندی ہے ایمان والوں کو اسی وجہ سے عزت نصیب ہوتی ہے۔ اگر ایمان والے آگے نہیں بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ دین کا کام کسی اور جماعت سے لے لیگا اور یہ چیز پیچھے رہ جانے والوں کے لیے تذلیل کا باعث ہوگی۔ پھر اللہ نے منافقین کا حال بیان کیا کہ جہاں انہیں کوئی مفاد نظر آتا ہے وہاں حضور ﷺ کے ساتھ چل نکلتے ہیں اور جہاں کوئی مشقت طلب کام ہوتا ہے وہاں جانے سے گریز کرتے ہیں غزوہ تبوک کا سفر چونکہ بہت لمبا تھا ، گرمی کا موسم اور قحط سالی کا زمانہ تھا اس لیے منافقیھن نے اس سفر سے حتی الامکان گریز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے ا اور یہ سلسلہ سورة کے آخر تک چلا گیا ہے۔ رخصت میں جلدی : گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ منافقین نے کئی حیلے بہانے بنائے کہنے لگے اگر سامان قریب ہوتا اور سفر درمیانہ ہوتا تو ہم ضرور جہاد میں شامل ہوتے بعض نے کئی قسم کی مجبوریاں ظاہر کیں اور غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے معذرت کرلی۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کے عذر قبول کرتے ہوئے ان سے درگزر فرمایا۔ اگرچہ آپ نے یہ کوئی غلط کام نہیں کیا تھا مگر یہ پسندیدہ بھی نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی لطیف پیرائے میں حضور ﷺ کو تنبیہ فرمائی ہے۔ (آیت) ” عفا اللہ عنک “ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے (آیت) ” لم اذنت لھم “ آپ نے ان کو کیوں رخصت دی کہ انہیں عدم شمولیت کا بہار مل گیا۔ آپ ان کو رخصت نہ دیتے (آیت) ” حتی یتبین لک الذین صدقوا “ یہاں تک کہ ظاہر ہوجائے آپ کے لیے وہ لوگ جنہوں نے سچ کہا (آیت) ” و تعلم الکذبین “ اور آپ جھوٹوں کو بھی جان جاتے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ کو منافقین کو رخصت دینے میں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ ذرا خاموش رہتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو سچے اور جھوٹے کی پہچان کرادیتا۔ منافقین تو کسی حالت میں بھی جہاد میں شریک ہونے پر آمادہ نہیں تھے ، مگر آپ کی طرف سے اجازت ان کی عدم شرکت کا معقول بہانہ بن گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزائم اور باطنی کیفیات کو جانتا ہے ، یہ لوگ کسی حیلے کی تلاش میں تھے جو انہیں میسر آگیا اور انہوں نے اپنے آپ کو کسی حد تک الزام سے بری کرلیا۔ مومنین کا شیوہ : فرمایا یہ تو منافقوں کی حالت ہے کہ حیلے بہانے سے جہاد سے گریز کرتے ہیں مگر مومنوں کا حال یہ ہے۔ (آیت) ” لا یستاذنک الذین یومنون باللہ والیوم الاخر “ کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے ہرگز رخصت طلب نہیں کرتے جن لوگوں کے دلوں میں نور ایمان راسخ ہوچکا ہے وہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ اللہ کا رسول تو سفر کی صعوبتیں برداشت کرے اور وہ پیچھے بیٹھے رہیں۔ فرمایا وہ نہیں رخصت طلب کرتے (آیت) ” ان یجاھدوا باموالھم وانفسھم “ اس بات سے کہ وہ جہاد کریں اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان اپنے مالوں اور جانوں کی قربانی کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ سورة کے آخر میں آرہا ہے (آیت) ” ولا یرغبوا بانفسھم عن نفسہ “ وہ لوگ اپنی جان کو نبی کی جان پر ترجیح نہیں دیتے۔ جب اللہ کا رسول خود مشقت برداشت کر رہا ہے تو مومن کیسے سکون پکڑ سکتے ہیں ؟ فرمایا (آیت) ” واللہ علیم بالمتقین “ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کن لوگوں کے دل میں خوفِ خدا ہے اور کن کے دلوں میں کفر ، شرک اور نفاق بھرا ہوا ہے۔ غزوہ تبوک کے جو حالات تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہایت ہی کٹھن حالات میں سخت تکالیف کو برداشت کر کے حضور ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے۔ پھر جو لوگ کسی وجہ سے قافلے سے پیچھے رہ گئے وہ بھی نہایت ہی نامساعد حالات میں مجاہدین سے جا ملے۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ کا اونٹ دورانِ سفر چللنے سے معذور ہوگیا۔ انہوں نے اونٹ کو وہیں چھوڑا اور سامان سفر اپنی گردن پر اٹھا کر چل دیے۔ منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے قافلے سے جا ملے جب حضور ﷺ نے ان کو دور سے آتا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ ابو ذر ؓ دنیا میں بھی یگانہ ہے اور یہ آخرت میں بھی یگانہ ہوگا۔ ابو خثیمہ ؓ صحابی نے رات بھر مزدوری کی اور ایک صاع کھجوریں لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کردیں اور عرض کیا کہ میری طرف سے جہاد کے لیے مقبول فرما لیں۔ منافقین نے فورا طعن کیا کہ یہ شخص لہو لگا کر شہیدوں میں نام لکھوانا چاہتا ہے۔ بھلا اتنے بڑے معرکے کے لیے ایک صاع کجھوروں کی کیا حیثیت ہے۔ بھلا اتنے بڑے معرکے کے لیے ایک صاع کھجوروں کی کیا حیثیت ہے ؟ ادھر عبدالرحمن بن عوف ہیں جنہوں نے اس جنگ کے لیے چار ہز اور درہم یا دنیار حضور کی خدمت میں پیش کیے منافقوں نے یہاں بھی اپنی خباثت کا اظہار کیا۔ کہنے لگے کہ اتنی بڑی رقم دکھلاوے کے لیے دے رہا ہے۔ اسی ابو خثیمہ ؓ کے متعلق آتا ہے کہ وہ بھی قافلے سے پیچھے رہ گیا اور پھر اکیلا ہی پیچھے پیچھے چل پڑا۔ جب قافلے کے قریب پہنچا تو حضور ﷺ نے دور سے گردوغبار اٹھتا ہوا دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں القا کردیا کہ یہ ابو خثیمہ ؓ ہے۔ چناچہ جب وہ قافلے میں پہنچ گیا تو مجاہدین نے دیکھا کہ وہ واقعی ابو خثیمہ ؓ ہی تھا۔ آگے تین دوسرے آدمیوں کا ذکر بھی آرہا ہے جو اگرچہ پکے سچے مسلمان تھے مگر کسی طرح غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو سکے۔ انہوں نے کوئی جھوٹا حیلہ بنانے کی بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور پھر ان پر بڑی سخت آزمائش آئی ۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ مومنوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور اس معاملہ میں اللہ کے رسول سے رخصت طلب نہیں کرتے انہیں اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف پہنچے اسے بخوشی برداشت کرتے ہیں۔ منافقین کا طرز عمل : اس کے برخلاف منافقین کا طرز عمل یہ ہے (آیت) ” انما یستاذنک الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر “ کہ آپ سے رخصت وہ لوگ مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ان کا ایمان لانا محض زبانی کلامی ہوتا ہے۔ (آیت) ” وارتابت قلوبھم “ اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ (آیت) ” فھم فی ریبھم یترددون “ اور وہ اسی شک میں ہی بھٹک رہیے ہیں۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی بات پر یقین ہیں نہیں آتا اور وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے اسی تردد کے متعلق سورة نساء میں آتا ہے (آیت) ” لا الی ھولاء ولا الی ھولائ “ نہ وہ ادھر کے ہوتے ہیں اور نہ ادھر کے بلکہ درمیان میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ جہاد سے گریز کے لیے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اور پھر اللہ کے رسول سے رخصت طلب کرتے ہیں۔ فرمایا یہ تو جہاد میں شرکت کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے (آیت) ” ولو ارادوا الخروج “ اگر یہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے (آیت) ” لا عدوا لہ عدۃ “ تو سامان تیار کرلیتے۔ مقصد یہ ہے کہ حضور ﷺ نے روانگی سے کئی ماہ پہلے تیاری کا حکم دے دیا تھا۔ اگر یہ لوگ صدق دل سے جہاد میں حصہ لینا چاہتے تو سفر کی تیاری کرتے ، سواری کا انتظام کرتے ، ہتھیار لیتے ، خوراک کا بندوبست کرتے ، مگر یہ تو جانا ہی نہیں چاہتے تھے اور جھوٹے حیلے بہانوں کی تلاش میں تھے۔ مشیت الہٰی : فرمایا ادھر مشیت الٰہی یہ تھی (آیت) ” ولکن کرہ اللہ انبعاثھم “ کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اٹھنے یعنی سفر پر روانگی کو ناپسند کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے باطنی عزائم سے بخوبی واقف تھا کہ یہ لوگ دل سے تو جانا نہیں چاہتے (آیت) ” فثبطھم “ پس اللہ نے ان کو کسل مند بنا دیا ان پر سستی طاری کردی کہ وہ جہاد میں شریک ہونے کی ہمت ہی نہ پاتے تھے۔ اللہ نے ان کو کم بہت بنا دیا اور فرمایا (آیت) ” وقیل اقعدوا مع القٰعدین “ کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔ تم جیسے بزدل آدمیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ پیچھے رہ جانے والے کمزور ، ضعیف ، معذور ، نابینا ، عورتیں اور بچے تھے ، تو فرمایا تم بھی ان کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہو۔ تمہارا جنگ میں جانا سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ کیونکہ (آیت) ” لو خرجوا فیکم “ اگر یہ لوگ آپ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے (آیت) ” مازادوکم الا خبالا “ تو نہ زیادہ کرتے تمہارے لیے مگر خرابی مقصد یہ کہ اگر یہ بادل نخواستہ آپ کے ساتھ چل بھی پڑتے تو آپ کے لیے مشکلات میں اضافہ کا باعث بنتے لہٰذا ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔ منافقین کی لگائی بجھائی : اور اس کے ساتھ ساتھ (آیت) ” ولا اوضعوا خللکم “ دوڑاتے تمہارے درمیان گھوڑے اور اونٹ۔ ایضاع گھوڑے اور اونٹ کو تیز دوڑانے کو کہتے ہیں مگر محاورہ کے طور پر اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ ادھر کی باتیں ادھر اور ادھر کی ادھر کی جائیں جس سے فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو۔ یہ لفظ غیبت اور چغل خوری پر بھی محمول کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ جہاد کے لیے چلے جاتے تو ایک تو خرابی میں اضافہ کرتے اور دوسرے ایک دوسرے کے ساتھ لگائی بجھائی کی باتیں کر کے دشمن ، کینہ اور نفرت پیدا کرتے اور اس طرح لشکر اسلام کو فائدے کی بجائے نقصان کا احتمال ہوتا ۔ امرئوالقیس زمانہ جاہلیت کا بڑا مشہور شاعر ہوا ہے اس نے اپنے ایک عمدہ شعر میں ایضاع کا لفظ استعمال کیا ہے کہتا ہے ارانا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام وباشراب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم بڑی تیزی سے امر غیب کی طرف جا رہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ صبح شام کھانے پینے کے ساتھ بہلایا جا رہا ہے شاعر نے بڑی پتے کی بات کی ہے کہ ہم نامعلوم منزل کی طرف تیزی کے ساتھ سفر کر رہے ہیں مگر معلوم نہیں کہ آگے ہمارے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ ہم اس غائبانہ منزل کی فکر کی بجائے خوردونوش میں ہی محو ہیں بہرحال یہاں ایضاع کو تیز دوڑنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور یہاں پر اوضعو کا لغوی معنی تو تیز دوڑنا ہی ہے۔ اگر منافق لوگ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے درمیان گھوڑے اور اونٹ تیزی سے دوڑاتے یعنی غیبت اور چغل خوری کے زریعے تمہارے درمیان لگائی بجھائی کرتے اور اس طرح اختلافات پیدا کر کے تمہارے لیے نقصان کا باعث بنتے لہٰذا ان کا نہ جانا ہی بہتر ہے۔ منافقین کی فتنہ پردازی : منافقین کی ایک خصلت یہ بھی بیان فرمائی (آیت) ” یبغونکم الفتنۃ “ کہ یہ تمہارے لیے فتنہ تلاش کرتے ہیں فتنہ و فساد برپا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ فرمایا اور ادھر تمہاری حالت یہ ہے (آیت) ” وفیکم سمعون لھم “ تمہارے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی باتوں کو سنتے ہیں یعنی ان کی لگائی بجھائی سے متاثر ہوجاتے ہیں ظاہر ہے کہ اگر سچے مومن مناقین کی چال میں آجائیں گے تو اس سے فتنہ ہی برپا ہوگا۔ فرمایا (آیت) ” واللہ علیم بالظلمین “ خدا تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس کی نیت خراب ہے اور کون اہل ایمان میں فساد کا موجب بن سکتا ہے۔ فرمایا (آیت) ” لقدابتغوا الفتنۃ من قبل “ ان منافقین نے پہلے بھی فتنہ تلاش کیا۔ جب سے حضور ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے ، یہ لوگ ہمیشہ سازشوں میں مصروف رہے اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے رہے۔ کبھی یہودیوں کے ساتھ مل کر اہل ایمان کے خلاف سازش کی اور کبھی مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے خلاف مدد دی غرضیکہ یہ لوگ ہر موقع پر مسلمانوں کے خلاف مصروف عمل رہے۔ اب بھی اگر یہ جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوتے تو کوئی نہ کوئی فتنہ ہی کھڑا کرتے ، لہٰذا اچھا ہوا کہ یہ آپ کے ساتھ رفیق ِ سفر نہیں ہوئے۔ فرمایا ان کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے (آیت) ” وقلبوا لک الامور “ انہوں نے پہلے بھی آپ کے سامنے معاملات کو الٹا کر کے ہی پیش کیا منافقین نے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جب مسلمانوں کے معاملات کو الٹ پلٹ کر کے پیش نہ کیا ہو۔ کبھی سازش کی ، کبھی غلط پراپیگنڈا کیا اور کبھی افواہ سازی کے ذریعے مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ نے ان کی ایک نہیں چلنے دی اور یہ ہمیشہ ناکام ونامراد ہی ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا غزوہ تبوک کے لیے ان کا نہ جانا ہی مسلمانوں کے حق میں بہتر تھا۔ دین حق کا غلبہ : فرمایا منافقین اپنی ہر سازش میں ناکام ہوئے (آیت) ” حتی جآء الحق “ یہاں تک کہ حق آگیا۔ یہودی اور منافق سب ذلیل و خوار ہوئے اور اسلام کے بول بالا ہوگیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بارے میں آتا ہے کہ ہجرت کے بعد ابتدائی دور میں وہ شخص ہر موقع محل پر مسلمانوں کی بدگوئی کرتا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتا پھر جب بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی تو کہنے لگا معلوم ہوتا ہے کہ اب معاملہ آہی گیا ہے اور اب اسلام کے آگے بند نہیں بندھا جاسکتا۔ چناچہ اس نے ظاہری طور پر کلمہ بھر پڑھ لیا مگر دل میں کفر ہی رہا۔ فرمایا منافقین سازشیں ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حق آگیا ” وظہرامر اللہ “ اور اللہ کا حکم غالب آگیا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ دین حق کو غالب بنا کر چھوڑے گا ، لہٰذا وہ وقت آگیا اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کردیا۔ (آیت) ” وھم کرھون “ اور یہ لوگ اس غلبے کو ناپسند کرتے والے ہیں۔ منافقین تو نہیں چاہتے تھے کہ دین حق تمام ادیان پر غالب آجائے مگر مشیت ایزدی یہی تھی ، لہٰذا اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور منافقین بےنیل مرام ہو کر رہ گئے۔ منافقین کی مذمت بیان ہو رہی ہے اور سلسلہ آگے دور تک چلا جائے گا۔ بعض منافقین کا شخصی طور پر بھی ذکر ہوگا اور بحیثیت مجموعی بھی ان کی خباثتوں کو واضح کیا جائے گا۔ درمیان میں اس سلسلہ سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر مسائل بھی آئیں گے۔
Top