Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 55
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
فَلَا تُعْجِبْكَ
: سو تمہیں تعجب نہ ہو
اَمْوَالُهُمْ
: ان کے مال
وَلَآ
: اور نہ
اَوْلَادُهُمْ
: ان کی اولاد
اِنَّمَا
: یہی
يُرِيْدُ
: چاہتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لِيُعَذِّبَهُمْ
: کہ عذاب دے انہیں
بِهَا
: اس سے
فِي
: میں
الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا
: دنیا کی زندگی
وَتَزْهَقَ
: اور نکلیں
اَنْفُسُهُمْ
: ان کی جانیں
وَهُمْ
: اور وہ
كٰفِرُوْنَ
: کافر ہوں
پس نہ تعجب میں ڈالیں آپ کو ان ( منافقین) کے مال اور ان کی اولادیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو سزا دے ان ( مالوں اور اولادوں) کے ساتھ دنیا کی زندگی میں اور نکلیں ان کی جانیں اس حال میں کہ وہ کفر کرنے والے ہوں
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے منافقین کا رد فرمایا کہ وہ جہاد میں شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے لیے حیلے بہانے بناتے ہیں اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ منافقین جو مال خرچ کرتے ہیں وہ اس لیے قبول نہیں ہوتا کہ ان میں توحید و رسالت کے متعلق کفر پایا جاتا ہے اور وہ نماز بھی صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے۔ نیز یہ کہ ان کی طرف سے خرچ بادل نخواستہ ہوتا ہے اور وہ اس معاملہ میں دل سے راضی نہیں ہوتے۔ بعض منافقین عذرلنگ پیش کرتے تھے اور اس بنا پر جہاد میں شمولیت سے رخصت چاہتے تھے کہ شوریدہ مزاج ہونے کی وجہ سے انہیں فتنے میں پڑجانے کا احتمال تھا البتہ انہوں نے مالی تعاون کی پیش کش کی جسے اللہ نے مسترد کردیا کیونکہ وہ لوگ ایمان سے خالی ہیں اور صحیح عقیدت کے ساتھ خرچ نہیں کرتے۔ مال واولاد معیار نیکی نہیں : اب آج کے درس میں عام ذہنوں میں آنے والی ایک بات کا جواب دیا گیا ہے ۔ بعض اوقات ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کافر او منافق اللہ کے نزدیک واقعی برے ہیں تو انکو اس دنیا میں مال و دولت اور آرام و راحت کیوں میسر آتا ہے۔ مدینے کے منافقوں میں بھی بڑے بڑے دولت مند اور صاحب اولاد لوگ تھے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے مختلف مقامات پر واضح فرمایا ہے کہ کسی انسان کے لیے دنیا میں اچھا ہونے کا یہ معیار ہرگز نہیں کہ اس کے پاس مال و دولت ، جاہ واقتدار ہو یا اولاد ہو بلکہ یہ چیزیں تو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق اچھوں بروں سب کو ملتی ہیں (آیت) ” کلا نمد ھولاء وھولائ “ نافرمانوں ، ناہنجاروں ، باغیوں اور سرکشوں کو بھی اللہ بہت کچھ دیتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں کافروں ، منافقون اور فاسقوں کو بھی ملتا ہے۔ اور بعض اوقات اہل ایمان عسرت میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تو اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک اچھائی کا معیار عیش و عشرت کی فراوانی نہیں بلکہ نیکی کا حقیقی معیار ایمان ، عبادت پاکیزگی ، اخلاق اور اعمال صالحہ ہیں اگرچہ کوئی انسان مالی لحاظ سے کتنا ہی کمزور کیوں نہ واقع ہوا ہو۔ اس لیے فرمایا (آیت) ” فتلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم “ ان کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو یہ چیزیں اتنی کثرت سے دی ہیں۔ ان کو نعمتیں ملنے کی حکمت یہ ہے (آیت) ” انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوٰۃ الدنیا “ بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو سزا دے دنیا کی زندگی میں (آیت) ” وتزھق انفسھم وھم کفرون “ اور ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ اور آگے چل کر بڑی سزا کے مستحق ٹھہریں۔ غرضیکہ حضور ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ان منافقوں کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر ملال نہ کریں بلکہ یہی چیز ان کے لیے دنیا وآخرت میں سز ا کا موجب بننے والی ہے۔ سزا کی مختلف صورتیں : مال واولاد کی وجہ سے سزائوں کے متعلق مفسرین کرام کئی تعبیریں کرتے ہیں۔ خواجہ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ مال میں سے اللہ کی مقرر کردہ زکوٰۃ ادا کرنے سے منافقوں کو بری دلی تکلیف ہوتی اور یہ ان کے لیے ایک قسم کی سزا ہی ہے۔ اسی طرح بعض منافقین کی اولاد ان کی مرضی کے خلاف ایمان لا چکی تھی اور یہ بات ان کے لیے سخت اذیت کا باعث تھی لہٰذا یہ چیز بھی ان کے لیے ذہنہ سزا کا درجہ رکھتی ہے حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو زیادہ مال اس لیے دیتا ہے تا کہ انہیں آخرت میں سزا بھی زیادہ ملے۔ ظاہر ہے کہ کفر وشرک کے ساتھ جس قدر مال میں فروانی ہوگی ، عذاب بھی اسی قدر زیادہ ہوگا۔ لہٰذا مال اور اولاد منافقین کے حق میں بہتر نہیں کیونکہ یہ تو اللہ کی جانب سے انہیں سزا مل رہی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی سزائے موت پانے والے مجرم کو پھانسی کے تختہ پر لٹکانے سے پہلے عمدہ سے عمدہ غذا دی جائے۔ اسی طرح چونکہ یہ لوگ بھی مرنے کے بعد سخت سزا میں مبتلا ہونے والے ہیں اس لیے انہیں دنیا میں اچھی سے اچھی نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اگر کسی بیمار آدمی کو نہایت مفقوی غذا بھی دی جائے تو اسے فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوتا ہے کیونکہ اس میں اخلاط فاسدہ پائے جاتے ہیں ایسے ہی کسی منافق آدمی کے لیے دنیاوی نعمتیں بیماری میں اچھی غذا کے مترادف ہیں۔ اس دنیا کا عیش و عشرت ان کے لیے آخرت میں مزید مصیبتیں لانے کا باعث ہوگا۔ منافقوں کے لیے سزا کی یہ بھی ایک صورت ہے کہ انہیں مال کی محبت تو بہت زیادہ ہوتی ہے مگر اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انہیں ہر وقت فکر لگی رہتی ہے اور یہ اندر ہی اندر کھلتے رہتے ہیں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی شخص جس قدر زیادہ دولت مند ہو وہ اسی قدر زیادہ متفکر ہوتا ہے۔ سرمایہ دار پاکستانی ہو یا امریکی یا یورپی فکر مندی سب کی مشترک سز ا ہے ، مال و دولت کے ضیاع یا جاہ واقتدار سے محرومی ان کے لیے ہمیشہ سوہان روح بنی رہتی ہے۔ مومن اور کفار میں فرق : مالدار مومن اور مالدار کافر میں بنیادی فرق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو مال و دولت سے نوازے گا تو وہ اسے ایسی جگہ خرچ کرے گا جو اس کے دین کی تقویت کا باعث بنے اور اس سے اسے روحانی خوشی حاصل ہوگی۔ اسی طرح اگر اللہ نے اولاد دی ہے تو مومن آدمی اس کی بہتر تربیت کر کے اسے دین کا معاون بنائے گا اور اس طرح نہ صرف اس دنیا میں آرام و سکون کی زندگی بسر کرے گا بلکہ یہ مال والاد اس کے لیے آخرت کا ذخیرہ بھی بن جائیں گے۔ اس کے برخلاف اگر مشرک ، کافر یا منافق کے پاس مال ہے تو اسے مرتے دم تک اس کی حفاظت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اور اسے توبہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ زندگی بھر انسان ” مالی مالی “ (میرا مال میرا مال) کہتا رہتا ہے مگر اسے کچھ نفع نہیں پہنچتا اور وہ مال کی فکر میں ہی دنیا سے چلا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ کسی نافرمان آدمی کی دنیاوی نعمت کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھانا کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج ہے ، اس کی دی ہوئی مہلت ہے ، ایسا شخص عنقریب اللہ کی گرفت میں آجائے گا۔ شاہ عبدالقادر بھی فرماتے ہیں کہ اس بات پر تعجب نہ کر کہ اللہ نے بےدین آدمی کو نعمت کیوں دی ہے یہ تو اس کے حق میں وبال ہے۔ ایسا شخص مرتے دم تک اپنے مال واولاد کی فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ دعویٰ ایمان : فرمایا (آیت) ” ویحلفون باللہ انھم لمنکم “ یہ منافقین اللہ کی قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں یعنی ایماندار ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے (آیت) ” وما ھم منکم “ کہ یہ لوگ تم میں سے نہیں ہیں ان کا دعویٰ جھوٹا ہے (آیت) ” ولٰکنھم قوم یفرقون “ بلکہ یہ تو ڈرنے فوالے لوگ ہیں۔ جہاد کا نام سن کر ڈر جاتے ہیں ، ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے مگر ایماندار ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ چھوٹے ہیں اور اتنے خوفزدہ ہیں کہ (آیت) ” لو یجدون ملجا “ اگر یہ کوئی پناہ گاہ پاتے (آیت) ” او مغرت “ یا کوئی غار پاتے (آیت) ” اومدخلا “ یا انہی سر چھپانے کی کوئی جگہ مل جاتی (آیت) ” لو لوا الیہ “ تو ضرور اس طرف چلے جاتے ۔ اور اتنی تیزی سے جاتے (آیت) ” وھم یجمحون “ جیسے کوئی جانوررسیاں تڑا کر بھاگتے ہیں۔ مطلب یہ کہ منافق لوگ دعویٰ ایمان میں جھوٹے ہیں ، لہٰذا اگر انہیں کہیں ذرا بھی پناہ مل جائے تو یہ لوگ فورا اسلام کے دائرہ سے بھاگ کھڑے ہوں۔ یہ ڈرنے والے لوگ ہیں ، نہ یہ تم میں سے ہیں اور نہ یہ جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو منافقین کے حال سے مطلع فرما دیا۔ خوشی اور نا خوشی کا معیار : اللہ نے منافقوں کی یہ خصلت بھی بیان فرمائی ہے (آیت) ” ومنھم من یلمزک فی الصدقت “ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو صدقات کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں۔ (آیت) ” فان اعطوامنھا رضوا “ اگر آپ انہیں اس میں سے کچھ دے دیں تو خوش ہوجاتے ہیں (آیت) ” وان لم یعطوا منھا “ اور اگر آپ اس میں سے کچھ نہ دیں (آیت) ” اذا ھم یسخطون “ تو یہ لوگ ناراض ہوجاتے ہیں معلوم ہوا کہ ان کے دین کا مدار مفاد پرستی پر ہے۔ ایسے لوگ محض مفاد کی خاطر دین قبول کرتے ہیں۔ اصل ایمان تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی فلاح کے لیے اختیار کیا جاتا ہے ، اس میں ذاتی مفاد کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اجتماعی مفاد کو اولیت دی جاتی ہے مگر منافقین ذاتی اغراض کو پیش نظر رکھتے ہیں اور یہی ان کا اول وآخر ہوتا ہے لہٰذا یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتے فرمایا ان لوگوں کی حالت یہ ہے (آیت) ” ولوانھم رضوا ما اتھم اللہ ورسولہ “ اگر یہ اس چیز پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں مال غنیمت یا صدقات میں سے دیا ہے ، تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوتی۔ مال غنیمت کی تقسیم کا اصول سورة انفال میں بیان ہوچکا ہے۔ اسی طرح صدقات کی تقسیم کا قانون بھی اگلی آیت میں آرہا ہے ۔ تو فرمایا کہ ان قوانین کے مطابق اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم پر خوش ہوجاتے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر نہ رکھتے تو یہ چیز ان کے لیے دنیا وآخرت میں بہتر ثابت ہوتی مگر انہوں نے ناجائز مطالبات کر کے اپنے دونوں مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ (آیت) ” وقالو ا “ اور کہتے (آیت) ” حسبنا اللہ “ ہمارے لیے اللہ کافی ہے ، اس کی ذات اور اس کی کفالت ووکالت پر بھروسہ رکھتے اور اس کی تقسیم کو بسر وچشم تسلیم کرتے۔ اگر انہیں وقتی طور پر کچھ کم حصہ ملا ہے تو یوں کہتے (آیت) ” سیئوتنا اللہ من فضلہ “ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے ضرور دیگا۔ (آیت) ” ورسولہ “ اور وہ اپنے رسول کے ہاتھ سے ہمیں دلائے گا۔ اب نہیں ملا تو کوئی بات نہیں ، آئندہ مل جائے گا ، آگے بھی کئی مواقع آنے والے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے صبر کا دامن چھوڑ دیا اور ذاتی مفاد کی خاطر اللہ اور اس کے رسول سے ناراض ہو کر بیٹھ گئے کہ ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے یا یہ کہ تقسیم درست نہیں ہوئی ، وغیرہ وغیرہ ، ایک شخص نے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں یہ جملہ بھی کہ دیا کہ یہ تو ایسی تقسیم ہے جس کے ساتھ اللہ کے رسول نے انصاف کا ارادہ نہیں کیا۔ اس پر حضور ﷺ کو بڑی کوفت ہوئی اور فرمایا ، اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو دنیا میں اور کون انصاف کرئے گا ، اللہ تعالیٰ اور آسمانوں کے فرشتے تو مجھے امین جانتے ہیں اور تم مجھے خائن سمجھ رہے ہو۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے کہ ان کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی مگر انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ لہٰذا میں بھی اس بات پر صبر کروں گا اور انتقام نہیں لوں گا۔ بہرحال فرمایا کہ اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عطا کردہ پر راضی ہوتے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید عطا کرتا۔ اور یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اگر یہ یوں بھی کہتے (آیت) ” انا الی اللہ راغمون “ بیشک ہم اللہ کی طرف رغبت والے ہیں یعنی ہمارا رجحان ، تو جہ اور اعتماد صرف اللہ کی ذات پر ہے۔ وہ جس طرح چاہے گا اپنی مشیت کے مطابق دے گا اور دلائے گا۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ اللہ کے نبی پر طعن کیا اور اس طرح ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ تو فرمایا کہ ان کا مال و دولت آپ کو تعجب میں نہ ڈالے۔ یہ چیزیں ان کے حق میں اچھی نہیں ہیں۔ ان کی پوزیشن بہت گندی ہے اور یہ تمہاری جماعت کے آدمی نہیں ہیں یہ ہزار قسمیں کھائیں کہ وہ ایمان لا چکے ہیں مگر یہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔
Top