Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اور بعض ان منافقین میں سے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ مجھے رخصت دے دیں اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیں۔ سنو ! فتنے میں تو یہ گرے ہوئے ہیں اور بیشک جہنم البتہ گھیرنے والی ہے کافروں کو
جد ابن قیس : اللہ تعالیٰ نے جہاد میں نفیر عام کا حکم دینے کے بعد منافقین کی مذمت بیان فرمائی ہے اور ان کے حیلے بہانوں کا رد کیا ہے۔ اسی سلسلہ میں بعض نمایاں منافقوں کا حال خصوصی طور پر بیان کیا ہے ۔ بنی (1۔ ابن کثیر ص 387 ، ج 2) (فیاض) سلمہ قبیلے کا سردار جد ابن قیس بظاہر کلمہ گو تھا مگر اس کے دل میں کفر تھا یہ وہی شخص ہے جو حدیبیہ کے موقع پر موجود تھا جب حضور ﷺ درخت کے نیچے صحابہ کرام سے بیعت رضوان لے رہے تھے تو یہ شخص اپنے گم شدہ اونٹ کی تلاش میں پھر رہا تھا۔ کسی شخص نے اس سے کہا کہ حضور ﷺ لوگوں سے بیعت لے رہے ہیں ، تم بھی ان میں شامل ہو جائو تو کہنے لگا ، میرا اونٹ ہی مجھے مل جائے تو اچھا ہے بیعت کرنے سے کیا فائدہ ہوگا ؟ غرضیکہ یہ شخص اعتقادی منافق تھا ، اور اس نے اس موقع پر بھی بیعت نہیں کی تھی۔ نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ حدیبیہ کے مقام پر بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائیگا مگر ایک سرخ اونٹ والا اور یہ وہی جد ابن قیس تھا جو پکا منافق تھا۔ جہاد سے فرار کا بہانہ : جب غزوہ تبوک کے لیے تیاری کا اعلان ہوا تو یہ شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں ایک فریفتہ مزاج آدمی ہوں بلکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ خود حضور ﷺ نے جد بن قیس سے پوچھا تھا ” ھل لک فی جھاد بنی الاصغر “ کیا تو چاہتا ہے کہ بنی اصغر ( رومیوں ) کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ تو اس نے جواب میں کہا تھا کہ میں ایک فریفتہ مزاج آدمی ہوں ، رومیوں کی عورتیں بڑی گوری چٹی اور خوبصورت ہیں ، دل خوامخواہ ان کی طرف مائل ہوتا ہے ، وہ لباس بھی نیم عریاں پہنتی ہیں ، اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ میں ان کے دام فریب میں گرفتار ہو کر وہیں کا ہو کر رہ جائوں گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ آپ مجھے اس جہاد میں شرکت سے رخصت دے دیں۔ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اس منافق کے اس عذرلنگ کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومن ھم من یقول ائذن لی ولا تفتنی “ ان منافقین میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے رخصت دے دیں اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیں۔ اگر میں رومیوں کے علاقہ میں گیا تو عورتوں کے عشق میں مبتلا ہو کر رہ جائوں گا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” الا فی الفتنۃ سقطوا “ فتنہ میں تو یہ منافق خود ہی پڑے ہوئے ہیں۔ یہ کون سے نئے فتنے کی بات کرتے ہیں ؟ ان کے لیے سب سے بڑا فتنہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ جہاد سے گریز کر رہے ہیں اور اس کے لیے جھوٹے بہانے بنا رہے ہیں۔ فرمایا اس سے بڑا فتنہ کیا ہو سکتا ہے کہ حق وصداقت کا ساتھ نہ دیا جائے اور جہاد سے گریز کیا جائے۔ معرفت الٰہی کا ذائقہ : اہل تحقیق کہتے ہیں کہ انسان کے حق میں سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ حق کو پہچان لے ۔ حضرت مالک بن دینار (رح) تابعین کے قریبی زمانے کے بزرگ ہیں ان کا ایک مشہور مقولہ ہے جیسے علامہ اصفہانی (رح) نے حلیۃ الاولیام میں بھی نقل کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں افسوس ! دنیا سے اکثر لوگ چلے گئے مگر انہوں نے لذیذ ترین چیز کا ذائقہ نہیں چکھا ، پوچھا وہ لذیذ ترین چیز کون سے ہے تو فرمایا وہ اللہ کی معرفت ہے اسی لیے محققین کے نزیدک انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت معرفت الٰہی ہے جب وہ اس حق کو پہچان لے تو اس کے مطابق سعی کرے اور اس کے لیے اپنے مال اور جان تک کو قربان کرنے میں دریخ نہ کرے۔ انسان کے حق میں یہی سعادت ہے اور یہی اس کے اخلاق کی تکمیل ہے۔ اس کے بغیر اخلاقی لحاظ سے انسان کی کوئی قدرومنزلت نہیں۔ اس چیز سے گریز کرنے والا انسان منافق ہوتا ہے اور جہاد سے جی چراتا ہے اگر کہیں چلا بھی جائے تو بادل نخواستہ کیونکہ اس کے نظریات ہی فاسد ہوتے ہیں۔ تو فرمایا کہ بعض لوگ جھوٹے بہانے بناتے ہیں کہ جہاد میں جا کر عورتوں کے فتنے میں مبتلا ہوجائیں گے ایسے لوگ بدنیت ہیں اور ان کا یہ بہانہ ہی ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اس سے کہیں بڑے فتنے میں پہلے ہی مبتلا ہوچکے ہیں۔ فرمایا ، یاد رکھو ! (آیت) ” وان جھنم لمحیطۃ بالکفرین “ بیشک جہنم کافروں کا احاطہ کرنے والی ہے۔ جو جھوٹے بہانے بناتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہی اس نہیں سمیٹ لیگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے نظریات درست نہیں ہیں ، ان کی فکر غلط ہے یہ نہ تو حق کو پہچانتے ہیں ، نہ اس کی خاطر قربانی کے لیے تیار ہوتے ہیں اور نہ ہی حق کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ منافقین کی بدباطنی : اس کی بجائے (آیت) ” ان تصبک حسنۃ تسئوھم “ اگر تمہیں کوئی خوبی پہنچے تو ان کو ناگوار گزرتی یہ ، کہیں فتح حاصل ہوجائے ۔ مال مل جائے ، کوئی کامیابی حاصل ہوجائے تو منافقین کے لیے بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے ، ان کو بری لگتی ہے۔ (آیت) ” وان تصبک مصیبۃ “ اور اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچ جائے کوئی نقصان ہوجائے یا شکست ہوجائے (آیت) ” یقولوا قد اخذنا امرنا من قبل “ تو منافق کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا معاملہ سنبھال لیا تھا۔ ہم نے اچھا کیا جو مسلمانوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے ورنہ ہم بھی ان کے ساتھ مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں ان کے فاسد نظریات کی یہی دلیل ہے کہ ہر اچھے کام میں تو مسلمانوں کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں اور جہاں کوئی تکلیف پہنچے ، وہاں علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں۔ فرمایا ایسے صورت میں (آیت) ” ویتولوا وھم فرحون “ وہ اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ خوشیاں منانے والے ہوتے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کی تکلیف پر انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہہ دیں (آیت) ” لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا “ ہمیں کوئی چیز نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ تکلیف یا راحت ، شکست یا فتح سب اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہم اس کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اس کے حکم کے بغیر ہمیں کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی (آیت) ” ھو مولنا “ وہی ہمارا کارساز ہے (آیت) ” وعلی اللہ فلتوکل المومنون “ اور چاہیے کہ اہل ایمان صرف اسی پر اعتماد رکھیں۔ صدمے اور مصیبت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے یہ بہت بڑا ہتھیار ہے۔ جو کوئی جس قدر خدا کی ذات پر متوکل ہوگا وہ تکلیف سے اسی قدر کم متاثر ہوگا ۔ مومن جب اللہ کو ہی اپنا کارساز بنا لیتا ہے تو پھر بڑی سے بڑی تکلیف بھی محسوس نہیں ہوتی اسی لیے یہاں پر یہی سبق دیا گیا ہے کہ تکلیف کے وقت آپ یہ فرمادیں کہ ہمیں تو وہی کچھ پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں کردیا۔ لہٰذا ہم کسی مصیبت کی وجہ سے بددل نہیں ہوتے۔ دو میں سے ایک نیکی : فرمایا (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ ان کو یہ بھی فرما دیں (آیت) ” ھل تربصون بنا الا احدی الحسنین “ تم نہیں انتظار کرتے ہمارے بارے میں مگر دو نیکیوں میں سے ایک۔ ہمارے لیے فتح یا شکست اور راحت یا تکلیف ہر بات میں نیکی ہے۔ اگر فتح ہوگئی اور ازندہ رہے تو مال بھی مل گیا اور غازی بھی بنے۔ اس کے برخلاف اگر شکست ہوگئی اور مارے گئے تو بھی شہادت نصیب ہوگئی۔ دنیا میں ناکامی بھی ہمارے لیے آخرت میں دائمی راحت کا باعث ہوگی ، لہٰذا جو بھی صورت حا ہو۔ ہمیں دو میں سے ایک نیکی تو بہرحال ہوجاتی ہے۔ اے منافقین ! تم ہماری شکست کے انتظار میں ہو مگر ہمارے لیے یہ بھی بھلائی ہے کیونکہ کہ اس طرح ہمارے لیے آخرت کی کامیابی ہوجاتی ہے۔ تو جس چیز کو تم ہمارے حق میں تکلیف دے سمجھ رہے ہو۔ ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ہمارے لیے اس میں بھی بھلائی ہے۔ عذاب کا انتظار : فرمایا ، تم ہمارے بارے میں نہیں انتظار کرتے مگر دو خوبیوں میں سے ایک خوبی کا (آیت) ” ونحن نتربص بکم ان یصیبکم اللہ بعذاب من عندہ “ اور ہم بھی تمہارے بارے میں منتظر ہیں کہ دو چیزوں میں سے ایک ضرور ہوگی۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے تمہیں سزا دی جائیگی۔ اللہ تعالیٰ تم پر کوئی افتاد ڈال دیگا اور تم براہ راست اس کی گرفت میں آجائو گے (آیت) ” اوبایدنا “ یا ہمارے ہاتھوں سے اللہ تمہیں سزا میں مبتلا کر دیگا۔ تمہاری ذلت ورسوائی خود ہمارے ہاتھوں سے بھی واقع ہو سکتی ہے آگے اسی سورة میں آرہا ہے (آیت) ” یایھا النبی جاھد الکفار والمنفقین واغلظ علیھم “ اے بنی ع ! ان کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں ، منافقوں کے ساتھ زبانی طور پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کی خرابیوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر کے انہیں ذلیل و خوار کیا جائے۔ اس معاملے میں ان کے ساتھ رعایت نہ کہ جائے۔ فرمایا (آیت) ” فتربصوا “ تم بھی انتظار کرو (آیت) ” انا معکم متربصون “ ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں۔ پھر دیکھیں گے کہ کیا صورت پیش آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یا تو خود تمہیں سزا دیگا یا پھر ہمارے ہاتھوں سے تمہیں تکلیف پہنچے گی ، تم مغلوب ہو جائو گے اور سخت رسوا ہو گے۔ مال کی عدم قبولیت : بعض منافقین جہاد میں ذاتی شمولیت سے معذوری کا اظہار کر کے مالی تعاون کی پیش کش کرتے تھے جد ابن قیس بھی انہی میں سے تھا جس نے عملی طور پر جہاد میں شامل ہونے سے معذرت کرلی ، مگر جہاد کے لیے کچھ مال کی پیش کش کی ، اللہ نے اسے قبول نہ فرمایا اور ارشاد ہوا ، (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیجئے (آیت) ” انفقوا طوعا او کرھا “ تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے (آیت) ” لن یتقبل منکم انکم کنتم قوما فسقین “ تم سے یہ مال ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔ بیشک تم ایسے لوگ ہو جو نافرمانی کرنیوالے ہو چونکہ تمہارے نظریات ہیں فاسد ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ اس وقت مقبول ہوگا۔ جب فکر صحیح ہوگی جہاد مال اور جان دونوں زرائع سے لازمی ہے۔ اگر ذاتی طور پر عدم شرکت سے جان بچانا چاہتے ہیں تو پھر ان کا مال بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ لوگ ظاہری طور پر کلمہ گو ہیں مگر ان کے دلوں میں ابھی تک کفر راسخ ہے فرمایا جہاد تو بڑی اعلی ، ارفع اور پاک چیز ہے۔ جس کے لیے ناپاک مال قبول نہیں کیا جاسکتا۔ پھر آگے عدم قبولیت کی وجہ بھی بیان فرمائی (آیت) ” وما منعھم ان تقبل منھم نفقتھم “ ان کے خرچ کی قبولت میں کوئی چیز مانع نہیں (آیت) ” الا انھم کفروا باللہ “ مگر یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کردیا۔ (آیت) ” وبرسولہ “ اور اللہ کے رسول کی رسالت کو تسلیم نہ کیا۔ اور جب تک کوئی توحید و رسالت کو صحیح معنوں میں تسلیم نہ کرے وہ اسلام کے دائرے میں داخل نہیں ہو سکتا ، تو ایسے شخص کی طرف سے مال کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ دین اسلام تو انسانیت کا بلند ترین شرف ہے۔ اگر انسان حق کو پہنچان کر اس کے لیے سعی نہیں کرتا اور نہ جان پیش کرتا ہے تو اس کا مال بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مال کی قبولیت کے لیے ایمان کا ہونا شرط ہے جسے قرآن پاک میں بار بار واضح کیا گیا ہے (آیت) ” ان الذین امنوا وعملوا الصلحت “ کے الفاظ کئی سورتوں میں آئے ہیں۔ سورة کہف میں ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیے ان کے لیے جنت الفردوس میں مہمانی ہوگی۔ سورة بروج میں ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اسی طرح سورة بینہ میں ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ انجام دینے والوں کے متعلق فرمایا کہ وہ بہترین مخلوق ہیں۔ سورة نساء میں ہے (آیت) ” ومن یعمل من الصلحت من ذکر او انثی وھو مئومن “ مرد وزن میں سے جو بھی کوئی نیکی کا کام کرے بشرطیکہ وہ ایماندار ہو تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے ، مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بڑی دولت خرچ کر کے رفاہ عامہ کا بڑے سے بڑا کام کرتا ہے لیکن ایمان سے خالی ہے تو اس کی کوئی چیز بارگاہ رب العزت میں قبول نہیں ہوگی۔ ہر نیکی کے لیے ایمان شرط اولین ہے۔ چونکہ منافق لوگ یہ شرط پوری نہیں کرتے ، وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت پر دل سے ایمان نہیں رکھتے لہٰذا ان کی طرف سے کتنا بڑا مال بھی ہو۔ قابل قبول نہیں ہوگا۔ نماز میں سستی : دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اولین عبادت جو کسی مسلمان کے لیے ضروری ہوجاتی ہے ، وہ نماز ہے اسی کے ذریعے تعلق باللہ قائم ہوتا ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی اصلطلاح (1۔ حجۃ اللہ البالغہ ، ص 73) (فیاض) میں نما ز ” اھم العبادات المقربۃ “ یعنی اللہ کا قرب دلانے والی عبادتوں میں سے سب سے اہم عبادت نماز ہے۔ تو یہاں پر اس اہم عبادت کی متعلق منافقین کے کردار کو واضھ کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخراجات کی عدم قبولیت کی وجوہات کے متعلق فرمایا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ (آیت) ” ولا یاتون الصلوۃ الا وھم کسالیٰ “ اور یہ لوگ نماز ادا نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ وہ سستی دکھانے والے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دل سے ایمان ہی نہیں لایا اسے نماز کے ساتھ کیا رغبت ہو سکتی ہے۔ چونکہ اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کرلیا ہے ، لہٰذا اسے چار وناچار نماز بھی ادا کرنا ہوگی جسے وہ بادل نخواستہ ادا کرنے پر مجبور ہے اور اس میں اکثر سستی کا اظہار کرتے ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق سورة ماعون میں بھی وعید موجود ہے (آیت) ” فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون “ ایسے نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو نماز سے غافل رہتے ہیں یعنی جو نماز کی ادائیگی میں سستی دکھاتے ہیں سستی کا مطلب یہی ہے کہ جب اسے خدا تعالیٰ کی معرفت ہی حاصل نہیں ہوئی وہ نماز کیا ادا کرے گا ، وہ تو لوگوں کو دکھانے کے لیے وقت بےوقت چار ٹکریں مارلے گا۔ چناچہ نماز میں سستی کو منافقوں کی علامت شمار کیا گیا ہے۔ ایمان والوں کو تو نماز سے راحت ہوتی ہے وہ تو مستعدی دکھاتے ہیں۔ تکالیف بھی برداشت کرتے ہیں ، رات کے اندھیروں میں ٹھوکریں بھی کھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ” بشر المشائین فی الظلم بنور تام یوم القیمۃ “ ان کو قیامت والے دن نور تام کی بشارت دے دو ۔ ان کے لیے اللہ کے ہاں بڑا صلہ ملنے والا ہے۔ تو فرمایا کہ منافقوں کے مال کی عدم قبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ نماز میں سستی دکھاتے ہیں۔ بادل نخواستہ خرچ : عدم قبولیت کی تیسری وجہ یہ بیان فرمائی (آیت) ” ولا ینفقون الا وھم کرھون “ اور وہ نہیں خرچ کرتے مگر بادل نخواستہ ، ان کا دل نہیں چاہتا مگر مجبورا یا دکھاوے کے طور پر کچھ نہ کچھ خرچ کرتے ہیں۔ وہ اس اعتراض سے بھی بچنا چاہتے ہیں کہ فلاں آدمی نہ خود جہاد میں شریک ہوا ہے اور نہ مالی معاونت کی ہے۔ منافقوں کی یہ صفت بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ زکوٰۃ کو تاوان سمجھتے ہیں اور صدقہ خیرات کو بوجھ خیال کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر کوئی رسم و رواج یا بدعت کا کام ہو تو بڑا دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ لہو ولعب کی بات ہو تو خرچ کرنے میں بڑے مستعد ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ان کی طرف سے دیا ہوا مال کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ اس کے بعد منافقوں کی حیثیت کے بارے میں ذکر ہوگا۔ اس دنیا میں منافقوں کی آسودگی کو دیکھ کر بعض آدمیوں کو دھوکہ ہوتا ہے کہ اگر منافق اتنے ہیں برے ہیں تو انہیں اس دنیا میں اتناسازوسامان اور عیش و آرام کیوں میسر ہے۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی وضاحت فرمائی ہے۔
Top