Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 55
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
فَلَا تُعْجِبْكَ : سو تمہیں تعجب نہ ہو اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُهُمْ : ان کی اولاد اِنَّمَا : یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ عذاب دے انہیں بِهَا : اس سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : اور وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
پس نہ تعجب میں ڈالیں آپ کو ان ( منافقین) کے مال اور ان کی اولادیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو سزا دے ان ( مالوں اور اولادوں) کے ساتھ دنیا کی زندگی میں اور نکلیں ان کی جانیں اس حال میں کہ وہ کفر کرنے والے ہوں
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے منافقین کا رد فرمایا کہ وہ جہاد میں شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے لیے حیلے بہانے بناتے ہیں اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ منافقین جو مال خرچ کرتے ہیں وہ اس لیے قبول نہیں ہوتا کہ ان میں توحید و رسالت کے متعلق کفر پایا جاتا ہے اور وہ نماز بھی صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے۔ نیز یہ کہ ان کی طرف سے خرچ بادل نخواستہ ہوتا ہے اور وہ اس معاملہ میں دل سے راضی نہیں ہوتے۔ بعض منافقین عذرلنگ پیش کرتے تھے اور اس بنا پر جہاد میں شمولیت سے رخصت چاہتے تھے کہ شوریدہ مزاج ہونے کی وجہ سے انہیں فتنے میں پڑجانے کا احتمال تھا البتہ انہوں نے مالی تعاون کی پیش کش کی جسے اللہ نے مسترد کردیا کیونکہ وہ لوگ ایمان سے خالی ہیں اور صحیح عقیدت کے ساتھ خرچ نہیں کرتے۔ مال واولاد معیار نیکی نہیں : اب آج کے درس میں عام ذہنوں میں آنے والی ایک بات کا جواب دیا گیا ہے ۔ بعض اوقات ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کافر او منافق اللہ کے نزدیک واقعی برے ہیں تو انکو اس دنیا میں مال و دولت اور آرام و راحت کیوں میسر آتا ہے۔ مدینے کے منافقوں میں بھی بڑے بڑے دولت مند اور صاحب اولاد لوگ تھے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے مختلف مقامات پر واضح فرمایا ہے کہ کسی انسان کے لیے دنیا میں اچھا ہونے کا یہ معیار ہرگز نہیں کہ اس کے پاس مال و دولت ، جاہ واقتدار ہو یا اولاد ہو بلکہ یہ چیزیں تو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق اچھوں بروں سب کو ملتی ہیں (آیت) ” کلا نمد ھولاء وھولائ “ نافرمانوں ، ناہنجاروں ، باغیوں اور سرکشوں کو بھی اللہ بہت کچھ دیتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں کافروں ، منافقون اور فاسقوں کو بھی ملتا ہے۔ اور بعض اوقات اہل ایمان عسرت میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تو اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک اچھائی کا معیار عیش و عشرت کی فراوانی نہیں بلکہ نیکی کا حقیقی معیار ایمان ، عبادت پاکیزگی ، اخلاق اور اعمال صالحہ ہیں اگرچہ کوئی انسان مالی لحاظ سے کتنا ہی کمزور کیوں نہ واقع ہوا ہو۔ اس لیے فرمایا (آیت) ” فتلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم “ ان کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو یہ چیزیں اتنی کثرت سے دی ہیں۔ ان کو نعمتیں ملنے کی حکمت یہ ہے (آیت) ” انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوٰۃ الدنیا “ بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو سزا دے دنیا کی زندگی میں (آیت) ” وتزھق انفسھم وھم کفرون “ اور ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ اور آگے چل کر بڑی سزا کے مستحق ٹھہریں۔ غرضیکہ حضور ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ان منافقوں کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر ملال نہ کریں بلکہ یہی چیز ان کے لیے دنیا وآخرت میں سز ا کا موجب بننے والی ہے۔ سزا کی مختلف صورتیں : مال واولاد کی وجہ سے سزائوں کے متعلق مفسرین کرام کئی تعبیریں کرتے ہیں۔ خواجہ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ مال میں سے اللہ کی مقرر کردہ زکوٰۃ ادا کرنے سے منافقوں کو بری دلی تکلیف ہوتی اور یہ ان کے لیے ایک قسم کی سزا ہی ہے۔ اسی طرح بعض منافقین کی اولاد ان کی مرضی کے خلاف ایمان لا چکی تھی اور یہ بات ان کے لیے سخت اذیت کا باعث تھی لہٰذا یہ چیز بھی ان کے لیے ذہنہ سزا کا درجہ رکھتی ہے حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو زیادہ مال اس لیے دیتا ہے تا کہ انہیں آخرت میں سزا بھی زیادہ ملے۔ ظاہر ہے کہ کفر وشرک کے ساتھ جس قدر مال میں فروانی ہوگی ، عذاب بھی اسی قدر زیادہ ہوگا۔ لہٰذا مال اور اولاد منافقین کے حق میں بہتر نہیں کیونکہ یہ تو اللہ کی جانب سے انہیں سزا مل رہی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی سزائے موت پانے والے مجرم کو پھانسی کے تختہ پر لٹکانے سے پہلے عمدہ سے عمدہ غذا دی جائے۔ اسی طرح چونکہ یہ لوگ بھی مرنے کے بعد سخت سزا میں مبتلا ہونے والے ہیں اس لیے انہیں دنیا میں اچھی سے اچھی نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اگر کسی بیمار آدمی کو نہایت مفقوی غذا بھی دی جائے تو اسے فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوتا ہے کیونکہ اس میں اخلاط فاسدہ پائے جاتے ہیں ایسے ہی کسی منافق آدمی کے لیے دنیاوی نعمتیں بیماری میں اچھی غذا کے مترادف ہیں۔ اس دنیا کا عیش و عشرت ان کے لیے آخرت میں مزید مصیبتیں لانے کا باعث ہوگا۔ منافقوں کے لیے سزا کی یہ بھی ایک صورت ہے کہ انہیں مال کی محبت تو بہت زیادہ ہوتی ہے مگر اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انہیں ہر وقت فکر لگی رہتی ہے اور یہ اندر ہی اندر کھلتے رہتے ہیں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی شخص جس قدر زیادہ دولت مند ہو وہ اسی قدر زیادہ متفکر ہوتا ہے۔ سرمایہ دار پاکستانی ہو یا امریکی یا یورپی فکر مندی سب کی مشترک سز ا ہے ، مال و دولت کے ضیاع یا جاہ واقتدار سے محرومی ان کے لیے ہمیشہ سوہان روح بنی رہتی ہے۔ مومن اور کفار میں فرق : مالدار مومن اور مالدار کافر میں بنیادی فرق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو مال و دولت سے نوازے گا تو وہ اسے ایسی جگہ خرچ کرے گا جو اس کے دین کی تقویت کا باعث بنے اور اس سے اسے روحانی خوشی حاصل ہوگی۔ اسی طرح اگر اللہ نے اولاد دی ہے تو مومن آدمی اس کی بہتر تربیت کر کے اسے دین کا معاون بنائے گا اور اس طرح نہ صرف اس دنیا میں آرام و سکون کی زندگی بسر کرے گا بلکہ یہ مال والاد اس کے لیے آخرت کا ذخیرہ بھی بن جائیں گے۔ اس کے برخلاف اگر مشرک ، کافر یا منافق کے پاس مال ہے تو اسے مرتے دم تک اس کی حفاظت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اور اسے توبہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ زندگی بھر انسان ” مالی مالی “ (میرا مال میرا مال) کہتا رہتا ہے مگر اسے کچھ نفع نہیں پہنچتا اور وہ مال کی فکر میں ہی دنیا سے چلا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ کسی نافرمان آدمی کی دنیاوی نعمت کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھانا کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج ہے ، اس کی دی ہوئی مہلت ہے ، ایسا شخص عنقریب اللہ کی گرفت میں آجائے گا۔ شاہ عبدالقادر بھی فرماتے ہیں کہ اس بات پر تعجب نہ کر کہ اللہ نے بےدین آدمی کو نعمت کیوں دی ہے یہ تو اس کے حق میں وبال ہے۔ ایسا شخص مرتے دم تک اپنے مال واولاد کی فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ دعویٰ ایمان : فرمایا (آیت) ” ویحلفون باللہ انھم لمنکم “ یہ منافقین اللہ کی قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں یعنی ایماندار ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے (آیت) ” وما ھم منکم “ کہ یہ لوگ تم میں سے نہیں ہیں ان کا دعویٰ جھوٹا ہے (آیت) ” ولٰکنھم قوم یفرقون “ بلکہ یہ تو ڈرنے فوالے لوگ ہیں۔ جہاد کا نام سن کر ڈر جاتے ہیں ، ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے مگر ایماندار ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ چھوٹے ہیں اور اتنے خوفزدہ ہیں کہ (آیت) ” لو یجدون ملجا “ اگر یہ کوئی پناہ گاہ پاتے (آیت) ” او مغرت “ یا کوئی غار پاتے (آیت) ” اومدخلا “ یا انہی سر چھپانے کی کوئی جگہ مل جاتی (آیت) ” لو لوا الیہ “ تو ضرور اس طرف چلے جاتے ۔ اور اتنی تیزی سے جاتے (آیت) ” وھم یجمحون “ جیسے کوئی جانوررسیاں تڑا کر بھاگتے ہیں۔ مطلب یہ کہ منافق لوگ دعویٰ ایمان میں جھوٹے ہیں ، لہٰذا اگر انہیں کہیں ذرا بھی پناہ مل جائے تو یہ لوگ فورا اسلام کے دائرہ سے بھاگ کھڑے ہوں۔ یہ ڈرنے والے لوگ ہیں ، نہ یہ تم میں سے ہیں اور نہ یہ جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو منافقین کے حال سے مطلع فرما دیا۔ خوشی اور نا خوشی کا معیار : اللہ نے منافقوں کی یہ خصلت بھی بیان فرمائی ہے (آیت) ” ومنھم من یلمزک فی الصدقت “ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو صدقات کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں۔ (آیت) ” فان اعطوامنھا رضوا “ اگر آپ انہیں اس میں سے کچھ دے دیں تو خوش ہوجاتے ہیں (آیت) ” وان لم یعطوا منھا “ اور اگر آپ اس میں سے کچھ نہ دیں (آیت) ” اذا ھم یسخطون “ تو یہ لوگ ناراض ہوجاتے ہیں معلوم ہوا کہ ان کے دین کا مدار مفاد پرستی پر ہے۔ ایسے لوگ محض مفاد کی خاطر دین قبول کرتے ہیں۔ اصل ایمان تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی فلاح کے لیے اختیار کیا جاتا ہے ، اس میں ذاتی مفاد کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اجتماعی مفاد کو اولیت دی جاتی ہے مگر منافقین ذاتی اغراض کو پیش نظر رکھتے ہیں اور یہی ان کا اول وآخر ہوتا ہے لہٰذا یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتے فرمایا ان لوگوں کی حالت یہ ہے (آیت) ” ولوانھم رضوا ما اتھم اللہ ورسولہ “ اگر یہ اس چیز پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں مال غنیمت یا صدقات میں سے دیا ہے ، تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوتی۔ مال غنیمت کی تقسیم کا اصول سورة انفال میں بیان ہوچکا ہے۔ اسی طرح صدقات کی تقسیم کا قانون بھی اگلی آیت میں آرہا ہے ۔ تو فرمایا کہ ان قوانین کے مطابق اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم پر خوش ہوجاتے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر نہ رکھتے تو یہ چیز ان کے لیے دنیا وآخرت میں بہتر ثابت ہوتی مگر انہوں نے ناجائز مطالبات کر کے اپنے دونوں مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ (آیت) ” وقالو ا “ اور کہتے (آیت) ” حسبنا اللہ “ ہمارے لیے اللہ کافی ہے ، اس کی ذات اور اس کی کفالت ووکالت پر بھروسہ رکھتے اور اس کی تقسیم کو بسر وچشم تسلیم کرتے۔ اگر انہیں وقتی طور پر کچھ کم حصہ ملا ہے تو یوں کہتے (آیت) ” سیئوتنا اللہ من فضلہ “ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے ضرور دیگا۔ (آیت) ” ورسولہ “ اور وہ اپنے رسول کے ہاتھ سے ہمیں دلائے گا۔ اب نہیں ملا تو کوئی بات نہیں ، آئندہ مل جائے گا ، آگے بھی کئی مواقع آنے والے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے صبر کا دامن چھوڑ دیا اور ذاتی مفاد کی خاطر اللہ اور اس کے رسول سے ناراض ہو کر بیٹھ گئے کہ ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے یا یہ کہ تقسیم درست نہیں ہوئی ، وغیرہ وغیرہ ، ایک شخص نے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں یہ جملہ بھی کہ دیا کہ یہ تو ایسی تقسیم ہے جس کے ساتھ اللہ کے رسول نے انصاف کا ارادہ نہیں کیا۔ اس پر حضور ﷺ کو بڑی کوفت ہوئی اور فرمایا ، اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو دنیا میں اور کون انصاف کرئے گا ، اللہ تعالیٰ اور آسمانوں کے فرشتے تو مجھے امین جانتے ہیں اور تم مجھے خائن سمجھ رہے ہو۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے کہ ان کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی مگر انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ لہٰذا میں بھی اس بات پر صبر کروں گا اور انتقام نہیں لوں گا۔ بہرحال فرمایا کہ اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عطا کردہ پر راضی ہوتے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید عطا کرتا۔ اور یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اگر یہ یوں بھی کہتے (آیت) ” انا الی اللہ راغمون “ بیشک ہم اللہ کی طرف رغبت والے ہیں یعنی ہمارا رجحان ، تو جہ اور اعتماد صرف اللہ کی ذات پر ہے۔ وہ جس طرح چاہے گا اپنی مشیت کے مطابق دے گا اور دلائے گا۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ اللہ کے نبی پر طعن کیا اور اس طرح ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ تو فرمایا کہ ان کا مال و دولت آپ کو تعجب میں نہ ڈالے۔ یہ چیزیں ان کے حق میں اچھی نہیں ہیں۔ ان کی پوزیشن بہت گندی ہے اور یہ تمہاری جماعت کے آدمی نہیں ہیں یہ ہزار قسمیں کھائیں کہ وہ ایمان لا چکے ہیں مگر یہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔
Top